ہم علماء کے لیے شاہ اسماعیل (١٧٧٩ تا ١٨٣١ء) کی تصنیف تقویۃ الایمان کوئی نئی کتاب نہیں ہے۔ یہ کتاب ہم میں سے اکثر نے درسی یا غیر درسی کتاب کی حیثیت سے پڑھی ہے۔ اس کا موضوع خالص توحید ہے۔ اس لیے ہم اسے دیگر دینی کتب کی طرح ایک عام دینی کتاب کی حیثیت سے ہی جانتے ہیں اور کبھی اس کی ادبی اہمیت اور مقام جاننے کی کوشش نہیں کرتے۔ حالانکہ اس کی ادبی اہمیت اس قدر بلند ہے کہ اس کے سامنے اردو کے بلند پایہ ادباء اور مفکرین کے سر نگوں ہو جاتے ہیں۔ آییے ہم ذیل میں اس کی ادبی اہمیت کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔
اردو زبان دیگر ہند آریائی زبانوں (lndo Arian language) کی طرح ایک ہندوستانی زبان ہے جو کھڑی بولی سے ترقی کرتی ہوئی موجودہ صورت میں ہمارے سامنے جلوہ افروز ہے۔ (واضح رہے کہ اردو کوئی ملواں یا دال کھچڑی زبان نہیں ہے۔ لسانیات (linguistic) کا مسلمہ اصول ہے کہ ہر زبان کا ایک ڈھانچہ ہوتا ہے جس پر گوشت پوست کے طور پر دوسری زبانوں کے الفاظ (عموماً اسماء) چڑھتے ہیں۔ کوئی بھی زبان اپنے افعال سے پہچانی جاتی ہے نہ کہ اسماء سے۔ اور اردو کے تمام تر افعال اور ضمائر کا تعلق ہندی سے ہے نہ کہ عربی اور فارسی سے)
یوں تو اردو میں شاعری کی روایت کئی سو برس پرانی ہے مگر اس کے مقابلے میں نثر کی روایت جدید ہے۔ اردو نثر کے آغاز وارتقاء کا تعلق فورٹ ولیم کالج (قیام ١٨٠٠ء) سے ہے۔ یہاں پر انگریز بابووں کو اردو سکھانے کے لیے مولوی میر امن دھلوی (١٧٤٨ء تا ١٨٠٦ء) نے صدر شعبہ اردو ڈاکٹر گلکرسٹ کی فرمائش پر امیر خسرو (١٢٥٣ء تا ١٣٢٥ء) کی فارسی تصنیف چہار درویش کا باغ و بہار کے نام سے ١٨٠٢ء میں ترجمہ کیا۔ زبان کی روانی کی وجہ سے اس کتاب کو سلیس زبان کی اول کڑی کا رتبہ حاصل ہے۔ پھر اس کے بعد پون صدی تک اردو زبان میں جو بھی تصنیف و تالیف ہوئی، اس کی حیثیت طوطے مینے کی کہانی سے آگے نہیں بڑھی۔ ہاں، اس درمیان علمی تصنیفات کی ضرورت محسوس کی گئی مگر اردو زبان میں یہ سکت نہیں تھی کہ اس بار کو اٹھا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ اردو شعراء اور شاعری کی تنقید فارسی میں لکھی گئی مثلاً میر کی نکات الشعراء اور شیفتہ کی گلشن بےخار وغیرہ۔ خطوط غالب (اردوے معلی اور عود ہندی، سن اشاعت ١٨٧٠ء) کا شمار اردو نثر کو پروان چڑھانے میں اہم کڑی کے طور پر کیا جاتا ہے مگر اس کی زبان بھی خطوط آزاد (غبار خاطر) کی طرح کوئی علمی زبان نہیں۔
خطوط غالب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ غالب (١٧٩٧ تا ١٨٦٩ء) خط کیا لکھتے تھے، اپنے دوستوں سے بات کرتے تھے۔ اردو زبان میں علمی تصنیف کی آغاز کا سہرا سر سید (١٨١٧ء تا ٩٨ء) کے سر باندھا جاتا ہے کہ انھوں نے خود علمی موضوع پر قلم اٹھایا اور اپنے دوستوں کو اس سلسلے میں ابھارا جس سے اردو کے افق پر کئی ستارے نمودار ہوئے مثلا حالی(١٨٣٧ تا ١٩١٤ء) اور شبلی (١٨٥٧ تا ١٩١٤ء) وغیرہ۔ سر سید کی اس تحریک کو علی گڑھ تحریک سے موسوم کیا جاتا ہے۔ مگر اس سے نصف صدی قبل (١٨٢٦ء) شاہ اسماعیل شہید نے خالص علمی موضوع پر کوئی ایک یا دو مضمون نہیں بلکہ ایک مستقل کتاب (تقویۃ الایمان) تصنیف فرما دی۔ اردو دنیا میں یہ ایک ایسا عجوبہ ہے جس کی جتنی ستائش کی جاے کم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اس کارنامے پر ترقی پسند مصنفین (١٩٣٦ء میں قائم اس تحریک سے وابستہ تقریباً تمام ادباء و شعراء کمیونسٹ طرز فکر کے حامل ہوتے تھے) نے بھی انھیں کھل کر داد دی ہے کہ مولوی اسماعیل نے اس دور میں کیسے ایک مستقل کتاب لکھ دی جبکہ اردو زبان ابھی رینگ رہی تھی۔ آج جب شاہ صاحب کے کارنامے پر غور کرتا ہوں تو سکتے میں آ جاتا ہوں کہ اللہ نے اس مرد مجاہد کو کیسی کیسی صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ وہ نہ صرف میدان جہاد کے شہسوار تھے بلکہ میدان قلم کے بھی شہسوار تھے۔ اس مرد مجاہد نے اردو میں علمی نثر کی داغ بیل ڈالی مگر ہم نے دانستہ یا نادانستہ طور پر اس کا سہرا کسی اور کے سر باندھ دیا۔ تقویۃ الایمان صرف اولین علمی نثر کا نمونہ ہی نہیں بلکہ اعلیٰ پایہ کے ادب کا نمونہ بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دو سو سال کے عرصے میں یہ کتاب متعدد مرتبہ چھپی۔ جس کے نسخوں کی تعداد کوئی پچاس لاکھ کے قریب ہے۔ (اب تک یہ شرف اردو کی کسی کتاب کو حاصل نہ ہوسکی۔ تفصیل کے لیے مقدمہ کتاب کا مطالعہ کیجیے) شاہ صاحب نے عوام الناس کو سمجھانے کے لیے ایسا اسلوب اختیار کیا جو ادب کی جملہ خوبیوں سے مزین ہے۔ اسی خوبی کو بنیاد بنا کر بعد کے ادیبوں (مثلاً بابائے اردو مولوی عبد الحق ١٨٧٠ء تا ١٩٦١ء) نے اس فن کو مزید فروغ دیا۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اردو نثر کے فروغ میں تقویۃ الایمان کے متن کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ فن ادب کا کوئی خاص موضوع نہیں ہوتا۔ کسی بھی موضوع کو ادبی معیار پر اتار کر اسے ادب عالیہ کا نمونہ بنایا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ منٹو (١٩١٢ء تا ١٩٥٥ء) نے برہنہ ادب لکھ کر بھی ادبی دنیا میں ایک مقام حاصل کر لیا ہے۔ تقویۃ الایمان کے متن کو تنقیدی اصولوں پر جانچا جائے تو یہ متن نفیس ادب کی جملہ خوبیوں سے مزین متن کہلانے کا مستحق ہے۔ ہندوستانی زبانوں میں نثر کے فروغ کی تاریخ کو سامنے رکھتے ہوئے اگر میں یہ کہوں کہ تقویۃ الایمان کا متن اردو میں علمی نثر کا اولین نمونہ ہے تو یہ شاہ صاحب کے کام کی تصغیر ہوگی (یعنی اسے چھوٹا کرکے دیکھنا ہوگا) بلکہ حق تو یہ ہے کہ یہ متن کسی بھی ہندوستانی زبان میں علمی نثر کا اولین نمونہ ہے۔ کیونکہ تمام ہندوستانی زبانوں میں علمی نثر کا فروغ انیسویں صدی کے نصف ثانی میں ہوا۔ اسی لیے بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ تقویۃ الایمان کے متن کو ہندوستانی زبانوں میں فروغ نثر کی تاریخ میں classical text کا مرتبہ حاصل ہے۔ ماہر لسانیات کے مطابق زبان کا حلیہ ہر آن بدلتا ہے جیسے جسمانی ساخت کی تبدیلی کا عمل ہر آن جاری رہتا ہے مگر اس سست رفتاری سے کہ ایک عرصہ کے بعد اس کا اظہار ہوتا ہے۔ یہی حال تقویۃ الایمان کے متن کے ساتھ بھی ہوا۔ بہت سے الفاظ اور اسلوب اب متروک ہوگئے ہیں۔ اس لیے اس کی جگہ پر اب نئے الفاظ اور اسلوب شامل کیے گئے ہیں تاکہ اس کی افادیت برقرار رہ سکے اور عصر حاضر کا قاری اس سے بخوبی استفادہ کر سکے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اردو کے نعرے بلند کرنے والوں کو شاہ صاحب کا مقام یاد دلایا جائے اور تقویۃ الایمان کو اردو کی نصابی کتابوں میں شامل کیا جائے۔
شاندار تحریر۔۔
زادک اللہ علما
ماشاءاللہ
جزاکم اللہ خیرا