بات دل کی نہ کرو دل میں اداسی ہے بہت
جسم تو جسم ہے یہ روح بھی پیاسی ہے بہت
نئی تہذیب سے اب اور توقع کیا ہو
کوئی عریاں نہیں اتنی بھی لباسی ہے بہت
بے سنے لوگ غزل ’واہ‘ کہے جاتے ہیں
آپ سمجھو ہو یہاں قدر شناسی ہے بہت
سب کے لہجے میں تھکن سب کی نگاہوں میں غبار
واقعی آب و ہوا شہر کی باسی ہے بہت
یوں تو صفحات بھی کافی نہیں ہوتے زخمی
ہاں اگر دل سے کرو بات ذرا سی ہے بہت
آپ کے تبصرے