امام لیث بن سعد مصری( ٩٤ھ-١٧٥ھ) تبع تابعین میں سے ہیں، جلیل القدر محدث اور فقیہِ دوراں ہیں، امام مالک(٩٣ھ-١٧٩ھ) کے ہمعصر اور علم و عمل میں ان کے ہمسر یا ان پر مقدم تھے، مدینہ میں امام مالک کی امامت مسلم تھی تو مصر میں امام لیث بن سعد کی۔
ابن سعد نے لکھا ہے:
كان الليث قد استقل بالفتوى في زمانه (الطبقات الكبرى لابن سعد: ٧/٣٥٨) لیث بن سعد اپنے عہد اور زمانے کے مفتی تھے۔
اور ابن وھب نے کہا ہے:
لولا مالك والليث بن سعد لضل الناس (وفيات الأعيان:٤/١٣٠) اگر مالک اور لیث بن سعد نہ ہوتے تو لوگ حق سے محروم رہ جاتے۔
امام ذہبی نے لکھا ہے کہ لیث بن سعد ان لوگوں میں سے تھے جن کا وجود کسی بھی سرزمین کے لیے باعثِ فخر ہوا کرتا ہے، مصر کے حکمران اور ان کے ماتحت اور وہاں کے قاضی مشورہ کرنے اور رائے لینے کے لیے لیث بن سعد ہی کی طرف رجوع کیا کرتے تھے۔ (سير أعلام النبلاء: ٧/٢٠٨)
ائمہ اربعہ کی طرح فقہ میں امام لیث بن سعد کا بھی ایک فقہی مسلک و مذہب تھا جو مصر میں رائج تھا تاہم رفتہ رفتہ اس فقہی مذہب کا خاتمہ ہوگیا اور یہ مذہب بھی ان فقہی مذاہب میں شامل ہوگیا جو مرورِ زمانہ کے ساتھ بھلا دیے گئے۔
امام شافعی جو ان دونوں جلیل القدر ائمہ کے شاگرد ہیں لیث بن سعد کے بارے میں فرماتے ہیں:
الليث أفقه من مالك إلا أن أصحابه لم يقوموا به (طبقات الفقهاء للشيرازي:١/٧٨) لیث بن سعد امام مالک سے بڑے فقیہ تھے مگر ہوا یہ کہ ان کے شاگردوں نے ان کے علم کو مدون اور محفوظ کرنے کی سعی اور کوشش نہیں کی۔
لیث بن سعد کی امام مالک پر برتری کی یہی بات ان کے ایک اور شاگرد یحیی بن عبداللہ بن بکیر نے بھی کہی ہے: الليث أفقه من مالك (الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: ٧/١٨٠)
اس جلیل القدر محدث اور فقیہ کے بعد اس کے علمی ورثہ کے ساتھ ہوئی بے اعتنائی اور امت کے اس عظیم علمی خسارہ کی تلافی کی کوشش خود امام شافعی نے حتی المقدور کی اور معاصرین میں سے عبدالرحمن شرقاوی نے “الأئمة التسعة” کے نام سے کتاب لکھ کرکی ہے۔
قصہ مختصر یہ کہ لیث بن سعد امام مالک کے نہ صرف ہمعمر تھے بلکہ علم و فقہ میں بھی امام مالک کے ہم پلہ تھے یا کئی اہل علم کے نزدیک ان سے زیادہ بلند پایہ کے فقیہ اور محدث تھے۔
اس تعارف کا مقصد دراصل یہ ہے کہ آج لیث بن سعد کی ایک بات پر نظر پڑی، جی چاہا کہ آپ قارئین تک ان کی یہ بات پہنچادوں۔
لیث بن سعد نے امام مالک کو ایک خط لکھا جس میں متعدد باتوں کے ساتھ ساتھ یہ عبارت بھی تھی:
“۔۔۔۔۔ وأنا أحب توفيق الله إياك وطول بقائك لما أرجو للناس في ذلك من المنفعة وما أخاف أن يكون من المضيعة إذا ذهب مثلك مع استئناسي بمكانك وإن نأت الدار فهذه منزلتك عندي ورأيي فيك فاستيقنه ولا تترك الكتاب إلي بخبرك وحالك وحال ولدك وأهلك وحاجة إن كانت له أو لأحد يوصل بك فإني أسر بذلك۔۔۔۔”
میری خواہش ہے کہ اللہ تعالی تم کو اپنی توفیق سے مزید مالا مال کرے اور تمھاری عمر دراز کرے کیونکہ میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ تمھارا وجود لوگوں کے لیے کس قدر نفع بخش ہے اور میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ تم جیسوں کے جانے سے امت کا کس قدر عظیم نقصان ہوگا۔ ہمارے درمیان فاصلے حائل ہیں پھر بھی تم سے انسیت کا احساس ہے۔ تم یقین کرو میری نظر میں تمھاری یہی حیثیت ہے اور تمھارے بارے میں میری یہی رائے ہے، اپنے اور اپنے اہل و عیال کے بارے میں خبر دیتے رہو اور اگر کوئی ضرورت ہو لکھ بھیجو اس کے پورا کرنے میں مجھے خوشی ہوگی۔ (تاریخ ابن معين- رواية الدوري (٤/ : ٤٩٧)(المعرفة والتاريخ للفسوي ١/٦٩٥)
امام لیث بن سعد کی شخصیت اور حالات میں اور امام مالک کے نام ان کے اس خط میں طلبہ، علماء اور عام قارئین کے سیکھنے کے لیے کیا کچھ ہے اس کی وضاحت میں نہیں کروں گا کیونکہ بسا اوقات متن تشریح سے زیادہ واضح ہوتا ہے۔
آپ قارئین خود دیکھ لیں سیکھ لیں کہ اس میں ہمارے مطلب کی کیا بات ہے۔
فکرِ ہر کس بقدرِ ہمت اوست
جزاك الله خيرا
وبارك الله فيك
جزاکم اللہ خیرا
جو دعائیں امام لیٽ رحمہ اللہ نے ضرورت و اندیشہ کے پس منظر میں ہیں وہ دعائیں آپ جیسوں کے حق میں بھی ہیں اللہ قبول فرماے
*فکرہر کس بقدر ہمت اوست * کے تحت ہم جیسے اتنا ہی کہ سکتے ہیں اللہ تعالی ہم سب کو خط میں موجود پیغام کو سمجھنے اور اور اسکے مطابق عمل کی توفیق عطا فرما ے
آمین
Abu Abdullah bhai ne bilkul baja farmaya
بارك الله فيك شیخنا