جماعت اہل حدیث کے ایک ممتاز صاحبِ قلم ابن احمد نقوی بھی چل بسے۔ انھوں نے 89 سال کی عمر میں آٹھ مئی بروز بدھ نئی دہلی کے غفور نگر، جامعہ نگر کے اپنے مکان میں آخری سانس لی۔ پس ماندگان میں دو بیٹیاں اور تین بیٹے ہیں۔ اہلیہ، ایک بیٹا اور ایک بیٹی کا پہلے ہی انتقال ہو چکا تھا۔ ان کا پورا نام عبدالقدوس ابن احمد اطہر نقوی تھا۔ وہ اردو، عربی، فارسی اور انگریزی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ اطہر نقوی کے نام سے اردو، انگریزی اور فارسی میں شاعری کرتے تھے، جبکہ مضامین پر ابن احمد نقوی لکھتے تھے۔ گوکہ ان کا میدان عمل تحقیق و تصنیف اور ترتیب و تالیف و تدوین نہیں رہا بلکہ وہ دہلی میں محکمۂ کارپوریشن میں ایک اعلیٰ افسر رہے، لیکن ان کے ذوقِ مطالعہ و شوقِ مضمون نویسی اور خاندانی علمی وراثت نے انھیں ایک صاحبِ طرز ادیب، مصنف اور شاعر بنا دیا تھا۔
جب جماعت اہل حدیث کے ایک ممتاز عالم دین مولانا عبد الحمید رحمانی نے نئی دہلی کے جوگابائی علاقے میں ’’ابوالکلام آزاد اسلامک اویکننگ سینٹر‘‘قائم کیا اور اس ادارے سے اردو ماہنامہ ’’التوعیہ‘‘ کا اجرا کیا تو ان کی خواہش پر نقوی صاحب نے التوعیہ کے لیے اداریے و مضامین لکھنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ حالانکہ وہ پہلے سے ہی مضمون نگاری کرتے رہے ہیں البتہ انھیں اپنی فکر کو عام کرنے کے لیے ’التوعیہ‘جیسا ایک بڑا پلیٹ فارم مل گیا۔ جب مذکورہ جریدے میں ان کے اداریے شائع ہونے لگے تو احبابِ جماعت کو احساس ہوا کہ ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں ہے۔ قارئین ان کے مضامین کو پسند کرنے لگے اور ان کے مداحوں کی تعداد بڑھنے لگی۔ یہاں تک کہ خلیجی اور دیگر ملکو ں میں مقیم اہل حدیث علماء و افراد بھی اس صف میں شامل ہو گئے۔ انھوں نے برسوں تک ’التوعیہ‘کے لیے مضامین لکھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جہاں ان کے مداحوں کی بڑی تعداد پیدا ہوئی وہیں ان کی فکر کے کچھ ناقدین بھی سامنے آگئے۔ چونکہ ان کی فکر اور ان کا اسلوبِ تحریر روایتی علماء اور قلم کاروں سے مختلف تھا اس لیے جہاں بہت سے لوگوں نے ان کے مضامین کو پسند کیا وہیں کچھ لوگوں نے ناپسند بھی کیا۔ انھوں نے اپنی تحریر میں کبھی بھی جذباتیت سے کام نہیں لیا۔ وہ کسی بھی مسئلے کے ہر پہلو کو انتہائی سنجیدگی کے ساتھ رکھتے اور حقیقت پسندانہ طرز استدلال اختیار کرتے۔ وہ مسائل پر سنجیدگی سے غور کرنے پر زور دیتے اور اس بات کی تلقین کرتے کہ اگر ہم اپنی سوچ کو حقیقت پسندانہ رخ پر نہیں ڈالیں گے تو ہمیشہ مصائب و مشکلات میں گھرے رہیں گے۔ التوعیہ کی اشاعت بند ہونے کے بعد ان کے متعدد مضامین ’’پیام توحید‘‘، ’’استدراک‘‘اور دیگر معروف جریدوں میں بھی شائع ہوئے۔ وہ برجستہ اور قلم برداشتہ لکھتے۔ ان کے مضامین میں زبردست تسلسل، روانی اور شاعری کی زبان میں کہیں تو آمد ہی آمد ہوتی۔ ان کے مضمون کے مطالعے سے ایسا لگتا کہ علم کا ایک بحر ذخار ہے جو مضمون کے تنگنائے سے نکل کر چاروں طرف پھیل جانا چاہتا ہے۔
ان کا آبائی وطن مغربی اترپردیش کے ضلع بدایوں کا قصبہ سہسوان تھا۔ ان کا خاندانی پس منظر یہ ہے کہ تاریخ اہل حدیث کی کتب میں علمائے سہسوان کے تحت دو نام شمس العلماء مولانا سید امیر حسن اور شمس العلماء مولانا سید امیر احمد کے نام آتے ہیں۔ یہ دونوں حضرت میاں صاحب سید نذیر حسین محدث دہلوی کے ارشد تلامذہ میں تھے۔ اپنے بیٹے سید شریف حسین کی وفات کے بعد حضرت میاں صاحب نے سید امیر احمد کو اپنا بیٹا بنا لیا تھا۔ یہی شمس العلماء مولا نا سید امیر احمد، نقوی صاحب کی والدہ کے دادا اور شمس العلما مولانا سید امیر حسن پردادا تھے۔ ان کے والد مولانا سید تقریظ احمد سہسوانی خطیب الہند مولانا محمد جونا گڑھی کے شاگرد اور ان کے کتب خانہ محمدیہ میں ملازم تھے۔ 1940 میں مولانا جوناگڑھی کی وفات کے بعد مکتبہ اور اخبار محمدی ان کی وصیت کے مطابق مولانا تقریظ احمد کے سپرد کر دیا گیا اور وہ اس کے ایڈیٹر بن گئے۔ میں نے نقوی صاحب کے مضامین کو ’’مقالات ابن احمد نقوی‘‘کے نام سے مرتب کیا تھا جسے مکتبہ الفہیم مئو نے شائع کیا تھا۔ نقوی صاحب نے اس کتاب کے لیے اپنے تعارفی مضمون میں لکھا ہے کہ والد صاحب کو صحافت سے کوئی نسبت نہیں تھی۔ نہ وہ صحافت کے اصول و ضوابط سے واقف تھے، نہ عصری صحافت کے رجحان اور تقاضوں سے اور نہ ہی انھوں نے اس طرف کوئی توجہ کی۔ پچیس سال تک دو جریدوں کی ادارت کی لیکن کبھی ایک مضمون یا اداریہ نہیں لکھا۔ جب تک حکیم عبد الشکور شکراوی زندہ رہے وہ بطور مدیر معاون اہل حدیث کا اداریہ لکھتے رہے۔ پھر یہ خدمت مولانا مختا راحمد ندوی کو سونپ دی گئی۔ مولانا مجاز اعظمی بطور اسسٹنٹ ایڈیٹر اس کا سیاسی کالم ’’ملکی مطلع‘‘ لکھتے تھے۔ ان کی علیحدگی کے بعد یہ ذمہ داری میرے سر آگئی۔ بچپن سے ہی اخبار پڑھنے کا شوق تھا۔ اس لیے اہل حدیث کے سیاسی کالم ’’ملکی مطلع‘‘ کو تختۂ مشق بنایا اور سیاسی مضامین لکھنا شروع کر دیے۔
ابن احمد نقوی کے مطابق ان کے اداریے لوگوں نے پسند کیے۔ خاص طور پر مولانا مجاز اعظمی مرحوم جیسے جید عالم، فضا ابن فیضی جیسے شاعر اور ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری جیسے جلیل القدر عالم نے ان کے مضامین کو سراہا اور ان کی منظومات کی داد دی۔ پاکستان سے مؤرخ عصر علامہ اسحق بھٹی نے لکھا کہ ہم ان کا اداریہ بڑے شوق سے پڑھتے ہیں اور التوعیہ کا انتظار کرتے ہیں۔ابن احمد نقوی کے مطابق اسی کے ساتھ لوگوں نے پتھر بھی پھینکے۔ کسی نے کہا یہ نہرو بھگت ہے، کسی نے کہا کمیونسٹو ں کا ایجنٹ ہے، کسی نے کہا یتیم ہے، کسی نے کہا اسے طول نویسی کا عارضہ لاحق ہے۔ اس طرح پھول اور کانٹے دامن میں گرتے رہے۔ التوعیہ کے بعد انھوں نے مرکزی جمعیت اہل حدیث کے آرگن جریدہ ’’ترجمان‘‘میں لکھنا شروع کیا۔ مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی ناظم اعلیٰ جمعیت اہلحدیث نے یہ ذمہ داری ان کے سپرد کی۔ اس طرح بقول نقوی صاحب انھوں نے تقریباً آٹھ دس سال تک ترجمان میں لکھا۔ ترجمان میں ان کا نام مدیر کی حیثیت سے شائع ہوتا رہا ہے۔
انھوں نے ’’دی سلفیس‘‘کے نام سے انگریزی میں تاریخ اہلحدیث اور ’نہضت حق‘ کے عنوان سے منظوم تاریخ اہل حدیث لکھی۔ علامہ محمد ناصر الدین البانی کی شہرۂ آفاق کتاب ’صفۃ صلوٰۃ النبی‘ کا انگریزی میں ترجمہ کیا۔ سیرت پر انگریزی کتاب اور انگریزی میں دو شعری مجموعے شائع کیے۔ اردو میں پانچ شعری مجموعے مرتب کیے۔ علامہ بلال فلپس کی تین انگریزی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیا۔ علامہ اقبال کی فارسی کلیات پر عمومی تبصرہ ’’فکر اقبال‘‘کے نام سے لکھا جسے جامعہ عالیہ عربیہ مئو کے ادارہ افکار عالیہ نے شائع کیا۔ اس طرح اردو انگریزی نثر و نظم میں ان کی 19 کتابیں شائع ہوئیں۔ تین کتب نقیبان سلفیت جو اکابر سلفیت کے سوانحی خاکوں پر نثر و نظم پر مشتمل ہیں، لکھیں۔ جمعیت اہل حدیث کے انگریزی ماہنامہ ’’دی سمپل ٹروتھ‘‘میں ان کے متعدد مضامین شائع ہوئے۔
مجھے (سہیل انجم کو)ان سے ایک قلبی لگاؤ تھا اور وہ بھی میرے تعلق سے اچھے احساسات رکھتے تھے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ ہمارے والد گرامی مولانا ڈاکٹر حامد الانصاری انجم دہلی میں اپنے دور طالب علمی میں ان کے قریبی حلقے میں شامل رہے ہیں جس کا اظہار انھوں نے بارہا زبانی بھی کیا اور تحریری بھی۔ اس تعلقِ خاص کی وجہ سے انھوں نے ہم تین بھائیوں (حماد انجم ایڈووکیٹ، سہیل انجم، ڈاکٹر شمس کمال انجم) کی متعدد کتب پر مقدمے تحریر کیے۔ انھوں نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ مولانا ڈاکٹر حامدالانصاری انجم دوران طالب علمی دہلی کے صدر بازار کی مسجد کلاں کے بالائی حجرے میں مقیم تھے۔ اتوار کی صبح کو مجاز اعظمی صاحب، میں اور عبد الودود اظہر ان سے ملنے جاتے تھے۔ راقم الحروف نے اسی تعلق کے سبب ان کے مضامین کو ایڈٹ کرکے ترتیب دیا جو ’’مقالات ابن احمد نقوی‘‘ نام سے شائع ہوا اور جس کا اجرا مرکزی جمعیت اہلحدیث کے سرپرست شیخ صلاح الدین مقبول احمد کے دفتر واقع شاہین باغ، نئی دہلی میں نقوی صاحب کی موجودگی میں ہوا تھا۔ بہرحال ابن احمد نقوی کا انتقال جماعت اہل حدیث کا ایک عظیم خسارہ تو ہے ہی راقم الحروف اور علمی دنیا کا بھی بہت بڑا خسارہ ہے۔
آپ کے تبصرے