اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے،انسانی زندگی کا کوئی گوشہ اس کی رہنمائی سے خالی نہیں ہے،اسی لیے وہ دنیا کے تمام مذاہب اور جدید افکار ونظریات کے سلسلے میں یہ واضح نقطۂ نظر رکھتا ہے کہ وہ انسان کی اس اعتدال وتوازن کے ساتھ رہنمائی نہیں کرسکتے، جو وہ کرسکتا ہے،اس کی نظر میں اسلام کے علاوہ جتنے مذاہب ونظریات پائے جاتے ہیں، وہ ناقص ہیں،ان کے ذریعے نہ سماج کو سدھارا جاسکتا ہے اور نہ دنیا میں ہر انسان کے ساتھ انصاف کیا جاسکتا ہے۔
اسلام کے اس دعوی کو زمین پر اتار کردکھایا جاچکا ہے اور دنیا نے اس کو آزمایا بھی ہے اور اس کے سایۂ عاطفت میں زندگی گزار کر بتایا بھی ہے کہ اگر امن وسلامتی درکار ہے تو آج بھی اسلام تمھارے لیے سکون وراحت کا گہوارہ ہے۔عصر حاضر میں اسلام اور مسلمان کے خلاف جو پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے،وہ نتیجہ ہے اس خوف کا جو دنیا کی رہنمائی کا دم بھرنے والے جدید افکار ونظریات کو لاحق ہے۔ابلیس اور اس کے چیلوں کو ہمیشہ یہ خطرہ لگا رہتا ہے کہ وہ امت جو حامل قرآن ہے،کہیں خواب غفلت سے بیدار نہ ہوجائے یا دنیا کہیں تھک ہار کر اسلام کی طرف پیش قدمی نہ کربیٹھے۔اسی لیے وہ اسلام اور اہل اسلام کی بری اور بدترین تصویر پیش کرنے میں شب وروز مصروف ہیں۔
انسان کی عائلی زندگی جو اس کی زندگی کا سب سے اہم اور حساس پہلو ہے،جس میں ازدواجی زندگی کی راحتیں ہیں،جس میں زوجین ایک ساتھ مل کر اپنی نسلوں کی پرورش اور تربیت کرتے ہیں،یہ عائلی زندگی نظام عالم کو زندہ اور متحرک رکھنے کی بنیاد فراہم کرتی ہے اور دنیا میں نسل انسانی فطری رفتار سے آگے بڑھتی اور وسعت اختیار کررہی ہے۔
انسان کی عائلی زندگی کے سلسلے میں قرآن وحدیث میں جو کچھ کہا گیا ہےاور اس زندگی کو جس قدر حکمت اور باریکی سے دیکھا گیا ہے،ان کی تفصیل جان لینے کے بعد اس حقیقت کا انکار مشکل ہوجائے گا کہ اسلام ہی دنیا کا واحد اور سچا دین ہے۔ اسلام نے عائلی زندگی کی تشکیل جس انداز میں کی ہے اور اس کے لیے جو رہنما اصول بتائے ہیں،ان کی تفصیل میں جانے سے پہلے یہ اہم حقیقت سامنے لانا ضروری ہے جو قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیت سے سامنے آتی ہے:
وَکَذَٰلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّۃً وَسَطًا لِّتَکُونُوا شُہَدَائََ عَلَی النَّاسِ وَیَکُونَ الرَّسُولُ عَلَیْکُمْ شَہِیدًا[البقرۃ:۱۴۳[
’’ہم نے اسی طرح تمھیں ایک معتدل امت بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہوجاؤ اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم)تم پر گواہ ہوجائیں۔‘‘
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ امت کی ذمہ داری صرف یہی نہیں ہے کہ وہ اپنی ذاتی زندگی میں شریعت مطہرہ پر عمل کرے بلکہ اس سے آگے اس کی ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ اپنے کردار وعمل سے اس شریعت مطہرہ کی گواہ بن کر کھڑی رہے تاکہ دوسرے بندگان خدا اس کی طرف کھنچے ہوئے چلے آئیں۔ ہماری زندگی کے تمام شعبے نور اسلام کی کرنوں سے ہر وقت اور ہر جگہ جگمگاتے رہیں۔
اس آیت کی روشنی میں آج جب ہم اپنے مسلم معاشرے کی عائلی زندگی کا جائزہ لیتے ہیں تو حددرجہ مایوسی ہوتی ہے۔ایسا نہیں ہے کہ دوسرے مذاہب کی عائلی زندگی ہم سے کہیں بہتر ہے لیکن اسلام اور اہل اسلام کے سلسلے میں اس وقت جو پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے،اس میں بہت کچھ دخل ہماری اپنے بے عملی، بدعملی اور کئی قسم کی کمزوریوں کا بھی ہے۔ فرقوں اور مسلکوں، مختلف جماعتوں اور تنظیموں میں بٹی ہوئی ملت اپنی اپنی ترجیحات کو مکمل اسلام سمجھے ہوئے ہے اور کسی کی نظر ان متفق علیہ مسائل پر نہیں جاتی جو ہمارے یہاں بے اعتدالی کا شکار ہوچکے ہیں یا روزبروز خراب ہوتے جارہے ہیں۔میں علمائے کرام کی خدمت میں پوری ذمہ داری سے یہ بات عرض کروں گا کہ ہم ملت کی ان تمام داخلی کمزوریوں اور کمیوں پر توجہ دیں جو اگرچہ ہماری مسلکی ترجیحات میں کسی وجہ سے شامل نہیں ہیں لیکن وہ اسلامی تعلیمات کا نہایت اہم اور ضروری حصہ ہیں جن کو کسی بھی حال میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔اس زمین پر ہمارا وجود اسلام کی نیک نامی کا باعث بنے، اگر ہمارے کسی کردار وعمل سے اسلام کی تصویر خراب ہوتی ہے یا دشمنان اسلام کو انگشت نمائی کا موقع ملتا ہے تو یہ ہمارے لیے حدرجہ شرم کی بات ہوگی اور روئے زمین پر اسلام کے ترجمان کی حیثیت سے ہم اپنی اس کوتاہی پر آخرت کی جواب دہی سے نہیں بچ پائیں گے۔اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی کمزوریوں کو دور کرنے اور اپنے کردار وعمل کو درست کرنے کی توفیق ارزانی فرمائے۔
اسلام کا عائلی نظام دنیاکاوہ واحد نظام ہے جس میں مردوں اور عورتوں کے ساتھ پورا پورا انصاف کیا گیا ہے،میاں بیوی کے حقوق وفرائض کی شاندار تفہیم کرائی گئی ہے۔کتاب وسنت میں عائلی زندگی کی تشکیل کے جو رہنما اصول ہمیں ملتے ہیں، ان کو مندرجہ ذیل نکات کی صورت میں سمجھا جاسکتا ہے:
(۱)عورت اپنا مستقل وجود رکھتی ہے
مردوں کی طرح عورتیں بھی اپنا مستقل وجود رکھتی ہیں، ان کے اپنے احساسات اور جذبات ہیں۔ خاندان کی تعمیر وتشکیل میں ان کی برابر کی حصہ داری ہے۔ پاکیزگی اور طہارت میں وہ مردوں سے کم نہیں ہیں۔ عبادت وریاضت کے ذریعے اللہ کی بندگی کا وہ بھی اعلی مقام حاصل کرسکتی ہیں۔ قصہ آدم وابلیس کے بیان میں محرف بائبل کی یہ بات جو ہماری بعض کتب تفاسیر میں بھی در آئی ہے کہ جنت میں شجر ممنوعہ کے قریب جانے اور اس سے کھانے کے لیے آدم علیہ السلام کو حوا علیہا السلام نے بہکایا تھا اور وہ بھی شیطان کی ایماء سے، نہ صرف غلط ہے بلکہ عورت ذات کی سخت توہین ہے۔ بائبل کی اسی تفسیر کی وجہ سے صدیوں تک عورت کو سراپا گناہ سمجھا جاتا رہا اور اس کا وجود معاشرے کے لیے باعث ننگ بنا رہا۔ قرآن مجید نے صدیوں کی اس جاہلیت کو دور کیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو اس کا صحیح مقام عطا فرمایا۔ قرآن مجید میں سیدہ مریم، سیدہ آسیہ، ازواج مطہرات اور دوسری مومنہ خواتین کا جس انداز میں تذکرہ کیا گیا ہے، وہ عورت کے بلند مقام اور اس کی عظمت کو بتانے کے لیے کافی ہے۔
ایک مسلمان شوہر عائلی زندگی گزارتے ہوئے اگر اپنی بیوی کو کتاب وسنت میں بیان کردہ مساوی درجہ دیتا ہے، اسے وہی احترام دیتا ہے جس کی وہ مستحق ہے، اسے حقیر اور کم تر نہیں سمجھتا اور اپنی قوامیت کے زعم میں اسے خادمہ اور کنیز نہیں شمار کرتا تب تو وہ اسلام کے اس اصول کی پاسداری کرتا ہے، ورنہ یہی کہا جائے گا کہ وہ گردوپیش کے حالات سے متاثر ہوکر وہی کچھ کرتا ہے جس سے اسلام نے منع کیا ہے۔
(۲)شرعی نکاح سماج میں عزت کا سبب ہے
اسلام نے جس عائلی زندگی کی تشکیل کی ہے، نکاح اس کی اولین بنیاد ہے۔ وہ نکاح جو شرعی لحاظ سے درست ہو اور جسے چوری چھپے نہ انجام دیا گیا ہو۔ حدیث میں نکاح کا اعلان کرنے کا جو حکم دیا گیا ہے، اس کی حکمت،مصلحت اور معنویت یہی ہے۔ ولی کی رضامندی،گواہوں کی موجودگی، مہر کی تعیین وغیرہ جتنے بنیادی ارکان نکاح ہیں، ان کی استواری سے ایک جوڑے کو سماج میں عزت واحترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ نکاح ایک سنجیدہ عمل ہے، یہ کوئی کھیل تماشا نہیں ہے۔ ولی کی شرط اور عدم شرط کا جو مسئلہ ہماری کتب فقہ میں زیر بحث آیا ہے، اس کی تصویر کو حدیث نبوی ’’لا نکاح الا بولی‘‘ اور’’ایما امرأۃ نکحت بغیر اذن ولیھا فنکاحھا باطل‘‘ کی روشنی میں درست کرنے کی ضرورت ہے۔ کورٹ میرج وغیرہ کے جو معاملات سامنے آتے ہیں، وہ ایک جوڑے کو سماج میں وہ احترام نہیں دیتے جس کے وہ مستحق ہیں۔
(۳)مودت ورحمت
میاں بیوی کے تعلقات کی بنیاد مودت ورحمت پر رکھی گئی ہے۔ نیت کی درستگی اور پاکیزگی کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے لیے لباس بنے رہیں۔ قرآن مجید نے ’’جعل بینکم مؤدۃ ورحمۃ‘‘ اور ’’ھن لباس لکم وأنتم لباس لھن‘‘ کی جو خوبصورت تعبیر پیش کی ہے، اس کو گہرائی میں جاکر سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت ہے۔ حدیث شریف میں ہمارے نبی ﷺ نے فرمایا ہے کہ دو جنسوں میں نکاح کے ذریعے جو محبت پیدا ہوتی ہے، ویسی محبت کسی اور ذریعے سے پیدا نہیں کی جاسکتی۔میاں بیوی ایک دوسرے کے لیے لباس ہیں یعنی جس طرح لباس ایک انسان کے لیے زینت ہے، اسے موسمی اثرات سے محفوظ رکھتا ہے اور اس کی سترپوشی کے کام آتا ہے، اسی طرح زوجین ایک دوسرے کے لیے زینت ہیں، زندگی کے سرد وگرم حالات میں دونوں ایک دوسرے کو تحفظ فراہم کرتے ہیں اور دونوں ایک دوسرے کی کمزوریوں کو سمجھتے ہیں اور ان کو نظر انداز کرکے ازدواجی زندگی کو خوش گوار بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔
جو نکاح ان حکمتوں کی رعایت نہ کرے اور جس سے ازدواجی زندگی میں یہ خوش گوار تبدیلیاں رونما نہ ہوں، وہ شریعت کی نگاہ میں نکاح نہیں ہے اور نہ اسے وہ احترام وتقدس حاصل ہے جو اسلام اس رشتے کو دینا چاہتا ہے۔ مجھے سخت حیرت ہے کہ سازش کے ذریعے ترتیب دیے گئے حلالہ کو کیسے جائز قرار دے لیا گیا ہے، جسے حدیث نبوی نے ایک ملعون فعل قرار دیا ہے اور جس پر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ ایسا سازشی حلالہ اگر میرے علم میں کہیں آیا تو میں اس فعل کے مرتکب کو رجم کرادوں گا۔ آئے دن ملک کے ٹی وی چیلنوں پر حلالہ کو جس انداز میں موضوع بحث بنایا جاتا ہے اور اس سے اسلام کی جو تصویر پیش کی جاتی ہے، وہ ہمارے لیے باعث شرم ہے۔ کتب فقہ میں اس مسئلے سے متعلق جو جزئیات زیر بحث آئی ہیں، وہ نظر ثانی کی محتاج ہیں، اس سے اسلام کی پاکیزہ عائلی زندگی داغ دار ہوتی ہے، ہمیں اس سلسلے میں واضح اور دو ٹوک موقف اپنانے کی ضرورت ہے۔
(۴)زوجین کے حقوق وفرائض
اسلام نے عائلی زندگی کو پائیدار اور مستحکم رکھنے کے لیے میاں بیوی کے حقوق بھی بیان کیے ہیں اور ان کے فرائض کی تفصیلات بھی پیش کی ہیں۔ دونوں میں کسی کے لیے ہرگز جائز نہیں ہے کہ وہ صرف اپنے حقوق کا مطالبہ دوسرے سے کرتا رہے اور اپنے فرائض سے غافل رہے یا ان کے سلسلے میں اپنی کوئی ذمہ داری نہ سمجھے۔ نسل کی حفاظت اور شوہر کے تئیں وفاداری، اس کے مال کی حفاظت اور اس کے آرام وآسائش کا خیال ایک وفاشعار بیوی کی اولین ذمہ داری ہے۔ اسی طرح بیوی کی تمام ضروریات کی تکمیل ایک شوہر کا اولین فریضہ ہے۔ اس پہلو سے جب دونوں میں سے کسی کی جانب سے کمزوریاں سامنے آتی ہے تو ازدواجی رشتے میں کڑواہٹ پیدا ہوتی ہے اور میاں بیوی ایک دوسرے کے ساتھ مل کر اپنی وہ ذمہ داریاں نہیں ادا کرپاتے جو ان کا بنیادی فریضہ ہے۔
(۵)عائلی زندگی کی بعض پیچیدگیوں کا حل
کتاب وسنت میں عائلی زندگی کو بہتر اور خوبصورت بنائے رکھنے کی تعلیم دی گئی ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کبھی میاں بیوی کے درمیان ذہنی ہم آہنگی پیدا نہیں ہوپاتی، دونوں ایک دوسرے کا اعتماد کھودیتے ہیں اور ان کی ازدواجی زندگی بہت سی مشکلات کا شکار ہوجاتی ہے۔ میاں بیوی کے اختلافات کو دور کرنے کے لیے قرآن وحدیث میں جو طریقے بتائے گئے ہیں، ان میں طلاق اور خلع کو اہمیت حاصل ہے۔ اسلام نے یہ دروازہ کھلا رکھا ہے اور اس میں دونوں کے لیے بڑی حکمتیں ہیں۔ جس سماج اور جس نظام نے یہ دروازہ بند کررکھا ہے اور اس کے نتیجے میں جو اباحیت جنم لیتی ہے، اسلام اس کو ایک لمحے کے لیے بھی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ازدواجی رشتے کو بچائے رکھنے کے لیے آخری حد تک جو کوششیں میاں بیوی اور ان کے گھر والوں کو کرنی ہیں، وہ کوششیں بہت کم نظر آتی ہے۔ قرآن کی ہدایات اس سلسلے میں بالکل واضح اور صاف ہیں۔
قرآن میں تاکید کی گئی ہے کہ اگر کسی بیوی سے سرکشی سامنے آئے یا وہ شوہر کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کی مرتکب ہو تو پہلے اسے ہمدردانہ اور مخلصانہ نصیحت کی جائے، اس کے لیے قرآن وعظ کا لفظ استعمال کرتا ہے۔ وعظ میں ڈانٹ پھٹکار اور طعن وتشنیع نہیں کی جاتی بلکہ ہمدردی اور اپنائیت کا اظہار کیا جاتا ہے۔ اس سے بھی بات نہ بنے تو بستر الگ کردینے کی بات کہی گئی ہے۔ یہ ایک بڑا نفسیاتی عمل ہے اور ایک بیوی کے لیے حد درجہ غیرت کی بات ہے کہ شوہر کمرے میں موجود ہے لیکن وظیفۂ ازدواج کی ادائیگی سے اسے کوئی مطلب نہیں ہے، اس سے بھی بات نہ بنے تو ہلکی چپت لگانے کی بات کہی گئی ہے۔ قرآن نے جس ضرب کی بات کہی ہے، اس کی تشریح نبی اکرم ﷺ نے فرمادی ہے کہ مسواک سے مار ماری جائے، چہرے پر مارنے سے پرہیز کیا جائے۔ بیوی کو لاٹھی ڈنڈے اور لات گھونسے سے مارنا حد درجہ گھناؤنا عمل ہے اور شریعت مطہرہ کے ساتھ مذاق ہے۔ بات اس سے بھی نہ بنے تو دونوں کے خاندان سے ایک ایک حکم مقرر کرنے کی بات قرآن کرتا ہے، اس کا صاف مطلب ہے کہ بند کمرے میں کی جانے والی کوششیں جب ناکام ہوجائیں تب معاملہ دوسروں کے ہاتھ میں جائے گا۔ حکمین کی ناکامی کی صورت میں قرآن طلاق کے ذریعے علاحدگی کی بات کرتا ہے۔ لیکن یہاں بھی شوہر کو تاکید کی گئی ہے کہ وہ ایک طہر میں صرف ایک طلاق دے۔ طلاق کے ذریعے بیوی کو علاحدہ کرنے کا جو عمل ہے، وہ ایک طلاق سے پورا ہوجاتا ہے۔ تین ماہ کے دوران اگر شوہر نے رجوع نہیں کیا تو اب بیوی آزاد ہے۔ وہ کسی دوسرے مرد سے شرعی اصولوں کے مطابق نکاح کرسکتی ہے۔ ایک مجلس میں بیوی کو تین طلاق دے دینا جہالت ہے اور ہمارے تمام فقہاء نے اسے طلاق بدعت سے تعبیر کیا ہے۔ ایک مجلس میں تین طلاقیں دینے سے تین طلاق واقع ہوتی ہے یا ایک رجعی طلاق پڑتی ہے، میں اس بحث میں نہیں جانا چاہتا، صرف یہ عرض کروں گا کہ اللہ نے اپنے ایک حساس معاملے میں تین ماہ تک غور وفکر کا جو موقع دیا ہے، اس کی اپنی اہمیت ہے اور اس میں بہت سے فائدے مضمر ہیں۔ پاکستان کے مشہوربریلوی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے عالم دین، تفسیر ضیاء القرآن اور ضیاء النبی جیسی اہم کتابوں کے مصنف پیر محمد کرم شاہ ازہری رحمہ اللہ نے اس مسئلے پر بڑی فاضلانہ تحریر لکھی ہے اور ثابت کیا ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین نہ شمار کرکے ایک رجعی طلاق تسلیم کرنے میں بہت سے فائدے ہیں، میں اپنے نوجوان علماء سے درخواست کروں گا کہ حضرت پیر شاہ ازہری رحمہ اللہ کی تحریر کا ضرور مطالعہ فرمائیں۔
طلاق ہی کے مسئلے میں قرآن کریم کی ایک اور ہدایت بھی ہے جس کی تفصیل سورہ طلاق میں موجود ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ رجعی طلاق دینے کے بعد شوہر بیوی کو گھر سے بے دخل نہ کرے اور نہ بیوی اپنے شوہر کے گھر سے باہر جائے الا یہ کہ اس کے چال چلن میں کوئی کجی پیدا ہوگئی ہو۔ قرآن کے اس حکم کی بڑی مصلحتیں ہیں۔ میں نے علی گڑھ میں موجود اپنے ایک قاسمی دوست سے پوچھا کہ سورہ طلاق میں ذکر کی گئی یہ بات ہماری کتب فقہ میں زیادہ واضح کیوں نہیں ہے۔ اب تو ہمارا مسلم معاشرہ اس قانون اور اصول کو جانتا ہی نہیں ہے۔ طلاق دینے کے بعد ایک شوہر اپنی بیوی کو اس کے میکے بھیج دیتا ہے اور بیوی کے غیرت مند بھائی اسے کھینچ کر اپنے گھر لے آتے ہیں۔ فاضل قاسمی دوست کا جواب یہ تھا کہ یہ کوئی ضروری عمل نہیں ہے جس کی وجہ سے اس کا ذکر ہمارے فقہاء نہیں کرتے۔ میں نے عرض کیا: حضرت کیا اللہ نے سورہ طلاق میں یہ بات یوں ہی بیان کردی ہے، یہ کوئی مستحب اور نفلی عمل ہے، کرلیں تو ٹھیک ورنہ کوئی حرج نہیں۔ قرآن کے اس حکم پر اگر ہمارا مسلم معاشرہ عمل کرنے لگے تو کتنی زندگیوں کو بچایا جاسکتا ہے اور کتنے گھر اجڑنے سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔
علمائے کرام کی خدمت میں یہ بات عرض کرنے کی جسارت کررہا ہوں کہ آج جب کہ ہم مسلم معاشرے میں طلاق کے مسئلے کی صحیح تفہیم نہیں کراپارہے ہیں، کیا یہ مناسب ہوگا کہ طلاق سے پہلے کے مراحل اور طلاق دینے کے بعد گھر میں ساتھ رکھنے کے عمل کی روشنی میں کوئی ایسا ضابطہ بنادیا جائے کہ ہر طلاق دینے والا ان مراحل سے لازمی طور پر گزرے۔ اس کے بغیر کسی طلاق کو شرعی لحاظ سے قبول نہ کیا جائے۔
خلع کے بعض مسائل بھی توجہ کےمستحق ہیں۔ ایک بیوی اگر اپنے غیر ذمہ دار شوہر کے ظلم کا شکار ہے، اس کی جسمانی ضرورتیں پوری نہیں ہوتی ہیں اور جسم وروح کے تقاضے شدت اختیار کرتے جارہے ہیں تو قرآن نے اسے اختیار دیا ہے کہ قاضی کے پاس اپنا مقدمہ لے جائے اور ایسے شوہر سے نجات حاصل کرلے۔ خلع کو طلاق سے جوڑ دینا یا جنسی ضروریات کے حوالے سے یہ کہہ دینا کہ اگر شوہر ایک بار بھی جماع پر قادر ہوگیا تو بیوی کو اس بنیاد پر خلع لینے کا حق نہیں ہے، اس مسئلے میں کافی دشواریاں پیدا کرتی ہیں۔ اگر ہم اسلام کے عائلی نظام کو مستحکم اور پاکیزہ دیکھنا چاہتے ہیں تو ان فقہی جزئیات پر ہمیں نظر ثانی کرنی ہوگی اور اسلام کے مزاج اور روح کی روشنی میں کچھ نئے ضابطے بنانے ہوں گے تاکہ ہم ناخواندہ، جاہل اور سرکش انسانوں کو اللہ کے قانون کا مذاق بنانے اور اس کو کھلواڑ بنانے سے باز رکھ سکیں۔
آپ کے تبصرے