أحمد فارس الشدیاق کی کتاب ’الجاسوس علی القاموس‘ قدیم عربی معاجم کی اصلاح اور تنقید پر لکھی گئی ہے۔ احمد ابن فارس کا شمار عربی زبان وادب میں ان بڑے علماء میں ہوتا ہے جنھوں نے پوری زندگی عربی زبان کی خدمت میں وقف کردی، کئی معرکۃ الآراء کتابیں لکھیں جن اہم درج ذیل ہیں:
۱۔کنز الرغائب فی منتخبات الجوائب
۲۔سر اللیال فی القلب والابدال
۳۔الجاسوس علی القاموس
۴۔اللفیف فی کل معنی طریف
۵۔الساق علی الساق فیما ھو الفاریاق
احمد فارس نے علمی وصحافتی میدان میں خوب شہرت حاصل کی، یہاں تک کہ عثمانی بادشاہ عبد المجید خاں نے انھیں قسطنطنیہ بلا لیا، ان کے لیے ایک پریس (طبع خانہ)قائم کیا، نیز مجلۃ ’الجوائب‘ کی ادارت بھی انھی کے سپرد کی۔
عربی زبان کے ماہر استاذ ڈاکٹر محمد یعقوب الترکستانی نے ہمیں بتایا کہ مجلۃ الجوائب کی ادارت اور بہت سی کتابوں کی طباعت پر ان کی توجہ و نگرانی ان کے لیے عربی زبان میں عبور وتمکن حاصل کرنے میں کافی مدد گار ثابت ہوئی۔
ان کی کتاب ’الجاسوس علی القاموس‘ در اصل فیروز آبادی کی ڈکشنری القاموس المحیط کی تنقید میں لکھی گئی ہے، اس کی طباعت کا پورا خرچہ نواب صدیق حسن خاں نے برداشت کیا۔
یہ کتاب تین اجزاء پر مشتمل ہے:مقدمہ، صلب موضوع اور خاتمہ۔
مقدمہ میں انھوں نے القاموس المحیط کے علاوہ تمام قدیم معاجم کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے، یہاں تک کہ ان کی ذات پر بھی حملہ سے گریز نہیں کیا۔
صلب موضوع ۲۴ تنقیدوں پر مشتمل ہے، جیسے:فیروزآبادی سے تصحیف وتحریف کا وقوع، الفاظ کے داخلی وخارجی ترتیب میں غلطی اور شرح وتوضیح میں نقص وخامی وغیرہ۔
خاتمہ میں باب افتعال کے لازم ومتعدی واقع ہونے پر سیر حاصل بحث کی ہے، نیز اس میں علماء لغت سے جن اوہام کا صدور ہوا ہے انھیں بھی قلمبند کیا ہے۔
معاجم (لغات) کی اصلاح وتنقید میں الجاسوس علی القاموس کا مقام:
پرانے عربی لغات کی تنقید واصلاح کے باب میں معاصرین کے یہاں یہ کتاب سب سے اہم مانی جاتی ہے۔ عربی زبان کے کچھ معاصر علماء بالخصوص جو یورپ وامریکہ سے پڑھ آئے ان کے یہاں عربی معاجم کی تنقید میں ایک اصطلاح پائی جاتی ہے (عیوب المعجم القدیم) اس موضوع پر بہت سے مضامین لکھے گئے ہیں، یا موجودہ دور میں جس نے بھی عربی لغت نویسی پر قلم اٹھایا ہے اس نے ضرور قدیم لغات کی خامیوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔
جن علماء نے اپنی کتاب میں عیوب المعجم القدیم پر بحث کی ہے ان میں چند اہم درج ذیل ہیں:
۱۔ڈاکٹر حسین نصار، انھوں نے اپنی کتاب’المعجم العربی،نشأتہ وتطورہ‘ میں اس موضوع پر تفصیلی گفتگو کی ہے۔
۲۔ڈاکٹر احمد مختار عمر نے اپنی کتاب ’البحث اللغوی عند العرب‘ میں اس پر بحث کیا ہے۔
۳۔ڈاکٹر رمضان عبد التواب نے اپنی کتاب ’فصول فی فقہ العربیہ‘میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔
۴۔ڈاکٹر عبد الرزاق الصاعدی نے اپنی کتاب’تداخل الأصول واثرہ فی بناء المعجم‘میں اس موضوع کو چھیڑا ہے۔
۵۔بطرس البستانی نے اپنی کتاب’معجم البستان‘کے مقدمہ میں اس پر کلام کیا ہے۔
۶۔استاذ مصطفی السقا نے مجلہ’صحیفۃ المعلمین‘میں اس پر قلم اٹھایا ہے۔
مذکورہ جن مضامین کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ان سب کا مأخذ ومصدر احمد فارس الشدیاق کی کتاب ہی ہے۔ گویا کہ تنقید کے باب میں احمد فارس کی کتاب سب سے پہلی کڑی ہے، ان کے بعد جو بھی علماء آئے سب نے اس کتاب سے استفادہ کیا ہے۔
احمد فارس الشدیاق اور ان کے نقوش قدم پر چلنے والے تمام علماء نے نہ صرف قدیم عربی معاجم کی تنقید میں غلو سے کام لیا ہے بلکہ ان کا پورا منہج ہی یورپ وامریکہ کی لغت نویسی کے منہج پر موقوف ہے۔
معاصرین میں کچھ ایسے علماء بھی ہیں جنھوں نے القاموس المحیط کا دفاع کیا ہے۔ اور احمد فارس کی بہت سی باتوں کو تعصب اور تحامل پر مبنی بتایا ہے۔ ان علماء میں سر فہرست عبداللہ درویش ہیں، انھوں نے اپنی کتاب ’المعاجم العربیۃ مع اعتناء خاص بمعجم العین‘ میں القاموس المحیط کا اچھے اور مفصل انداز میں دفاع کیا ہے۔
انیب علماء میں ڈاکٹر محمد یعقوب الترکستانی بھی ہیں جنھوں نے اپنے محاضرے میں احمد فارس پر زبردست رد کیا ہے۔ وہ نہ صرف القاموس المحیط کا دفاع کرتے تھے بلکہ تمام قدیم معاجم کے دفاع کو اپنا آئینی حق سمجھتے تھے۔ نیز قدیم لغات کے دفاع اور احترام کے ساتھ ساتھ موجودہ دور کے اصول وضوابط پر نئے معاجم کی ترتیب پر ابھارتے بھی تھے۔ ذیل میں مختصر انداز میں اس سلسلے میں ان کے خیالات کو قلم بند کیا جا رہا ہے۔
۱۔احمد فارس اور جن علماء نے قدیم عربی لغات کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے انو ں نے قدیم عربی لغات کو جدید انگریزی لغات جیسے آکسفورڈ اور لاروس پر قیاس کیا ہے۔
۲۔قدیم لغات کے اپنے الگ مقاصد ہیں، مادے ہیں، اور اپنی طبیعت اور حدود کی تعیین میں نئے طرز کے لغات سے یکسر مختلف ہیں۔
۳۔قدیم لغات کی غرض وغایت دین اسلام کی خدمت ہے جبکہ موجودہ یا معاصر لغات کی غرض وغایت بذات خود زبان کی خدمت ہے۔
۴۔قدیم لغات کے مأخذ ومصدر زمانۂ جاہلیت سے لے کر دوسری یا چوتھی صدی ہجری تک فصحاء کی زبان پر نشونما پانے والے الفاظ ہیں جبکہ جدید لغات کا مأخذ موجودہ دور میں دریافت ہونے والے پرانے نقوش سے لے کر اب تک وجود میں آنے والے تمام عربی الفاظ ہیں جن میں مولد، معرب، دخیل، عامی اور فصیح سب شامل ہیں۔
۵۔ڈاکٹر ترکستانی کہا کرتے تھے: ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم قدیم عربی لغات کی کتابوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیں، ان کتابوں کے خاص وعام مقاصد پورے ہونے دیں، انھیں اپنی اہم خصوصیات پر باقی رہنے دیں، نیز یہ کتابیں ہمارے لیے بنیاد کی حیثیت رکھتی ہیں جن پر ہم دوسری کتابوں کو قیاس کر سکتے ہیں۔
۶۔ہمیں چاہیے کہ ہم جدید اصول وضوابط پر جدید ڈکشنریاں ترتیب دیں جو قدیم علماء کے عمل کا امتداد ہو، پس ہم قدیم کے ساتھ ساتھ جدید بھی چاہتے ہیں تاکہ عربی زبان سائنس، ریسرچ اور ٹکنالوجی کی زبان بن سکے جسے ہم زندگی کے ہر شعبے میں استعمال کر سکیں۔
۷۔ایسے معاجم (ڈکشنریاں)تیار کیے جائیں جن میں ترتیب واختصار کا خیال رکھا گیا ہو۔
۸۔تاریخی منہج پر مرتب کیا گیا ہو، یعنی الفاظ کی ترتیب اور شرح میں تاریخی تسلسل کا خیال رکھا گیا ہو۔
۹۔ان معاجم کو تیار کرنے میں جدت کا التزام ہو، نیز توضیحی رموز اور رنگین تصویروں کے ذریعہ معانی کی وضاحت کی گئی ہو۔
وصلى الله على نبينا محمد وسلم تسليما كثيرا
آپ کے تبصرے