اب بھی شہر کو آگ لگایا جا سکتا ہے

سراج عالم زخمی شعروسخن

طوفانوں سے ہاتھ ملایا جا سکتا ہے

چاہو تو غم کو ٹھکرایا جا سکتا ہے


ان کی صورت چاند سے ملتی جلتی ہے جی

ان کو دیکھ کے جشن منایا جا سکتا ہے


ان کی خاطر تو ہم جان بھی دے سکتے ہیں

کم سے کم اک بار دکھایا جا سکتا ہے


خود کو جس دن بھولے ہم احساس ہوا یہ

ان کو بھی اک بار بھلایا جا سکتا ہے


پھول کے جیسے ہونٹ اگر کچھ جھوٹ کہیں تو

ہنستے ہنستے دھوکا کھایا جا سکتا ہے


اب بھی لوگ سند رکھتے ہیں اخباروں کو

اب بھی شہر کو آگ لگایا جا سکتا ہے


لفظوں نے جب مارا تب محسوس ہوا ہے

باتوں میں بھی زہر ملایا جا سکتا ہے

آپ کے تبصرے

3000