یہ جو آنسؤوں کی لکیر ہے کہیں درد ہے کہیں آہ ہے
یہ قفس کے دھاروں میں قید ہیں ذرا بس انھیں تو سنبھال دے
وہ جو چل رہا میری لاش پر کئی آنسووں کی ندی لیے
اسی گمشدہ کی تلاش ہے اسے اک دفعہ تو نکال دے
نہ مروڑ میرے جسم کو یہ گرا ہوا سا مکان ہے
وہ جو دفن ہے تیری یاد میں اسے اب نہ کوئی جمال دے
میرے ٹوٹے بکھرے سے بول ہیں میں یتیم ہوں مجھے لفظ دو
میری زندگی کا سوال ہے مجھے اب نہ کوئی سوال دے
وہی خواب ہیں وہی رسم ہیں وہی جاگتے تیرے پیار ہیں
نہ انھیں سُلا غم یاد میں نہ ہی بے رخی کا ملال دے
یہ عدالتوں میں کہی سنی تیرے فیصلوں میں انا کی بو
سبھی فیصلے ہیں لٹے ہوئے تجھے اب کیا کوئی رسال دے
وہ وفا کی شمعیں بھی خوب تھیں جہاں لٹ کے اب تک کھڑے ہیں ہم
تیری خوبیاں تو اچھال دے مجھے اب نہ کوئی ہلال دے
آپ کے تبصرے