مئو ناتھ بھنجن کو شعر وشریعت کاشہر کہا جاتا ہے تو ٹھیک ہی کہا جاتا ہے، یہاں قدم قدم پر شعر وادب کے پارکھ اور فقہ و فتاوی کے ماہرین مل جاتے ہیں جو اپنے اپنے ذوق اور ظرف کے مطابق اسلامی تعلیم و ثقافت کے فروغ اور نئی نسل کی رہ نمائی میں مصروف ہیں، جس سے چراغ سے چراغ جلنے کی روایت کو استحکام مل رہا ہے۔ میرے ایک سے زائد اساتذۂ کرام اسی دیار سے تعلق رکھتے ہیں، جن کی تعلیم اور تربیت نے بیاباں کی شب تاریک میں زندگی کرنے کا امید پرور حوصلہ بخشا، شہر کے دیگر ارباب علم و دانش کے احسانات سے بھی زیربار ہوں مگر جن شخصیات کے علمی فیوض و برکات نے میرے خاموش قلم کو ادبی خروش سے آشنا کرایا ان میں فضا ابن فیضی (1923-2009)، ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری (1939-2009)، مجاز اعظمی(1929-2011) اور ڈاکٹر عبد العلی ازہری (1943-2021) رحمہم اللہ تعالیٰ سرفہرست ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے علم و ہنر کی وادی میں تھوڑی بہت جو پہچان ہے (خوش فہمی ہی سہی)وہ انھی نفوس قدسیہ کی تربیت اور تشجیع کا ثمرہ ہے۔ میں نے اپنی کچھ کج مج تحریروں میں ان کو خراج عقیدت پیش کرنے کی کوشش کی ہے جن کے عناوین یہ ہیں:
٭فضا ابن فیضی کی یاد میں (عالمی سہارا، دہلی جنوری 2009)
٭اب صبا سے کون پوچھے گا سکوت گل کا راز: ازہری صاحب کی یاد میں(مجلہ البلاغ،ممبئی جنوری2010)
٭مجاز اعظمی:ترے فراق سے ہے دیدۂ چمن نم ناک (ماہ نامہ التبیان،دہلی،جنوری 2012)
اور آج آخر الذکرشخصیت (ڈاکٹر عبد العلی ازہری) کے بارے میں کچھ عرض کرنے کی جسارت کر رہاہوں۔ ڈاکٹر صاحب کی وفات کے بعد ذاتی تاثرات قلم بند کرنے کی کوشش تو کی لیکن مکمل نہیں کرپایا۔ اس کے بعد غم حیات کی آلائشوں نے اس سمت دیکھنے کا موقع ہی نہیں دیا جو میری بدقسمتی ہے اوراذیت ناک محرومی۔ پچھلے مہینے نقوی صاحب کے انتقال پر کچھ لکھنے کی توفیق ہوئی تو ڈاکٹر صاحب یاد آگئے اوران پر کچھ نہ لکھ پانے کی چبھن بھی محسوس ہوئی۔ دو ڈھائی سال بعدآج ان کی یادوں کو ترتیب دینے بیٹھا ہوں جب ہوا، بہت سے ورق اڑاکر لے جا چکی ہے۔ پتہ نہیں ’’دیر آید درست‘‘ کا محاورہ اس مضمون پر کتنا صادق آئے گا؟
ڈاکٹر عبدالعلی ازہر ی کی رحلت کی خبر غیر متوقع نہیں تھی، امراض و عوارض کا سلسلہ برسوں سے جاری تھا، آخری دوسال میں تو کئی بار اسپتال میں ایڈمٹ ہونے کی نوبت بھی آگئی تھی۔ وفات سے ایک دو روز پہلے مئو سے دعاے صحت کی اپیل کی خبر آئی تو دل کو ایک دھکا لگا، ابھی اسی شش و پنج میں تھا کہ کیسے رابطہ کیا جائے کہ انتقال کی خبر نے بالکل نڈھال کردیا۔ وفات سے تقریباً ڈیڑھ دو مہینے پہلے ٹیلی فون پر بات ہوئی تھی لیکن وہ آواز اور لہجہ کہیں گم تھا جو ان کی شان اور شناخت ہوا کرتا تھا، گفتگو اورانداز گفتگو سے ایسا لگ رہاتھا جیسے خیمے کی طنابیں اکھڑ رہی ہیں۔ اکتوبر(2021)کے پہلے ہفتے میں جب اسپتال میں ایڈمٹ ہوئے تو امیدتھی اور دعا بھی کہ جلد ہی شفایاب ہوکر گھرواپس آجائیں گے لیکن اس بار ساری تدبیریں الٹی ہوگئیں اور 10؍اکتوبر 2021 کو آخربیماری دل نے کام تمام کردیا، انا للہ وانا الیہ راجعون، اللہ تعالیٰ ان کے حسنات کو قبول فرمائے، لغزشوں کو معاف فرمائے اور علمی خدمات کو زاد آخرت بنائے۔آمین
ڈاکٹر صاحب ساٹھ کی دہائی میں اعلیٰ تعلیم کے لیے ملک سے باہر گئے تھے، زندگی بھر تعلیم و تدریس اور ملازمت کے سلسلے میں الگ الگ شہروں میں رہے، جہاں بھی رہے وطن کی یاد سے ان کا دل معمور رہا، اسی لیے تعطیل کے ایام میں مئو آتے تھے اور لوگوں کو ملاقات کا موقع بھی دیتے تھے۔ مجھے یاد آرہا ہے کہ مئو میں محلے اور مدرسے میں ان کو کئی بار دیکھا تھا۔ حصول تعلیم کے لیے مئو سے باہر نکلا تو کبھی کبھاربنارس اور پھر دہلی میں ملاقات کے مواقع مل جاتے تھے۔ ابتدا میں قدرے تکلف تھا اور جھجک بھی لیکن ان کے انداز اپنائیت نے بہت جلد ان مصنوعی دیواروں کو منہدم کردیا۔ جب بھی ملاقات ہوتی اپنے تعلیمی سفر کے تجربات ساجھا کرتے، بقدر ضرورت مشورے دیتے لیکن علمیت کا رعب نہیں جماتے تھے۔ ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری کی وفات کے بعد تعلق کا ایک نیا دور شروع ہوا اوراس مرحلے میں ملاقاتوں اور باتوں کے جس حسین اورحیات بخش سلسلے کا آغاز ہوا، وہ میری زندگی کا ایک ناقابل فراموش باب ہے۔ ڈاکٹر ازہری کی وفات کے بعد پہلی بار ہندستان تشریف لائے تو دہلی میں طول طویل ملاقاتیں رہیں اوراتفاق سے آخری ملاقات بھی (18 ؍مارچ 2019) یہیں پر ہوئی، ہمیشہ کی طرح ڈھیر ساری باتیں ہوئیں لیکن اس سفر میں قدرے نڈھال لگ رہے تھے اور ’’مضمحل ہوگئے قوی غالب‘‘ کی عملی تصویر۔ لندن سے فون کرتے تھے، خیر خیریت کے ساتھ الگ الگ موضوعات پر باتیں کیاکرتے تھے۔ میں ای میل کے ذریعے رابطے میں رہتا تھا، خیر خیریت کے علاوہ الٹے پلٹے سوال بھی کیا کرتا تھا جس کا وہ پابندی سے جواب دیا کرتے تھے جس سے یہ احساس ہوتا تھا کہ یہیں کہیں رہتے ہیں:
دور رہیں اور پل پل مہکیں، خوابوں اور خیالوں میں
ایسے لوگ بھی مل جاتے ہیں،صدیوں اور سالوں میں
اردو کی معروف فکشن نگار قرۃ العین حیدر نے لکھا ہے کہ ’’یاد ایک ایسا پرسکون اور طوفانی، شفاف اور گدلا سمندر ہے جس کی تہہ میں ان گنت شکستہ جہازوں، جگمگاتے خزانوں اور لاشوں کے شہر خموشاں دفن ہیں۔‘‘ آج جب ڈاکٹر صاحب کے بارے میں تاثرات قلم بند کرنے بیٹھاہوں تومئو اور دہلی کی طویل ملاقاتیں ایک کے بعد ایک یاد آتی جارہی ہیں اور تاحد نگاہ ان سے وابستہ یادوں کی ایک بارات سجی ہوئی ہے، ’’جیسے جمنا میں دیے تیریں اندھیری رات میں‘‘۔ مشتاق احمد یوسفی نے اپنے یار طرح دار ابن حسن برنی کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’ان کی یادوں کو شیئر کرنے کا مطلب ہے کہ کوئی شخص Niagara Falls کے نیچے کھڑے ہوکر اوکھ سے پانی پینے کی کوشش کرے۔‘‘ اس وقت میں بھی کچھ ایسی ہی کیفیت سے دوچار ہوں، ان سے وابستہ یادیں ایسے ہجوم کررہی ہیں کہ ان کو سمیٹنا اور ساجھاکرنا مشکل ہو رہا ہے، پھر بھی ایک کوشش کی جارہی ہے، ناتما م ہی سہی۔
ڈاکٹر صاحب ایک کہانی کار تھے جو کہانی لکھتے نہیں، سناتے تھے، ان کے انداز بیان میں کمنٹری کا رنگ جھلکتا تھا، بات سے بات نکلتی اور کڑی سے کڑی ملاتے جاتے تھے اور سننے والا ان کی داستان در داستان کی فضامیں کھوجاتا تھا، عالیہ کے کیمپس سے بات شروع کر کے کب عباسیہ کے مدینۃ البعوث تک پہنچ جاتے، آب رود گنگا کی رنگین اور روحانی فضا سے نکل کرکب دریاے نیل کے ساحل پر پہنچ جاتے، رشی منیوں کے دیش سے انبیاے کرام کی مقدس زمین کی روح پرور اور ایمان افروز داستان شروع کردیتے، ان کی زبان سے مئو، مصر، بنارس، بمبئی، برطانیہ، بیروت، دہلی، دمشق، جرمنی، اسپین اورمسجد قرطبہ کے ان گنت قصے سنے، افسوس! قصہ کہنے والا خودایک قصہ بن گیا اور ایسا قصہ جس میں عظمت کے ساتھ عبرت بھی ہے۔ انھوں نے اپنی جادوبیانی اور گل افشانی گفتار سے بہت سے شہروں اور شخصیات سے ملادیا تھا۔ اسی لیے ان سے بات کرتے وقت ہمیشہ یہی تمنا رہتی تھی کہ
گفتگو بند نہ ہو
بات سے بات چلے
صبح تک شام ملاقات چلے
ہم پہ ہنستی ہوئی یہ تاروں بھری رات چلے
(علی سردار جعفری)
ڈاکٹر صاحب فیض عام(مئو)کے واقعات سناتے وقت طلبہ، اساتذہ اورمدرسے کے ماحول کے ساتھ متصل علاقے کی ایسی تصویر کشی کرتے کہ پچاس اور ساٹھ کی دہائی کا ’’روضہ‘‘ آنکھوں کے سامنے گھوم جاتا تھا۔ جامعہ رحمانیہ (بنارس)میں داخلۂ امتحان کا منظر، مسجدطیب شاہ میں مولانا عبدالوحید سلفی کی امامت میں نماز، ان کی قرأت کا انداز، ان کے حسن اخلاق اور شفقت آمیز سلوک کا خاکہ اس انداز سے کھینچتے تھے کہ عہد رفتہ، حال کی صورت میں سامنے آجاتا تھا۔ دار الکتب الظاہریہ میں علامہ ناصرالدین البانی سے ملاقات اور ’’فراغتے، کتابے و گوشۂ چمنے‘‘سے عبار ت ان کے معمولات کا تذکرہ کرتے تو ایسا لگتا تھا کہ ہم بھی بیسویں صدی کے اس محدث جلیل کے حلقے میں شامل ہیں اور آنکھوں سے ان کے جلال و جمال کا نظارہ کر رہے ہیں۔ مبارک پور کے سفالہ پوش مکان میں شیخ الحدیث عبیداللہ رحمانی کی خدمت میں حاضری، ان کی سادگی، بے ریائی، شان استغنا اور للہیت کی ایمان افروز داستان سناتے تو ایسا لگتا تھا کہ خیرالقرون کے قصے سنارہے ہیں۔
سب سے دل چسپ قصے، قاہرہ کے ہوا کرتے تھے، خاص بات یہ ہے کہ جب بھی سناتے اس میں ایک نیا پن ہوتا تھا جو صرف ان کے مخصوص اور منفرد اسلوب کی دین ہوا کرتا تھا۔ عباسیہ میں واقع ازہر کے بیرونی طلبہ کے ہوسٹل (مدینۃ البعوث)کی بلڈنگ اور بھانت بھانت کے لوگوں سے رسم وراہ، اونچے ڈائننگ ہال کے پھیکے پکوان، ازہر کا کیمپس، اساتذہ کا علمی جاہ وجلال، قاہرہ یونیورسٹی کا ثقافتی ماحول اور شعر وادب میں ڈوبی ہوئی فضا، محمد الغزالی اور شوقی ضیف کا انداز تدریس، امریکن یونیورسٹی (قاہرہ) کا کھلا کھلا ماحول، کلب، رقص گاہیں، افرنگی تمدن کا چم و خم، رنگ و نور میں نہائی ہوئی فضا، نازنینان فرنگ کی دل فریب ادائیں اور ان کا ’’حسن بے پروا‘‘، خان الخلیلی بازار کی رونق، قاہرہ ریڈیو اسٹیشن کا ماحول اورمیدان التحریر کے جلسے جلوس کے قصے اتنی بار ان کی زبان سے سنے تھے کہ لگتا تھا ہم بھی اسی دیار سے ہو کر آئے ہیں۔
قاہرہ قصے کا ایک دل چسپ باب ہوا کرتا تھا، محمود محمد شاکر، جن کو ’’شیخ المحققین‘‘ کہا کرتے تھے۔ ان کو عربی کے اس ادیب کی شفقت اور عنایت کے ساتھ اعتبار بھی حاصل تھا، جب تک قاہرہ میں رہے، پابندی سے ان کے گھر جاتے رہے اور ان سے خوب خوب استفادہ کیا۔ اپنے مقالے (عروۃ بن أذینۃ:حیاتہ و شعرہ) کی ترتیب میں ان کی ر ہ نمائی کا ذکرکرتے ہوئے بتایاکہ انھوں نے پوری کتاب کا مراجعہ کیا تھا۔ ان کے علمی کارنامے اور معاصر ادبا خاص طور پر عمید الادب العربی، طہ حسین سے ان کی نوک جھونک کی کہانی سنایا کرتے تھے۔ ان کی لائبریری (جو امریکن یونیورسٹی میں ضم ہوگئی تھی) کی بہت تعریف کرتے تھے۔ معاصر ثقافتی منظر نامے میں ان کے علمی مقام کے اعتراف میں بخل اور ان کی ناقدری پر افسوس کا اظہارکرتے ہوئے سعودی عرب کو مطعون کیا کرتے تھے جس میں مجھے کبھی کبھی واقعیت سے زیادہ جذباتیت نظر آتی تھی۔ (سعودی عرب نے محمود شاکر کو شاہ فیصل ایوارڈ سے نوازا تھا جوان کی قدردانی کی دلیل ہے) ڈاکٹر صاحب أباطیل وأسمار کے مقالات سے بہت متاثر تھے، جس میں محمود شاکر نے استشراق اور استعمار کی خباثت نفس اور مجرمانہ ذہنیت کو بے نقاب کر تے ہوئے اسلامی تراث کی معنویت کو علمی، تحقیقی اور ادبی اسلوب میں پیش کیا تھا، اس کتاب کے مطالعے کی ہدایت کرتے تھے۔ ان کی بے تکلف، آزاد زندگی، قید وبند کی مشقتیں اور ملازمہ سے شادی اور نہ جانے کتنے واقعات سنایا کرتے تھے اوراس انداز سے سنایا کرتے تھے کہ جہاں ہوتے تھے لگتا تھا کہ یہی محمود شاکر کا دانش کدہ ہے۔ میری خواہش پر انھوں نے شیخ سے اپنے تعلقات کو زیب قرطا س بھی کیا لیکن وہ تشنہ اور ناتما م ہے۔
٭٭٭
ڈاکٹر صاحب، میری والدہ کے خالہ زاد بھائی تھے اور اسی رشتے سے میں ان کو عبدالعلی ماموں کہاکرتا تھا۔ پہلی بار ان کو اپنے ننھیال میں دیکھا تھا، وہ مئو آتے تو اپنی خالہ جو میری نانی (بلقیس نعمان والدہ ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری)تھیں، سے ملاقات کے لیے ضرورآتے تھے۔ جب وہ نانی کو اپنے مخصوص پوربی انداز میں ’’کا خالہ کیسی ہہ‘‘ کہہ کر خیریت پوچھتے تو اس رشتے سے منسوب احترام و اپنائیت اور شفقت و محبت کے سارے جذبات مجسم ہوجاتے تھے۔ وہ دیر تلک بیٹھ کردنیا جہاں کے قصے سناتے، مئو کی باتیں سنتے بلکہ دل چسپی سے سنتے اور تبصرے بھی کرتے تھے۔ نانی ایک تجربے کار، سلیقہ شعار اور درد مند خاتون تھیں، اسی لیے پڑھے لکھے رشتے داران سے ملنے آتے، دعاؤں اور نصیحتوں کی سوغات لے کر جایا کرتے تھے، ڈاکٹر صاحب بھی انھی میں سے ایک تھے۔ اس وقت ذہن کے پردے پرڈاکٹر صاحب کی جو پہلی تصویر رقص کررہی ہے وہ، ننھیال نہیں، بلکہ مدرسہ عالیہ کی ایک تقریب کی ہے۔ 80 کی دہائی کی بات ہے، وہ نائیجیریا سے ایک افریقی مہمان کے ساتھ مئو آئے تھے، مہمان کا نام اور تقریر کا موضوع تو یاد نہیں کہ میں اس وقت پرائمری کے پہلے دوسرے سال میں تھا، ہاں، ان کی شکل یاد ہے، افریقی ریاست کا مخصوص اور معروف رنگ اور اس پر سفید جبہ اور گول ٹوپی، کہیں پڑھا تھاکہ وہ ان کے شاگرد، شیخ امین الدین ابوبکر تھے،بہر حال، مجھے ان کے بارے میں بس اتنا ہی معلوم ہے۔
ڈاکٹر عبدالعلی ازہری (حقیقت میں)ایک علمی خاندان کے چشم و چراغ تھے، ان کے دادا، مولانا محمد حامد (م:1913) اور نانا، شیخ الحدیث مولانا محمد نعمان (م:1951) دونوں کو سید نذیر حسین محدث دہلوی سے استفادہ کرنے کا موقع ملا تھا۔ انھوں نے اپنے مضامین میں اپنے خاندان اور ننھیال کے دینی پس منظر اور دانش ورانہ روایت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ان کے والد کا نام عبدالحمید تھا جو مئو کے ایک عام آدمی تھے اور شاید خام بھی، ان کی والدہ کا نام، صفیہ خاتون تھا، وہ خالہ تو میری امی کی تھیں لیکن میں بھی ان کو خالہ ہی کہتا تھا، صفین خالہ، پتہ نہیں، یہ صفیہ خاتون کیسے صفین ہوگیا؟ وہ ایک عبادت گزار اور پرہیز گار خاتون تھیں، تہجد گزار بھی، ان کے ہونٹوں پر ہمیشہ وظائف کے کنول کھلے رہتے تھے۔ وہ مدرسہ عالیہ عربیہ (نسواں) میں معلمہ تھیں اور انداز سے شان معلمائی ہویدا۔ وہ تعلیم اور درجے میں نانی سے برتر تھیں لیکن فہم و فراست میں قدرے کم تر۔ طفلی کے ایام ننھیال میں گزارنے کی وجہ سے ان سے بارہا ملنے کا موقع ملا اور بہت کچھ سیکھنے کا بھی۔ اگر گھر میں داخل ہوتے ہی سلام نہیں کیا، کھانے یا کچھ لینے کے بایاں ہاتھ بڑھا دیا تو ڈانٹ پلاتیں، سر کے بال بے ہنگم اور بڑے ہوتے اور لنگی ٹخنے سے نیچے ہوتی توتنبیہ کرتی تھیں، خالہ کیا تھیں، ایک موبائل مدرسہ اور مکمل تر بیت گاہ۔ پھر بھی ان کے گھر جانے کے لیے ہمیشہ تیار، کیوں کہ وہ بچوں کو پیسے ضرور دیا کرتی تھیں جس کی وجہ سے ان کی نصیحتیں بڑی ’’قیمتی‘‘معلوم ہوا کرتی تھیں۔ میں نے اپنی نانی پر ایک مضمون لکھا تو ڈاکٹر صاحب نے بڑی حسرت سے کہا کہ: ’’تمھارا مضمون [بلقیس نعمان:علمی وراثت کے تسلسل کا استعارہ مطبوعہ جریدہ ترجمان،دہلی] اپنی نانی کے بارے میں دیکھ کر شوق پیدا ہوا کہ میں بھی اپنی والدہ کے بارے میں لکھوں، ارادہ ہے، دیکھو کب شروع ہوتا ہے، بدقسمتی سے ان کے نواسے نواسیاں نہیں تھیں جو ان کی تاریخ لکھتیں، تم نے بہت زبردست کام کیا ہے۔‘‘(راقم کے نام ڈاکٹر عبدالعلی کا ای۔میل تاریخ:16 ؍مارچ 2013)
ڈاکٹر صاحب نے اپنی ناتما م خودنوشت میں اپنی والدہ کا ذکر کرتے ہوئے ان کی خوبیوں اور قربانیوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ درحقیقت ان کی تربیت ہی نے ڈاکٹر صاحب کے اندر علم سے محبت اور علما سے عقیدت پیدا کردی تھی، انھوں نے اپنے خاندان اور ننھیال کی علمی روایت سے استفادہ کرنے کے ساتھ اس کو تب و تاب اور وسعت بھی عطاکی بلکہ اس میں کئی اہم اور شان دار ابواب کا اضافہ بھی کیا۔ وہ ایک غریب اور مفلوک الحال خاندان کے فرد تھے، ایسی غربت جس میں فاقہ کشی کے تجربات بھی شامل تھے، وہ ماضی کی محرومیوں کا ذکر بڑے دل چسپ انداز میں کیا کرتے تھے اور بار بار کیا کرتے تھے، شاید اس تکرار اور تذکیر سے ان کا مقصد یہ تھا کہ عشرت کے ایام میں عسرت کے دن بھی یاد رہیں۔ غربت ہی کی وجہ سے ان کا مدرسہ بھی چھوٹ گیا تھا اور ان کے بقول ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری کی کوشش سے انھوں نے دوبارہ تعلیمی سلسلے کا آغاز کیا اور اس کے بعدپیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ وہ کرگھے کی گہرائی سے علم کی اونچائی تک پہنچے تھے، یہی صنعت ان کا ذریعۂ معاش تھی، مئو میں طالب علمی کے دوران اس میں ہاتھ بھی بٹایا تھا، جہان دانش میں ایک ممتاز مقام اور واضح شناخت حاصل کرنے کے بعد بھی اس پیشے سے وابستگی اور اس سے متعلق یادوں پر دل چسپ اور شگفتہ اسلوب میں تبصرے کیا کرتے تھے۔
ڈاکٹر صاحب نے مئو (جامعہ عالیہ عربیہ اور جامعہ فیض عام)اوربنارس (جامعہ رحمانیہ)کے مدارس سے منقولات اور معقولات کی تعلیم حاصل کی تھی، عربی وفارسی بورڈ کے امتحانات بھی امتیازی نمبرات سے پاس کیے تھے، قرآن کا حفظ تو بالکل انوکھے انداز میں کیا تھا جس کی تفصیل کئی لوگوں کی زبانی قارئین تک پہنچ چکی ہے۔ اس کے بعد اعلی تعلیم کے لیے جامعہ ازہر کا رخ کیا اور کلیہ اصول الدین سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی، قاہرہ یونیورسٹی میں بھی رہے، اس کے بعدامریکن یونیورسٹی (قاہرہ)سے عربی ادب میں ایم اے کیااور ’عروۃ بن أذینۃ: حیاتہ وشعرہ‘کے عنوان سے مقالہ لکھا جو جامعہ سلفیہ،بنارس( 1976) سے شائع ہوچکا ہے۔ دوران تعلیم ہی قاہرہ ریڈیو کی اردو سروس سے بحیثیت اناؤنسر اور مترجم وابستہ ہوگئے، اس ملازمت اور اس سے حاصل ہونے والی معاشی آسودگی کا خوب ذکر کرتے تھے اور اللہ کا شکر ادا کرتے تھے۔ وہ مصر میں صدر جمال عبدالناصر کا زمانہ تھا، انھوں نے ایک انفارمیشن سنٹر قائم کیا اور اس کا ذمے دارمشہور دانش ور، محمد حسین ہیکل کو بنادیا اور انھوں نے منصب سنبھالتے ہی ریڈیو کے عملے کی تنخواہ میں اضافہ کردیا لیکن ناصر کی وفات کے بعد استعفیٰ دے دیا۔ ڈاکٹر صاحب نے ذکی فہمی کی ڈائرکٹرشپ میں بھی کام کیا تھا جو ہندستان میں رہ چکے تھے اور ان کا کافی خیال رکھتے تھے۔ریڈیو کی ملازمت کے دوران انھوں نے قاہرہ کی علمی اور ثقافتی زندگی کو قریب سے مشاہدہ کیا تھا اور متعدد شخصیات (توفیق الحکیم، احمد حسن الزیات اورانور الجندی وغیرہ) کا انٹرویو بھی کیا تھا۔
ایک بار میں نے نجیب محفوظ کے بارے میں پوچھا تو کہا کہ ان سے ملاقات تو نہیں ہوسکی، میں نے قاہرہ ریڈیو کے لیے معاصر ادباکا انٹرویو کیا تھا پتہ نہیں، نجیب محفوظ تک کیوں نہیں پہنچ پایا؟ ہاں، ان کے ناولوں کا مطالعہ کیا تھا، ان کے موضوعات اور کرداروں کے بارے میں بات کرتے تھے، ایک باران کی ناول نگاری کے فنی پہلو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ انھوں نے Stream of Consciousness کی ادبی تکنیک کا استعمال کیا ہے جس کو اردو میں شعور کی رو کہتے ہیں۔ مجھے یاد آتا ہے کہ نجیب محفوظ نے اپنی کتاب ’’اللص و الکلاب‘‘ میں اس تکنیک کا استعمال کیا ہے۔ اسی موضوع پر بات کرتے وقت انھوں نے سورہ مریم کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اس میں بھی اسی تکنیک کا استعمال ہے، اس زاویے سے بھی مطالعے کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کی تشکیل میں سب سے نمایاں حصہ قیام قاہرہ کا تھا، قاہرہ ان کی کمزوری تھی اور طاقت بھی، ان کی کوئی بھی گفتگو، قاہرہ سے خالی نہیں ہوا کرتی تھی۔ انھوں نے دنیا جہان کی سیر کی، نائیجیریا، ممبئی اورلندن میں رہے لیکن قاہرہ سے ایک خاص قسم کا لو اور لگاؤ تھا، یہاں کے تعلیمی ادارے، علمی و ادبی شخصیات اور شعر و ثقافت کی خوش بو سے معطر فضا کے قائل تھے اور قتیل بھی۔ قاہرہ نے ان کے ذہنی افق کو وسعت عطا کی تھی، اس کی آزاد فضا میں افتاد سیکھی تھی اور پرواز بھی، حد پرواز سے آگے بھی نکل گئے تھے، پہلی بار قاہرہ سے واپس آئے تو بے ریش تھے۔ اسی شہر نے حافظ مولوی عبد العلی فیضی کو عبدالعلی ازہری بنادیا تھا۔
ڈاکٹر صاحب قاہرہ سے نائیجیریا چلے گئے اور احمدو بیلو نیورسٹی کے شعبۂ اسلامیات میں لکچرر کی حیثیت سے اپنا سفر شروع کیا اور ریڈر تک پہنچے، یہیں سے عبداللہ فودی کی تفسیری خدمات پر تھیسیس لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ درس و تدریس کے ساتھ دعوت و تبلیغ اور تحقیق و تصنیف کی طرف بھی توجہ دی۔ نائیجیریا کے سیاسی حالات دگر گوں تھے، سماجی اتھل پتھل جاری تھی، اقتصادی حالت خستہ ہوتی جارہی تھی، علمی سطح پر بھی مستقبل مخدوش نظر آرہا تھا، ان کے کرم فرما ڈاکٹر ذکی بدوی، ملک کے دگرگوں حالات اوریونیورسٹی کے ناخوشگوار ماحول کی وجہ سے استعفیٰ دے کر سوئے لندن روانہ ہوچکے تھے، اس کے بعدڈاکٹر صاحب نے بھی اس ملک کو خیرباد کہہ دیا لیکن ان کی منزل لندن نہیں،ممبئی تھی۔
80 کی دہائی کی بات ہے، مولانا مختار احمد ندوی ہندستان کے علمی اور ثقافتی منظر نامے پر ایک نئی دھج سے نمودار ہورہے تھے بلکہ ہوچکے تھے، ان کے متنوع نشاطات کا نیا قبلہ و کعبہ ممبئی اور مالیگاؤ ں تھاجہاں سے انھوں نے اسلامی تعلیم وثقافت کے فروغ کے ایک مقدس مشن کا آغاز کیا تھا جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فضا ابن فیضی نے کہا تھا ’’خاک مئو کا منظر نامہ روشن مالیگاؤں میں ہے‘‘۔ ادھر ڈاکٹر عبدالعلی غریب الوطنی کے ایام سے اوب چکے تھے۔ مولانا کے پاس منصوبے تھے اور ان کو زمین پر اتارنے کے لیے سرمایے کی کمی بھی نہیں تھی، بس ایک معتبر عالم کی ضرور ت تھی جو ڈاکٹر صاحب کی شکل میں مل گیا تھا جن کے پاس ذہانت اور تحقیق کا لازوال سرمایہ تھا۔ انھوں نے ڈاکٹر صاحب کو الدارالسلفیہ کی ڈائرکٹرشپ پیش کرتے ہوئے لکھا کہ ’’ادارہ الدارالسلفیہ، الحمد للہ اب منظم ہوتا جارہا ہے‘‘بمبئی میں اب اس کا ایک بڑا مطبعہ قائم کیاجارہا ہے، ان شا ء اللہ اس ادارہ کا مستقبل روشن ہے۔ میری خواہش ہے کہ آپ ادارہ میں بحیثیت ممبر آف ڈائرکٹرس شریک ہوجائیں اور اپنے ذمہ تصنیف و تالیف کا شعبہ لے لیں۔‘‘(مولانا مختار احمد ندوی کا خط بنام ڈاکٹر عبد العلی ازہری4 ؍جنوری1982) ’’ہم لوگوں نے الدارالسلفیہ کے لیے نئے آفس اور مکتب اور مکتبہ اور مطبعہ کا انتظام کرلیا ہے، آپ کے آتے ہی ہم نہایت تیزی کے ساتھ کام شروع کردیں گے۔‘‘ (مولانا مختار احمد ندوی کا خط بنام ڈاکٹر عبد العلی ازہری17 ؍جون1984) ڈاکٹر صاحب نے الدارالسلفیہ کے ڈائرکٹر کی حیثیت سے ایک نئی اننگ کا آغاز کیا اوراپنی علمی صلاحیت سے ادارے کو اعتبار و وقار عطا کیا لیکن شہر ان کو راس نہیں آیا۔ انھوں ایک خط میں لکھا تھا کہ ’’…میں شروع سے یہ کہا کرتا تھا کہ بمبئی شریفوں کے رہنے کی جگہ نہیں ہے۔‘‘(ڈاکٹر عبد العلی ازہری کا خط مولانا مختار احمد ندوی کے نام4 ؍جنوری 1992)ممبئی کی بہار بہت جلد نذر خزاں ہوگئی، علم و ہنر کا یہ کھیت بادلوں کی بستی میں سوکھنے لگا، ماضی کے وعدے ہوا ہوگئے، نگاہیں بدل گئیں، اعتراف ہنر کی زبانیں گنگ ہوگئیں اور ’’سرمایہ و محنت‘‘ کی کش مکش میں ایک بار پھر محنت کو ہزیمت اٹھانی پڑی،قلم کا مزدور ایک بار پھر موجوں کے تھپیڑے کھا رہا تھااورتلاش معاش کے لیے سرگرداں۔
دے گئے جل مجھے، یاران سیاست مشرب
سادہ لوحی مری، تہذیب وفا میں گم تھی
(فضا ابن فیضی)
(ڈاکٹر صاحب نے آخری سفر ہندستان میں مجھ کودو فائل دیتے ہوئے کہا تھاکہ رکھ لو، شاید کبھی کام آجائے، لکھتے پڑھتے رہتے ہو۔ اس میں کچھ مضامین کے مسودے اورخطوط ہیں، زیادہ تر خطوط الدارا لسلفیہ کے سرپرست کے ہیں جو ڈاکٹر عبدالعلی ازہری کے نام ہیں اوران کادورانیہ 1982تا1993 ہے۔ یہ خطوط توبہت کچھ کہتے ہیں لیکن مجھے لگتا ہے کہ اب ان کے بارے میں کچھ نہ کہنا ہی زیادہ بہتر ہوگا۔)
ڈاکٹر صاحب الدارالسلفیہ سے استعفیٰ دینے کے بعد کچھ مہینے تک ہندستان ہی میں رہے، 1988 میں لندن چلے گئے اورمسلم کالج کے شعبۂ اسلامیات سے وابستہ ہوگئے۔ یہاں کی زندگی اور علمی مصروفیات سے مطمئن تھے جو کالج میں تدریس کے ساتھ ایک حد تک دعو ت و تبلیغ تک محدود ہو کر رہ گئی تھی۔ تحقیق و تعلیق کا سلسلہ دوبارہ شروع نہ ہوسکا، وقفے وقفے سے عربی اور اردو میں مضامین لکھتے رہے۔ برطانیہ کی جمعیت اہل حدیث سے ان کے تعلقات اور نشاطات کے بارے میں میری معلومات کم کم ہیں۔ مولانا عبدالوہاب حجازی نے ڈاکٹر صاحب کا ایک انٹرویو لیاتھا جو ماہ نامہ محدث، بنارس (مارچ1997) میں شائع ہوا تھا جس میں انھوں نے برطانیہ کی جمعیت اور اس کے نشاطات کے بارے میں کچھ صاف صاف باتیں عرض کی تھیں۔ ان کے ایک طویل خط سے بھی جمعیت کے بارے میں ان کے تاثرات کا پتہ چلتا ہے۔ اس خط کا آغاز ہی طنز آمیز جملے سے ہوتا ہے۔ ’’آپ کا مؤقر جریدہ ’’صراط مستقیم‘‘نظر نواز ہوتا رہتا ہے کبھی اکلوتا تو کبھی جڑواں، اللہ تعالیٰ اس کی پیداوار قائم اور دائم رکھے۔ اس مرتبہ سر ورق پر جو اقتباس دیا گیا ہے وہ ’’مولانا سید ابواعلی حسن ندوی‘‘ کا ہے۔ یہ کوئی بہت بڑے عالم ہوں گے، تب ہی تو ان کی تحریرمجلہ کے غلاف کی زینت بنی لیکن بد قسمتی سے مجھے ان کے بارے میں کوئی معلومات نہیں، بہتر ہوگا آپ ان کا تعارف کرادیں۔‘‘(ڈاکٹر عبد العلی کا خط بنام محمد حفیظ اللہ خان مدنی 20 ؍جولائی 2006) ڈاکٹر صاحب کی وفات کے بعد اس وقت کی جمعیت کے ناظم اعلیٰ حافظ حبیب الرحمان نے ان کے بارے میں کہا تھا کہ: ’’ڈاکٹر مرحوم جماعت کے تشکیلی دور کے ابتدائی ساتھیوں میں سے تھے، انھوں نے ہمیشہ مسلک توحید وسنت کی پاسبانی کی، تحریر و تقریر کے ذریعے اللہ کی توحید کے پیغام کو عام کیا۔‘‘(روزنامہ جنگ14 ؍ اکتوبر 2021) جمعیت اہل حدیث (برطانیہ) کے انگریزی میگزین The Straight Path سے وابستگی کا ذکر بھی ایک آدھ لوگوں نے کیا ہے، پر میرے پاس اس کی تفصیل نہیں ہے، اگر جمعیت(برطانیہ)کا کوئی فرد اس گوشے پر اظہار خیال کرتا تو بہتر ہوتا کیونکہ’’ أھل مکۃ أدری بشعابھا‘‘۔
17 ؍دسمبر2010 کو تیونس کے ایک Street vendor طارق الطیب محمد البوعزیزی کی (سیدی بوزید کے ہیڈ کوارٹرس کے سامنے)خود سوزی کی کوشش کے بعد حکومت وقت کے خلاف احتجاج کی جو چنگاری بھڑکی تھی وہ اس کی موت (4؍جنوری2011)کے بعد شعلہ جوالہ بن گئی اور تیونس کے صدر زین العابدین بن علی کو اقتدار چھوڑ کر سعودی عرب میں پناہ لینی پڑی۔ حکومت کے خلاف احتجاج کے اس شعلے نے پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا جس میں لیبیا بھی تھا۔ لیبیا کے تانا شاہ معمر القذافی کے خلاف بھی احتجاج کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا۔ مغرب نے اپنی مجرمانہ استعماری ذہنیت اور اقتصادی مواقع کے تحفظ کے لیے اس آگ کو ہوا دی جس کی وجہ سے احتجاج نے ایک خطر ناک شکل اختیار کر لی۔ عوام کے تحفظ اورقیام امن کے نام پر’’کفن چوروں کی انجمن‘‘(اقبال نے تو یہ جمعیت اقوام کے بارے میں کہا تھا لیکن اقوام متحدہ کا کردار بھی اس سے مختلف نہیں ہے)کے ممبران نے لیبیا پر حملہ کردیا جس میں اس ملک کے بد مزاج تانا شاہ کی عبر ت ناک موت ہوگئی۔ لیبیا خانہ جنگی کا شکار ہوگیا، دود وشرر اور آتش و آہن کے اس سامراجی کھیل کا شکار مسلم کالج بھی ہوگیا اور فنڈ کی کمی کی وجہ سے کالج کو بند کرنا پڑا۔ عالمی، عربی اور اردو پریس میں Arab Spring ’’الربیع العربی‘‘ اور’ ’بہار عرب‘‘ کے نام سے سرخیاں بٹورنے والا فرنگی مقامروں کا یہ کھیل ڈاکٹر صاحب کی زندگی میں خزاں کا ایسا عنوان بن کر آیا کہ اس کو پھر کبھی شادابی میسر نہیں آسکی۔
ڈاکٹر صاحب نے15؍جنوری 2013کو لندن سے فون کیا کہ بڑی بوریت ہورہی ہے، کالج تھا تو درس و تدریس سے رشتہ تھا جس کی وجہ سے علمی نشاط اور سرگرمی رہا کرتی تھی، اب کچھ لکھنے کی طبیعت نہیں کرتی ہے، دل ٹوٹ گیا ہے، گردش مدام سے گھبرا گیا ہوں، ان کے اس جملے میں کرب کی ایک کائنات پوشیدہ تھی۔ پتہ نہیں، وقت کے عظیم اذہان کے ساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ انھوں نے بکھری بکھری شخصیت کو سمیٹ کر پھر لوح و قلم سے رشتہ استوار کیا اور کرب آگیں لمحات کو تصنیف و ترجمہ کی مصروفیت سے پر کرنے کی کوشش کی۔
٭٭٭
ڈاکٹر صاحب تدریس کی مصروفیات کے ساتھ عربی زبان کی کئی ایک کتابوں کی تحقیق، نصوص کی تصحیح اور مراجعے کے ساتھ تصنیف و ترجمہ کے میدان میں بھی جو سرمایہ چھوڑا ہے وہ قابل توجہ ہے۔ ’عروہ بن أذینہ:حیاتہ وشعرہ‘ان کی پہلی کتاب ہے جس کی ترتیب میں علامہ محمود محمد شاکر سے کافی استفادہ کیا تھا۔ یہ کتاب ڈاکٹر صاحب کی تخلیقی صلاحیت اورشعر فہمی کے ساتھ ان کی تحقیقی ژرف نگاہی اور ادبی بصیرت کی ترجمان ہے۔اس کے بعد وہ تدریس کے لیے نائیجیریا چلے گئے اور یونیورسٹی کی ملازمت کے ساتھ تحقیق و تعلیق کے میدان میں قسمت آزمائی کی، اس کے بعد الدارالسلفیہ،ممبئی سے ان کی تحقیق سے کئی کتابیں منظر عام پر آئیں جس نے ان کو ایک محقق کی حیثیت سے متعارف کرایا ۔ ریسرچ کے لیے وہیں ایک علمی شخصیت کا انتخاب کیا تھا جو علوم قرآن میں ایک شناخت رکھتے تھے۔اس دوران عربی کچھ مضامین بھی لکھے۔ ڈاکٹر صاحب کی زندگی میں علمی لحاظ سے اسی کی دہائی کا زمانہ سب سے زرخیز تھا،اس دوران انھوں نے درس و تدیس کے ساتھ تحقیق کے میدان میں قابل قدر کام کیے اور جس نے ان کو عرب دنیا میں ایک محقق کی حیثیت سے متعارف کرایا۔ اس دوران انھوں نے جن کتابوں کی تحقیق کی، ان میں ایک آدھ بیروت اور بقیہ ممبئی سے شائع ہوئیں۔
ڈاکٹر صاحب نے الجامع لشعب الایمان للبیہقی کی چند جلدوں کی تحقیق، نصوص کا مراجعہ اور احادیث کی تخریج کی تھی۔ مذکورہ کتاب پر ان کا مقدمہ دو فصلوں پر مشتمل ہے۔ پہلی فصل میں حافظ ابوبکر احمد بن الحسین البیہقی(384-458ھ)کے سوانحی حالات کو سلیقے سے پیش کرنے کے ساتھ حدیث، علوم حدیث،فقہ، علم کلام اور تصوف میں ان کے مقام و مرتبے کی تعیین کی ہے۔ ان کی تصنیفات کی تعداد کے بارے میں بعض محققین (ڈاکٹر تقی الدین الندوی اور ڈاکٹر ضیاء الرحمان الاعظمی) کی فروگزاشتوں کی طرف اشارہ بھی کیاہے۔ دوسرے حصے میں کتاب کے مشتملات، وجہ تالیف، کتاب کے نسخوں کی تفصیل اورمنہج تحقیق کی تفصیل ہے۔انھوں نے آخری سفرمیں راقم کو بتایا تھا کہ پچھلے دنوں اس کتاب پر اپنامقدمہ پڑھ کر ورطۂ حیرت میں پڑ گیا کہ میں بھی کبھی ایسی عربی لکھا کرتا تھا۔ انھوں نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے چند رسالوں کے نصوص کا مراجعہ اور احادیث کی تخریج بھی کی تھی جس میں ایک ’تفسیر سورۃ النور‘ہے۔ اس کتاب پر انھوں نے ایک مقدمہ بھی لکھا تھا، سولہ صفحات پر مشتمل یہ مقدمہ سورۃ النور کا خلاصہ ہے جس میں انھوں نے اس سورت کے تاریخی پس منظر بیان کرنے کے بعد اس کے مشتملات کی تلخیص پیش کی ہے۔ سورت کے مطالعے سے جو احکامات اور مسائل مستنبط ہورہے ہیں،ان کے بارے میں اظہار خیال ہے۔ یہ مقدمہ قرآنیات میں ان کی مہارت کا بہترین ثبوت ہے۔ انھوں نے نائیجیریا کے معروف عالم دین شیخ عبداللہ بن فودی(1766-1829)کی کتاب الفرائد الجلیلۃ وسائط الفوائد الجمیلۃ فی علوم القرآن(طبع اول: دارالفکر، بیروت 1981)کی بھی تحقیق تھی۔ علوم قرآن کے موضوع پر یہ منظوم کتاب طلبہ کے لیے لکھی گئی تھی تاکہ وہ آسانی کے ساتھ اس کے مباحث کو یاد کرسکیں۔ انھوں نے چالیس صفحات پر مشتمل ایک علمی مقدمہ لکھا تھا جو علوم قرآن کی تعریف اور تاریخ کے ساتھ اس موضوع پر براعظم افریقہ کے علماے کرام کی خدمات کے تعارف پر مشتمل ہے۔ یہ تینوں مقدمے ان کے تحقیقی سفر کی سمت اور رفتار کے بارے میں بہت کچھ کہتے ہیں لیکن افسوس !اس خوش گوار سفر کا اختتام بہت جلد ہوگیا۔
ڈاکٹر صاحب نے مذکورہ بالا کتابوں کے علاوہ عربی کی اور کتابوں کی تحقیق و تخریج کی تھی جن میں شیخ اصبہانی کی ’’کتاب الامثال فی الحدیث النبوی‘‘ اور ’’کتاب أمثال الحدیث‘‘ (القاضی ابی محمد الحسن الرامھرمزی) بھی شامل ہیں لیکن اکثر کتابوں پر مقدمے سرسری ہیں۔ آخرالذکر کتاب پر’’ترجمۃ المؤلف‘‘کے عنوان سے ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری کی ایک مختصر تحریر ہے جس میں انھوں نے ڈاکٹر عبدالعلی ازہری کی غیر معمولی قوت حافظہ،قابل رشک ذہانت، اسلامی علوم کے مراجع و مصادر پر گہری نظر، وسیع معلومات اور تحقیقی صلاحیت کا اعتراف ان الفاظ میں کیا ہے:
’’أما محقق الکتاب الدکتور عبدالعلي فغنی عن التعریف، و أراہ خیر من یقوم بھذا العمل لما یمتاز بہ من الذاکرۃ القویۃ والذھن المتوقد والنظرۃ العمیقۃ والاطلاع الواسع علی المراجع، والذین یتابعون عملہ فی باب الکتابۃ و التحقیق بالدقۃ والتعمق یلمسون براعتہ فی التحقیق والبحث وکفاء تہ في مجال العلم والأدب، نسأل اللہ تعالی لہ التوفیق والسداد، وھو حسبنا و نعم الوکیل۔‘‘(الدارالسلفیۃ، بومبائی، الھند 1983)
ڈاکٹر صاحب کے عربی کے مضامین کی تعداد دودرجن کے آس پاس ہے، زیادہ تر مضامین جامعہ سلفیہ کے عربی مجلے میں شائع ہوئے ہیں اور ان کے بقول ڈاکٹر ازہری کے اصرار پر لکھے گئے تھے۔ ان مضامین کے موضوعات میں ایک حد تک تنوع ہے، شخصیات نگاری اور اسفار کے ساتھ اسلامی تعلیم کی معنویت، دعوت و تعلیم،مستشرقین کی علمی خدمات کا تنقیدی جائزہ جیسے موضوعات ہیں۔ میں نے ایک بار عربی مضامین کو مرتب کر کے شائع کرنے کی اجازت مانگی تھی لیکن انھوں نے سختی سے منع کردیا تھا۔ ’’جہاں تک میرے پرانے مقالات کا سوال ہے، میں نہیں سمجھتا کہ وہ قابل اشاعت ہیں، وہ بہت ہی پرانے ہیں اور اس وقت لکھے گئے تھے جب میں نائیجیریامیں تھا، لندن آنے کے بعد یہ سب سرگرمیاں ختم ہو گئیں اور کچھ نہیں لکھا گیا، سوائے افکار عالیہ میں جو کچھ نشر ہوا ہے، وہ بھی قابل تعریف نہیں، اردو سے تعلق ایک زمانے سے چھوٹ چکا ہے۔ اب تم لوگوں کی تحریر پڑھ کر لطف اٹھاتا ہوں۔‘‘ (راقم کے نام ڈاکٹر عبد العلی ازہری کا ای میل تاریخ:13 اپریل 2013)
ماہ نامہ محدث (بنارس)اور سہ ماہی افکار عالیہ (مئو ناتھ بھنجن)میں مطبوعہ مضامین کی تعداددودرجن ہیں جن میں زیادہ تر مضامین اساتذہ،احباب اور کرم فرما کی وفات پر لکھے گئے تھے۔ یہ مضامین اسلوب کے لحاظ سے کافی اہم ہیں، ان کی شخصیات نگاری کا اسلوب حقیقت نگاری اور واقعیت پسندی سے عبارت تھا، مبالغہ آرائی اور نری مدح سرائی نہیں تھی، وہ اس انداز سے شخصیت کا سراپا پیش کر دیتے تھے کہ ایسا محسوس ہوتا تھا وہ قارئین کے سامنے حاضر ہے۔شخصیات پر ان کا سب سے طویل مضمون ڈاکٹر ازہری پر ہے جس کے مطالعے سے ان کے اسلوب کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ کچھ مضامین میں ذاتی اسفار کی داستان ہے۔ سفر اسپین کی کہانی دلچسپ ہے۔ مجلہ تہذیب (انجمن تہذیب البیان جامعہ عالیہ عربیہ، مئو ناتھ بھنجن) میں ’’لندن نامہ‘‘ کے عنوان سے ایک طویل مضمون چھپا تھا جو برطانیہ میں اسلام اور مسلمان کے بارے میں ان کے تاثرات پر مشتمل ہے۔ اسی طرح ’’برطانیہ میں مسلمان ‘‘اور’’برطانیہ میں رمضان‘‘جیسے مضامین موجود ہیں جن میں ان کی عمیق قوت مشاہدہ، تجزیاتی صلاحیت اور تخلیقیت کی چاندنی چھٹکی نظر آتی ہے۔
کالج بند ہوجانے کے بعد، ڈاکٹر صاحب نے فرصت کے ایام کا بہترین استعمال کرنے کے بارے میں سوچا، تحقیق و تصنیف کے میدان میں تو ان کی صلاحیت کے نمونے سامنے آچکے تھے، اب انھوں نے ترجمہ نگاری کی طرف توجہ دی اور علامہ ابن القیم کی کتابوں کو انگریزی قالب عطا کرنے کا سلسلہ شروع کیا:’’بے کاری سے بچنے کے لیے انگریزی میں ترجمہ کا کام شروع کردیا ہے اور نظر انتخاب ابن القیم کی کتابوں پر پڑی، حافظ صاحب مرحوم [ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری]حیات ہوتے تو ان سے تشجیع ملتی، میں عدۃ الصابرین، اغاثۃ اللہفان، التوبہ کی فصل مدارج السالکین سے نکال کر، حادی الأرواح، الداء والدواء کا ترجمہ کرچکا ہوں، کچھ چھپ چکی ہیں اور کچھ پریس میں ہیں، چونکہ طباعت کا کام بہت سستی کے ساتھ ہورہا ہے، اسی لیے میں بھی سست ہوگیا ہوں، آج کل کوئی کام نہیں کررہا ہوں۔ اللہ مدد فرمائے۔‘‘(ڈاکٹر ازہری کا ای میل بنام راقم 13 ؍اپریل 2017)
ڈاکٹر صاحب کے اب تک کے علمی سفر میں اسلامی تراث کی تحقیق و تعلیق کو ترجیحی حیثیت حاصل تھی، لندن پہنچنے کے بعد بھی اس سفر کو جاری رکھنے کی خواہش تھی اور خواب بھی، مجھے یاد آریا ہے کہ ایک بار انھوں نے امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ’’المؤطا‘‘ کی تحقیق کے متعلق کچھ کہا تھا اور اس کا پروجیکٹ تیار کر کے کسی ادارے کے پاس بھیجا تھا لیکن اس میں کیا پیش رفت ہوئی، معلوم نہیں۔انھوں نے قیام لندن کے آخری ایام میں ترجمہ نگاری کی طرف بھی توجہ دی۔میرے خیال سے ان کو اس کی طرف اور پہلے توجہ دینے کی ضرورت تھی۔ ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری کی خواہش بلکہ اصرار تھا کہ انگریزی میں اسلامی لٹریچر کی ترتیب و اشاعت کا جو خاکہ جامعہ سلفیہ کے پاس ہے، اس میں رنگ بھرنے کی کوشش کریں لیکن یہ بیل منڈھے نہیں چڑھ سکی۔بہر حال،عمر کے آخری مرحلے میں انھوں نے عربی کی کچھ کتابوں کو انگریزی قالب عطا کر کے اپنے علمی سفر کو مزید بوقلموں اور رنگا رنگ بنادیا۔ انھوں نے امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ کی ’’الأدب المفرد‘‘کا ترجمہ’’MORAL TEACHING OF ISLAM ‘‘کے نام سے کیا تھا۔ اس کے بعد علامہ ابن القیم رحمہ اللہ تعالیٰ کی کتابوں کا انگریزی میں ترجمہ کیااور تمام کتابیں چھپ چکی ہیں، بدقسمتی سے میں ان کتابوں کے مطالعے سے محروم ہوں، اس لیے ان کی ترجمہ نگاری کے بارے میں کوئی رائے دینا غیر مناسب سمجھتا ہوں ۔ کچھ کتابوں کے ٹائٹل ملاحظہ فرمائیں:
TAWBAH:TURNING TO ALLAH IN REPENTANCE٭
LIFE: ITS SIGNIFICANCE AND LEVELS٭
SUPPORTING THE DISTRESSED AGAINST THE TRICKS OF SATAN٭
٭٭٭
ڈاکٹر صاحب نے اپنے تعلیمی سفر کا آغاز بنکروں کی ایک بستی مئو ناتھ بھنجن سے کیا تھا۔ دینیات اور ادبیات کی بنیادی تعلیم مئو اور بنارس کے مدارس کی دین ہے اور وہ اس کا برملا اعتراف بھی کرتے تھے۔ دکتورۃ سھیر قلماوی (قاہرہ یونیورسٹی)نے ایک شعر پڑھا اور کہا کہ اس کی تقطیع کیجیے، ڈاکٹر صاحب نے شعر مکمل ہونے سے قبل ہی تقطیع شروع کردی تو انھوں فرط حیرت سے پوچھا کہ علم عروض کی تعلیم کہاں سے حاصل کی ہے؟ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ ایک مدرسے کے مولوی سے، تو ان کی حیرت میں مزید اضافہ ہوگیا۔ قاہرہ کے علمی اور ثقافتی ماحول نے ان کی فکر کو وسعت عطا کی تھی، ازہر،قاہرہ یونیورسٹی اور امیریکن یونیورسٹی کے اساتذہ کی صحبت نے اسلامی علوم و ثقافت کے نئے نئے گوشے وا کرنے کے ساتھ دانش مغرب سے بھی روبرو کرادیا تھا۔ ریڈیو کی ملازمت نے صحافت کا اصول سکھانے کے ساتھ سیاسی حرکیات سے بھی متعارف کرادیا تھا۔ عربی اور انگریزی میں مہارت بھی اسی شہر کی دین ہے، تحقیقی اور تخلیقی سفرکا آغاز بھی قاہرہ سے ہوا تھا جس کی اکلوتی یاد گار عروہ بن اذینہ پر ان کی کتاب ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے نائیجیریا میں درس و تدریس کے ساتھ لوح و قلم سے بھی تعلق رکھا بلکہ قاہرہ کے مقابلے میں یہ تعلق کچھ زیادہ ہی مضبوط رہا، جس کو ان کے تحقیقی و تخلیقی سفر کا دوسرا مرحلہ کہا جاسکتا ہے۔ ان کی پی ایچ ڈی کی تھیسیس ’’دراسۃ تفسیر ضیاء التاویل فی معانی التنزیل‘‘یہیں لکھی گئی تھی، حذف و اضافے کے بعد اس کو طباعت کے لیے بیروت بھیجا تھا لیکن بیروت کی خانہ جنگی میں یہ مسودہ ہی ضائع ہوگیا، بڑے افسوس کے ساتھ اس علمی زیاں کا اظہار کیا کرتے تھے۔ اس کے ساتھ علوم القرآن اور امثال الحدیث پر ایک دو کتابوں کی تحقیق و تعلیق کے نمونے بھی اسی عہد کی یادگار ہیں۔ اسی دوران عربی میں چند اچھے مقالات بھی لکھے جو جامعہ سلفیہ، بنارس کے عربی مجلے میں شائع ہوئے۔ نائیجیریا کی نگارشات میں قرآنیات سے اشتغال زیادہ نظر آتا ہے،ہاں، حدیث کی کتابوں کی تحقیق و تعلیق کی طرف بھی توجہ ہے۔
ڈاکٹر صاحب کے تحقیقی سفر میں قیام ممبئی کوسب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے، یہیں پر پہلی بار یکسو ہو کر تحقیق و تعلیق کے میدان میں کام کرنے کا موقع ملا اور اس عہد کا سب سے اہم کارنامہ’’الجامع لشعب الایمان‘‘کی تحقیق ہے۔ یہاں کی علمی خدمات میں حدیث کی دیگر کتابوں کی تصحیح اور تعلیق کے ساتھ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے کچھ رسائل (جو تفسیر قرآن سے متعلق ہیں)قابل ذکر ہیں۔ مجموعی طور پر ممبئی کے تحقیقی سفر میں کتب احادیث سے اشتغال زیادہ نظر آتا ہے۔ ممبئی کی علمی مصروفیات نائیجیریا کا توسعہ ہیں بلکہ نقطۂ عروج ہیں۔ ان کے بقول اس شہر کے تجربات بہت تلخ رہے لیکن علمی لحاظ سے یہی مختصر مرحلہ ان کے لیے سب سے بابرکت اوربا ثمر ثابت ہوا۔ میرا اندازہ ہے اور محض اندازہ کہ اگر قیام ممبئی طویل ہوتا، فراغت نصیب ہوتی اور وسائل بھی میسر ہوتے تو اسلاف کی علمی تراث کی تحقیق و تعلیق اور جدید اشاعت کے قابل فخر نمونے منظر عام پر آتے اور ہند۔ اسلامی ادبیات کا دامن مالا مال ہوجاتا۔افسوس صد افسوس! تحقیق و تخلیق کے جس پھول کو’’ناز عروساں‘‘ ہونا چاہیے تھا، اس کو ماحول کی سنگینی اور آشوبناکی نے ’’مزار کا پھول‘‘بنا کر رکھ دیا۔
ڈاکٹر صاحب کی علمی زندگی کی آخری منزل قیام لندن ہے جو زمانی لحاظ (1988-2021) سے سب سے طویل تو ہے لیکن ماضی کی علمی خدمات کا توسعہ نہیں بلکہ یہاں پر وہ بالکل نئے روپ میں علمی دنیا کے سامنے نظر آتے ہیں۔اسلاف کی علمی تراث کی نشرواشاعت تو برقرار رہی لیکن تحقیق و تخلیق نہیں ترجمہ نگاری کے روپ میں اوراس کے لیے امام بخاری اور علامہ ابن القیم رحمہما اللہ تعالی کی کتابوں کا انتخاب کیا اور انگریزی زبان میں بھی علمی یادگار چھوڑی۔اس مرحلے کا ایک اور کارنامہ اردو میں مضمون نگاری ہے۔ یہ مضامین متنوع ہیں اور ان کی تخلیقی قوت کی شہادت دیتے ہیں۔شخصیات نگاری اور سفرنامے پر ان کی مختصر اور مطول نگارشات پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں جو زبان اور اسلوب کی سادگی، روانی اوردل کشی کے لحاظ سے لاجواب ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کے تحقیقی سفر کا آغاز تو ادبیات سے ہواتھا لیکن انھوں نے جلد ہی عنان قلم اسلامی تراث کی تحقیق و تعلیق کی طرف موڑ دی۔دینیات میں ان کے جو تحقیقی کارنامے منظر عام پر آچکے ہیں، ان میں قرآنیات پر کافی مواد ہے جو ان کے علم کی وسعت اور گہرائی کی شہادت دیتا ہے۔کتب احادیث کی تحقیق و تعلیق میں ان کی مہارت کا اعتراف ایک عالم کو ہے اور ان کے بقول علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ تعالی نے پہلے ہی ملاقات میں ان کے جوہر ذاتی کا اندازہ لگالیا تھا۔تحقیق و تعلیق کے بعد جب انگریزی ترجمہ نگاری کی طرف توجہ دی تو یہاں بھی ایسی ہی کتابوں کا انتخاب کیا جو مسلک سلف کی ترجمان ہیں۔ان کی نگارشات سے ان کی فکر کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ لیکن قدرت کی طرف سے ان کو قابل رشک ذہانت، خدادادصلاحیت، دینیات وادبیات میں عالمانہ مہارت، اردو، عربی اور انگریزی تینوں زبانوں پر یکساں قدرت اور فارسی کی واجبی صلاحیت کا جو عطیہ ملا تھا اس کو دیکھتے ہوئے یہ احساس ہوتا ہے کہ سینے کا علم سفینے میں نہیں آسکا۔یہ ڈاکٹر صاحب کی متنوع علمی خدمات کا ایک سرسری تجزیہ ہے، اس پر تفصیل سے لکھنے کے لیے ان کی کتابوں اور مقالات کا تنقیدی مطالعہ ضرور ی ہے،مجھے امید ہے کہ اہل علم اس کی طرف توجہ دیں گے، ان شاء اللہ۔
٭٭٭
ڈاکٹر صاحب کی علمی زندگی کا ایک گوشہ کانفرنس؍سیمینار میں شرکت ہے،انھوں نے بہت زیادہ کانفرنسوں میں شرکت تو نہیں کی لیکن ان کے حیات نامے میں جدہ، جرمنی اورپیرس میں ہونے والی عالمی کانفرنسوں میں مقالہ پیش کرنے کی تفصیل موجود ہے۔ انھوں نے نائیجریا میں خود ایک کانفرنس کا انعقاد کیا تھا۔ہندستان میں ہونے والی کچھ علمی تقریبات میں بھی ان کی شرکت رہی ہے،جیسے ائمۂ مساجد کانفرنس (مئو ناتھ بھنجن1985)میں’’مساجد :اسلامی سوسائٹی کا مرکزی مقام‘‘جامعہ سلفیہ، بنارس کے دو سیمینار ’’اسلامی علوم میں ہندستانی مسلمانوں کا حصہ‘‘( اپریل 1986) میں ’’الشیخ المحدث عبد الرحمان المبارکفوری وکتا بہ تحفۃ الاحوذی‘‘علامہ ابن تیمیہ عالمی سیمینار( 1987 ) میں’’العلامۃ ابن تیمیۃ ومعارضوہ‘‘ کے عنوان سے مقالہ پیش کیا تھا۔دونوں مقالات جامعہ کی طرف سے شائع ہونے والے مجموعۂ مقالات میں شامل ہیں۔
٭٭٭
ڈاکٹر صاحب کی تدریسی زندگی کا آغاز جامعہ اسلامیہ فیض عام سے ہوا تھا جو بہت ہی مختصر رہا، اس عہد کے ایک شاگرد ڈاکٹر محفوظ زین اللہ سلفی کا ذکر کیا کرتے تھے۔ نائیجیریا میں ایک دہائی سے زیادہ مدت تک درس و تدریس سے تعلق رہا لیکن اس عہد کی تدریسی زندگی کے بارے میں ابھی تک اتنا ہی معلوم ہے کہ وہ شعبۂ اسلامیات سے وابستہ تھے اور ان کے زیر درس قرآن اور حدیث اسٹڈیز کے مواد تھے۔ مسلم کالج لندن میں تدریس کا دورانیہ کچھ کم تین دہائی پر مشتمل ہے لیکن یہاں کے بارے میں بھی معلومات دستیاب نہیں ہے۔ ہمارے دوست ڈاکٹر حماداحمد نے مسلم کالج سے اسلامیات میں ایم اے کیا ہے، وہ ڈاکٹر صاحب کے شاگرد ہیں لیکن اب ان کی مصروفیات بالکل الگ ہیں،اس لیے وہ بھی اس سمت میں رہ نمائی نہیں کرسکتے ہیں۔ کوئی شاگرد ان کے تدریس کے اسلوب اور خصوصیات پر روشنی ڈالے تو ان کی علمی زندگی کا ایک اور گوشہ سامنے آسکتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کا ایک پہلو خطابت سے عبارت ہے، وہ مقرر کم محاضر زیادہ تھے، ان کا انداز خطابت جوشیلا اور جذباتی نہیں، اس میں ایک ٹھہراؤ اور آہستہ خرامی ہوا کرتی تھی۔ سامعین اور مقام کی رعایت،سادہ، عام فہم مگر دل کش اسلوب سے سامعین کا دل موہ لیتے تھے۔ان کے خطابات اور خطبات کلموا الناس علی قدر عقولھم کی عملی تفسیر ہوا کرتے تھے۔ جمعہ اور عیدین کے خطبے تو کئی بار سننے کا موقع ملا،عام اجلاس میں بھی سنا، لیکن ایک تقریر کے الفاظ ابھی تک کانوں میں رس گھول رہے ہیں۔ عالیہ جنرل اسپتال(مرحوم) کے افتتاح کی تقریب تھی، وہ مجلس استقبالیہ کے صدر کی حیثیت سے ہم کلام تھے،صحت اور اسپتال کی ضرورت و اہمیت پر شستہ انداز میں تقریر کر رہے تھے اور ’’از دل خیزد بر دل ریزد‘‘ کی کیفیت تھی۔ پوری تقریر یادگاری جریدہ(مرتب مجاز اعظمی)میں پڑھی جا سکتی ہے۔
ڈاکٹر صاحب کی خطابت کا ایک اور اسٹیج ہوا کرتا تھا مجلس ندائے وقت(مئو ناتھ بھنجن)، اس مجلس نے مئو کی سطح پر منشیات استعمال کے خلاف اور دیگر سماجی مسائل کے تئیں جو بیداری پیدا کی ہے، اس میں ڈاکٹر صاحب کی تقریروں کا بھی حصہ ہے۔ ارباب مجلس ان کی آمد پر ایک آدھ پروگرام ضرور رکھتے تھے اوروہ اس میں شریک بھی ہوتے تھے۔ غالباً2011 کی بات ہے، دہلی میں ملاقات ہوئی، میں چاؤ سے قیام مئو کی تفصیل پوچھ رہا تھا، وہ کچھ برہم اور اکھڑے اکھڑے نظر آئے، اپنے مخصوص انداز اور الفاظ میں کچھ لوگوں کو ہدف تنقید بھی بنایا اورکہاکہ لوگ خود ستائی کے لیے مجلس کا استعمال کرنے لگے ہیں اور مجلس کے مقاصد کو پس پشت ڈال رہے ہیں۔ ایک صاحب سے کچھ زیادہ ہی نارض تھے۔ناراضی کا سبب جاننا چاہا تو فرمایا کہ مجلس کے پروگرام میں انھوں نے اپنی کتاب کے رسم اجرا کی تقریب رکھ دی، چلو یہاں تک تو غنیمت ہے اس کے بعد خود ہی ’’اچھڑ اچھڑ‘‘ کراپنی کتاب کی تعریف کر رہے تھے۔ میں نے لقمہ دیا،ماموں،تحسین ناشناس کے اس دور میں یہ خود ستائی اتنی بری بات نہیں رہ گئی ہے۔
٭٭٭
ڈاکٹر صاحب صرف حرف وہنر اور دانش کے پیکر نہیں بلکہ اخلاق و کردار کے لحاظ سے بھی ایک ممتاز اور بے مثال انسان تھے۔علم اور اخلاق میں ذرا کم نبھتی ہے لیکن انھوں نے اپنے حسن اخلاق اور کردار سے اس پرسیپشن کو پاش پاش کردیا تھا۔ وہ ایک مخلص، درد مند اور بے لوث انسان تھے، مفاد و مصلحت سے کوئی ناطہ نہیں تھا، احباب اور اقربا سب کے ساتھ اخلاص اور اعتبار کا رشتہ قائم رکھا اور اس کو سلیقے سے نبھایا بھی،اس راہ میں تلخ تجربات بھی ہوئے لیکن انھوں نے اپنا معاملہ اللہ کے حوالے کردیاتھا۔ وہ پرلے درجے کے کھرے انسان تھے، میرا اندازہ ہے کہ ان کی مشکلات (نائیجیریا اور ممبئی) کا راز ان کی دیانت داری،اخلاص اور صاف گوئی میں چھپا ہے۔ ان کی شخصیت میں اخلاص اور انکسار تھا،ایک عالم ان کی ذہانت اور صلاحیت کا معترف تھا۔ان کی حیرت انگیز ذہانت،محیر العقول صلاحیت اور غزارت علمی کے باوجود ان کی کسر نفسی اورسراپا انکسار شخصیت کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ اقدار اعلی اور روایات وہ سانچے ٹوٹ چکے ہیںجن میں ان کی شخصیت اور سیرت ڈھلی تھی، نہ کوئی ہمہمہ، نہ کوئی طنطنہ، نہ علمی فتوحات کے قصے۔ ہم لوگ دوچار مضمون لکھ کر اترانے لگتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ارے میں نے تو لکھ دیا ہے۔ ان کی شخصیت میں شور دریا نہیں، سمندر کا سکوت تھا۔ سادگی(سادہ لوحی نہیں)تو اتنی کہ عام سے عام آدمی کو بھی ان سے بات کرنے میں کوئی تکلف اور تردد نہیں ہوا کرتا تھا، مئو کی مقامی بولی میں بات کرنے کو ترجیح دیتے تھے، جس کی وجہ سے اجنبیت کا احساس نہیں ہوتا تھا۔ مقامی بولی کے ساتھ مئو کے قومی لباس ’لنگی‘سے بھی کوئی پرہیز نہیں تھا بلکہ کبھی کبھی کسی تقریب میں بھی لنگی کرتا اور ٹوپی کے ساتھ شریک ہوجاتے تھے۔ ایک بار تو ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری نے ان کو اس بات پر ٹوکابھی تھا۔ ڈاکٹر صاحب ذات کے خول میں بند نہیں تھے، اپنی علمیت کی کہانی سے رعب نہیں ڈالتے تھے، ہٹو بچو کے کلچر سے بہت ہی دور تھے، خود ستائی سے بچتے تھے اورخوشامد پسند بھی نہیں تھے، کبھی کبھی ان کی ذہانت کا قصہ چھیڑ دیتا تو ہنس کر موضوع بد ل دیتے تھے۔طلبہ کی حوصلہ افزائی اور رہ نمائی میں فیاضی سے کام لیتے تھے، دہلی میں مقیم مئو کے طلبہ کے ساتھ وقت گزارتے تھے، ان کی دعوت قبول کرتے تھے اور ان کو بھی دعوت دیتے تھے، ان کو بولنے اور اظہار رائے کا پورا موقع دیتے تھے، ان کی باتوں کوغور سے سنتے تھے، مناسب مشورے دیتے تھے۔ رشتے داروں اور اقربا کا خاص خیال رکھتے تھے، ان میں ایسے بھی لوگ ہیں جن کی ہستی کا دیا، ان کے شعلے سے روشن ہے، نہیں تو وہ اماوس کی رات ہو گئے ہوتے۔ لیکن تھے تو بہرحال ایک انسان اور انسان میں خوبیاں ہوتی ہیں اور خامیاں بھی،ہمیں خوبیوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے اور ان کو اپنا کر اپنا مقدر سنو ارنے پر توجہ دینا چاہیے۔ مرحوم کی شخصیت کی خوبیوں کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے، وہ میرے ذاتی تاثرات ہیں،شخصیت کا تزکیہ نہیں ہے۔ یہاں پر غیر مرتب انداز میں متعدد واقعات اور مشاہدات پیش کیے جارہے ہیں، جن کے مطالعے سے ڈاکٹر صاحب کی شخصیت اور سیرت کی خوبیوں کے ساتھ کچھ کم زور گوشے بھی چھن چھن کر سامنے آرہے ہیں۔
٭ڈاکٹر عبد العلی اپنے اساتذہ کا غیرمعمولی احترام کرتے تھے،انھوں نے اپنے بعض اساتذہ کی وفات پر جو مضامین لکھے تھے ان میں احترام و عقیدت کی خوش بو موجود ہے۔ مولانا عبدالمعید بنارسی، مولانا فضل الرحمان عمری اور مولانا عبدالوحید رحمانی رحمہم اللہ تعالیٰ پر ان کے مضامین کا مطالعے کرنے سے اس کا اندازہ ہوتا ہے۔ بزرگوں میں مولانا محمد احمد رحمہ اللہ تعالیٰ (ناظم جامعہ اسلامیہ فیض عام)کی شفقت اور انتظامی صلاحیت سے متاثر تھے اوران کے احسانات کی جی کھول کر تعریف کرتے تھے۔ شیخ الحدیث علامہ عبید اللہ مبارک پوری رحمہ اللہ تعالی کی غزارت علمی کے قائل اور ان کی اخلاقی عظمت کے گرویدہ اور مولانا عبدالوحید سلفی رحمہ اللہ تعالیٰ (سابق ناظم جامعہ سلفیہ)کے حسن انتظام اوراجلے کردار کے معترف۔ ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری رحمہ اللہ تعالی سے ان کے تعلقات کی نوعیت اور باہمی احترام و مودت کے جذبات ان کے طویل مضمون ’’میرے دیرینہ ساتھی مخلص رہ نما‘‘(مجلہ افکار عالیہ ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری نمبر 2012-13)میں ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں۔ مولانا محمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ(جامعہ عالیہ عربیہ، مئو ناتھ بھنجن)کا تو بہت زیادہ احترام کرتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کی خواہش تھی کہ مولانا لندن کا سفر کریں اور اس کے لیے کافی کوشش بھی کی لیکن کامیابی نہیں مل سکی۔ مولانا محمد صاحب،مئو کے ایک عالم دین کی کتاب پر مقدمہ لکھوانا چاہتے تھے، ڈاکٹر صاحب راضی نہیں تھے اور مولانا بضد۔ انھوں نے اس پورے واقعے کی تفصیل مجھ کو میل کی تھی جو طویل ہے، اس کا ضروری حصہ ملاحظہ فرمائیں:’’…جب میں نے مولانا محمد کو فون کیا تو انھوں نے بتایاکہ میرے نام سے تقدیم لکھ چکے ہیں، پھر مجھ کو پڑھ کر سنایا۔ میں نے کہا کہ آپ اپنے نام سے کیوں نہیں چھاپتے؟ بہر صورت، یہ صورت حال ہے اس تقدیم کی۔ مولانا میرے استاذ ہیں ان کا احترام ضروری ہے، اس بات کا زیادہ چرچا نہ کرنا۔ ہاں،یہ ضرور کہہ دینا، جب کبھی بات نکلی تو کہ یہ عبدالعلی کی تحریر نہیں لگتی کسی اور کا کام ہے۔‘‘(راقم کے نام ڈاکٹر عبد العلی کا ای میل، تاریخ: 19؍اپریل2013)
٭ ڈاکٹر صاحب اپنے ماموں زاد بھائی(ڈاکٹر نورالحسن انصاری)کے ساتھ مصری سفارت خانے(دہلی) گئے، ملحق ثقافی کے عربی سوالات کو مکمل طور پر نہ سمجھ پانے کی وجہ سے ڈاکٹر انصاری نے ان کو ڈانٹا تھا۔اس واقعے کو بار بار سناتے تھے۔ امریکن یونیورسٹی(قاہرہ)کے انگریزی کے ٹسٹ میں پہلی بار مطلوبہ نمبر نہ ملنے کے واقعے کو بھی سنایاکرتے تھے، جب کہ ان کی ذہانت کے قصے مشہور تھے، وہ چاہتے تھے تو اس کو رنگ و روغن کے ساتھ پیش کر سکتے تھے۔
٭عزیزم فرحان انصاری نے ڈاکٹر ازہری کے عربی مقالات کو ’’صور من نشاط المدارس الاسلامیۃ فی الھند‘‘(مکتبہ الفہیم مئو ناتھ بھنجن 2018)کے نام سے ترتیب دیا تو ڈاکٹر صاحب نے میری خواہش پر مقدمہ لکھا اور مقدمے میں صراحت کے ساتھ اپنی کمی کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا کہ:
’’مجھے افسوس ہے کہ میں نے مقدمہ لکھنے میں تاخیر کردی، در حقیقت آج کل میں کچھ اور کاموں میں لگا ہوں اور دن یہاں پر اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ پتہ نہیں لگتا۔ بہرصورت جو کچھ ہوسکا ہے، میں بھیج رہا ہوں، مگر مجھے محسوس ہواکہ میری عربی لکھنے کی صلاحیت دم توڑ رہی ہے۔اسی لیے اس مقدمے کو کسی ایسے آدمی کو دکھا دینا جس کا تعلق عربی زبان و ادب سے ہے۔ میرا تو کانٹکٹ اس سے ختم ہوگیا ہے بلکہ اب اردو میں بھی لکھنے میں مشکل نظر آتی ہے۔‘‘(راقم کے نام ڈاکٹر عبد العلی ازہری کا ای میل تاریخ:3؍جنوری 2015)
٭لیجیے ایک اور تقریب یاد آگئی، جامعہ عالیہ عربیہ میں ان کا خطاب تھا،اس زمانے میں ان کے لڑکے (حماد احمد)کو بھی دعوت و تبلیغ کا شوق ہواکرتا تھا، اسی جذبۂ صادق سے وہ مئو کے نوجوانوں سے بھی ہم کلام ہونا چاہتے تھے، پر، وسیلۂ اظہار انگریزی زبان تھی، اس لیے ان کی تقریر کو اردو میں منتقل کرنے کے لیے ایک عددمترجم کی ضرورت پیش آئی اور قرعۂ فال اس کم سواد کے نام نکلا۔ راقم نے جیسے تیسے ترجمانی تو کردی کہ ڈاکٹر صاحب کے علاوہ یہاں انگریزی کون سمجھتا ہو گا؟ انگریزی تقریر کے متن کا ایک اہم حصہ مشہور فرنچ ڈاکٹر اور مصنفMaurice Bucaille (1920-1998)کی معروف کتاب The Bible, The Qura’an and Science کے مشتملات کے بارے میں تھا جو میری ناسمجھی کی وجہ سے اردو ترجمے میں نہیں آپایاتھا۔ ڈاکٹر صاحب نے مجلس کے آخر میں اس غلطی پر کچھ اس انداز سے تبصرہ کیا کہ سامعین تک بات پہنچ گئی اورمترجم کی سبکی بھی نہیں ہوئی۔
٭مجاز صاحب پر میرا ایک مضمون (ماہ نامہ التبیان،نئی دہلی )میں چھپا تھا، جس کو مئو کے ایک مولانا… نے بالکل بھونڈے انداز میں نقل کرکے (مجلہ افکار عالیہ، مئو ناتھ بھنجن میں)اپنے نام سے چھپوالیا تھا، جس سے میں دل گیر تھا۔ دہلی کی ایک ملاقات میں، میں نے ڈاکٹر صاحب کے سامنے دل کی بھڑاس نکالی، انھوں نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ ’’اس لائق تھا، تب نا نقل کیا، کسی اور کا کیوں نہیں نقل کیا‘‘، میں ان کی بات سے مطمئن نہیں ہوا، میں نے کہا، ماموں، تکلیف ہوتی ہے، لیکن انھوں نے میری شکایت کو ہلکے انداز میں لیا اور فرمایا کہ ’’مذکورہ مولانا کا ایک مضمون (عبد الرزاق اور ان کی المصنف پر)صوت الأمۃ، بنارس میں چھپا تھا، تمھارے ماموں (ڈاکٹرازہری) کو کسی نے متحدہ عرب امارات سے لکھا کہ یہ مضمون تو میرا ہے۔ ڈاکٹر ازہری نے اصل مضمون نگار سے معذرت کر کے اس بات کو یہیں پر ختم کردیا اور مذکورہ مولانا کا مضمون چھاپنے میں محتاط ہوگئے۔ انھوں نے مذکورہ مولانا کے بارے میں مزید کچھ نہیں کہا، جب کہ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ اس موضوع پر ان کی زنبیل میں اچھا خاصا مواد موجود تھا، اس کے بعد میں بھی اس واقعے کو بھول گیا اور آج اس لیے یاد دلا رہاہوں کہ ہم لوگ ایسے موقعے کی تلاش میں رہتے ہیں تا کہ کسی کی پگڑی اچھال کر تسکین کا سامان حاصل کرسکیں۔
٭ ڈاکٹر صاحب مئو کے تھے اور مئو ہی کے ہوکر رہے، قاہرہ، نائیجیریا اور لندن میں زندگی گزارنے کے بعد بھی ان کے اندر مئو بستا تھا۔ شہر میں ہوتے تو ان کی ہیئت اور حلیے کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ پردیسی نہیں ہیں۔ لیکن وہ شہر اور اہالیان شہر کے نادان دوست نہیں تھے بلکہ ان کو خود احتسابی سکھا تے تھے اور مثبت تبدیلی کے لیے تیار رہنے کی ہدایت کرتے تھے۔ ان کی ذاتی گفتگو میں شہر اور شہری دونوں کے حوالے سے تنقیدی تبصرے ہوا کرتے تھے، ان کی باتوں میں مئو کے اصحاب ثروت پر طنز بھی جھلکتا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ دولت کی فراوانی کے باوجود تعلیم پر توجہ اور طلبہ کے تعاون کا جذبہ ذرا کم ہے،ہوسکتا ہے ان کے اس تاثر کا کوئی مخصوص پس منظر ہو۔ میرے خیال میں یہ آدھا سچ ہے، مئو کے ارباب ثروت میں تعاون کا جذبہ ہے، طلبہ کے لیے نرم گوشہ بھی ہے، ان کے مسائل سے دل چسپی اور ان کے حل کے لیے عملی کوشش کی بھی کمی نہیں ہے، بس ذرا سلیقے کی کمی ہے جس کی وجہ سے اچھا بھلا کام تلپٹ ہوجاتا ہے۔شہر کے ماحول، طرززندگی اورشہری سہولیات میں پیچیدگی پر ان کے تبصرے بہت تیکھے ہوا کرتے تھے اور اس کا اظہار کرنے میں مقام و محل کی رعایت کم کم کرتے تھے۔ انھوں نے ایک تقریب میں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ (مئو) کی موجودگی میں شہرکےنظم ونسق اور عوامی سہولت کا موازنہ لندن سے کردیا جو کسی طرح بھی مناسب نہیں تھا، صاحب جی کو یہ بات لگ گئی اور اپنے بھاشن میں مئو اور ملک کے مثبت گوشوں پر بھی کچھ عرض کرنے کا مشورہ دے ڈالا۔
٭ڈاکٹر صاحب ناراض بھی ہوتے تھے اور کبھی کبھی غصہ اتنا شدید ہوجاتا تھا کہ پبلک میں بھی اظہار کردیتے تھے لیکن ان کا غصہ سطح آب پر حباب کی مانند ہوا کرتا تھا۔ میں نے ان سے داد پائی ہے اورانھوں نے ڈانٹ بھی پلائی ہے۔ ڈاکٹرمقتدی حسن ازہری پر سیمینار کا منصوبہ ناکام ہوجانے کے بعد موصول ہونے والے مقالات اور کچھ پرانے مقالات کو ترتیب دے کر کتابی شکل میں منظر عام پر لانے کا پروگرام بنا، جس میں ان کی رائے،رضامندی اور مشورہ شامل تھا لیکن اس کی اشاعت میں غیر معمولی تاخیر ہوتی گئی اور ’’ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا‘‘اور کتاب کو لندن بھیجنے میں مزید وقت لگ گیا جس کی وجہ سے وہ کچھ زیادہ ہی ناراض ہوگئے جس کی جھلک اس طنز آمیز ای میل میں دیکھی جاسکتی ہے۔ ’’بڑی خوشی کی بات ہے کہ اس الیکٹرونک پیریڈ میں تم لوگ گدھا گاڑی کی رفتار سے چل رہے ہو، بہرصورت رفتار جاری ہے، یہی خوشی کی بات ہے۔ میرے بھائی حافظ عبد الحی سلمہ مئی کے شروع میں لندن آرہے ہیں، کامل یا عمار کو کتاب پہنچادو، مجھ تک پہنچ جائے گی، ان شاء اللہ۔‘‘(راقم کے نام ڈاکٹر عبد العلی کا ای میل13 ؍اپریل 2017) کتاب موصول ہونے کے بعد ان کا غصہ فرو ہوچکا تھا اور شفقت و اپنائیت کا وہی پرانا انداز واپس آچکا تھا۔ ـ’’تمھاری مرتب کردہ کتاب [ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری:حیات اور علمی نقوش] کو ملے ہوئے ایک عرصہ گزرکیا اور میں نے تمھارا شکریہ نہیں ادا کیا، تم نے اپنے ماموں [ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری] کی خدمات کو جاوداں بنانے کے لیے بڑی محنت کی، اللہ تعالیٰ اس کا اجر عطاکر ے۔ یہ عبد الکریم عبد العلیم کون ہیں، میں ان کو نہیں جانتا۔ مولانا مظہر[حسن]ازہری سے معلوم ہوا کہ ان کو کتاب نہیں ملی، کم سے کم جن لوگوں کے مقالات ہیں، ان کو ایک نسخہ توبھیج دینا چاہیے۔‘‘(راقم کے نام ڈاکٹر عبد العلی ازہری کا ای میل تاریخ :4 ؍اگست 2017)
٭ڈاکٹر صاحب ایک مخلص، درد مند اور بے لوث انسان تھے، ’’نہ ستایش کی تمنا،نہ صلے کی پروا‘‘کے مصداق،ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری کی وفات کے بعد انھوں نے جس انداز سے ان کی علمی خدمات کو منظر عام پر لانے کی کوشش کی اور اس میں عملی طور پر حصہ بھی لیا، یہ ان کی درد مندی اور اخلاص کی ایک قابل رشک مثال ہے۔ کام یاب اور بااثر انسان کی زندگی میں تو عقیدت مندوں کا ہجوم اور حلقہ بگوشوں کی بھیڑکے ساتھ ایک قافلہ بھی رواں رہتاہے لیکن زندگی کی ڈور ٹوٹ جانے کے بعد ’’لوگ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا‘‘کے بالکل متضاد صورت حال ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹر ازہری اس لحاظ سے بھی خوش قسمت تھے کہ ان کے احباب اور تلامذہ میں اخلاص و وفا کے ایسے پیکر تھے اور آج بھی ہیں، ہاں، یہ فہرست بہت طویل نہیں ہے۔ اس وقت شیخ صلاح الدین مقبول احمد حفظہ اللہ تعالیٰ کا اسم گرامی ذہن میں آرہا ہے جن کی توجہ اورکوشش سے ایک دو سال قبل ’’رحمۃ للعالمین‘‘(عربی) کی جدید اشاعت منظر عام پر آچکی ہے۔ ایک اور نام ہے، راشد حسن مبارک پوری حفظہ اللہ تعالیٰ کاجن کی کوششوں سے عربی مقالات کے دو مجموعے (التربیۃ الدینیۃ السلیمۃ ودورھا فی مواجھۃ التحدیات المعاصرۃ(داراللؤلؤۃ، بیروت)، (۲)شیخ الاسلام ابوالوفاء ثناء اللہ الامرتسری وجھودہ فی الرد علی الفرق الضالۃ و انھاض ثقافۃ الحوار المذھبی والحضاری(دارالمقتبس،دمشق)، شائع ہوچکے ہیں اور ایک پائپ لائن میں ہے۔ ان دنوں ڈاکٹر ازہری پر ان کی غیر مطبوعہ عربی کتاب کے جو اقتباسات فیس بک پر پڑھنے کو مل رہے ہیں، ان کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے ابھی ان کی زنبیل میں بہت کچھ ہے، اللہ تعالی اس کی اشاعت کی سبیل پیدا کردے، آمین۔یہ قصہ ٔ پارینہ نہیں ہے، پھر بھی اس کی باز خوانی پر اصرار ہے تو کوئی نہ کوئی وجہ ہوتوہوگی۔
ڈاکٹر عبد العلی کا شمار بھی انھی پاک طینت، وفا شعار اورمخلص شخصیات میں ہوتا ہے بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ اس فہرست میں ان کا نام سر فہرست ہے، انھوں نے حقیقت میں رفاقت کا حق ادا کردیا اور اس راہ میں مصلحت اور مفاد کو پاؤں کی زنجیر نہیں بننے دیا جو ان کے لیے زاد آخرت ہوگا،ان شاء اللہ۔ تفصیل ملاحظہ فرمائیں:
ماہ نامہ محدث، بنارس کا ڈ اکٹر مقتدی حسن ازہری نمبر شائع کرنے کا اعلان ہوچکا تھا، مقالہ نگاروں سے رابطے کا آغاز بھی ہوچکا تھا، مقالات کی آمد بھی شروع ہوچکی تھی خود ڈاکٹر صاحب نے اپنا مقالہ بھیج دیا تھا لیکن اشاعت میں ٹال مٹول کے رویے سے بہت ناراض تھے۔ایک سفر میں بنارس گئے، ناظم صاحب سے ملے اور ملاقات کا سبب بھی بیان کیا۔بات چیت کے بعد جب ان کی نیتی اور نیت کا اندازہ ہوگیا تو اس مرد جلیل و جمیل نے اپنے حصے کی شمع جلائی اور اس شان اورشوکت سے جلائی کہ اس کی روشنی دور دور تک پہنچی۔ 464صفحات پر مشتمل مجلہ افکار عالیہ، مئو ناتھ بھنجن (اپریل2012 تاجون2013) کا ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری نمبر جب منظر عام پر آیا تو ان کی خوشی دیدنی تھی، لندن سے فون کر کے خصوصی نمبر کی مقبولیت کے بارے میں بتاتے تھے، بعض مقالات کے بارے میں تحفظات کا اظہار فرماتے تھے اور ایک آدھ مقالے پر تلخ تبصرے بھی۔پھر بھی، اس نمبر کی اشاعت پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے لکھا تھا کہ: ’ ’ بہر حال میں بہت مطمئن ہوں کہ میں نے اپنے رفیق [ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری] کے حالات لوگوں تک پہنچا دیے، یہاں برمنگھم میں پرچہ بہت پسند کیا گیا، مولانا عبد الہادی صاحب کو دس پرچے بھیجے، انھوں نے کہاکہ پہنچتے ہی لوٹ لیا گیا، پھر میں نے مزید چار بھیجے۔‘‘(راقم کے نام ڈاکٹر عبدالعلی کا ای میل تاریخ:8 ؍جولائی 2013)
٭اخترالایمان کی آپ بیتی(اس آباد خرابے میں) پڑھنے کے بعد،میں نے ڈاکٹر صاحب سے خودنوشت لکھنے کی گزارش کی، انھوں نے چند صفحات لکھ کر دیے جو میرے پاس موجود ہیں،اس کا زیادہ ترحصہ شخصیات پر ان کے مطبوعہ مضامین میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے، اگر یہ کام مکمل ہوجاتا تو بڑے کام کا ہوتا، شاید میں نے گزارش میں دیر کردی، تب تک شعلہ جوالہ، شعلۂ نم خوردہ میں تبدیل ہو چکا تھا، پھر بھی اس میں خاندانی حالات اور قاہرہ کی کہانی کو دل چسپ اور دل نشین انداز میں پیش کردیاہے۔ انھوں نے میرے ای میل کے جواب میں جو لکھا، اس سے اس ناتما م خودنوشت کی شان نزول کو سمجھنے میں مدد ملے گی:
’’مسلسل تاریخی انداز سے اپنے بارے میں تو نہیں لکھ پاؤں گا، ایسے ہی معلوماتی پوائنٹ کھینچ دوں گا اور تمھارے پاس چھوڑ دوں گا، میری وفات کے بعد مرتب کر کے چھاپ دینا۔ ‘‘(راقم کے نام ڈاکٹر عبدالعلی کا ای میل تاریخ:16 ؍مارچ 2013) ــ’’چلو تم نے ہی پہل کردی، میں کئی دنوں سے تم سے رابطہ کرنے کا سوچ رہا تھا، تمھارے اورڈاکٹر ثوبان [سعید پروفیسر شعبۂ اردو خواجہ معین الدین چشتی یونیورسٹی، لکھنؤ]کے اصرارپر میں نے اپنی زندگی کے حالات قلم بند کردیے ہیں، جب آؤں گا تو لیتا آؤں گا، اب یہ تمھارا کام ہے کہ ا س کو خوبصورت لبادہ پہناکرپیش کرو، میں نے لکھ دیا ہے کہ یہ معلومات میری وفات کی بعدپبلک تک پہنچیں، اسی میں محمود شاکر سے استفادہ کاحال بھی لکھ دوں گا۔‘‘ (راقم کے نام ڈاکٹر عبدالعلی کا ای میل تاریخ 19؍اپریل2013) ’’بہر حال جو کچھ میں نے اپنے بارے میں لکھا ہے اس کو عزیزم عبد الحی کے حوالے کردیا ہے، تم عمار سے رابطہ کرکے لے لینا، میں نے ان سے تاکید کردی ہے کہ وہ اسے تم تک پہنچا دیں لیکن تم بھی خیال رکھنا، وہ کل یعنی منگل کی رات کو یہاں سے روانہ ہو نے کے بعد بدھ کے روز دہلی پہنچیں گے، اسی دن شام کو ملاقات کرکے لفافہ لے لینا، یاد رہے بہت زیادہ پروپیگنڈہ کرنے کی ضرورت نہیں اور میری خواہش ہے کہ میرے بارے میں جوکچھ لکھا جائے میری وفات کے بعد لکھا جائے۔ قرآن کے حفظ کے تعلق سے میں نے بہت تفصیل سے لکھ د یا ہے، بعد میں مجھے محسوس ہوا کہ اتنی تفصیل سے نہیں لکھنا چاہیے تھا، بہر صورت بات کاغذ پر آگئی ہے لیکن تم لوگ ذرا اس میں حذف اور تبدیلی کردو تو بہتر ہے۔‘‘(راقم کے نام ڈاکٹر عبدالعلی کا ای میل تاریخ8؍جولائی2013)
آپ بیتی کا مسودہ جب مجھے ملا تو دیکھا کہ اس کے ساتھ ایک خط بھی منسلک ہے، یہاں پر وہ پوراخط پیش کرنا چاہتا ہوں کیونکہ اس کی آخری لائن قابل توجہ ہے:
عزیزم ڈاکٹر اطہر سلمہ
تمھاری خواہش کی بنیاد پر اپنی داستان قلم بند کردی ہے،مجھے جو کچھ یاد تھا، سب بتا دیا ہے۔سب سے پہلے ڈاکٹر ثوبان سعید بار بار کہہ رہے تھے کہ اپنے حالات قلم بند کردیجیے لیکن میں ان کی خواہش پوری نہ کرسکا۔ اب تین دنوں میں مستقل بیٹھ کر اسے مکمل کیا ہے، قلم سے لکھنے میں دشواری ہوتی ہے جس کا اندازہ تم کو تحریر سے ہوگا، امید کہ اسے پڑھ سکو گے۔ میری زندگی میں اسے منظر عام پر لانے کی ضرورت نہیں،وفات کے بعد جو سمجھ میں آئے کرنا۔
بہت سے واقعات ڈاکٹر ازہری مرحوم سے متعلق مقالہ میں درج ہیں،اسی طرح میں [نے] فضل الرحمن ماموں کی وفات پر ایک مضمون لکھا تھا جو ’’محدث‘‘میں چھپا تھا، اس میں کچھ حالات ہیں اور کچھ معلومات مولانا عبد الوحید ناظم اعلیٰ جامعہ سلفیہ اور کچھ مولانا عبدالمعید بنارسی کی وفات پر میرے مضمون میں ملیں گی، یہ سب محدث میں شائع ہوچکا ہے۔
اب زندہ رہنے کی کوئی خواہش نہیں، دعا کرو اللہ تعالیٰ خاتمہ خیر پر اور ایمان پر کرے اور آخرت میں اپنے نیک بندوں کے ساتھ رکھے،آمین۔
عبدالعلی
4 ؍اپریل 2013
ڈاکٹر صاحب کی خواہش تھی کہ یہ خود نوشت ان کی وفات کے بعد سلیقے سے منظر عام پر آئے، اسی لیے میرا خیال تھا کہ دیگر سوانحی مضامین اور سفرنامے سے ضروری اقتباسات ٹانک کر اس کو شائع کیا جائے لیکن کسل مندی اور دوسرے جھمیلے اس راہ میں رکاوٹ تھے۔ اسی دوران ان کے ایک مخلص مگراتاولے بھتیجے نے (میرے منع کرنے کے باوجود)اس نامکمل مسودے کو غلط سلط ٹائپ کر کے پبلک کردیا جو میرے لیے باعث تکلیف تھا۔
ابھی ذہن میں واقعات کا ایک مینا بازار سجا ہوا ہے، کس کو نقل کروں، کس کو چھوڑوں، فیصلہ دشوار ہے، پر مذکورہ بالا واقعات و مشاہدات کی پیش کش سے ڈاکٹر صاحب کی شخصیت اور سیرت کے کچھ گوشے تو سامنے آچکے ہوں گے، کشاکش غم پنہاں سے اگر فرصت ملی تو کسی مجلس میں مزید واقعات پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی، ان شا ء اللہ۔
اس انجمن میں نہیں تو،مگر قلم میرا
ترے خیال سے مصروف گفتگو ہے ابھی
(فضا ابن فیضی)
آپ کے تبصرے