شہر میں اک چراغ تھا، نہ رہا (نقوی صاحب کی یاد میں)

ابو تحریر تذکرہ

میں نے نقوی صاحب کو پہلی بار (دسمبر 2000ء) میں دیکھا تھا اور یہی ان سے پہلی ملاقات تھی جس نے مسلسل ملاقاتوں کا جواز پیدا کردیا۔ میں وقفے وقفے سے ان کے گھر جاتا تھا اور ان کی گفتگو سے لطف اندوز ہوا کرتا تھا جو بڑی فکر انگیز اور بصیرت افروز ہوا کرتی تھی۔ وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ (نئی دہلی) سے متصل ایک بستی (غفور نگر) میں مقیم تھے اور میرا دامن جواہر لال نہرو یونیورسٹی(نئی دہلی)کی خاردار جھاڑیوں سے الجھا ہوا تھا۔ جے این یو سے نکلنے کے بعد میرا نیا آشیانہ گڑگاؤں کے قریب تھا جس سے زمینی فاصلے میں مزید اضافہ ہوگیا تھا، پھر بھی موقع نکال کر حاضر ہوتاتھا۔ دہلی میں ان کا گھر ہی ایک ایسا گھر تھا جہاں جانے کے لیے Appointment کے جھمیلے نہیں ہوا کرتے تھے۔ مجھے یاد آرہا ہے کہ پہلی بار بھی بغیر اطلاع کے پہنچ گیا تھا، دروازے پر دستک دی، لنگی اور کرتے میں ملبوس، ایک نحیف اور نستعلیق شخصیت نمودار ہوئی، مصافحہ کرنے کے بعد بیٹھنے کی دعوت دی۔ میں نے اپنا تعارف کرتے ہوئے پروفیسر نورالحسن انصاری سے قرابت اور مجاز صاحب (مولانا عبدالحکیم مجاز اعظمی رحمانی)سے قربت کا قصہ چھیڑ دیا تو وہ ماضی کی خوش گوار یادوں میں کھوگئے تھے اور دیرتلک حسرت آمیز لہجے میں ا یام بہاراں کا ذکر کرتے رہے۔ نقوی صاحب سے مل کر مسرت تو بہت ہوئی لیکن تھوڑی سی مایوسی بھی ہوئی کیوں کہ ان کی تحریریں پڑھنے کے بعد ان کی جو خیالی تصویر بنائی تھی، وہ حقیقی تصویر سے قدرے مختلف تھی۔ احمد جمال پاشا یاد آگئے جو فضاابن فیضی سے پہلی بار ملنے کے بعدکچھ ایسی ہی کیفیت سے دوچار ہوئے تھے۔ پہلی ہی ملاقات میں ان کی انکساری اور سادگی نے موہ لیا۔ ان کا ڈرائنگ روم بھی ان کی شخصیت کی طرح سادہ تھا۔ بیڈ، صوفہ اور بک شیلف، پلنگ پر بکھری ہوئیں کتابیں لیکن اس بکھراؤ میں بھی ایک سلیقہ۔ انگریزی اور اردو کے اخبارات (ہندستان ٹائمز اور قومی آواز)، یہی کل کائنات تھی اور اسی جگہ بیٹھے بیٹھے نقوی صاحب نے اردو قارئین کے ایک بڑے طبقے کو عالمی اور ملکی سیاست کے نشیب و فراز سے روبرو کرادیا تھا ۔

نقوی صاحب سے آخری ملاقات (11؍اکتوبر 2022)میں ہوئی تھی، جگہ وہی تھی لیکن اب مکان اور مکین دونوں کی ہیئت اور حلیہ بدل چکا تھا۔ ضعف بصارت کی وجہ سے ڈاکٹر نے لکھنے پڑھنے سے پرہیز کرنے کا مشورہ دے دیا تھا۔ بک شیلف بھی ویران تھی، پلنگ پر مکمل اور نامکمل مضامین کے مسودے اور اخبارات بھی ندارد، کاغذ، قلم اور کتابیں جن کی تثلیث سے نقوی صاحب کی تصویر ذہن کے پردے پر ابھر آتی تھی، وہ سب کچھ غائب تھا، بس کونے میں ایک پرانا ریڈیو پڑا ہوا تھا جو دنیا جہان کے حالات جاننے کا واحد ذریعہ رہ گیا تھا اور ایسا لگ رہا تھا کہ

ہوش و حواس وتاب و تواں، داغ جاچکے

اب ہم بھی جانے والے ہیں، سامان تو گیا

(داغ دہلوی)

اور پھر ایک دن (8؍مئی2024ء)نقوی صاحب بھی چلے گئے، ان کے چلے جانے کا افسوس تو بہت ہوا لیکن حیرت نہیں ہوئی کہ وہ عمر کی جس منزل میں تھے کسی بھی وقت بلاوا آسکتا تھا۔ جنازے میں شرکت کی غرض سے حاضر ہوا تواسی کمرے میں نقوی صاحب ساکت و صامت پڑے ہوئے دنیا کی بے ثباتی کی کہانی سنا رہے تھے۔ نماز عشا ء کے بعد عقیدت مندوں اوررشتے داروں کی ایک مختصر جماعت نے اس گنج گراں مایہ کو بٹلہ ہاؤس قبرستان میں سپرد خاک کردیا۔ اللہ تعالی ان کے حسنات کو قبول فرمائے اورلغزشوں کو معاف فرمائے ۔آمین

نقوی صاحب سے ملاقات سے ایک دہائی قبل، ان سے غائبانہ تعارف ہوچکا تھا ۔1989ء کی بات ہے، میں جامعہ رحمانیہ، بنارس سے شش ماہی امتحان کے بعد تعلیمی سلسلہ منقطع کرکے دوبارہ جامعہ عالیہ عربیہ (مئوناتھ بھنجن)میں داخلہ لے چکاتھا۔ شرح مأۃ عامل، فصول اکبری اور قدوری جیسی کتابوں سے جی گھبراتا تھا لیکن غیر درسی کتابوں کے مطالعے میں خوب مزہ آتا تھا۔ اسی دوران پہلی بارمدرسے کی لائبریری میں ماہنامہ ’التوعیۃ‘(نئی دہلی)کا دیدار ہوا جس کا اداریہ نقوی صاحب لکھا کرتے تھے۔ پہلی بار پڑھا تو لگا کہ اسی کا تو انتظار تھا، پڑھ کر سرور ملتا تھا، طوالت کے باوجودبار بار پڑھتا تھا اور مزید کا تقاضا بھی لیکن ماہنامہ ہمارے لیے پندرہ روزہ تو ہو نہیں سکتا تھا۔ حسن اتفاق سے اسی دوران ایک کرم فرماکے پاس ’التوعیۃ‘ کے پرانے شمارے مل گئے، اس کے بعد ان کی تلاوت کا ایسا دور شروع ہوا کہ اس میں امتحان بھی مخل نہیں ہواکرتا تھا۔ اسی ماہ نامے میں اداریے، ابن احمد نقوی کے نام سے جب کہ اطہرنقوی اورسید عبدالقدوس نقوی کے نام سے بالترتیب منظومات اور مقالات بھی شائع ہواکرتے تھے۔ ایک دن استاذ مکرم مجاز اعظمی نے بتایا کہ یہ دراصل ایک ہی شخصیت کے نام،کنیت اور تخلص ہیں۔

وقت ہوا کے دوش پہ اڑتا رہا اورمیں نقوی صاحب کی تحریروں سے علم اور ادب کشید کرتا رہا، ان کے نت نئے ڈکشن، نادر تشبیہات اور دل کش تراکیب کی مدد سے کچے پکے مضامین کا انبار بھی لگا نے لگا۔ اسی زمانے میں ’عالم اسلام پر یہودی یلغار‘کے عنوان سے ایک مضمون لکھ مارا جو مئو کے ایک طالب علم کے نام سے مجلہ تہذیب البیان میں چھپا تھا۔ مضمون تو پورم پور نقوی صاحب کے چند اداریے کا چربہ تھا اور اسی وجہ سے مدارس کے طلبہ میں اتنا مقبول ہوگیا کہ ہفتہ واری انجمن میں تقریر کے کام بھی آنے لگا۔ جامعہ سلفیہ ،بنارس تک پہنچا، یہاں بھی اس مضمون کی گونج سنائی دی بلکہ پورا مضمون ہی انجمن میں تقریر کے فارم میں سنا اورسنایا بھی۔ یہ واقعہ نقوی صاحب کو سنایا تو بہت محظوظ ہوئے۔

میں1995ء میں اس تعلیم کے حصول کے لیے جس کو اعلیٰ کہتے ہیں، دہلی آدھمکا تھا۔ ایک سال جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی میں رہا، ابھی دروبام سے ڈھنگ سے شناسائی نہیں ہو پائی تھی کہ قسمت کے ساربان نے بانگ رحیل دی، اگلا پڑاؤ تھاJNU۔ دہلی پہنچنے کے بعد کچھ ایسی افراتفری اور آپا دھاپی کا عالم تھا کہ نقوی صاحب سے ملاقات نہیں ہوپائی، پہلے داخلۂ امتحان کی تیاری، داخلے کا مرحلہ طے ہوجانے کے بعد فیس، رہائش اور دیگرمسائل نے اتنا الجھا دیا تھا کہ نقوی صاحب سے ملنے میں دیر ہوگئی تھی، لیکن جب ملاقات ہوئی اور ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا تو ماضی کی اذیت ناک محرومیاں کافور ہوتی چلی گئیں۔

دہلی، بہتوں کی طرح میرے لیے بھی شہر ناپرساں تھا ہرکوئی اپنی ہوا میں مست پھرتا تھا لیکن نقوی صاحب سے ملاقات کے بعد ایسا لگا کہ کسی ریگستان سے اچانک نخلستان میں پہنچ گیا ہوں۔ اس دشت بے اماں میں ان کا وجود ایک شجر سایہ دار کی مانند تھا جس کے گھنیرے سائے میں دم بھر آرام کرلینے کے بعد علم و دانش کی دولت بے بہا مل جاتی تھی۔ ان سے باتیں کر کے ہمت اور حوصلہ ملتا تھا۔ وہ مجھ کو عزیز رکھتے تھے، غیر معمولی شفقت فرماتے تھے اور اپنے وسیع تجربات سے اعانت بھی۔ کبھی کبھار میری کج مج تحریریں ان کی نظر سے گزر جاتیں تو حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ مجاز صاحب کی وفات کے بعد میں نے مولانا عبدالحمید رحمانی رحمہ اللہ کے حکم پر کچھ لکھا تھا جوماہ نامہ التبیان (نئی دہلی)میں چھپا تھا، بعد میں یہی مضمون مجلہ افکار عالیہ (مجاز اعظمی نمبر)میں بھی چھپا تھا۔ ایک ملاقات کے دوران اس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس میں مجاز صاحب کی شخصیت سے متعلق تمام پہلو آگئے ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ آپ ہی سے تو لکھنا سیکھاہے، اس وقت ان کے چہرے پر انبساط و اطمینان کی وہی کیفیت نظر آئی جس کی طرف ان کے محبوب شاعر حافظ شیرازی نے اشارہ کیا تھا۔

حاصل عمر نثارِ رہِ یارے کردم

شادم از زندگی خویش کہ کارے کردم

نقوی صاحب کا تعلق بدایوں کے ایک معروف قصبے،سہسوان سے تھا، ان کے والد مولانا تقریظ احمد سہسوانی کا نام جماعت و جمعیت کے حلقے میں معروف تھا اور معتبر بھی۔ ابتدائی تعلیم سہسوان میں حاصل کی، اس کے بعد مزید تعلیم کے لیے ایک رشتے دار کے ہمراہ مرادآباد چلے گئے۔ پچاس کی دہائی کے آغاز میں دہلی آگئے اور پھر دہلی کے ہو کر رہ گئے۔ یہیں پر افتاد سیکھی اور پرواز بھی، دہلی میں ان کا حلقۂ احباب اپنے وقت کے بہترین اذہان پر مشتمل تھا جس نے ان کے علمی افق کو وسعت عطا کی اور پھر ذاتی محنت سے علم وادب کے میدان میں وہ جگہ بنائی جس کو بغیر کسی مبالغے کے قابل رشک کہاجاسکتا ہے۔ نقوی صاحب ایک سحر نگار ادیب اور خاص طرز انشا کے موجد تھے، ان کی وفات سے علم و ادب اور شعرو صحافت کی بزم سونی ہوگئی ہے اور میرے کرم فرما قافلے کا آخری مسافر بھی رخصت ہوگیا ہے۔ ان کی نگارشات و انتاجات کا تعارف اور تجزیہ ہمارے اوپر قرض ہے۔ دیکھیے!کب اور کیسے اداہوتا ہے۔ ان کی حیات و خدمات کے بارے میں متعدد مقامات پر مختصر اور مطول تحریریں موجود ہیں جن سے ان کی ابتدائی زندگی، تعلیم اور ملازمت کے بارے میں معتبر معلومات موجود ہیں جیسے:شعراے سہسوان(حنیف نقوی)، گلستان حدیث(محمد اسحاق بھٹی صاحب)، تراجم علماے اہل حدیث (خالدحنیف صدیقی)۔ مقالات ابن احمد نقوی (ترتیب: سہیل انجم)میں خود نقوی صاحب نے اپنا مختصر مگر جامع تعارف لکھا ہے۔ عزیزم عاصم افضال (ام القری یونیورسٹی)نے بھی ایک مضمون لکھا تھا جودی فری لانسر میں چھپا تھا۔ ان مضامین سے نقوی صاحب کی ذاتی زندگی اور علمی سفر کی جھلکیاں سامنے آجاتی ہیں جن کی مدد سے مزید لکھا جاسکتا ہے اور مجھے امید ہے کہ لوگ لکھیں گے بھی، ان شاء اللہ ۔

یہ تحریر نقوی صاحب کے بارے میں ذاتی تاثرات پر مشتمل ہے، جس میں عقیدت کی خوش بو ہے، شخصیت کا تزکیہ نہیں۔ میں ایک طالب علم کی حیثیت سے ان کی خدمت میں حاضر ہواتھا، ان کی علمی صحبت، محبت آمیز سلوک اورغیر معمولی شفقت نے ماحول کی سنگینی و سنگلاخی میں مجھے زندگی کرنے کا امید پرور حوصلہ بخشا جو میرے علمی سفر میں معاون ثابت ہوا۔ آج یہ شکستہ قلم (جس کونقوی صاحب کے رشحات قلم نے لکھنا سکھایا تھا)ان کی علمی شخصیت کے چندجہات و جوانب، قارئین سے ساجھا کرنا چاہتا ہے۔ گر قبول افتد زہے عزو شرف

٭ نقوی صاحب ایک سرکاری ملازم تھے اور ملازمت بھی ایسی کہ علم و ادب سے دور کا واسطہ نہیں ،پھر بھی انھوں نے علم و ادب سے رشتہ برقرار اور استوار رکھا اور نری بابو گیری سے محفوظ رہے۔ گو کہ ان کی تخلیقات اور ترجمے کے اکثر نمونے عہد سبک دوشی کی یادگار ہیں لیکن ملازمت کے دوران علمی شغف ہی کی وجہ سے یہ سب ممکن ہو پا یا ہے۔ ملازمت نے ان کو معاشی آسودگی عطا کی تو انھوں نے تصنیف و تالیف کی طرف توجہ دی اور اس میدان میں جو نقوش ثبت کیے وہ ہماری ثقافتی تاریخ کا ایک اہم اور ناقابل فراموش حصہ ہیں۔ ان کے سرکاری مقام و منصب کی جزئیات اور مراعات کے بارے میں کم ہی لوگوں کومعلوم ہوگا لیکن انھوں نے اپنے قلم سے دینیات و ادبیات کے جن گوشوں کو روشن کیا ہے، وہی ان کا شناخت نامہ ہیں۔

نقوی صاحب نے نثر و نظم دونوں میں اظہار خیال کیا ہے۔ ان کی نثر نگاری کے نمونے اداریے، مقالات، تبصرے اور سفر نامے کی شکل میں موجود ہیں۔ ان کے مقالات میں تنوع ہے۔ علمی وادبی شخصیات وافکار کے ساتھ تاریخ و سیرت، جماعت اہل حدیث کی خدمات اور دفاع کے موضوعات پربھی مقالات ہیں۔ میرے خیال میں ان کی شہرت اور شناخت کا ایک اہم سبب ان کے اداریے (خاص طورپر التوعیہ کے اداریے)ہیں۔ ان میں کافی بوقلمونی پائی جاتی ہے۔ انھوں نے سیکولر جمہوری ہندستان میں مسلمانوں کے مسائل پر کثرت سے لکھا جن میں بابری مسجد، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کا اقلیتی کردار، اردو زبان، مسلم پرسنل لاء میں مداخلت اور فرقہ وارانہ فسادات جیسے مسائل و موضوعات کو اہمیت حاصل ہے۔ عالم اسلام کی سیاست پر ان کے تبصرے پڑھنے سے تعلق رکھتے تھے۔ لیکن ان کا اسلوب اور لب و لہجہ معاصر مسلم صحافت سے کافی مختلف نظر آتا ہے۔ ان کے یہاں نظریۂ سازش کی زیریں لہر موجود نہیں ہے جو مسلم صحافت کی شناخت بن چکی ہے۔ ہاں حقائق کی تصویر کشی میں انھوں نے حکومت وقت کے ساتھ بیوروکریٹس کی متعصبانہ ذہنیت اور مجرمانہ غفلت پر سخت تنقید کی ہے۔ وہ اپنے اداریے میں جذبات فروشی اورخوف کی نفسیات استعمال کرنے سے بچتے تھے۔ تعمیری انداز میں مسائل کو اٹھاتے تھے۔ حکومت کی نااہلی اور امتیازی سلوک پر بات کرتے وقت جذباتی نہیں معروضی انداز اختیار کرتے تھے۔ وہ مسلم قیادت کو بھی احتساب سے بالا تر نہیں سمجھتے تھے جس کی بہترین مثال سید شہاب الدین مرحوم کی جذباتی سیاست پر ان کی تیکھی تنقیدہے۔ نقوی صاحب کے اداریے ان کی وسیع معلومات، گہری تجزیاتی بصیرت اور علمی افق کی وسعت کی گواہی دیتے ہیں۔ انھوں نے ہندستان، مغربی ایشیا اور دنیا کے مختلف خطوں میں ہونے والے سیاسی تطورات پرجو کچھ لکھا وہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ ایک سے زائد مسائل میں ان کی رائے سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن زبان و بیان کی دل کشی و رعنائی، لہجے کی صراحت اور موضوع پر عالمانہ گرفت سے انکار مشکل ہے۔

نقوی صاحب کے اداریوں کا ایک حصہ معاصر ہندستانی سیاست کے نشیب و فراز پر مشتمل ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ان کا جھکاؤ کانگریس پارٹی کی طرف تھا لیکن کانگریس کی پہاڑ جیسی غلطیوں پر تنقید بھی کرتے تھے لیکن ان کے ذہن میں ایک چیز واضح تھی کہ کانگریس اپنی تمام خرابیوں کے باوجود ملک کے لیے نسبتاً کم نقصان دہ ہے۔ وہ انتخابی سیاست میں سرگرم دوسرے سیکولر گروپ بشمول سماج وادیوں کی سیاست پرکم اعتبار کرتے تھے اور ان کودائیں بازو کی سیاست کا تتمہ سمجھتے تھے حتی کہ وی پی سنگھ کے عروج کے زمانے میں بھی ان پر سخت تنقید کرتے تھے اور جب انھوں نے دائیں اور بائیں بازو کے تعاون سے مرکز میں حکومت بنائی تو اس کو ابن الوقتی سے تعبیر کیا تھا۔ آج جب کہ ملک کا سیاسی منظر نامہ یکسر تبدیل ہوچکا ہے، جے پی تحریک سے نکلے ہوئے اکثر نیتا نیشنل ڈیمو کریٹک الائنس کا حصہ یا ضمیمہ بن چکے ہیں تو نقوی صاحب کے اداریے یاد آتے ہیں اور ان کی دوراندیشی اور سیاسی بصیرت کی شہادت دیتے ہیں۔

نقوی صاحب کی علمی خدمات کا ایک گوشہ خالص علمی موضوعات سے عبارت ہے جس میں اردو اور انگریزی میں دینیات اور ادبیات کے ساتھ تاریخ و ثقافت کے موضوع پر ان کی تحریریں ہیں۔ ہندستان کی تاریخ پر ان کی گہری نظر تھی،ہند۔ اسلامی ثقافت کی تاریخ سے زیادہ مس تھا اور ا س موضوع پر انگریزی کی اکثر کتابیں ان کی نظر سے گزر چکی تھیں۔ فارسی مصادر سے بھی آگاہی تھی جس نے ان کی تحقیق کو وقار و اعتبارعطا کیا تھا۔ اردو کے مصادر تو خیر سامنے ہی تھے۔ ملا عبدالنبی پر ان کا تحقیقی مقالہ ان کی تاریخی بصیرت اور تحقیقی ژرف نگاہی کا بہترین ثبوت ہے۔ اورنگ زیب کی خشک مذہبیت سے زیادہ داراشکوہ کے روحانی فلسفے کے مداح نظر آتے ہیں۔ سر سید کی اہل حدیثیت پر ان کا شدت سے اصرار تھا لیکن ان کے شواذ سے بھی واقف تھے، ابوالکلام تو ان کی نظر میں مقتدا و پیشوا تھے، ان کا ذکر آتے ہی ان کے قلم پر ایک خاص قسم کی کیفیت طاری ہوجاتی تھی۔

نقوی صاحب کا جماعت اہل حدیث سے علمی اور جذباتی لگاؤ تھا، ان کے اندر جماعت کی خدمات کے تعارف کی شدید تڑپ موجود تھی۔ اس جماعت کی تاریخ اور خدمات کے ساتھ برصغیر کے اکثرمسلم تاریخ نویسوں نے جس قسم کا رویہ روا رکھا ہے، وہ اس سے کبیدہ خاطر رہتے تھے اور اس کے خلاف لکھتے بھی رہتے تھے۔ انھوں نےThe Salafis(الکتاب انٹرنیشنل،نئی دہلی 2001ء) کے نام سے انگریزی میں جو کتاب لکھی ہے وہ ان کی جماعتی حمیت کے ساتھ ان کی اسکالر شپ کی بھی آئینہ دار ہے۔ 238؍صفحات پر مشتمل اس کتاب میں انھوں نے سلفیت کے تاریخی پس منظر اور ارتقائی سفر کی جو تصویر کشی ہے، وہ خوب ہے۔ کتاب کا آغاز فقہی مسالک کا آغاز، امام احمد بن حنبل اور امام ابن تیمیہ کی خدمات، زوال بغداد، عر ب اسپین اور صلیبی جنگ جیسے ذیلی عناوین سے ہوتا ہے۔ انھوں نے ہندستان میں سلفیت کی تاریخ بیان کرتے ہوئے شیخ احمد سرہندی، شاہ ولی اللہ اور ان کے خانوادے کی دینی خدمات، تحریک شہیدین کا تعارف، خدمات، سرحد کی طرف ہجرت، سکھوں سے تصادم اورسانحۂ بالاکوٹ پر روشنی ڈالی ہے۔ کتاب کا ایک حصہ علماے صادق پور کی بے مثال اور ایمان افروز داستان حیات، سید نذیر حسین دہلوی اور نواب صدیق حسن بھوپالی اورمولانا ثناء اللہ امرتسری کی ہمہ گیر خدمات کے تعارف پرمشتمل ہے ۔

نقوی صاحب کے تخلیقی سفر کا ایک حصہ منظومات سے عبارت ہے جس میں اردو کے ساتھ فارسی اور انگریزی نظمیں بھی موجود ہیں۔ انھوں نے جماعت اہل حدیث سے متعلق اکثر علماے کرام کی شخصیات پر نظمیں لکھی ہیں اور ان کی شخصیت اور افکار کو بہترین ادبی پیرایے میں پیش کیا ہے۔ (ملاحظہ فرمائیں: نہضت حق اور چراغ منزل) تاریخ اہل حدیث کے تعارف میں ان کی ایک اور کوشش چمن اسلام (حصہ ششم)ہے جو ابھی تک منظر عام پر نہیں آسکی ہے۔

نقوی صاحب فارسی ادبیات کے اسکا لر تھے۔ انھوں نے اپنی کتاب ’فکر اقبال‘(ادارہ تحقیقات اسلامی مئو ناتھ بھنجن 2007ء)میں علامہ اقبال کے فارسی کلام کا جو تجزیہ پیش کیا ہے وہ ان کی فارسی دانی کا بہترین ثبوت ہے۔ اقبال نے اپنے فارسی کلام میں جن مباحث اورحقائق کو شعری اسلوب میں پیش کیا تھا،نقوی صاحب نے ان کی دل کش اسلوب میں تشریح کی ہے اور کہیں کہیں تنقید بھی، اسی لیے پروفیسر عبدالحق نے لکھا ہے کہ یہ ’’ایک تشریحی تنقید ہے۔‘‘نقوی صاحب اس کتاب کی اشاعت کے لیے کافی فکر مند تھے اور کئی لوگوں سے رابطہ بھی کیا تھا لیکن کوئی مثبت جواب نہیں ملا تھا۔ استاذ مکرم مولانا عبداللطیف اثری کی ذاتی دل چسپی سے یہ کتاب جامعہ عالیہ سے شائع ہوئی تھی جس پر ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری، مولانا ضیاء الدین اصلاحی اور پروفیسر عبدالحق نے تاثرات بھی لکھے تھے ۔

نقوی صاحب نے تصنیف و تخلیق کے ساتھ انگریزی۔ اردو ترجمہ نگاری کی طرف بھی توجہ دی۔ علامہ ناصرالدین البانی کی مشہور کتاب’صفۃ صلوۃ النبیﷺ‘ کا انگریزی ترجمہ The Prayer as offered by Allah’s Messenger(pbuh) کے نام سے کیا۔ عبدالرحمان بن ناصر سعدی کی ایک کتاب کو Merits of Islam کے نام سے انگریزی قالب عطا کیا۔ محمد اسحاق بھٹی کی کتاب (اسلام کی بیٹیاں) کاThe Daughters of Islam کے نام سے انگریزی میں منتقل کیا۔ مشہور نومسلم داعی، بلال فلپس کی انگریزی کتابوں کو بھی اردو میں منتقل کیا جن میں The Evolution of Fiqh کا اردو ترجمہ ’فقہی مسالک کا ارتقاء‘ بھی شامل ہے۔ ان کتابوں کے عناوین سے ان کے موضوعات اور مشتملات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے اور دینیات کے تعارف میں نقوی صاحب کی خدمات کو بھی سمجھا سکتا ہے۔

نقوی صاحب نے Muhammad Allah’s Messenger Peace And Blessing of Allah be upon Himکے نام سے سیرت کے موضوع پر ایک مختصر رسالہ قلم بند کیا تھا جو انگریزی میڈیم کے نونہالوں کے لیے بہت مفید ہے۔ اس کے علاوہ بھی تخلیق و ترجمے کے نمونے موجود ہیں جن پر تفصیل کے ساتھ لکھنے کی ضرورت ہے تاکہ ان کی علمی خدمات کا مکمل تعارف قارئین کے سامنے آسکے۔

٭ نقوی صاحب کی شخصیت کا دوسرا پہلو جس نے مجھ کو کافی متاثر کیا وہ جماعت و جمعیت سے ان کا بے لوث رشتہ تھا۔ وہ جماعت اہل حدیث کے ایک ذہین اور باصلاحیت فرزند تھے۔ اس جماعت کی تشکیل و ترقی میں ان کے آبا و اجدادکا اہم حصہ رہا ہے۔ وہ سرکاری ملازمت کے جھمیلے کے باوجودجماعت و جمعیت کے نشاطات سے بے گانہ نہیں رہے،قلمی تعاون کا سلسلہ تو بہت پہلے شروع ہوچکا تھا، ملازمت سے سبک دوشی کے بعد ترجمان کی ادارت کے ساتھ وہ بعض مناصب پر بھی فائز رہے اور اپنی علمی صلاحیت خاص طور پر انگریزی زبان میں عالمانہ مہارت سے جو فائدہ پہنچایا، وہ جمعیت کی تاریخ کا ایک درخشاں باب ہے۔ میرا خیال ہے کہ جماعت؍جمعیت سے اتنی طویل اور باثمر وابستگی کی سعادت کم ہی لوگوں کو ملی ہے۔ جمعیت میں اقتدار کے مرکز بدلتے رہے، ’’ایں جنا ب اٹھتے اور آنجناب آتے رہے‘‘اور جمعیت کے درودیوار پر اخلاص و وفا کے نئے نئے ابواب رقم کرتے رہے، لیکن نقوی صاحب’’نہ ستایش کی تمنا، نہ صلے کی پروا‘‘ کے مصداق جمعیت کی تعمیر وترقی میں مصروف رہے۔ مرکزی جمعیت میں اختلاف رونما ہونے کے بعد فریقین کی طرف سے قلمی جنگ میں ان کو بھی گھسیٹا گیا۔ ایسے لوگوں نے بھی ان کی جانب سنگ ملامت پھینکے جوحمام میں خود ننگے تھے، بہر حال، جمعیت کا یہ نامسعود باب تو اپنی قہرسامانی کے بعد تقریبا ًبند ہوگیا لیکن اس عاشقی کے چکر میں جو عزت سادات گئی وہ میرے لیے تکلیف دہ تھی۔

مجھے یاد آرہا ہے کہ نقوی صاحب کے گفتگو کے موضوعات میں جمعیت اور ارباب جمعیت کے نشاطات کو نمایاں حیثیت حاصل رہتی تھی۔ ان کی گفتگو سے اندازہ ہوتا تھا کہ گوشہ گیری کے باوجود بھی تطورات پران کی نظر رہتی تھی اور نشیب و فراز سے باخبر رہتے تھے اور اپنے تحفظات کا اظہار بھی کرتے تھے۔ جمعیت میں تنظیمی خامیوں اورشخصی کمزوریوں کے باوجود وہ متوازی جمعیت کی تشکیل کے حق میں نہیں تھے۔ وقت نے ان کے موقف پر صحت کی مہربھی لگادی ہے۔ جمعیت کے بعض اقدامات سے ان کو تکلیف پہنچی تھی پھر بھی جمعیت سے رشتہ منقطع نہیں کیا۔ ان کو سب سے زیادہ دکھ چمن اسلام(جلد ششم) کی اشاعت میں ٹال مٹول سے پہنچا تھا، وہ کہا کرتے تھے کہ وعدے کے باوجود ابھی تک(2022ء) یہ کتاب چھپ نہیں سکی ہے۔ یہ کتاب میرے پاس بھی آئی تھی، جمعیت کو جس حصے پر اعتراض تھا میں بھی اس سے متفق تھا لیکن چاہتا تھا کہ کتاب کی اشاعت ہوجاتی تو بہتر تھا خواہ کتاب اور ناشر کا نام ہی تبدیل کرنا پڑے۔ میں نے کتاب کا نام ’کاروان دعوت و عزیمت‘تجویز کیا تھا۔ نقوی صاحب اس سانحے سے بہت دل برداشتہ تھے اورہر ملاقات میں اس کا ذکر کرتے رہتے تھے کبھی ان کا لہجہ سخت بھی ہوجاتا تھا ۔

ایک بار نقوی صاحب کے اداریے (جو غالباً پردے کے موضوع پر تھا)میں تبدیلی کر کے جریدے کی پالیسی کے مطابق بنادیا گیا تو اس پر بھی ناراض تھےاور کہہ رہے تھے کہ قابل اعتراض جگہ پر حاشیہ بھی لگایا جاسکتا تھا، بغیر اجازت تحریر میں تبدیلی اصول صحافت کے خلاف ہے۔ میں نے عرض کیاکہ اداریہ تو کسی بھی رسالے؍مجلے کی پالیسی کا ترجمان ہوتا ہے، اس کی رعایت بھی تو ضروری ہے۔ ایک بار ترجمان میں نقوی صاحب کے نام کے ساتھ ’علامہ‘چھپ گیا تھا، انھوں نے اعتراض کیا، پر ایک ذمے دار اس کودرست قرار دے رہے تھے۔ نقوی صاحب نے طنز آمیز لہجے میں کہا کہ ٹھیک ہے، اپنے نام کے ساتھ بھی ’شیخ الاسلام‘ لکھا کریں۔ ایک اور پہلو کی طرف اشارہ کیا کرتے تھے جس کا تعلق ہمارے تضاد سے ہے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ ’ترجمان‘میں فوٹو گرافی کی حرمت پر مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں لیکن جمعیت کے اجلاس میں فوٹو گرافی کا اہتمام بھی ہوتا ہے۔‘‘

ان واقعات کو پیش کرنے کا مقصد محض اتنا ہے کہ اندرون خانہ سب خیریت نہیں تھی، اختلاف رائے تھا اور فکر و فہم میں ٹکراؤ بھی۔ ہر تنظیم اور جمعیت میں اس طرح کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں لیکن اصلاح و احتساب کی تلقین کے ساتھ مفاہمت کا راستہ بھی کھلا رکھا جاتا ہے تاکہ تنظیمی کاز کو نقصان نہ پہنچے۔

٭ نقوی صاحب کی علمی شخصیت کا تیسرا پہلو ان کی علم دوستی اور ادب نوازی تھی۔وہ خود ایک اسکالر تھے اورلوح وقلم سے ان کا عملی تعلق تھا اور کتابوں کی نشرو اشاعت کے مسائل بھی تھے۔ اس کے باوجود وہ معاصرین کے انتاجات کی اشاعت کے لیے فکر مند رہا کرتے تھے اور رہ نمائی بھی فرماتے تھے۔ مجھ سے گفتگو کے موضوعات میں اس پہلو کو ترجیحی اور بنیادی حیثیت حاصل ہوا کرتی تھی۔ ڈاکٹر نورالحسن انصاری، ڈاکٹرازہری، مجازاعظمی اور فضاابن فیضی کی کتابوں کی اشاعت پر توجہ دلاتے رہتے تھے، ہر ملاقات میں یاد دہانی کراتے رہتے تھے اور مشکلات و مسائل کو اپنے تجربات کی روشنی میں حل کرنے کی کوشش بھی کرتے تھے۔ کتاب اور صاحب کتاب خواہ جس قسم اور قماش کے ہوں، مقدمہ اور تاثرات لکھنے میں سنکوچ نہیں کرتے تھے۔

نقوی صاحب کامجاز صاحب سے ایک خاص قسم کا لو اور لگاؤ تھا، ان کے مقالات و منظومات کی اشاعت کے لیے بہت فکر مند تھے۔ عزیزم طاہر جمال نے مجاز صاحب کا کلام اکٹھا کرلیا تواس پر بہترین مقدمہ لکھا اور ضروری مشورے بھی دیے لیکن ابھی تک اس کی اشاعت نہیں ہوپائی ہے۔ فضا صاحب کی غیر مطبوعہ تخلیقات کی اشاعت کے بارے میں بھی استفسار کیا کرتے تھے۔ کلیات فضا ابن فیضی (ترتیب و تدوین: ڈاکٹر محمد جابر زماں)کی اشاعت سے بہت خوش تھے اورفاضل مرتب کی جی کھول کر تعریف کیا کرتے تھے۔ محفوظ الرحمان سلفی (لائبریرین جامعہ سلفیہ بنارس)کی محنت اورتوجہ سے ڈاکٹر ازہری کے مقالات کے متعدد مجموعے اور مختصر تاریخ ادب عربی کا جدید اڈیشن مکتبہ الفہیم (مئو ناتھ بھنجن)سے شائع ہوا تو بہت خوش ہوئے۔ ’ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری: حیات اور علمی نقوش‘(مرتب ڈاکٹر عبدالکریم عبدالعلیم ایجوکیشنل بک ہاؤس ،نئی دہلی)کی اشاعت پر ان کی خوشی دیدنی تھی جس میں ان کا مقالہ بھی شامل ہے۔ اس کتاب میں ڈاکٹر ازہری کی شخصیت کے تقریباً تمام پہلو سامنے آگئے ہیں لیکن بدقسمتی سے اس کتاب کی مناسب تشہیر نہیں ہوسکی۔ راشد حسن مبارک پوری (استاذ جامعہ فیض عام مئو ناتھ بھنجن)کی ذاتی دل چسپی اور غیر معمولی محنت سے ڈاکٹر ازہری کے عربی مقالات کے مجموعے کتابی شکل میں عرب دنیاسے منظر عام پر آئے تو مرتب کو ڈھیر ساری دعاؤں سے نوازا اور علم میں برکت کی دعا فرمائی جس پر میں نے بالجہرآمین کہا۔

نقوی صاحب کی شخصیت کا یہ پہلوبڑا دل چسپ اور یادگار ہے، وہ کچھ اس انداز سے تعریف کرتے تھے کہ معمولی کام بھی اہم لگنے لگتا تھا اورمزید کام کرنے کا حوصلہ ملتا تھا ۔

تجاویز:

نقوی صاحب کی کچھ کم دو درجن کتابیں ان کی زندگی میں چھپ چکی تھیں اور اکثر کتابوں کی اشاعت کا اہتمام الکتاب انٹرنیشنل، نئی دہلی نے کیاتھا۔ ابھی بہت کچھ منظر عام پر آنا باقی ہے۔ خوشی کی بات ہے کہ ہمارے کرم فرما، معروف صحافی اور ادیب سہیل انجم صاحب نے ’مقالات ابن احمد نقوی‘ (دانش کدہ پبلی کیشنز، مئو ناتھ بھنجن 2022ء صفحات:468)کے نام سے ان کے مقالات کا ایک انتخاب شائع کیا ہے جو ان کی متنوع نگارشات پر مشتمل ہے۔ عزیزم طارق اسعد(مدینہ یونیورسٹی)نے اس پر ایک اچھا تبصرہ لکھا تھا جو دی فری لانسر میں چھپا تھا۔ اسی طرز پر دوسری نگارشات کو بھی شائع کیا جاسکتا ہے، کچھ نمونے پیش کیے جارہے ہیں:

٭مقالات ابن احمد نقوی (جماعت وجمعیت کے تعارف اور دفاع پر مشتمل تحریریں)

ہندستان میں سلفی فکر کے ارتقائی سفر کی داستان، نقوی صاحب کے مقالات کا ایک اہم حصہ ہے، جس کی جمع و ترتیب اوراشاعت سے اس تحریک کی متنوع خدمات کا حصہ سامنے آجائے گا۔ ان کی نگارشات میں کچھ باتیں محل نظر بھی ہیں جن کی حاشیے میں تصحیح کی جاسکتی ہے۔ اس مجموعے میں ’دامن کو ذرا دیکھ‘اور اس قبیل کی دیگر تحریریں بھی شامل کی جاسکتی ہیں۔

٭مقالات ابن احمد نقوی (اہل حدیث شخصیات پر مضامین)

نقوی صاحب نے جدید ہندستان میں جماعت اہل حدیث کی متعدد شخصیات پر مضامین قلم بند کیے تھے، کچھ خالص تاثراتی ہیں اور کچھ میں علمی اور تحقیقی رنگ غالب ہے۔ سرسید اور مولانا آزاد پر ایک سے زائد مضامین ہیں۔ ان کے علاوہ معاصرین کی وفیات پر انھوں نے جو لکھا تھا وہ شخصیات نگاری کا بہترین نمونہ ہے جس میں شخصیات کے افکار و خدمات کے ساتھ جماعت و جمعیت کے نشیب و فراز کی داستان بھی آگئی ہے۔

٭نقوی صاحب کے اداریے (انتخاب)

نقوی صاحب نے التوعیہ کے ساتھ جریدہ ترجمان کے اداریے بھی لکھے تھے۔ سہیل انجم صاحب کی کتاب میں شامل اداریے التوعیہ کے ہیں۔ اسی طرح ترجمان کے اداریوں کا انتخاب شائع کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کے اداریے کے بارے میں کسی تبصرے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان میں ہندستانی مسلمانوں کے مسائل اور عالم اسلام کے معاصر منظر نامے کے حوالے سے جو دل چسپ حقائق موجود ہیں،ان کی ترتیب و اشاعت علمی اور ادبی دونوں لحاظ سے مفید ہوسکتی ہے ۔

٭مقدمات ابن احمد نقوی (کتابوں پر مقدمے ،تاثرات اور تبصرے)

نقوی صاحب نے متعدد کتابوں پر مقدمے لکھے جن میں دینیات و ادبیات کی اہم کتابیں ہیں۔ ’سرشاخ طوبی‘(فضا ابن فیضی )پر ’حدیث طوبی‘کے عنوان سے ان کامقدمہ لاجواب ہے۔ وہ تبصرے بھی لکھا کرتے تھے جو محض کتاب کا تعارف نہیں بلکہ سچ مچ کے تبصرے ہواکرتے تھے، کہیں کہیں مدلل مداحی کی کیفیت بھی در آئی ہے لیکن شعری مجموعوں پر تبصرہ کرتے وقت انھوں نے شعرا کے فکر و فن کی عظمت کا اعتراف کرنے کے ساتھ زبان و بیان کی کمزوریوں کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔

٭کلیات اطہر نقوی

نقوی صاحب ایک قادرالکلام شاعرتھے،اردو کے ساتھ فارسی اور انگریزی میں بھی ان کی تخلیقات کے نمونے موجود ہیں۔ منظومات کا زیادہ تر حصہ شائع ہوچکا ہے جو متعدد رسائل و جرائد میں بکھرا ہے اور کچھ کتابی شکل میں بھی موجود ہے۔ انھوں نے جماعت و جمعیت کے نشاطات اور اس سے وابستہ شخصیات کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار جس ادبی اسلوب میں کیا ہے، وہ ادبی اور تاریخی دونوں زاویے سے مطالعے کا متقاضی ہے۔تمام منظومات کو مذکورہ بالا عنوان سے ترتیب دے کر شائع کیا جاسکتا ہے۔

٭انگریزی مقالات

نقوی صاحب مرکزی جمعیت اہل حدیث(ہند)کے انگریزی آرگن The Simple Truth کے لیے بھی لکھا کرتے تھے، اس میں مطبوعہ مقالات کو کتابی شکل میں شائع کیا جاسکتاہے۔

اسلاف کی علمی تراث کی حفاظت ضروری ہے ،منہج کے تعارف کے ساتھ جن لوگوں نے اس میں مثبت کردار ادا کیا ہے ۔ان کا تعارف بھی ضروری ہے۔آج ہم جس منہج سے انتساب پر اطمینان کا اظہار کر رہے ہیں اور اللہ کا شکر ادا کررہے ہیں وہ ہم تک کیسے پہنچا اور اس راہ میں لوگوں نے کتنی قربانیاں پیش کیں،ان کے بارے میں بھی جاننے کی ضرورت ہے۔نقوی صاحب کی تخلیقات کا اچھا خاصا حصہ ایسے ہی پاک طینت افراد کی ایمان افروز داستان پر مشتمل ہے ،اسی لیے ان کی اشاعت اور تشہیر کا منصوبہ ہماری ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے۔ نقوی صاحب ایک طویل عرصے تک مرکزی جمعیت سے وابستہ رہے اوریہ وابستگی برائے نام نہیں تھی بلکہ قلمی تعاون اور فکر رہ نمائی کی تاریخ کئی دہائیوں پر مشتمل ہے۔ جمعیت کے پاس نشرواشاعت کا ایک منظم پروگرام ہے اور افراد و وسائل کی کمی بھی نہیں ہے، اگر ارباب جمعیت اس کی طرف سنجیدگی سے سوچیں اورعملی پیش رفت کریں تو علمی دنیا کے لیے بہت اچھا ہوگا۔ امید ہے فغان درویش صدا بصحرا ثابت نہیں ہوگی۔ ان شاء اللہ

تو اپنے حاصل محنت کی فکر کر دہقاں

کہ برق دیر سے لہرا رہی ہے برسر کشت

(فضا ابن فیضی)

آپ کے تبصرے

3000