مقابلہ ہے زمانے سے آفتاب کے ساتھ

سراج عالم زخمی شعروسخن

ہوا کی زد میں بھی روشن تھے آب وتاب کے ساتھ

مرے چراغ بھی ٹوٹے ہیں میرے خواب کے ساتھ


چلو وہ آج نہیں آیا، کل تو آئے گا

تمام عمر کٹی ہے اسی عذاب کے ساتھ


کمر کے ساتھ یہ گردن بھی جھک گئی میری

مرا غرور بھی ڈھلتا رہا شباب کے ساتھ


سروں پہ دھوپ لیے پھر رہے ہیں مفلس لوگ

مقابلہ ہے زمانے سے آفتاب کے ساتھ


جناب، حضرت عزت مآب، عالی جاہ

ملا ہے جب بھی وہ ظالم اسی حجاب کے ساتھ


گریں گے اور بھی دو چار صحن مقتل میں

سروں کا ربط پرانا ہے انقلاب کے ساتھ


کسی فقیر کی خوشبو ہے اس کی باتوں میں

وہ اختلاف بھی کرتا ہے جی جناب کے ساتھ

آپ کے تبصرے

3000