کارِ دنیا سے مری جان مجھے فرصت نیں
تیرے غم میں رہوں ہلکان مجھے فرصت نیں
ایک ظالم کو گناہوں کی سزا دے کر میں
آخرش کیوں ہوں پشیمان، مجھے فرصت نیں
غم دنیا ہی کہاں کم ہے کہ میں ہو جاؤں
ہجر کے غم میں پریشان، مجھے فرصت نیں
ایک کمرہ ہو جہاں عشق ہو، میں ہوں تم ہو
اور رہے بیچ میں شیطان مجھے فرصت نیں
اپنی ہی ذات کے گوشے میں کہیں مَیں گم ہوں
میں بنوں کیوں ترا عنوان مجھے فرصت نیں
اک جفا کار کی خاطر میں بنوں صحرائی
اور دل کو کروں ویران مجھے فرصت نیں
زندگی زندہ دلی سے ہے عبارت کاشف
کیوں بلا وجہ کا خلجان مجھے فرصت نیں
آپ کے تبصرے