عقل مند دنیا دار

شوکت پرویز معاملات

دنیا دار دو طرح کے ہوتے ہیں:پہلی قسم خوش اور مطمئن دنیا دار؛ یہی عقل مند دنیا دار ہیں۔
دوسری قسم غمگین اور پریشان دنیا دار؛ یہ نادان دنیا دار ہوتے ہیں۔
دنیا داروں کی اکثریت اسی دوسری قسم کی ہے، یعنی وہ ہمیشہ غمگین اور پریشان رہتے ہیں۔ تو انھی نادان دنیا داروں کی پریشانی کم کرنے کے کچھ نسخے اس مضمون میں ہم ذکر کر رہے ہیں۔
گرچہ انسان سے مطلوب تو یہ ہے کہ وہ خالص دنیا دار نہ بنے، بلکہ اصلاً دیندار بنے، اور اس کے بعد جو کچھ دنیا اسے مل سکے اس کے لے کوشش کرے۔ لیکن چونکہ انسانوں کی اکثریت اپنے دائرۂ زندگی سے دین کے مماس (Tangent) کو نہیں گزارنا چاہتی، اس لےن ہم دینی گفتگو سے فی الحال صَرفِ نظر کرتے ہوئے نادان دنیا داروں کی کچھ مدد کرنا چاہتے ہیں؛ کہ یہ دیندار نہ بنتے نہ سہی، کم از کم ٹھیک ٹھاک (عقل مند)دنیا دار ہی بن جائیں۔ جیسا کہ علامہ اقبال بھی کہہ گئے ہیں:تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن، اپنا تو بن۔۔۔
تو آئیے دیکھتے ہیں کہ نادان دنیا داروں کی پریشانی کی وجہ کیا ہے، اور اسے کیسے دور کیا جا سکتا ہے۔
شادی:
نادان دنیا دار اپنی شادیوں میں بے تحاشہ خرچ کرتے ہیں۔ ان کی خود کی خوشی سے زیادہ اس میں دکھاوا کارفرما ہوتا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ لوگ ان کی شادیوں کو یاد رکھیں، کھانوں کو یاد رکھیں، سجاوٹ کو یاد رکھیں، شادی کارڈز کو یاد رکھیں، دولہا دلہن کی اینٹری کو یاد رکھیں، اسٹیج کو یاد رکھیں، ہال کو یاد رکھیں، غرض کہ ہر چیز یاد رکھیں۔ اور یہ نادان اس کے لے قرض تک لے لیتے ہیں۔ پھر ایک دن کے تام جھام کے بعد جب دھول چَھٹتی ہے اور دور تک تنگئ مال کا صحرا نظر آتا ہے تو دوستوں، رشتہ داروں سے پیسوں کی مدد مانگنے کی نوبت آ جاتی ہے۔ اگر یہ عقل مند ہوتے تو شادی سادگی سے کرتے اور وہی پیسے بچا کر اپنی آگے کی زندگی آسانی سے گزارتے۔
اور یہ جو اپنی شادی یادگار بنانے کا مقصد ہوتا ہے، وہ بھی کہاں پورا ہوتا ہے؟ لوگ یاد تو رکھتے ہیں لیکن خوبیاں نہیں، بلکہ صرف خامیاں اور کمیاں؛ کہ فلاں کے یہاں ڈرون سے شوٹنگ نہیں ہوئی، فلاں کی شادی میں اسٹیج کا پردہ میچنگ نہیں تھا، فلاں کی شادی میں کھانے میں نمک کم تھا، فلاں کے یہاں صرف ۲ طرح کے جوس تھے، اس سے بہتر تو فلاں کے یہاں انتظام تھا۔۔۔ وغیره وغیره۔
برانڈ:
نادان دنیا دار برانڈز کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اونچے برانڈز کے موبائیل استعمال کریں، اعلیٰ برانڈز کے کپڑے استعمال کریں، اونچی نامی ہوٹلوں میں پارٹیاں منائیں، وغیره وغیره۔
اور اس چکر میں بے چاروں کے پَیر اتنے باہر نکل جاتے ہیں کہ ان کی رومال جیسی چادر اسے چُھپا نہیں پاتی۔ نتیجتاً وہ لوگ چادر لمبی کرنے کے لےج قرض در قرض لینے لگ جاتے ہیں اور بقول شاد لکھنوی:’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘سا حال ہو جاتا ہے۔
عقل مند دنیا دار برانڈز کا استعمال صرف ایڈورٹائز (اشتہار) کے وقت کرتے ہیں۔ ورنہ حقیقی دنیا میں وہ لوگ اصل استعمال / ضرورت (utility) دیکھتے ہیں۔ اور اگر کم قیمت، غیر معروف برانڈز والی اشیاء سے بھی وہ استعمال / ضرورت پوری ہو جاتی ہے تو وہ لوگ اسے استعمال کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ، تنگی محسوس نہیں کرتے۔
مکان:
نادان دنیا دار اپنے مکان کے لےو بھی بہت پریشان رہتے ہیں۔ میرا مکان اتنا بڑا ہو، اس میں یہ یہ چیزیں ہوں، اس طرح کے ماربلز ہوں، اس طرح کے رنگ ہوں، ایسی ایسی سجاوٹیں ہوں، وغیرہ وغیرہ۔ اور اس کے لےے وہ اس قدر قرض لے لیتے ہیں کہ تقریبا اپنے ریٹائرمنٹ تک اس قرض کی قسطیں بھرتے رہتے ہیں۔
اس کے مقابلے میں عقل مند دنیا دار اپنے مکان سے زیادہ اپنے گھر کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ آپ اس مضمون تک پہنچے ہیں، اور یہاں تک پڑھ چکے ہیں تو امیدِ قوی یہی ہے کہ آپ مکان اور گھر کا فرق سمجھتے ہوں گے۔ پھر بھی اگر کچھ مشکل ہو تو افتخار عارف کے اس شعر سے مدد لیں؎
مِرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کر دے
میں جس مکان میں رہتا ہوں اس کو گھر کر دے
اینٹ، پتھر، سیمنٹ، لکڑیوں وغیرہ سے بنی ہوئی چیز کو مکان کہتے ہیں؛ اور اہلِ مکان میں پائے جانے والے اخلاق، اقدار، محبت، استوار رشتوں اور elegance کو گھر کہتے ہیں۔
مئی ۲۰۱۱میں جب رتن ٹاٹا نے سنا کہ مکیش امبانی اپنے لےھ ایک بلین ڈالر کا مکان بنا رہے ہیں تو انھیں بڑی حیرت ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ کوئی ایسا کیسے کر سکتا ہے؟ اور اس بات کے مہینے بھر بعد ہی جب خود رتن ٹاٹا کے ریٹائرمنٹ کا وقت آیا اور ان کے لے نئے ’مکان‘ کی ضرورت پیش آئی تو انھوں نے فضول خرچی کے مقابلے میں نفاست و لطافت (elegance) کو ترجیح دی۔ اور صرف ۱۵۰ کروڑ(۲۰ ملین ڈالر) کے معمولی سے گھر کو چُنا۔ (ملحوظ رہے کہ رتن ٹاٹا کے لے یہ ۲۰ ملین ڈالر ایسے ہیں جیسے ۳۵۰۰روپئے والے کے لےع ایک روپیہ)
حوالہ۱: مکیش امبانی کے مہنگے مکان پر حیرت:
https://timesofindia.indiatimes.com/india/its-sad-mukesh-ambani-lives-in-such-opulence-ratan-tata/articleshow/8497118.cms

حوالہ ۲: فضول خرچی کے مقابلے میں نفاست و لطافت (elegance) کو ترجیح:
https://timesofindia.indiatimes.com/city/mumbai/retirement-home-ratan-tata-chooses-elegance-over-extravagance/articleshow/9049682.cms

حوالہ ۳: ۲۰۰۹ میں رتن ٹاٹا کی کل جائداد کا تخمینہ
https://parsikhabar.net/individuals/the-net-worth-of-ratan-tata/1618/

اسکول اور ٹیوشن:
نادان دنیا دار اپنے بچوں کو مہنگی، انگریزی، ترجیحاً کانونٹ اسکولوں میں داخلہ کرانے کو جنت میں داخلے سے کم نہیں مانتے۔ ایک عام مسلمان جنت میں داخلے کے لےی جو محنت اور خرچ کرتا ہے اس سے کہیں زیادہ محنت اور خرچ یہ نادان دنیا دار اپنے بچوں کو ’اچھی‘ اسکولوں میں داخل کرانے کے لےک کرتے ہیں۔ کس اسکول کے فارم کب نکل رہے ہیں؟ بھرے ہوئے فارم کب تک اسکول بھیجنا ہے؟ کون کون سی دستاویزات ساتھ چاہئیں؟ بچے کا فوٹو کس سائز کا ہونا چاہے ؟ فوٹو میں بیک گراؤنڈ کلر کیا ہونا چاہے ؟ اس طرح کی بیسیوں تفصیلات انھیں ازبر ہوتی ہیں۔
انٹرویو میں کیا کیا پوچھا جائے گا؟ بچے کو ہم انٹرویو کی تیاری کرا سکیں گے یا نہیں؟ اور اس ڈھائی تین سال کے بچے کو کس ٹیوشن میں ڈالیں کہ وہ انٹرویو پاس کر سکے؟
پھر فارم ملنے کی پچھلی رات، بلکہ شام ہی سے اسکول کے باہر لائن میں کھڑے ہو جاتے ہیں، کہ مبادا فارم ختم نہ ہو جائیں۔
اور اگر ان تمام کوششوں کے بعد بھی داخلہ نہیں ملتا تو ڈونیشن کا راستہ اپناتے ہیں۔ اکثر ایسی اسکولوں کے ایجنٹ (دلال) بھی ہوتے ہیں، جو طے شدہ قیمت پر داخلہ کی گیارنٹی لیتے ہیں۔ اور یہ رقم ساٹھ ستر ہزار سے لے کر لاکھوں تک میں ہوتی ہے۔
پھر انھی نادان دنیا داروں کے پریشان بچے کھینچتے کھانچتے کسی طرح ایسی اسکولوں میں ’پڑھنا‘ شروع تو کردیتے ہیں۔ لیکن چونکہ ان کے نادان والدین کو آسان زندگی راس نہیں آتی۔ اور ان کا مقصد (vision) بہت چھوٹا ہوتا ہے؛ تو وہ علم سے زیادہ مارکس پر توجہ رکھتے ہیں۔ انھیں بس مارکس سے سروکار ہوتا ہے۔ انھیں اس سے فرق نہیں پڑتا کہ بچے کو کچھ آئے یا نہ آئے، وہ چاہتے ہیں کہ بس بچے کے مارکس اچھے آنے چاہئیں۔
اس کے لےی وہ ٹیوشن انڈسٹری کے سب سے بڑے صارفین کی قطار میں بھی آ جاتے ہیں۔ اور چونکہ اب درس و تدریس ایک خدمت نہ رہ کر ایک کاروبار بن گیا ہے۔ ٹیوشن ٹیچر بھی کم وقت میں زیادہ مارکس دلانے کے لے بچوں کو رٹّو طوطا بنا دیتے ہیں۔ کیونکہ سمجھا کر پڑھانے میں کچھ وقت لگتا ہے، اور اس کا نتیچہ دور رس سہی، لیکن دیر آمد ہے۔ اور آج کے ۲ منٹ کے مَیگی والے دور میں سب کو فوری نتائج چاہئیں۔ لہٰذا بچے بغیر سمجھے جانے، بس کچھ جوابات نگل لیتے ہیں، اور امتحان میں جوابی پرچوں پر وہی نگلے ہوئے نوالوں کی الٹی کر دیتے ہیں اور اس طرح ان کی تعلیمی صحت دن بدن گرتی چلی جاتی ہے۔
ابتدائی کلاسوں میں چونکہ نصاب کا برتن چھوٹا ہوتا ہے اس لےن اس طرح بغیر چبائے (سمجھے) جوابات نگلنے سے ہونے والے نقصان کی طرف کسی کا دھیان نہیں جاتا۔ اس مرض کی پہلی تشخیص آگے کی کلاسوں میں ہوتی ہے، نصاب کا وہ چھوٹا برتن جب بڑا ہوتے ہوتے اجمیر کی دیگ بن چکا ہوتا ہے، اور بچے کے لےں اسے نگلنا ممکن نہیں رہ جاتا۔ نتیجتاً اس کے نمبرات کم ہوتے ہوتے پاس کی لکیر سے بھی پیچھے ہونے لگتے ہیں۔
پھر وہی لاکھوں کے ڈونیشن بعد کے جی میں داخلہ پانے والا عبد اللہ / عبد الرحمن کسی ہوٹل یا گیریج میں عبدل یا چھوٹو بن کر رہ جاتا ہے۔ اور اس کی وجہ ہوتی ہے اس کے نادان والدین کی نا سمجھی اور چھوٹی سوچ۔
ضمناً یہ بات صاف کر دیں کہ ہماری نظر میں کوئی کام چھوٹا نہیں ہے۔ بلکہ ہم تو نبی ﷺ کے اس فرمان کو مقدم رکھتے ہیں کہ چاہے جو کچھ بھی کرو، عمدگی سے کرو: (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ إِذَا عَمِلَ أَحَدُكُم عَمَلًا أَن يُتقِنَهُ)يقينا اللہ تعالى كو يہ پسند ہے كہ جب تم ميں كوئى شخص كوئى كام كرے تو اچھی طرح اور عمدگی سے كرے ۔ (حسن۔ أبو يعلى۷/۳۴۹ ؛ السلسلۃ الصحيحۃ:۱۱۱۳)
ہم بُھولے نہیں ہیں کہ یہ مضمون دنیا داروں کے لے لکھا جا رہا ہے۔ تو اوپر حدیث لگانے کی وجہ اس حدیث کا دنیاوی فائدہ ہی ہے۔ چاہے جو جس بھی پیشہ میں ہو، اگر وہ اپنا کام محنت، جوش، خوش دلی سے کرے تو بہت ممکن ہے کہ وہ دنیا میں (بھی) بہت آگے نکل جائے۔ بہت ممکن ہے کہ محنت، جوش، خوش دلی سے کام کرنے کے باعث ایک معاون خاکروب (Janitor) ترقی کرتے کرتے ایک ملٹی نیشنل کمپنی کا سربراہ بن جائے۔ جسے اصل مثال میں دلچسپی ہو وہ Sidney Weinberg کے حالات دیکھ لے:
https://www.goldmansachs.com/our-firm/history/moments/1907-sidney-weinberg.html

ہم نے تو صفائی دے دی کہ ہم کسی پیشہ کو چھوٹا یا کمتر نہیں سمجھتے۔ لیکن بیچارے نادان دنیا دار اپنے بچوں کی ’تربیت‘ہی اس طرح کرتے ہیں کہ وہ پیشوں کو پیسوں سے جوڑ کر دیکھتے ہیں، اور اسی لے انھیں کچھ پیشے ’چھوٹے اور کمتر‘نظر آتے ہیں۔ حالانکہ یہی پھر عبدل اور چھوٹو نام سے جانے جاتے ہیں۔
اس کے برعکس عقل مند دنیا دار اسکول کو فی نفسہ اتنی اہمیت نہیں دیتے جتنا کہ اصل تعلیم کو۔ وہ جانتے ہیں کہ اسکول سے زیادہ اہم کردار گھراور گھر والے ادا کرتے ہیں۔ اگر گھر میں صحیح تعلیمی ماحول ہو، والدین تعلیم کو اصل عزت و احترام کی نظر سے دیکھتے ہوں (نہ کہ صرف پیسہ کمانے کی نظر سے)۔ اور والدین اب بھی تعلیم جاری رکھے ہوئے ہوں، چاہے وہ نئے نئے سرٹیفیکیٹ کورس کرنے کی شکل میں ہو، یا نئے نئے عنوان پر کتابیں پڑھنے کی شکل میں۔ اور والدین گھر میں ایک وقت مقرر کیے ہوئے ہوں جہاں گھر کے تمام لوگ ساتھ بیٹھ کر کتابیں پڑھتے ہوں (پھر چاہے وہ نصابی کتابیں ہوں یا غیر نصابی)۔ جہاں نمبرات سے زیادہ اصل تعلیم پر توجہ (focus) ہو۔ جہاں والدین وقتاً فوقتاً بچوں کی تعلیمی سرگرمیوں پر گفتگو کرتے رہتے ہوں۔ جہاں بچوں کو درپیش تعلیمی مشکلات کو بیٹھ کر دور کرنے کی حقیقی کوششیں کی جاتی ہوں۔۔۔ اس گھر کا عبد اللہ / عبد الرحمن چاہے کسی بھی اسکول سے پڑھے، وہ ان شاء اللہ تعلیم مکمل کر کے کلکٹر عبدالرحمن،ڈاکٹر عبد اللہ، ایڈوکیٹ عبد الصمد، انجینئر عبد الاحدناموں سے پورے احترام کے ساتھ جانا جاتا ہے۔
گھر والے عقل مند اور اچھے ہوں تو ایک ڈسلیکسیا (dyslexia) کا شکار بچہ جسے چھٹی جماعت تک پہنچتے پہنچتے مجبوراً چار اسکولیں دیکھنی پڑ گئی ہوں؛ اور جس کے ایک ٹیچر کا مشاہدہ اور رائے یہ ہو کہ اگر یہ بچہ ٹرک ڈرائیور بھی بن جائے تو بہت بڑی بات ہوگی۔۔۔ وہ بچہ بھی اچھے، دور اندیش، عقل مند والدین کے سلوک سے ملٹی نیشنل کمپنی کا صدر، امریکی صدر کا مشیر اور دوسری ملٹی نیشنل کمپنی کا وائس چیئر مین بن سکتا ہے۔نام:Gary Cohn
حوالہ:
: https://www.businessinsider.in/goldman-sachs-president-a-teacher-told-my-parents-if-they-were-really-lucky-i-might-grow-up-to-be-a-truck-driver/articleshow/46879441.cms

جس طرح باغ و بہار کے آزاد بخت بادشاہ کے راج میں ’’راہی، مسافر جنگل میدان میں سونا اچھالتے چلے جاتے، کوئی نہ پوچھتا کہ تمھارے مُنہ میں کتنے دانت ہیں اور کہاں جاتے ہو۔‘‘ اسی طرح کارپوریٹ ورلڈ میں ’’محنتی ملازم ترقی کرتے چلے جاتے ہیں، اور کوئی نہیں پوچھتا کہ تمھارا مذہب کیا ہے اور کس اسکول سے پڑھے ہو۔‘‘
اسکول کے پروجیکٹ، ہوم ورک:
نادان دنیا دار اپنے چھوٹے بچوں کے اسکول ہوم ورک اپنے بڑے بچوں سے کرواتے ہیں، تاکہ پہلی دفعہ ہی میں ہوم ورک صحیح ہو، کوئی غلطی نہ رہے، لکھاوٹ اچھی اور خوبصورت ہو، اور صفائی پر کچھ مارکس مل سکیں۔ اسی طرح اسکول سے ملنے والے پروجیکٹ بھی نادان والدین خود بناتے ہیں، یا ٹیوشن ٹیچر سے بنواتے ہیں۔ اس طرح ظاہراً تو سب کچھ اچھا لگتا ہے۔ کئی مرتبہ تو ایسے پروجیکٹ کو اسکول میں اول نمبر بھی دے دیا جاتا ہے۔ لیکن اس طرح کرنے سے پروجیکٹ کا اصل مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔ پروجیکٹ کا اصل مقصد یہ ہوتا ہے کہ بچوں کو تھیوریٹیکل تعلیم کے علاوہ پریکٹیکل چیزوں کی بھی جانکاری ہو۔ ان میں creativity کی حِس جاگے۔ پروجیکٹ بناتے ہوئے آنے والی مشکلات کا حل سوچنے کی صلاحیت ان میں آئے۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن ان نادان والدین کی چھوٹی سوچ کی وجہ سے ان کے بچے کچھ بھی سیکھنے سے محروم رہ جاتے ہیں۔
اس کے برعکس عقل مند دنیا دار اپنے بچوں کے ہوم ورک اور پروجیکٹ میں رہنمائی تو کرتے ہیں۔ لیکن اصل کام، اور ذمہ داری بچوں پر ہی چھوڑتے ہیں۔ اس طرح فی الحال وہ پروجیکٹ اتنے عمدہ اور خوب صورت نہ لگیں، لیکن لانگ ٹرم میں یہ بچے پریکٹیکلی بہت کچھ سیکھ چکے ہوتے ہیں۔ اور زندگی کی دوڑ میں نادان والدین کے بچوں سے بہت آگے نکل چکے ہوتے ہیں۔
اسکول کے متعلق آخری بات، کالج:
إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالْخَوَاتِيمِ (اعمال کا دارومدار خاتمہ پر ہے۔ صحیح بخاری:۶۰۰۷) کی طرح کارپوریٹ ورلڈ میں بھی ابتدائی اسکول کا کچھ اعتبار نہیں۔ بلکہ اگر تھوڑا بہت کچھ اعتبار ہے تو وہ آخری کالج کا ہے۔
کسی بھی کمپنی کے برقی صفحہ پر ان کے سربراہان کا تعارف دیکھ لیجیے۔ کہیں بھی یہ نہیں لکھا ہوتا کہ وہ فلاں فلاں اسکول سے پڑھے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ لکھا ہوتا ہے کہ وہ فلاں کالج سے پڑھے ہیں۔ اور عموماً یہ کالج ان کی ’منظّم‘ تعلیم کا آخری پڑاؤ ہوتے ہیں۔ ورنہ ’غیر منظّم‘ تعلیم تو وہ عمر بھر حاصل کرتے رہتے ہیں۔
تو، تعلیم کے معاملے میں آخری بات یہ کہ نادان دنیا دار ابتدائی مرحلہ ہی میں اسکول کے نام پر اپنی جمع پونجی اور محنت ختم کر بیٹھتے ہیں، جبکہ عقل مند دنیا دار آخری مرحلہ کی تعلیم پر بھی برابر فوکس رکھتے ہیں۔ وہ اس کے لےب بھی اپنی محنت اور پیسے جمع رکھتے ہیں۔
ویسے یہ بھی کوئی ضروری نہیں کہ آخری کالج بھی کوئی بڑا ہائی فائی ہی ہو۔ ہم نے ’عام‘ کالجوں کے ’عام‘ گریجویٹ کے نیچے ‘بڑے بڑے‘ Engineer, MBA, CA کو کام کرتے دیکھا ہے۔ اور ایک عام CA کے نیچے IIT اور IIM کے فارغین کو بھی کام کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
نظم و ضبط (discipline):
نادان دنیا داروں کی زندگی میں کوئی ڈسِپلین نہیں ہوتا۔ وہ شترِ بے مہار کی طرح جہاں اور جب چاہے منہ اٹھائے پھرتے رہتے ہیں۔ نہ ان کے کھانے کا کوئی وقت مقرر ہوتا ہے، نہ سونے جاگنے کا، نہ گھومنے کا، نہ پڑھنے کا۔ اس وجہ سے ان کا کوئی بھی کام ڈھنگ سے نہیں ہو پاتا۔ اور اکثر ان کا وقت غیر ضروری اور غیر مفید چیزوں میں برباد ہوتا رہتا ہے۔
وہیں عقل مند دنیا داروں کی زندگی میں کافی حد تک ایک ڈسِپلین ہوتا ہے۔ ان کا سونا جاگنا، کھانا پینا، چہل قدمی کرنا، کچھ نیا سیکھنا، غرض اکثر چیزوں کے لےل ایک وقت مقرر ہوتا ہے۔ وہ ہر ضروری کام کے لےک ایک وقت مقرر کر لیتے ہیں، اور وقت پر وہ کام شروع کر لیتے ہیں۔ اور اس طرح ان کا وقت غیر ضروری چیزوں میں برباد ہونے سے بچ جاتا ہے۔ اور وہ اپنے وقت کا بھرپور فائدہ اٹھا لیتے ہیں۔
دنیا داری سکھانا:
نادان دنیا دار اپنے بچوں کو منفی دنیا داری سکھاتے ہیں۔ کیسے دھوکہ دیا جائے، کیسے جھوٹ بولا جائے، کیسے کم تَولا جائے، کیسے بہانے بنائے جائیں، کیسے کام سے بچا جائے، وغیرہ وغیرہ۔ اس وجہ سے یہ لوگ لانگ ٹرم میں کہیں ٹِک نہیں پاتے۔ ملازمت ہو یا کاروبار، شروع شروع میں تو کچھ کامیابی دِکھتی ہے، لیکن جلد ہی ان کی حقیقت سامنے آ جاتی ہے اور ملازمت سے برطرفی ہو جاتی ہے یا کاروباری حلقہ میں دھوکہ باز مشہور ہو جانے سے کوئی ان کے ساتھ معاملے نہیں کرتا۔
جبکہ عقل مند دنیا دار اپنے بچوں کو مثبت دنیا داری سکھاتے ہیں۔ دنیا کے طریقے، پیسہ کی اہمیت، ذمہ داری، تکلیف سے جوجھنا وغیرہ سکھانے کے لےا مختلف طریقے اپناتے ہیں۔
۷۱ممالک میں پھیلی ۶۰۰۰ کروڑ روپئے مالیت کی کمپنی کے مالک کا اگر ایک ہی بیٹا ہو تو وہ کیا کرے گا؟ نادان دنیا دار ہوگا تو وہی کرے گا جو آپ سوچ رہے ہیں۔ لیکن ایک عقل مند دنیا دار کیا کرے گا؟
آئیے، ملتے ہیں گجرات کے Savji Dholakia سے، جنھوں نے اپنے ۲۱ سالہ اکلوتے بیٹے Dravya Dholakia کو پیسے اور موبائیل کے بغیر ایک مہینہ کے لےک ایک انجان زبان والے انجان شہر(کوچی، کیرالہ) بھیج دیا تھا، تاکہ وہ زندگی جینا (زندگی سے جوجھنا) اور پیسوں کی اہمیت سیکھ سکے۔ اور جان سکے کہ کس طرح غریب دو وقت کی روٹی کے لے محنت کرتے ہیں۔ کیونکہ یہ سبق کوئی یونیورسٹی نہیں سکھا سکتی۔
ان کے بیٹے دراویہ کہتے ہیں:
’’کوچی پہنچنے پر پانچ دنوں تک مجھے نہ کوئی کام ملا نہ ہی سر چھپانے کے لےو کوئی مناسب جگہ۔ ساٹھ جگہ مجھے کام پر نہیں رکھا گیا ۔ مجھے کام نہیں ملنے پر کام کی اہمیت پتہ چلی۔ بالآخر پہلا کام ایک بیکری میں ملا جہاں کھانے اور رہنے کا کچھ سہارا ملا۔ پھر اسی طرح میں نے مختلف کام کرتے ہوئے ایک مہینہ میں تقریبا ۴۰۰۰ روپئے کمائے۔ وہاں گجرات میں میں کبھی بھی پیسوں کے لے پریشان نہیں ہوا۔ اور یہاں کوچی میں ایک وقت کے کھانے کے لے۔ ۴۰ روپئے جوڑنا بھی مشکل ہو رہا تھا۔‘‘
مکمل اسٹوری اس لنک پر:
https://timesofindia.indiatimes.com/city/kochi/billionaire-dad-sends-son-to-kerala-to-work-as-aam-aadmi/articleshow/53327403.cms

فیملی ٹائم:
نادان دنیا داروں کے یہاں فیملی ٹائم کا کوئی تصور ہی نہیں ہوتا۔ ان کے یہاں کوئی ایسا وقت مقرر نہیں ہوتا جہاں تمام گھر والے ساتھ بیٹھ کر کچھ بات چیت کریں۔ کوئی خوشی کی بات شیئر کریں۔ خیر خبر دریافت کریں۔ پیش آمدہ مسائل پر رائے مشورہ سے کوئی حل دھونڈیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن نہیں۔ نادان دنیا داروں کا گھر تو بس ایک مکان ہوتا ہے، جہاں مختلف، غیر منسلک افراد روم میٹ (roommates) کی طرح بس وقت گزار رہے ہوتے ہیں۔
اس کے برعکس عقل مند دنیا داروں کا ایک مقررہ فیملی ٹائم ہوتا ہے۔ جہاں تمام اہلِ خانہ ساتھ میں بیٹھ کر وقت گزارتے ہیں۔ پھر چاہے وہ رات کے کھانے کا وقت ہی کیوں نہ ہو۔ اس وقت وہ نہ موبائیل پر نظر ڈالتے ہیں، نہ ایمیل، وہاٹس ایپ دیکھتے ہیں، نہ کسی اور gadget کا استعمال کرتے ہیں۔ وہ وقت بس فیملی کے لےم مختص ہوتا ہے۔ جہاں وہ ایک دوسرے سے دن بھر میں ہونے والے احوال پر گفتگو کرتے ہیں۔ ایک دوسرے سے اپنے تجربات شیئر کرتے ہیں۔ کسی کو اگر کوئی مشکل پیش ہو تو اس پر رائے مشورہ کرتے ہیں۔
بچوں کے کھلونے، پاکٹ منی:
نادان دنیا دار اپنے بچوں کو لاڈ پیار میں بگاڑ دیتے ہیں۔ وہ اپنے بچوں کو کسی چیز کے لےو محنت نہیں کرنے دینا چاہتے۔ اور اکثر تو بچوں کی خواہشات پوری کرنے میں قرض لینے سے بھی نہیں کتراتے۔
جبکہ عقل مند دنیا دار اپنے بچوں کو پیسے کی صحیح اہمیت بتانے کے لےس پوری جدوجہد کرتے ہیں، اس کے لےع مختلف پروجیکٹ بناتے ہیں۔ وہ آج ہی بچے کی فرمائش پوری کر سکنے کی استطاعت رکھنے کے باوجود بچے کو کچھ دن انتظار کراتے ہیں۔ بچے کو اس کی پاکٹ منی کا کچھ حصہ جمع کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ اس کی چیزوں کی قیمت پوری کی پوری خود ادا نہیں کرتے بلکہ کچھ حصہ خود بچے کو بھی ڈالنے کہتے ہیں۔
بچوں کی ملازمت، تجارت:
نادان دنیا دار خود بھی پہچان اور چاپلوسی کی بنا پر زندگی گزار رہے ہوتے ہیں، اور دانستہ یا نادانستہ اپنے بچوں کے ذہن میں بھی یہ بیج ڈال دیتے ہیں۔ قابلیت بنانے پر کبھی ان کی توجہ جاتی ہی نہیں۔ پھر بڑے ہو کر یہ نااہل بچے پہچان اور چاپلوسی سے کوئی ملازمت پا بھی لیں تو اس میں ٹِک نہیں پاتے۔ یا تو کمپنی نکال دیتی ہے، یا یہ خود چھوڑ بیٹھتے ہیں۔
عقل مند دنیا دار خود کمپنی کے مالک یا اعلیٰ عہدے پر فائز ہوتے ہوئے بھی اپنے بچوں کو دوسری کمپنی میں ملازمت تلاشنے بھیجتے ہیں۔ جہاں انھیں دوسرے امیدواروں کی طرح ہی مختلف انٹرویوسے گزرنا ہوتا ہے، اور اپنی قابلیت کی بنا پر ہی ملازمت حاصل کرنی ہوتی ہے۔ اس لےم شروع ہی سے ان کی توجہ خود کو قابل بنانے پر ہوتی ہے۔
کتابیں:
نادان دنیا دار صرف نصابی کتابوں کو ضروری سمجھتے ہیں۔ وہ بھی صرف وقتی طور پر۔ نصابی کتابوں کو بس جزوی طور پر کچھ کچھ پڑھ لیتے ہیں تا کہ امتحان میں پاس ہو سکیں، اور بس۔ اس کے علاوہ نصابی کتابوں سے بھی انھیں کوئی لینا دینا نہیں ہوتا، دوسری کتابیں پڑھنے کا تو سوال ہی نہیں۔
اس کے برعکس عقل مند دنیا دار نصابی کتابیں بھی گہرائی اور دلچسپی سے پڑھتے ہیں، ان کا مقصد نصابی کتابوں کے مواد کو سمجھنا اور اسے زندگی بھر کے لےس اپنے ذہن میں محفوظ کرنا ہوتا ہے۔ کیونکہ انھیں پتہ ہوتا ہے کہ ان اسکول کالج اور مارکس کی دنیا سے آگے جو اصل دنیا ہے وہاں کوئی بھی نالج حقیر یا غیر ضروری نہیں سمجھی جاتی۔ اور کب کس جگہ اسی نصاب کے کسی نکتہ کی ضرورت پڑ جائے کوئی کہہ نہیں سکتا۔ اور جب پڑھنا ہی ہے تو دلچسپی سے پڑھو، اس طرح نصاب آسان بھی لگے گا، اور دیر تک ذہنوں میں محفوظ رہے گا۔
یہ تو رہی نصاب کی بات۔ عقل مند دنیا داروں کی زندگی نصاب تک محدود نہیں ہوتی۔ وہ غیر نصابی کتابیں بھی بہت پڑھتے ہیں۔ ان کے یہاں پڑھنے کا بھی ایک وقت مقرر ہوتا ہے جہاں وہ نئے نئے عنوانوں پر مختلف کتابیں پڑھتے رہتے ہیں۔ اس طرح وہ کسی بھی بیٹھک / میٹنگ میں کسی بھی عنوان پر بحث (discuss) کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ پھر ایسے ہی لوگ انٹرویو وغیرہ میں اپنے غیر نصابی مطالعہ کی وجہ سے سلیکٹ کر لےن جاتے ہیں، اور نادان دنیا دار تعصب کا رونا روتے رہ جاتے ہیں۔

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
Naseem Akhtar

جزاکم اللہ خیرا آپ نے اس تحریر کے ذریعے بند آنکھیں کھول دیں