متحدہ محاذ کا قیام: ضرورت وافادیت

عبدالرحمن شہاب الدین شادی سیاسیات

عقل مند انسان وہ ہے جو اپنی ہزیمت وشکست اور ناکامی سے عبرت حاصل کرتا ہے۔ اور اپنے مستقبل کے لىے لائحہ عمل تیار کرتا ہے۔ دور اندیش وہ شخص ہوتا ہے جو اپنے اوپر آنے والے خطرات کو پہلے ہی محسوس کرلیتا ہے۔
ہندوستان میں جب سے بھگوا پارٹی کی حکومت آئی ہے، اسی دن سے مسلمانوں کے برے دن آنا شروع ہوگئے ہیں۔ یکے بعد دیگرے ان پر مصیبتوں اور خطرات کے بادل منڈلاتے رہتے ہیں۔ کشمیری مسلمانوں کو جس طرح ٹارچر کیا گیا اور جس طرح انھیں مختلف آزمائشوں میں مبتلا کیا گیا یہاں تک کہ زمین اپنی کشادگی کے باوجود ان کے لئے تنگ ہوگئی، پھر مسلمانوں کے خلاف سی اے اے قانون پاس کیا گیا۔ نیز بابری مسجد کی جگہ مندر بنانے کی راہ ہموار کی گئی، پھر وہ دن بھی آیا کہ رام مندر کی تأسیس اور سنگ بنیاد کا منظر بڑے دھوم دھام سے دکھایا گیا۔
پھر آئندہ اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ ان پر ظلم وزیادتی نہیں ہوگی، ان کی دوسری عبادت گاہوں سے چھیڑ چھاڑ نہیں کی جائے گی۔ مختلف طرح کے پروپیگنڈے کر کے انھیں مشق ستم نہیں بنایا جائے گا۔
یقین مانیے بھگواوادیوں کا اصل ہدف ہندو راشٹریہ کا قیام اور بھارتی آئین جو سب کو مساوی حقوق دینے کی وکالت کرتا ہے اس کی جگہ منو وادی آئین لانا ہے۔ جمہوریت جو ستر سال سے بھارت میں لاگو ہے اس کو سرے سے ختم کرنا ہے۔ ظاہر سی بات ہے یہ سارے کام بیک وقت انجام نہیں پا سکتے۔ اس کے لیے ایک لمبی مدت درکار ہوگی اور بتدریج ان چیزوں کو وہ حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔
ہمیں یہ بھی جان لینا چاہیے کہ وہ بھارتی آئین کو یکبارگی ختم نہیں کرسکتے اور نہ ہی اس کا اعلان کریں گے، اس لیے کہ ایسا کرنے سے پورے ہندوستان میں ہنگامہ برپا ہو جائے گا اور ان کو منہ کی کھانی پڑی گی۔ بلکہ وہ ایک ایک کر کے پارلیمنٹ میں قانونی بل لائیں گے اور اکثریت کے بل بوتے پر اسے اس طرح پاس کروائیں گے کہ پرانا قانون بے معنی ہو کر رہ جائے گا۔
ہندوستانی تاریخ میں وہ دور بھی گزرا ہے کہ جب بدھ مت کو غیر معمولی طور پر فروغ ملا۔ ہندؤوں کی ایک بڑی تعداد نے بدھ مذہب قبول کرلیا۔ پھر اشوکا بادشاہ کا ظہور ہوا جس نے نہ صرف بدھ مذھب کو اختیار کیا بلکہ اسے حکومتی مذہب قرار دیا اور اپنی پوری حکومت کو بدھ مذہب کی نشر واشاعت کے لیے وقف کردیا۔ دوسرے ممالک میں اس کی تبلیغ کے لیے بہت سے مبلغین بھیجے۔ یہی وہ زمانہ تھا جب بدھ مذہب ہندوستان سے نکل کر دوسرے ممالک جیسے میانمار، تھائی لینڈ، کمبوڈیا، کوریا، جاپان اور چین وغیرہ میں اپنا پنجہ گاڑنے میں کامیاب ہو گیا۔
پھر آٹھویں صدی عیسوی میں ایک ہندو متشدد داعی کا ظہور ہوا جس نے بدھ مت کی انیٹ سے اینٹ بجا دی، اس کو ہندوستان کی سرزمین سے اکھاڑ پھینکا اور بدھسٹوں پر ایسا ظلم ڈھایا گیا کہ وہ پڑوسی ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے۔
آج ہندوستان میں بدھسٹوں کی اتنی کم تعداد کی وجہ وہی تاریخ ہے جو اوپر بیان کی گئی۔
ہندوستانی مسلمانوں کو تاریخ کے اس دور اور اس واقعہ سے سبق حاصل کرنا چاہیے کہ ان پر بھی کبھی اس طرح کا دور آسکتا ہے۔
مذکورہ واقعہ اس بات کی قوی دلیل ہے کہ آج کے منو وادیوں کو اگر مسلمانوں کی بیخ کنی کرنے کا موقع مل گیا تو وہ اسے یوں ہی نہیں گنوائیں گے۔
آج وطن عزیز کے جو حالات ہیں، وہ مسلمانوں کے لیے خصوصا اور سیکولر طبقہ کے لیے عموماً چلینج بن کر سامنے آئے ہیں۔ ان حالات میں عوام کی رہنمائی، ان پر ہونے والے ظلم وزیادتی کے سد باب کے لیے پختہ لائحہ عمل، منصوبہ بندی اور دور رس اثرات مرتب ہونے والی حکمت عملی ضروری ہے۔
اس لیے میری طرح ہزاروں افراد شدت سے محسوس کر رہے ہو ں گے کہ موجودہ حالات کو سامنے رکھ کر ایک ایسے متحدہ محاذ، فارم یا فرنٹ قائم کرنے کی ضرورت ہے جس میں ہر مسلک کے تجربہ کار، ماہرین علم وفن شامل ہوں، جس میں آئی اے ایس آفیسرز، ججز، وکلاء، اسکالرس، صحافیوں، ماہرین تعلیم اور سماجی خدمتگاروں کی ایسی ٹیم ہو جو دوسو سے تین سو کی تعداد پر مشتمل ہو۔ اس میں عیسائی، سیکھ طبقہ، دلت اور سیکولر ذہن رکھنے والے ہندؤں کو پھی شامل کیا جاے، مگر اصل کمان مسلمانوں کے ہاتھوں میں ہو۔
یہ محاذ سیاسی کام کے لیے نہ ہو اور نہ ہی مسلک و مذہب کے نام پر ہو بلکہ وہ سیکولرزم کے طور پر پہچانا جاتا ہو، اس کی ہر ایک چیز سیکولرزم کی عکاسی کرتی ہو۔ اس لیے کہ اس وقت کوئی بھی منصوبہ و عمل مسلک و مذہب کے نام پر کامیاب نہیں ہوسکتا۔
اس میں ایسے لوگوں کو شریک کیا جاے جو ذاتیت وخود پرستی سے بالا تر ہو کر کام کریں، ان میں قومی، ملی اور اجتماعی شعور ہو نیز سماجی وملی خدمات کا جذبہ رکھتے ہوں۔
اس محاذ کے اہداف ومقاصد:
١- پورے ہندوستان میں کہیں بھی مسلمان، دلت اور دوسرے اقلیتی طبقہ پر ظلم ہو رہا ہو تو اس کے روک تھام کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔
٢- کسی بھی سیکٹر میں ان کے حقوقِ چھینے جا رہے ہوں تو انھیں حقوق دلانے کے لیے کام کرے۔
٣- موجودہ سرکار اگر کوئی بھی ایسا قانون پاس کرتی ہے جو ہندوستانی آئین کے خلاف ہے، جمہوریت پر آنچ آتی ہے نیز اقلیتی طبقہ خصوصا مسلمانوں پر ظلم وزیادتی پر مشتمل ہے تو یہ محاذ کل ہند سطح پر نہ صرف آواز پلند کرے بلکہ اگر سرکار ان کا مطالبہ نہیں مانتی ہے یا قانون واپس نہیں لیتی ہے تو یہ محاذ کل ہند سطح پر پر امن تحریک شروع کردے۔
٤- سیکولرزم اور جمہوریت کی بقا کے لیے جو لوگ بے قصور جیل میں ٹھونس دیے جاتے ہیں ان کے لیے قانونی چارہ جوئی اختیار کرے۔
٥- دنگے اور فساد کے وقت اگر یکطرفہ کاروائی ہوتی ہو جیسے دہلی فساد کے وقت ہوا تو اس کے لیے آواز بلند کرے، حکومت اور اپوزیشن پر فساد ختم کروانے کے لیے دباؤ ڈالے۔
یہ متحدہ محاذ کا قیام کوئی ذاتی، شخصی یا انفرادی کام نہیں ہے۔ بلکہ قوم کے ان دانشوروں کا کام ہے جو اس وقت مختلف جمعیت، جماعت، تنظیم اور ان جی او وغیرہ سے جڑے ہوے ہیں۔ جمعیت علمائے ہند، مسلم پرسنل لاء بورڈ، جماعت اسلامی، تبلیغی جماعت، جمعیت اہل حدیث اس میں سر فہرست ہیں‌۔ ان کے اراکین آپس میں مل بیٹھ کر، تال میل پیدا کر کے کل ہند میٹنگ طلب کریں اور اس محاذ کے قیام کی راہ ہموار کریں۔
یا پھر امت کے چند افراد اس کام کے لىے کمر بستہ ہوجائیں۔ پھر پورا خاکہ تیار کرنے کے بعد مختلف فیلڈ کی سرکردہ شخصیات کو اس محاذ سے جوڑیں۔
اگر آپ ڈر گئے ہیں یا آپ نے حالات سے سمجھوتا کرلیا ہے کہ جو کچھ ہوگا دیکھا جائے گا، ہم یوں ہی ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہیں گے تو انتظار کیجیے اس وقت کا جب آپ مجبور محض ہوں گے۔ سماجی، سیاسی اور معاشی طور پر آپ لنگڑے لولے کر دیے جائیں گے۔ آپ کا کوىی پرسان حال نہیں ہوگا۔
اللہ تعالیٰ مسلم قوم کو عقل وفہم اور اپنے اندر قومی وملی شعور پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے، وقت سے پہلے اپنی حفاظت کی توفیق دے، ہر حال میں اللہ تعالی ان کا حامی وناصر ہو۔

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
ارشد

عمدہ رائے۔ کیا پاپولر فرنٹ اسی نھج پر کام نہیں کر رہا؟