کچھ اس طرح سے بجھائی ہے تشنگی میں نے
سکون دل کے لیے کی ہے شاعری میں نے
کبھی کوئی ترے حق میں نہ کی کمی میں نے
“خود اپنی ذات سے برتی ہے بے رخی میں نے”
تری خوشی کے لیے یہ بھی راہ اپنائی
خرید لی کوئی شے، کوئی بیچ دی میں نے
خوشی و غم کی جو سوغات مجھ کو تم سے ملی
لگا کے رکھی ہے سینے سے آج بھی میں نے
بچی ہوئی تھی مرے حصے کی یہی اک شے
زہے نصیب تجھے وہ بھی سونپ دی میں نے
گھٹائیں دیکھی ہیں جب آسماں پہ چھائی ہوئی
تمھارے قرب کی تدبیر سوچ لی میں نے
عجب طرح کی خوشی کا مجھے ہوا احساس
تمھارے ہاتھوں کی جس وقت چائے پی میں نے
میں جانتا ہوں حیات و ممات کے معنی
بہت قریب سے دیکھی ہے زندگی میں نے
ابھی بھی آگے ہے اک بحر بے کراں کا سفر
ابھی دکھوں کی ندی صرف پار کی میں نے
جہاں میں کتنے نشیب و فراز سے گزرا
کسی بھی حال میں چھوڑی نہ سادگی میں نے
وہ ایک بات ہے محفوظ میرے سینے میں
سحر! فساد کے ڈر سے نہیں کہی میں نے
آپ کے تبصرے