سنت سے انحراف کی تاریخ بڑی قدیم ہے۔ جتنے بھی گمراہ فرقے پیدا ہوئے ان میں ایک مشترک چیز یہ پائی جاتی ہے کہ وہ سنت سے دور ہیں۔عقلی قیاس آرائیاں، منطق وفلسفہ اور جدت پسندی کے چکر میں سنت کا کلی یا جزوی انکار ان کی علامت بن گئی ہے۔ بعض نے جہاں کلی طور پر سنت کا انکار کیا، وہیں بعض نے صرف ان احادیث کو ٹارگٹ کیا جو ان کی عقلی اڑان یا تکمیلِ خواہشات کی راہ میں روڑے بن رہی تھیں چاہے وہ صحیحین میں ہی کیوں نہ موجود ہوں۔اس کے بالمقابل بعض نے دخل اندازی کی راہ اپنائی اور ضعیف وموضوع روایات کو سنت کا درجہ دینا شروع کیا اور شریعت کے نام پر ایک نئی دکان سجا لی۔ دونوں فریق اس باب میں افراط وتفریط کے شکار ہیں۔
اہل سنت والجماعت تمام ابواب کی طرح اس باب میں بھی وسطیت واعتدال پر قائم ہیں، چنانچہ انھوں نے احادیث کی تحقیق وتفتیش کے ایسے اصول وقواعد وضع کیے جن سے بہ آسانی مردود ومقبول کے اعتبار سے مروی احادیث کا درجہ متعین کیا جا سکے۔ اس کے لیے انھوں نے قرآن وحدیث کے استقرا سے شرعی اصولوں پر اپنے قواعد کی بنیاد ڈالی۔ چنانچہ ان اصولوں پر غور کرنے والا یہ پائےگا کہ اس کے ہر ہر قاعدہ پر قرآن یا حدیث کی کوئی نہ کوئی دلیل ضرور موجود ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ جس علم کی تعمیر اتنی مضبوط بنیادوں پر کی گئی ہو اس سے جو نتیجہ بر آمد ہوگا وہ اتنا ٹھوس ، پر اعتماد اور قابل یقین ہوگا جس کا مقابلہ دنیا کے کسی عقلی، مادی وعصری علم سے نہیں کیا جا سکتا۔
محدثین کرام نے دن رات کی انتھک کوششوں سے ان تمام رُوات کی تفصیلی حالاتِ زندگی کو منظر عام پر لایا جن کا تعلق کسی نہ کسی طرح روایت حدیث سے تھا۔ اس کے تحت انھوں نے ہر راوی کے عقیدہ وعمل، علم حدیث کے ساتھ ان کے مشغلہ وتعلق، فہم وفراست اور ذہنی صلاحیت کو جانچا پرکھاجو آج علم الرجال اور علم جرح وتعدیل کی شکل میں ہمارے سامنے محفوظ ومدون ہے۔ جس کی مدد سے محدثین کے مسلمہ اصولوں پر ایک ایک حرف حتی کہ زیر وزبر کے فرق تک کی جانچ پڑتال کی جا سکتی ہے۔
محدثین کے یہاں احادیث کی رد وقبولیت کا یہی معتبر معیار ہے۔ نفسانی خواہشات کا اس میں ذرہ برابر عمل دخل نہیں ہوتا، کوئی محدث کسی حدیث کی تحقیق کے وقت یہ نہیں دیکھتا کہ اس سے ہمارے موقف کی تائید ہوتی ہے یا مخالفت، اس کی نظر فقط اس بات پر ہوتی ہے کہ محدثین کے منہج کے مطابق اللہ کے رسول کی طرف اس کی نسبت کی جا سکتی ہے یا نہیں۔ اگر نسبت ثابت ہو جائے تو بعد میں اس کا نمبر آتا ہے کہ اس کا صحیح معنی ومفہوم کیا ہے۔ اور اس کے لیے وہ سلف صالحین کی طرف رجوع کرتے ہیں کہ انھوں نے اس کا کیا معنی ومفہوم بیان کیا ہے۔
انکار حدیث در اصل انکار رسالت ہے، بلکہ دیکھا جائے تو انکار شریعت ہی ہے، کیونکہ حدیث رسول کامقام ومرتبہ شریعت سازی میں وہی ہے جو قرآن کریم کا ہے۔ جس طرح قرآن کریم شریعت کا بنیادی مصدر ہے اسی طرح حدیث رسول بھی۔ لہذا اگر کوئی حدیث رسول کا انکار کر رہا ہے تو در حقیقت وہ رسول اللہ ﷺ کی رسالت کا بھی انکار کر رہا ہے، قرآن کریم کا بھی انکار کر رہا ہے اور نتیجتاً یہ شریعت کا ہی انکار ہے۔
نبیﷺ نے جہاں اپنے بعد واقع ہونے والے تمام فتنوں سے امت کو آگاہ کیا وہیں اس فتنہ کا بھی خصوصی تذکرہ کیا کہ کچھ لوگ ایسے آئیں گے جو قرآن کی آڑ لے کر سنت رسول کا انکار کریں گے۔ دوسری پیشن گوئیوں کی طرح نبیﷺ کی یہ پیشین گوئی بھی صد فیصد سچ ثابت ہوئی، اور اس امت میں ایک عظیم فتنہ یہ رونما ہوا کہ مختلف اشخاص اور جماعتوں نے سنت رسول کا یا تو کلی انکار کر دیا یا استخفاف اور تشکیک کی راہ اپنائی۔ ہر زمانے میں ایسے منحرفین اور فتنہ پرور موجود رہے جن کا مشغلہ سنت رسول کا استخفاف واستہزا تھا۔ جہاں تک عصر حاضر کی بات ہے تو آج بھی ہمیں انکار سنت کی مختلف شکلیں متحرک اور سرگرم نظر آتی ہیں۔ اس مختصر تحریر میں تمام شکلوں کا احاطہ ممکن تو نہیں البتہ اختصار کے ساتھ بعض جوانب درج ذیل ہیں:
(1)سنت رسول کو اصول شریعت میں قرآن کریم کے بعد ثانوی حیثیت عطا کرنا:
استخفافِ سنت کی جو مختلف شکلیں عصر حاضر میں رونما ہوئیں ان میں سے ایک شکل یہ تھی کہ بعض منحرفین نے اس بات کا خوب پرچار کیا کہ شریعت سازی میں حدیث رسول کا مقام ومرتبہ قرآن کریم کے بعد ہے۔ قرآن کریم کے درجے میں نہیں۔ یہ در حقیقت سنت رسول کے استخفاف کی ایک شکل ہے۔
مشہور منحرف مفکر امین احسن اصلاحی اور حمید الدین فراہی وغیرہ نے زور وشور کے ساتھ یہ فکر پیش کی ہے۔ اس فکر کو اس قدر شہرت ملی کہ اچھے خاصے اہل حدیث حضرات بھی بسا اوقات یہی بات دہراتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جب کہ سلف صالحین کا منہج یہ ہے کہ شریعت سازی میں قرآن وحدیث کا مرتبہ بالکل برابر ہے، حدیث کا مرتبہ قرآن سے ذرہ برابر کم نہیں۔ دونوں اللہ کی طرف سے وحی ہیں اور بلا تقدیم وتاخیر اور بلا تفریق یکساں طور پر مصدر شریعت ہیں۔ خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے الکفایہ (ص8) میں ایک باب قائم کیا ہے جس کا عنوان ہے:”بَابُ مَا جَاءَ فِي التَّسْوِيَةِ بَيْنَ حُكْمِ كِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى وَحُكْمِ سَنَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَّ فِي وُجُوبِ الْعَمَلِ وَلُزُومِ التَّكْلِيفِ“اور اس میں سلف صالحین کا منہج بیان کیا ہے کہ دونوں بلا تفریق مدارج یکساں طور پر مصدر شریعت ہیں۔ البتہ شرف اور نسبت کے اعتبار سے قرآن کا مقام سنت سے اوپر ہے، کیونکہ قرآن اللہ کا کلام ہے اور حدیث گرچہ وحی ہے لیکن کلامِ الہی نہیں۔ قرآن کی نسبت اللہ کی طرف ہے اور حدیث کی نسبت رسول اللہﷺ کی طرف۔
(2)سنت اور حدیث میں تفریق کرنا اور صرف سنت کو حجت قرار دینا، حدیث کو نہیں:
بعض مزعوم مفکرین کے یہاں انکار سنت کی ایک شکل یہ پائی جاتی ہے کہ وہ حدیث وسنت کے درمیان تفریق کرتے ہیں اور صرف سنت رسول کو حجت مانتے ہیں، حدیث رسول کو نہیں۔
چنانچہ کہتے ہیں کہ سنت وہ ہے جس پر نبیﷺ نے بار بار عمل کیا ہو، جس پر محافظت برتی ہو۔ لہذا سنت کی بنیاد احادیث پر نہیں، امت کے عملی تواتر پر ہے۔ جس طرح قرآن تواتر سے ثابت ہے اسی طرح سنت بھی تواتر سے ثابت ہے۔ اس لیے اگر روایات سنت کے موافق ہو تو فبہا، ورنہ ترجیح سنت (یعنی عملی تواتر) کو حاصل ہوگی اور حدیث کی کوئی توجیہ کی جائےگی، اور توجیہ نہ ہو سکے تو مجبورا اسے چھوڑنا پڑےگا۔
یہ فکر کتنی خطرناک ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ جن اعمال کو نبیﷺ نے ایک دو بار انجام دیا ہو، انھیں یہ کہہ کر ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا جائےگا کہ یہ حدیث ہے، سنت نہیں۔
جب بھی کسی رائج بدعت پر نکیر کی جائےگی توعملی تواتر کی بات کہہ کر اسے سنت ثابت کر دیا جائےگا۔
جب بھی کسی غلط طریقہ عبادت پر ٹوکا جائےگا اسے حدیث کہہ کر اور غلط عمل کو سنت کہہ کر رد کر دیا جائےگا۔ حالانکہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خود فقہی مذاہب میں عبادات کے طریقوں میں اس قدر اختلاف ہے تو عملی تواتر کون سا ہے جو سنت اور حجت ہے؟
ایک نماز ہی کی مثال لے لیں کہ دنیا کے کتنے خطوں میں اس کے کتنے طریقے رائج ہیں۔ آخر ان میں سے کون سا طریقہ سنت ہے جسے حدیث رسول پر فوقیت حاصل ہے۔ یہ در اصل انکار حدیث کی ہی ایک شکل ہے۔
(3)حدیث کو صرف ایک تاریخی دستاویز قرار دینا:
راشد شاز، جاوید احمد غامدی اور سلیم جاوید وغیرہ نے انکار سنت کا یہی طریقہ اپنایاہے۔ یہ حجیت حدیث کا صریح انکار ہے۔
ایسے لوگوں سے سوال ہے کہ پھر وہ نماز، روزے، حج، زکات وغیرہ کی تفصیلات کہاں سے اخذ کرتے ہیں؟
اگر حدیث رسول کی حیثیت شرعی مصدر کی نہیں صرف تاریخی دستاویز کی ہے تو آخر کیونکر غزوہ تبوک کے موقع پر ان صحابہ کرام کو سزائیں دی گئیں جنھوں نے حکم رسول کی تعمیل میں کوتاہی کی تھی؟
کیا انھیں یہ سزا قرآن کی کسی صریح آیت کی مخالفت میں دی گئی تھی؟
کیا صحابہ کرام قرآن وحدیث کے مابین یہ تفریق کرتے تھے؟
بلکہ اللہ تعالی نے قرآن میں اسے منافقین کی صفات میں شمار کیا ہے جو قرآن وحدیث کے مابین تشریعی ناحیہ سے کوئی تفریق کرتے ہیں۔
وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا إِلَى مَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَإِلَى الرَّسُولِ رَأَيْتَ الْمُنَافِقِينَ يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُودًا [النساء: 61]
(4)حدیث رسول کو قرآن کے متعارض دکھا کر انکار کا راستہ اختیار کرنا:
محدثین نے تحقیق احادیث کے جو قواعدبیان کیے ہیں ان میں یہ نہیں ہے کہ کوئی حدیث بظاہر قرآن کے مخالف نظر آئے تو اس کے ثبوت کا انکار کر دیا جائے۔ کیونکہ اس اصول پر قرآن کا بھی انکار لازم آئےگا، کیونکہ اس کی بعض آیتیں بھی بعض آیتوں کے معارض نظر آئیں گی۔ لیکن بعض مزعوم مفکرین نے صحیح ترین احادیث کے متعلق شکوک وشبہات کے بیج بونے کا یہی طریقہ اپنایا۔ مثلا مولانا مودودی نے ابراہیم علیہ السلام کی کذبات ثلاثہ والی حدیث کو اس لیے غیر مقبول قرار دیا کیونکہ وہ قرآن کی آیت ”وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَبِيًّا“ کے بظاہر متعارض تھی۔ حالانکہ دو کذبات کا تذکرہ تو خود قرآن مجید میں آیا ہوا ہے۔
پہلا : فَنَظَرَ نَظْرَةً فِي النُّجُومِ (88) فَقَالَ إِنِّي سَقِيمٌ (89) [الصافات: 89]
اور دوسرا: قَالَ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَذَا فَاسْأَلُوهُمْ إِنْ كَانُوا يَنْطِقُونَ [الأنبياء: 63]
(5)حدیث رسول کو باہم متعارض دکھا کر انکار کا راستہ اختیار کرنا:
یہی بات قرآن کے سلسلے میں بھی کہی جا سکتی ہے، وہاں بھی بعض آیتیں بظاہر متعارض معلوم ہوتی ہیں تو کیا اسی بنیاد پر قرآن کا بھی انکار کیا جائےگا؟ حالانکہ سچ یہ ہے کہ کتاب وسنت میں کہیں کوئی تعارض نہیں، یہ بس ہمارے فہم کا قصور ہے۔
علما نے اس موضوع پر مستقبل کتابیں تصنیف کرکے ثابت کیا ہے کہ احادیث باہم متعارض نہیں، ان کے مابین جمع وتطبیق ممکن ہے۔
(6)صحابہ کرام کی عدالت پر کلام کرنا:
جس کے نتیجے میں پوری ذخیرہ سنت ہی مشکوک ہو جاتی ہے، کیونکہ تمام احادیث انھی کے طریق سے مروی ہیں:
صحابہ کرام کی عدالت پر کلام کرنایہ روافض کا طریقہ رہا ہے۔ پوری امت میں روافض کے علاوہ اور کسی فرقے میں یہ ناپاک جراثیم نہیں پائے جاتے تھے، اہل سنت میں تو بالکل نہیں۔
جماعت اسلامی وہ گمراہ جماعت ہے جو اپنے آپ کو اہل سنت کی طرف منسوب کرتی ہے اور صحابہ کرام کے ناموس پر حملے بھی کرتی ہے۔ ظاہر ہے کہ جب صحابہ کرام کی عدالت ہی مجروح ہو گئی تو ان کے طریق سے سنت کا جو ذخیرہ منقول ہوگا وہ کیسے پایہ اعتبار کو پہنچ سکتا ہے۔
اس باطل فکر پر ایک مستقل مضمون میں میں نے بالتفصیل رد لکھا ہے جو کہ فری لانسر میں شائع شدہ ہے۔
(7)تجربات کی بنیاد پر احادیث کا انکار کرنا:
مثلا یاجوج ماجوج اور دجال کے متعلق حدیث جساسہ کو یہ کہہ کر غیر معتبر قرار دینا کہ جدید سائنس نے کائنات کے چپے چپے کی دریافت کر لی ہے، اگر یاجوج ماجوج اور دجال کہیں موجود ہوتے تو ان کا پتہ لگ جاتا۔
حالانکہ سائنس داں خود یہ اعتراف کرتے ہیں کہ ہم سمندر کا صرف پانچ فیصد ہی اب تک انکشاف کر پائے ہیں۔ یعنی باقی پچانوے فیصد میں کیا کچھ موجود ہے ہمیں اس کا علم ہی نہیں۔ اسی سے مولانا مودودی اور مولاناوحید الدین خان وغیرہ کے اس شبہے کی پول کھل جاتی ہے کہ یہ کتنا پھسپھسا اعتراض ہے۔
نیز یاجوج ماجوج کا ذکر فقط حدیث میں نہیں قرآن میں بھی سورہ کہف میں آیا ہواہے، تو کیا اسی بنیاد پر قرآن کا بھی انکار کر دیا جائےگا؟
(8)نئے اصول وقواعد وضع کرکے انکار سنت کا راستہ ہموار کرنا:
احناف کے یہاں ابھی حال ہی میں اس طرح کی بعض کوششیں ہوئی ہیں۔ عبد المجید الترکمانی نے ایک کتاب لکھی ہے”دراسات فی اصول الحدیث علی منہج الحنفیہ“جس میں ان احادیث کونئے قواعد وضع کرکے فقہ حنفی کے مطابق قبول یا رد کرنے کی کوشش کی گئی ہے جن کی وجہ سے زمانے سے احناف کو مطعون کیا جاتا تھا۔
(9)علوم حدیث کا سہارا لے کر بعض ثابت شدہ احادیث کو ضعیف قرار دینا، تاکہ ان کا نام منکرین سنت میں نہ آ جائے:
جیسے کہ قرضاوی وغیرہ نے عورتوں کی سیادت وقیادت والی حدیث کو ضعیف کہنے کی کوشش کی ہے۔
اخوانیوں نے صحیح مسلم کی اطاعت امیر والی حدیث کو ضعیف قرار دینے کی کوشش کی ہے۔
محمود سعید ممدوح نے علامہ البانی کے رد میں اپنی کتابوں میں یہی طریقہ اپنایا ہے۔
(10)عقل کی کسوٹی پر پورا نہ اترنے کی بنا پر صحیح احادیث کا انکار کر دینا:
اس کی فہرست بڑی لمبی ہے۔ معاصرین میں سر سید احمد خان اس میدان کے سرخیل شمار ہوتے ہیں۔ بے شمار ثوابت اور اصول ایمان کا انھوں نے صرف اس بنا پر انکار کر دیا ہے کیونکہ وہ عقل کی کسوٹی پر پورا نہیں اترتے، گرچہ اس کی دلیلیں قرآن کی آیات اور صحیحین کی احادیث میں موجود ہوں۔ مثلا:فرشتوں کا انکار، شفاعت کا انکار، پل صراط کا انکار، جنت وجہنم کا انکار، عذاب قبر کا انکار، امام مہدی کا انکار،معجزہ شق قمر کا انکار، بلکہ نبی ﷺ کے معجزات کا بالکلیہ انکار، وغیرہ۔
یہ وہ مسائل ہیں جن پر سلف صالحین کا اجماع ہےاور جن کے انکار کی وجہ سے صرف صحیح احادیث کا ہی نہیں آیات قرآنی کا بھی انکار لازم آتا ہے۔ اس لیے علمائے کرام فرماتے ہیں کہ جو منکر سنت ہوتا ہے وہ منکر قرآن بھی ہوتا ہے۔
مولانا وحید الدین خان کا دجال اور علامات قیامت کے متعلق بھی یہی نظریہ ہے، یعنی عقل کی کسوٹی پر پورا نہ اترنے کی وجہ سے اس کی من مانی تاویل کرنا جس سے صحیح احادیث کا انکار لازم آتا ہو۔
(11)احادیث کی تصحیح کو محدثین کا محض اجتہاد اور زعم باور کرانا:
علامہ شبلی نعمانی نے انکار سنت کے اس طریقے کو اپنی کتابوں میں خوب ذکر کیا ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
”جس طرح ایک فقیہ کسی مسئلہ کو قرآن یا حدیث سے استنباط کرکے اپنی دانست میں صحیح سمجھتا ہے اور اس کی صحت یقینی نہیں ہوتی کیوں کہ استنباط میں جن مقدمات سے اس نے کام لیا ہے ، اکثر اس کے ظنیات ہیں۔ اسی طرح حدیث کا حال ہے ، کسی حدیث کو صحیح کہنا محدث کے ظنیات و اجتہادات پر مبنی ہے۔ ایک محدث یا چند محدثین نے کسی حدیث کو اگر صحیح کہا ہے اور دوسرا شخص اس کی صحت نہیں تسلیم کرتا تو وہ صرف اس ”گناہ “ کا مجرم ہے کہ اس محدث یا محدثین کے اصولِ تحقیق ، قواعدِ استنباط ، طریقِ روایت ، غرض ان کے اجتہادات اور مزعومات کا مخالف ہے“۔ انتہی کلامہ۔
یہاں انھوں نے جس اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے احادیث صحیحہ کے منکر کو محض محدثین کے اجتہادات ومزعومات کا منکر کہا ہے خود ان کے کلام میں اس کی تردید موجود ہے۔
ایک فقیہ جن مسائل کے متعلق قرآن یا حدیث سے استنباط کرکے اپنی دانست میں شرعی حکم لگاتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ صحیح ہے، اور یہ باطل، یہ جائز ہے، اور یہ نا جائز، یہ واجب ہے اور یہ حرام، تو وہ تمام مسائل یکساں نہیں ہوتے ۔ ان میں سے بعض مجمع علیہ ہوتے ہیں اور بعض مختلف فیہ۔ مختلف فیہ مسائل میں سے بھی بعض میں دلائل اتنے واضح ہوتے ہیں کہ متلاشی حق کے لیے درست نتیجے تک پہنچنا مشکل نہیں ہوتا۔ جبکہ بعض مسائل کے مابین ترجیح بہت مشکل ہوتی ہے۔
اب اگر کوئی یہ کہے کہ وضو نماز کی صحت کے لیے شرط نہیں ہے تو اس کی یہ بات ہر ایک کے نزدیک مردود ہوگی، کیونکہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس میں پوری امت کا اجماع ہے، آپ کو ان سے الگ رائے قائم کرنے کی اجازت ہی نہیں۔
اسی طرح بے شمار احادیث کا معاملہ ہے کہ وہ محدثین کے نزدیک بالاجماع صحیح ہیں جیسے کہ صحیحین کی روایات، ان کی قبولیت پر پوری امت کا اجماع ہے، یا بالاجماع باطل ہیں جیسے کہ بے شمار موضوع روایات جن کے باطل ہونے پر کوئی اختلاف نہیں۔ ان احادیث میں آپ کو کوئی الگ رائے قائم کرنے کی اجازت ہی نہیں جس طرح کہ مجمع علیہ فقہی مسائل میں اجازت نہیں۔
رہی وہ بعض احادیث جن کے مابین محدثین کے نزدیک اختلاف ہے تو وہ بھی فقہی مسائل کی طرح دو طرح کے ہیں، بعض میں دلائل کی بنیاد پر ترجیح واضح اور بین ہے، متلاشی حق کے لیے صحیح نتیجے تک پہنچنا کوئی مشکل کام نہیں۔ جب کہ بعض احادیث کے درمیان ترجیح بہت مشکل ہے۔
محدثین کرام نے شرعی نصوص کو سامنے رکھتے ہوئے ان کے استقرا کے بعد یہ قواعد وضوابط وضع کیے ہیں۔ خواہشات نفس کی پیروی کرتے ہوئے یہ قواعد وضع نہیں کیے گئے کہ ہر کوئی اسے قبول یا رد کرنے میں آزاد ہو، اگر کوئی ان سے اختلاف کرنا چاہے تو ان کے اصول پر چلتے ہوئے ہی اسے اختلاف کا حق حاصل ہوگا۔ اور خود اسے اس فن میں وہ مقام حاصل کرنا ہوگا جس کے بعد اسے اس میں کلام کی اجازت ہو۔
اس لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ جو حدیث تمام محدثین کے نزدیک بالاجماع صحیح ہو آج کوئی ایسا اصول وضع کرے جس سے اسے ضعیف ثابت کیا جا سکے، یا اس کے بر عکس جو ان کے نزدیک بالاجماع باطل ہو آج کوئی کسی نئے اصول کے تحت اسے صحیح ثابت کر سکے۔
اس لیے یہاں ”اجتہادات ومزعومات“سے اختلاف کا معاملہ بالکل نہیں ہے، بلکہ قطعی حقائق کے انکار کا معاملہ ہے، وہ بھی بلا معتبر دلیل۔
(12)قیاس کے مخالف ہونے کی بنا پر احادیث کو قابل حجت نہ ماننا:
مقلدین احناف کے یہاں یہ بیماری بہت پائی جاتی ہے۔ در اصل یہ باطل فکر قدیم زمانے سے موجود ہے۔ زمانہ قدیم میں معتزلہ نے ایک ایسی بدعت کی ایجاد کی تھی جو ان سے پہلے امت کے اندر موجود نہ تھی۔ وہ ہے قیاس کے مخالف ہونے کی صورت میں بعض صحابہ کرام کی روایتوں کو یہ کہہ کر رد کر دینا کہ وہ فقیہ نہیں تھے۔ قاضی عیسی بن ابان المعتزلی اس کے علمبردار تھے۔ انکار سنت کی یہ شکل آج بھی موجود ہے۔ متاخرین احناف کے یہاں یہ فاسد اصول خوب رواج پایا اور حدیث مصراۃ و حدیث عرایا وغیرہ کو بے دردی کے ساتھ اس اصول کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔
(13)اپنی طرف سے حدیث گھڑ کر نبیﷺ کی طرف منسوب کر دینا:
یہ گرچہ انکار سنت نہیں لیکن سنت کے اندر دخل اندازی ضرور ہے۔ اور جس طرح انکار سنت فتنہ ہے اسی طرح دخل اندازی بھی فتنہ ہے۔
اس ناپاک عمل کے مختلف اسباب میں سے ایک اہم سبب کسی تقلیدی مذہب کی نصرت وتائید ہے۔
تقلید کا مرض اتنا خطرناک ہے کہ ایک مقلد سے جو کچھ کرا لے کم ہے۔ تقلیدی بیڑیوں میں گرفتار بہت سے اہل علم نصوص کتاب وسنت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ اور تحریف وتبدیل کرنے تک سے باز نہ آئے۔
انھی میں سے ایک مثال شیخ حبیب الرحمن اعظمی کی تحقیق سے چھپی مسند حمیدی میں موجود عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی نماز میں رفع یدین والی حدیث ہے۔یہ کتاب اس سے پہلے دار الکتب الظاہریہ سے چھپ چکی ہے۔ اس میں اس کے الفاظ اس طرح ہیں:
”رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا افتتح الصلاة رفع يديه حذو منكبيه، وإذا أراد أن يركع، وبعد ما يرفع رأسه من الركوع، ولا يرفع بين السجدتين“۔
یہی حدیث حبیب الرحمن اعظمی کی تحقیق سے مطبوع نسخے میں اس طرح ہے:
”رأيت رسول الله صلى الله عليه و سلم إذا افتتح الصلاة رفع يديه حذو منكبيه وإذا أراد أن يركع وبعد ما يرفع رأسه من الركوع فلا يرفع ولا بين السجدتين“۔
اس پر انھوں نے لمبا نوٹ بھی چڑھایا ہے اور کہا ہے کہ کسی محدث نے اس روایت کے متعلق کوئی تعرض نہیں کیا ہے۔ در اصل بات یہ ہے کہ یہ الفاظ ابن عمر رضی اللہ عنہ کے ہیں ہی نہیں، یہ محض تحریف کا نتیجہ ہے۔شیخ صلاح الدین مقبول حفظہ اللہ نے زوابع فی وجہ السنہ میں متعدد دلائل سے اس کا محرَّف ہونا ثابت کیا ہے۔
مقلدین کے یہاں انکار سنت اور حدیث رسول کے ساتھ کھلواڑ کا ایک طریقہ یہ پایا جاتا ہے کہ ایک ہی حدیث کا بعض ٹکڑا اگر ان کے مذہب کی موافقت کر رہا ہے تو اسے قابل حجت مانتے ہیں اور اسی کے دوسرے ٹکڑے سے ان کے مذہب کی مخالفت ہو رہی ہو تو اسے قابل حجت نہیں مانتے۔
(14)افادۂ ظنیت کی آڑ لے کر سنت کا انکار کرنا:
تقریبا تمام منکرین سنت میں مشترک طور پر یہ بیماری موجود رہی ہے۔ شاید ہی کہ کوئی منکر سنت ہو جس نے انکار سنت کا یہ راستہ نہ اپنایا ہو۔
اسی وجہ سے اس فکر کی تردید میں علما نے کافی کچھ لکھا ہے۔
انکار سنت کی چند موجودہ شکلوں کے بیان کے بعد مناسب معلوم ہوتا ہے کہ معاصرین میں انکار سنت کے بعض علمبرداروں کا مختصرا ذکر دیا جائے:
معاصرین میں جن حضرات نے انکار سنت کا علم بلند کیا ہے ان میں عالم عرب میں سے چند مشہور نام یہ ہیں:
محمد عبدہ:یہ عقیدے کے باب میں خبر واحد کی حجیت کےمنکر ہیں۔ اسلام کے دفاع کے لیے کتاب وسنت کو نہیں بلکہ عقل ومنطق کو سب سے بہترین ہتھیار قرار دیتے ہیں۔
ڈاکٹر احمد امین: ”فجر الاسلام“، ”ضحی الاسلام“، اور ”ظہر الاسلام“ نامی لٹریچر کے مصنف۔ علم وتحقیق کے نام پر مستشرقین کے شبہات کو ان کا نام لیے بغیر اپنی طرف سے پیش کرکے سنت پر رسول پر یلغار کرتے ہیں اور خصوصا صحیح بخاری کو اپنی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔
اسماعیل ادہم:مستشرقین سے متاثر ہیں، آزادئ رائے کے نام پر احمد امین وغیرہ کی طرح سنت پر بالعموم اور صحیحین پر بالخصوص شکوک وشبہات کی بیج بوتے ہیں۔
حسین احمد امین: انکار سنت میں اپنے باپ احمد امین سے بھی دو قدم آگے۔ نماز کی فرضیت، حجاب اور چور کا ہاتھ کاٹنے جیسے متعدد اجماعی مسائل کے منکر ہیں۔
محمود ابو ریہ:یہ بندہ نہایت ہی خبیث قسم کا منکرِحدیث ہے۔ صحابہ کرام پر بالعموم اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ پر بالخصوص سب وشتم کرتا ہے۔ اس نے اپنی دو زہر آلود کتابوں میں صحابہ کرام اور سنت رسول پر طعن وتشنیع کی تمام حدیں پار کر دیں، جن کے نام ہیں: ”شيح المَضِيرة أبو هريرة“ اور ”أضواء على السنة المحمدية“۔ اس خبیث کومعتزلہ، شیعہ اور مستشرقین کی خباثتوں کا معجون مرکب کہا جا سکتا ہے۔ اسی وجہ سے ان فرقوں کی جانب سے اس کی خوب آو بھگت ہوئی اور انھوں نےان کتب کے بے شمار نسخے چھپوا کر تقسیم کیے۔
سید صالح ابو بکر:”الأضواء القرآنية في اكتساح الأحاديث الإسرائيلية وتطهير البخاري منها“ نامی ایک کتاب تصنیف کی اور اس میں یہ دعوی کیا کہ صحیح بخاری میں سو ایسی احادیث ہیں جو یہود کی طرف سے وضع کردہ ہیں۔ اس کا سب سے اہم مرجع ابو ریہ کی کتاب ”أضواء على السنة المحمدية“ہے۔
احمد زکی ابو شادی:یہ عقل کو بنیاد بنا کر سنتِ رسول کا انکار کرتے ہیں۔
محمد غزالی:یہ کئی کتابوں کے مصنف ہیں، جن میں سے فقہ السیرہ، ہموم داعیہ، قذائف الحق اور السنۃ النبویہ بین اہل الفقہ واہل الحدیث ان کی مشہور کتابیں ہیں۔ ان تمام کتب میں انھوں نے استخفافِ سنت کا راستہ اپنایا اور دعوتی میدان میں مصلحت اور سیاست کے نام پر بہت ساری احادیث پر انگشت نمائی کی۔ احادیث کی رد وقبولیت کا معیار اپنے فہم دین کو قرار دیا۔ اور برملا یہ اظہار کیا کہ حدیثِ ذُباب کے سلسلے میں علمائے حشرات اگرحدیث کی موافقت کریں تو وہ قابل قبول ہے ورنہ نہیں۔ عورت اور مرد کی گواہی میں فرق کا مذاق اڑایا۔ عقیدے کے باب میں اخبار آحاد کی حجیت کا انکار کیا۔
سعید الحوی:حدیث رسول میں رخنہ اندازی کا ایک طریقہ انھوں نے یہ نکالا ہے کہ ضعیف وموضوع روایات کو بھی یہ احتمال پیدا کرکےصحیح کہنے کی کوشش کرتے ہیں کہ بہت ساری کتابیں بغداد واندلس کے حوادث میں ضائع ہو گئی ہیں، اگر وہ کتابیں موجود ہوتیں تو ہو سکتا ہے ان میں ایسی اسانید ہوتیں جن کی بنا پر ان احادیث کا حکم دوسرا ہوتا۔ چنانچہ اسی کو بنیاد بنا کر یہ کسی ایک مذہب کی تقلید کو ہر شخص پر واجب قرار دیتے ہیں اور یہ تصور دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ تقلیدی مذاہب کی تمام ادلہ صحیح ہیں۔
واضح رہے کہ سعید الحوی کا یہ کوئی نیا شبہ نہیں ہے اور زمانۂِ قدیم سے علما نے اس کا مدلل جواب دیا ہے۔
جہاں تک بر صغیر ہند وپاک کے منکرین سنت یا متشککین کی بات ہے تو ان کی فہرست کافی طویل ہے۔ جن میں سے بعض نام یہ ہیں:
مرزا غلام احمد قادیانی، سر سید احمد خان، چراغ علی، عبد اللہ جکڑالوی، محب الحق عظیم آبادی، نذیر احمد دہلوی، احمد دین امرتسری، عنایت اللہ مشرقی، قاضی محمد شفیع، اسلم جیراجپوری، غلام احمد پرویز ، شبلی نعمانی، علامہ اقبال، حمید الدین فراہی، امین احسن اصلاحی، ابو الاعلی مودودی، قاری حنیف ڈار، راشد شاز اور جاوید احمد غامدی، وغیرہ۔
وہیں بعض جمعیات اور ادارے مستقل طور پر اسی ناپاک کام میں سرگرم ہیں، ان کا مشغلہ ہی عوام کے ذہن میں حدیث رسول کی ہیبت اور حجیت کو تار تار کرنا ہے۔ مثلا:جمعیت اہل القرآن (مشہور منکر حدیث غلام احمد پرویز اس کا بانی ہے)، اہل الذکر والقرآن گروپ، امت مسلمہ گروپ، تحریک تعمیر انسانیت اورطلوع اسلام ۔
بر صغیر کے منکرین سنت کا تذکرہ کیا جائے اور مولانا مودودی کا نام نہ لیا جائے تو نا انصافی ہوگی۔
مولانا مودودی کو گرچہ صریح منکر سنت نہ کہا جائے لیکن ان کا شمار متشککین میں ضرور ہوتا ہے، انھوں نے صراحت کے ساتھ تو سنت کا انکار نہیں کیا ہے لیکن منکرین سنت کے لیے راستہ ضرور ہموار کیا۔ اس باب میں ان کے انحراف کی بنیادی وجہ اس فن سے کما حقہ متعارف نہ ہونے کے باوجود بیجا دخل اندازی ہے۔ انھوں نے علی الاعلان صراحت کے ساتھ تو انکار سنت کا راستہ نہیں اپنایا لیکن اپنے مختلف مقالات وکتب (خصوصا تفہیمات میں ”مسلک اعتدال“کے نام سے موجود مقالے) میں سنت رسول اور محدثین کے جہود کے متعلق ایسے ایسے اشکالات اور اعتراضات کیے جو در حقیقت منکرین سنت کے اعتراضات ہیں۔ بغیر کسی اصول وضابطےکی پابندی کےان کے منہج پر تنقیدیں کرتے رہے، ذوق وعقل کو ہی احادیث کی رد وقبولیت کا معیار بنایا۔ ان پر درایت کو نظر انداز کرکے روایت پر پورا اعتماد کرنے کی الزام تراشی کی۔ اپنے ذوق وعقل کے خلاف ہونے کی وجہ سے صحیحین کی بعض احادیث (مثلًا:ابراہیم علیہ السلام کی کذبات ثلاثہ والی حدیث، سلیمان علیہ السلام کی ایک ہی رات نوے بیویوں سے مجامعت والی حدیث اور دجال کے مقید ہونے کے متعلق خبر دینے والی حدیث- جو حدیث جَسَّاسَہ کے نام سے مشہور ہے-) کے متعلق تشکیک کا راستہ اپنایا جو بعد میں منکرین سنت کے لیے نظیر بنا۔ خبر واحد کی ظنیت کا راگ الاپتے رہےاور پورے ذخیرۂ سنت کو ہی ایک طرح سے مشکوک کر ڈالا۔ الغرض منکرین سنت کے لیے چور دروازہ فراہم کرنے اور شک وشبہے کا بیج بونے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ یہی وجہ ہے کہ ان حلقوں میں ان کی خوب پذیرائی ہوئی اور غلام احمد پرویز وغیرہ نے اس پر خوشی کا اظہار کیا، بلکہ یہاں تک دعوی کیا کہ انکار حدیث کے باب میں ہمارا اور مولانا مودودی کا عقیدہ ایک ہی ہے۔ بلاشبہ ان کا یہ دعوی جھوٹاہے، لیکن انھیں یہ کہنے کی ہمت اسی لیے ہوئی کیونکہ محدثین کی کاوشوں کا مولانا مودودی کے نزدیک کیا مقام ہےوہ اسے اچھی طرح دیکھ چکے تھے۔
مولانا مودودی کے بعد امین احسن اصلاحی کا نام لینا مناسب ہوگا۔ ایک زمانے میں جماعت اسلامی میں مولانا مودودی کے بعد انھی کا دوسرا مقام تھا، پھر بعد میں جماعت سے الگ ہو گئے۔ انھوں نے بھی حدیث کی رد وقبولیت کا معیار محدثین کے وضع کردہ اصول نہیں بلکہ عقل اور ذوق کو قرار دیا، اور اپنے زعم کے مطابق عقل اور ذوق کے مخالف ہونے کی وجہ سےابراہیم علیہ السلام کی کذبات ثلاثہ والی حدیث، قصہ غرانیق والی حدیث اور موسی علیہ السلام کا ملک الموت کو تھپڑ مارنے والی حدیث کا انکار کیا۔
آخر میں بطور تنبیہ ایک چیز ذکر کرنا چاہوں گا، وہ یہ کہ حدیث رسول کے متعلق ایک نیا فتنہ جو بہت زور وشور سے سر اٹھا رہا ہے وہ ہے ”بردرس کا اس میدان میں کودنا“۔ چنانچہ آج بہت سارے بردرس ایسے ہیں جو سوشل میڈیا میں احادیث کی تحقیق وتخریج میں سرگرم ہیں، اور علم کی کمی کی وجہ سے ایسی تحقیقات پیش کرتے ہیں جو اہل علم کے مابین کافی مضحکہ خیز ہوتی ہیں۔ حقیقت میں یہ اس مبارک علم اورفن کے ساتھ کھلواڑ کر رہے ہیں، جن میں سے بعض کا میں نے اپنے فیس بک اکاؤنٹ سے پوسٹ مارٹم کیا ہے۔
دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں اس فتنے سے محفوظ رکھے، نیز اس کا قلع قمع کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے۔
ماشاء الله، جزاك الله خيرا..
جزاکم اللہ خیرا واحسن الجزاء وبارک فیکم ونفع بکم