کہا جاتا ہے کہ دوریاں بدگمانیاں پیدا کرتی ہیں، اور بدگمانیاں عداوتیں، اور عداوتیں امن و سکون برباد کردیتی ہیں، اور فرد اور معاشرے کو ترقی سے روک دیتی ہیں۔
بھارت دنیا کا ایک قدیم اور یونیک قسم کا ملک ہے جہاں صدیوں سے سیکڑوں مذاہب کے ماننے والے شانہ بشانہ رہتے چلے آرہے ہیں۔ انگریزوں کے دورِ حکومت میں بھی مختلف مذاہب کے ماننے والے اپنے اپنے مذاہب پر آزادی کے ساتھ عمل کرتے رہے ہیں۔ جب سے ملک آزاد ہوا اور سیکولر اسٹیٹ بنا، قانونی طور پر ہر مذہب کا ماننے والا آزادی کے ساتھ نہ صرف اپنے اپنے مذہب پر عمل کرتا ہے بلکہ اس کے پرچار کا بھی حق رکھتا ہے۔ سب کی بستیاں مشترک ہیں، تجارتیں مشترک ہیں، درس گاہیں مشترک ہیں۔ کتنی ہی بستیوں میں مندر، مسجد، گرجا گھر، گردواروں اور سنیگاگ(یہودیوں کی عبادت گاہ) کے درمیان فاصلہ صرف ایک دیوار کا ہے اور یہ دیوار بھی مشترک ہے۔ ساری اقوام پُرامن طریقے سے رہتی ہیں۔ یہاں سیکڑوں زبانیں بولی جاتی ہیں۔ ہر صوبہ ایک الگ ملک کے مانند ہے۔ ان کی تہذیب الگ الگ، ان کا کھانا پینا مختلف، ان کا پہننا اوڑھنا جداگانہ، اس کے باوجود آپس میں سب مل جل کر رہتے ہیں اور ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں۔ دنیا بھارت کے کثیرالمذاہب اور متعدد ثقافتوں پر مشتمل معاشرے کی مثال دیتی ہے۔ دنیا بھر سے ریسرچ اسکالرز محض اس بات کی تحقیق کے لیے بھارت آتے ہیں کہ مختلف مذاہب کے ماننے والے یہاں ایک جگہ کیسے اور کس طرح سے متحد رہتے ہیں۔
لیکن ادھر چند سالوں سے ملک کے بعض حصوں کا ماحول بگڑتا نظر آرہا ہے۔ ایک کمیونٹی کو دوسری کمیونٹی سے بدظن کیا جارہا ہے۔ بدگمانی اتنی بڑھ رہی ہے کہ ایک دوسرے پر ان کا اعتماد ختم ہونے کے ڈگر پر ہے۔ شکوک وشبہات کی بھرمار ہے۔ بعض علاقوں میں خوف وہراس کا سا ماحول بن گیا ہے۔ قسم قسم کے تصورات Perceptions پیدا کیے جارہے ہیں۔ نئی نئی حکایات( Narratives) گھڑی جارہی ہیں، لیکن الحمدللہ! ملک کی اکثریت امن پسند ہے۔ مل جل کر رہنے کو ترجیح دیتی ہے، مگر کیا کیا جائے کہ بعض عناصر نا معلوم یا بے بنیاد وجوہات کی بنا پر مسلم قوم کو طرح طرح سے بدنام کرنے اور ملک کی اکثریت کو ان سے بد ظن کرنے کی مسلسل کوشش کر رہے ہیں۔ مختلف اقوام کے مثالی اتحاد کے اندر دراڑیں ڈالنا چاہتے ہیں۔ ان کے درمیان جو پیار محبت اور خوش گوار تعلقات ہیں ان کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ مختلف میدانوں میں ان کا آپسی تعاون کھٹکنے لگا ہے۔ مختلف ہتھکنڈوں اور پروپیگنڈوں کے ذریعے مسلمانوں کو پریشان کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس ملک کو ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی، دلت سبھوں نے مل کر آزاد کرایا تھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں نے اس ملک کی آزادی میں کلیدی رول ادا کیا ہے، اور اس کے لیے بے مثال قربانیاں دی ہیں۔ لیکن کچھ لوگ تاریخ پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں۔ چند افراد ملک کی اکثریت کو مسلمانوں سے خوف زدہ کر رہے ہیں۔ انھیں الگ تھلگ اور تنہا کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔ ملک کی اکثریت کو ان سے بچ کر رہنے کی تلقین کی جارہی ہے کہ ان کے ساتھ تجارت نہ کی جائے، ان کو اپنے محلوں اور گاؤں میں رہنے کا موقع نہ دیا جائے۔ انھیں کرایے پر مکان اور دکان نہ دی جائے، یہ دہشت گرد ہیں، خون خرابہ کرنے والے لوگ ہیں، ملک پر قبضہ کرلینے کی یہ پلاننگ کر رہے ہیں اور نہ جانے کیا کیا غلط باتیں ان کے خلاف پھیلائی جارہی ہیں۔ سیدھے سادے معصوم لوگ اس پروپیگنڈے کا شکار ہوکر مسلمانوں سے بدکنے اور خوف زدہ ہونے لگے ہیں۔ زندگی کے روز مرہ کے معمولات میں انھیں اپنے ساتھ دیکھنا نہیں چاہتے۔ روز بہ روز یہ بدظنی بڑھتی جارہی ہے۔ سوشل میڈیا وغیرہ پر یہ سب دیکھ پڑھ کر اپنے وطن عزیز کی سلامتی کی بہت فکر ہوتی ہے۔
ایسے ماحول میں مقام شکر ہے کہ ملک کے وزیر اعظم جناب نریندر مودی صاحب نے ایک لمبی خاموشی کے بعد اچانک اپنی پارٹی کے سربراہان کے دو روزہ اجلاس منعقدہ بتاریخ 18 -17جنوری 2023 ء کو ملک کے مسلمانوں کے خلاف نہ صرف بولنے سے منع کیا ہے بلکہ ان کے ساتھ میل ملاپ کو بڑھانے اور تعلقات کو استوار کرنے کی بھی تاکید کی ہے۔ 18 جنوری۲۰۲۳ء کے Hindustan Times نے اس خبر کی سرخی یہ باندھی ہے:
India’s Modi Urges His Hindu Nationalist Party to Not Discriminate Against Muslims.
’’پرائم منسٹر مودی جی نے اپنی ہندو قومی پارٹی پر زور دیا کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک نہ کرے۔‘‘
دیر آید درست آید۔ یہ نہایت خوش آئند بات ہے۔ ایسے گرما گرم اور غیر یقینی ماحول میں اچانک ملک کے سربراہ کی جانب سے ایسی نصیحت اپنے اندر بہت وزن رکھتی ہے، اور اس کا کچھ تو اثر ضرور ہوگا۔ اس پر مسلمانوں کی جانب سے وزیر اعظم کا شکریہ ادا کیاجانا چاہیے۔ وقت اور حکمت کا تقاضا یہی ہے کہ جناب وزیر اعظم صاحب کے اس پیغام کو سیاست کی نذر کرنے کی بجاے مثبت طریقے سے لینا چاہیے اور اسی کو بنیاد بناکر مسلم سربراہوں کو چاہیے کہ وہ بھی ہندو برادری کو قریب لانے اور Integration کے لیے کوششیں کرے۔ ماضی کی تلخیوں میں گم رہنے کی بجائے مستقبل کی فکر کرنی چاہیے۔ ملک کے جن حصوں میں بڑے پیمانے پر جو بدگمانیاں جنم لے چکی ہیں انھیں دور کرنے کے لیے سماجی ہم آہنگی Community Cohesion کو فروغ دیا جائے۔ یہی اس کا حل اور علاج ہے۔
مسلمانوں کے متعلق جو غلط تصورات قائم کرلیے گئے ہیں کہ یہ لوگ دہشت گرد ہیں، جہادی ہیں، غدار ہیں، ملک سے ہمدردی نہیں رکھتے، ملک کے قوانین کی پاس داری نہیں کرتے، زبردستی لوگوں کو اسلام میں داخل کرتے ہیں، چار چار شادیاں کرکے زیادہ بچے پیدا کرتے ہیں اور ملک پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ ان میں کچھ صداقت نہیں، اس بات سے خفیہ ایجنسیاں اچھی طرح واقف ہوں گی۔ ممکن ہے اِکّا دُکّا کوئی واقعہ رونما ہوا ہو تو ہو، لیکن ملک کی مسلم قوم قانون کی پاس داری کرنے والی قوم ہے۔ مسلمان ملک سے بہت زیادہ محبت کرتے ہیں۔ وہ اس ملک کو اپنا ملک سمجھتے ہیں۔ اس کو بنانے، سنوارنے، اس کی ترقی اور نیک نامی کے لیے وہ ہمیشہ کوشاں رہتے ہیں۔ جس طرح ملک کی آزادی میں انھوں نے بھرپور حصہ لیا اور کلیدی رول ادا کیا تھا بالکل اسی طرح وقت پڑنے پر اس کے دفاع اور حفاظت کے لیے بھی وہ صف اوّل میں نظر آئیں گے۔
آج مسلمانوں کو غیر مسلموں سے اپنا حقیقی تعارف کرانے کے لیے، ان سے تعلقات کو خوش گوار بنانے کے لیے ایک جامع لائحہ عمل ترتیب دے کر، منصوبہ بند طریقے سے اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ جناب وزیر اعظم کی خواہش کے مطابق بغیر کسی امتیاز کے ساری اقوام پھر سے پیار محبت اور باہمی اعتماد کے ساتھ شانہ بشانہ رہ سکیں۔
امریکہ کے9/11 کے حادثہ کے بعد مسلم اُمّہ سخت آزمایش کا شکار ہوگئی تھی۔ دنیا کے کونے کونے میں انھیں تپایا گیا، ستایا گیا۔ امریکہ، برطانیہ، یورپ وغیرہ میں ان کے خلاف بہت زیادہ بدگمانیاں پیدا ہوگئی تھیں۔ مختلف اقوام کے درمیان فاصلے بڑھ گئے تھے۔ مسلمانوں کو ہر کوئی شک کی نگاہ سے دیکھنے لگا تھا۔ ہر کوئی ان سے خائف رہتا تھا۔ حالانکہ دنیا کی پونے دو ارب مسلم آبادی میں سے چند گنے چنے افراد کے عمل کی وجہ سے پوری قوم کو دوشی نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ اگرچہ آج تک عالمی عدالت میں یہ ثابت نہ ہوسکا کہ اس دہشت گرد حملے کے پیچھے کس کا ہاتھ تھا اور اس کا ماسٹر مائنڈ کون تھا۔ جو کچھ میڈیا میں آیا اس کے اندر اس قدر تضاد پایا جاتا ہے کہ دنیا کے کئی باشعور افراد نے اس کو تاریخ کی ایک بہت بڑی سازش (Conspiracy) قرار دیا ہے۔ اس کے باوجود اس فعل مکروہ کی مذمت سب سے زیادہ مسلم کمیونٹی اور ان کی لیڈرشپ ہی نے کی ہے۔ کیونکہ اسلام کا دہشت گردی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ اسلام کی تعلیمات اور دہشت گردی دو متضاد چیزیں ہیں۔ دونوں کبھی اکٹھے ہو نہیں سکتے۔
اس واقعہ نے وقتی طور پر دنیا بھر کے مسلمانوں کو بہت بدنام کیا۔ لیکن تجربات بتاتے ہیں کہ مسلم کمیونٹی اور اس کی بیدار مغز لیڈرشپ نے رونے دھونے، شکوے شکایات اور محاذ آرائی کی بجائے مثبت طریقہ سے اپنا دفاع کیا۔ اپنا اور اپنے دین اسلام کا سچا اور حقیقی تعارف کرایا۔ غلط فہمیوں کے ازالہ کے لیے Integration اور سماجی ہم آہنگی کے لیے بہت کام کیا۔ مادر وطن میں آج کل کے ماحول میں مسلمانوں کو یہی سب کچھ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ یہ کام وزیر اعظم جناب نریندر مودی جی کی اپنی پارٹی کے کارکرتاؤں کو نصیحت کے بعد قدرے آسان ہوگیا ہے۔ اس سلسلے میں ذاتی تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں چند نکات پیش کرنا چاہتا ہوں:
سب سے پہلے کرنے کی چیز یہ ہے کہ مسلم قوم اور ان کی لیڈر شپ کو اپنا محاسبہ کرنا چاہیے کہ وہ کس درجے کے مسلمان ہیں۔ انھیں ترجیحی بنیادوں پر سچا اور پکا مسلمان بن جانا چاہیے۔ انھیں اپنے اخلاق اور کردار کے گراف کو بلند سے بلند تر بنانا ہوگا۔ اخلاقیات کے ساتھ ساتھ آپ کے معاملات بھی بالکل صاف ستھرے بن جائیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ ملک کے معزز صدر، معزز وزیر اعظم اور معزز وزراء، مقامی MP, MLA اور کونسلر حضرات سے مسلسل رابطہ بنائے رکھیں، ان سے ملاقات کرتے رہیں۔ ان سے رابطہ کے بہانے تلاش کرتے رہیں۔ اگر ملاقات ممکن نہ ہوسکے تو کم از کم مراسلت کے ذریعہ تعلق قائم رکھیں۔
تیسری بات یہ ہے کہ ملک کے عصری تعلیمی ادارے؛ اپنے اپنے علاقے کی یونی ورسٹیوں سے لے کر پرائمری اسکولوں تک کی انتظامیہ، ان کے چانسلر، پرنسپل، پروفیسر، لیکچرر، اساتذہ وغیرہ سے گاہے بگاہے ملتے رہیں۔ ان کے یہاں خود جائیں اور موقع بموقع انھیں بھی اپنے اداروں بالخصوص دینی اداروں میں ضرور بلائیں اور ان کی عزت افزائی کریں۔ ان سے اپنا اور اپنے اداروں کا بھر پور تعارف کرائیں، ان کے ذہن میں جو شکوک وشبہات اور غلط فہمیاں ہیں سائنٹفک انداز میں ان کا ازالہ کریں اور ان کے تجربات سے بھی استفادہ کریں۔ عصری اداروں میں ترقی کے نئے نئے طور طریقے اپنائے جاتے رہتے ہیں، ان کو معلوم کریں، ان سے سیکھیں، اچھے کاموں(Good Practice) کو اپنانے کی کوشش کریں۔ Sharing and Caring کے فارمولہ کے تحت ایک دوسرے سے استفادہ کرتے رہیں۔ ان سب باتوں کا اچھا اثر ہوتا ہے۔ ملک کا ذہن بنانے والا طبقہ آپ کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس سے آپ کو جہاں علمی اور عملی تجربہ حاصل ہوتا ہے وہیں فریقین میں آپسی اعتماد بھی بحال ہوتا ہے اور تعلقات میں خوش گواری پیدا ہوتی ہے۔
چوتھی بات یہ ہے کہ مسلم قوم کو چاہیے کہ وہ اپنے اپنے علاقوں کے محکمہ پولیس سے تعلقات قائم کریں۔ ان کے ساتھ مل کر معاشرے میں پائی جانے والی خرابیوں اور جرائم کے روک تھام کے لیے کام کریں۔ معاشرے سے جرائم کو ختم کرنے کے لیے مسلم کمیونٹی کو محکمہ پولیس کا بھرپور ساتھ دینا چاہیے۔ اس عمل سے جہاں معاشرہ جرائم سے پاک ہوگا وہیں اس اہم محکمہ سے آپ کا تعارف ہوگا۔ یہ محکمہ آپ کو، آپ کی قوم کو اور آپ کے دین کو سمجھنے کی کوشش کرے گا۔ انھیں آپ کی اصلیت کا علم ہوگا۔ اس محکمے کا آپ پر اعتماد بحال ہوگا۔ تعلقات میں بہتری آئے گی۔ نیز مسلمانوں کو اپنے تعلیمی اداروں بالخصوص دینی اداروں کے پروگراموں میں بھی پولیس ڈپارٹمنٹ کے سربراہان کو مدعو کرکے ان کی تکریم کرنی چاہیے، ان سے اپنا اور اپنے اداروں کا تعارف کرانا چاہیے اور ان کے شبہات کا ازالہ کرنا چاہیے۔ حکومت وقت سے اچھے تعلقات کے لیے ان سے مشورے طلب کرتے رہنا چاہیے۔
پانچویں بات یہ ہے کہ مسلم قیادت اپنے اپنے علاقے میں مختلف مذاہب کے سربراہوں سے ملتی رہے۔ وقتا فوقتا ان کے درمیان بین المذاہب مکالمہ(Inter Faith Dialogue) ہو۔ نیز معاشرے کے سدھار اور عام معاشرتی مسائل کو حل کرنے کے لیے آپسی مشوروں سے کام لیا جائے۔ مسلمان جہاں اپنی قوم کے سدھار کے لیے فکر مند رہیں، وہیں وہ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کی بھی اصلاح اور ان کی فلاح وبہبود کی فکر کریں۔ مختلف مذاہب کے مذہبی پیشواؤں سے خوش گوار تعلقات آڑے وقت میں بہت فائدہ پہنچاتے ہیں۔ تجربہ بتاتا ہے کہ کئی موقعوں پر یہ حضرت ‘‘ابو طالب’’ کا رول ادا کرتے ہیں۔
چھٹی بات یہ ہے کہ مسلم قوم کو غیر مسلوں کے لیے اپنی مساجد کے دروازے کھول دینا چاہیے۔ سال میں کم از کم ایک یا دو مرتبہ Masjid Open Day رکھنا چاہیے۔ اپنے اپنے علاقے کے مختلف پس منظر رکھنے والے با اثر مرد و خواتین کو مسجد آنے کی دعوت دینی چاہیے۔ مسجد کے کسی مناسب مقام پر تعارفِ اسلام پر مشتمل مختلف پوسٹرز چسپاں کیے جائیں۔ تعارف اسلام پر مختصر اور جامع پمفلٹ انھیں دیے جائیں۔ کوئی ذہین ساتھی مسجد کا جامع تعارف کرائے اور حکمت سے مسجد کے رول کو اجاگر کرے۔ بالخصوص انھیں یہ بتائے کہ یہ مساجد عبادت گاہ کے ساتھ ساتھ امن کی بحالی اور انسانیت نوازی کے مراکز بھی ہیں۔ یہ گویا پولیس چوکیاں (Police Stations) بھی ہیں۔ وہ اس طرح سے کہ انھیں بتایا جائے کہ مساجد میں جمعہ کے دن ایک ہفتہ واری اجتماع ہوتا ہے۔ اس دن خطبہ جمعہ دیا جاتا ہے، جس کا اہم مقصد گناہوں، غلط کاریوں اور طرح طرح کے جرائم میں ملوث افراد کی اصلاح ہے۔ اس موقعہ پر انھیں نصیحت کی جاتی ہے۔ نیز ہفتہ بھر مختلف اوقات میں جو دروس ہوتے ہیں اس کا بھی بنیادی مقصد کمیونٹی کی اصلاح ہوتی ہے۔ مسلم قوم کو بتایا جاتا ہے کہ چوری کرنا گناہ ہے، شراب پینا، ڈرگس لینا اور اس کا کاروبار کرنا سخت حرام ہے۔ زنا کرنا سنگین جرم ہے، پڑوسی چاہے جس مذہب کا بھی ہو اس کے ساتھ حسن سلوک کرنا نیکی ہے اور اس کو ستانا تنگ کرنا بدترین جرم ہے۔ مذہبی تفریق کے بغیر پریشان حال افراد کی مدد کرنا بڑی نیکی ہے۔ پرسنل اور اطراف واکناف کی صفائی ستھرائی کا خیال کرنا دین کا حصہ ہے۔ راستہ سے تکلیف دہ چیز کا ہٹانا کار ثواب ہے۔ کسی کو دھوکا دینا ناجائز ہے۔ نیز مسلم کمیونٹی کو سمجھایا جاتا ہے کہ ملک کے قوانین کی پابندی کرنا اچھے شہری کی علامت ہے۔ قانون ہاتھ میں لینا بڑی غلطی ہے۔ یہاں قانون کے پاس دار شہری بن کر اپنا، اپنے خاندان، محلے، گاؤں اور ملک کا نام روشن کرنے کی تاکید کی جاتی ہے۔ مسجد کا معائنہ کرنے والے غیر مسلموں کو پانچ وقت دی جانے والی اذان کا مقامی زبانوں میں ترجمہ بتایا جائے۔ انھیں جمعہ کا خطبہ سننے کی دعوت دی جائے، انھیں کسی بھی نماز کے وقت مسجد آکر نماز کا طریقہ دیکھنے اور سمجھنے کی دعوت دی جائے۔ یقین مانیں اس طرح غلط فہمیوں کے ازالے کے لیے مساجد کلیدی رول ادا کرسکتی ہیں۔
ساتویں بات یہ ہے کہ مسلم کمیونٹی کا غیرمسلموں کے ساتھ تعلقات کو استوار کرنے اور ان کی غلط فہمیوں کو دور کرنے کا ایک اہم ذریعہ رفاہی کام بھی ہے۔ لیکن یہ عمومی طور پر سماج کا کم زور اور غیرمؤثر طبقہ ہوتا ہے۔ چونکہ کثیرالمذاہب سماج میں یہ شعبہ اس بات سے بھی متہم ہے کہ لوگوں کو پیسہ دے کر اسلام کی طرف دعوت دی جاتی ہے وغیرہ، اس لیے اس شعبے میں بہت احتیاط کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اشتہار بازی، تصویر کشی وغیرہ سے بچ کر، آخرت طلبی کے جذبے سے سرشار ہوکر بلاتفریقِ مذہب اپنے اپنے علاقے کے ضرورت مندوں کی مدد کی جائے۔ اس عمل سے جہاں محتاجوں کا حق ادا ہوگا وہیں ان کی بہت ساری غلط فہمیاں بھی دور ہوجائیں گی اور تعلقات میں بہتری آئے گی۔
آخری بات یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ معاشرے میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں، جو ہمیشہ مسلمانوں سے سخت نالاں رہتے ہیں، ان کے تعلق سے سخت غلط فہمی کا شکار ہوتے ہیں، ان سے شدید عداوت رکھتے ہیں، بلکہ بسااوقات مار دھاڑ پر بھی اتر آتے ہیں۔ یہ حضرات نہ صرف مسلم قوم کی، بلکہ ان کے دین، ان کے رب، ان کے رسول اور قرآن تک کی بھی توہین کرتے ہیں۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ جذباتیت اور ردّ عمل کا شکار نہ ہوں، بلکہ ان کو بالکل مثبت انداز میں سنبھالنے کی کوشش کریں۔ ساتھ ساتھ کسی بھی طرح سے ان تک پہنچنے اور ان کی غلط فہمیوں کو دور کرنے کی بھی فکروسعی کی جائے۔ ہمدردی سے پُر، نہایت نرم لب ولہجے میں ان کی عداوت اور غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کی جائے۔ دراصل وہ نہ آپ کو جانتے ہیں اور نہ آپ کے دین سے واقف ہیں، اس لیے آپ کی مخالفت کرتے ہیں۔ آپ کی ذمے داری ہے کہ آپ اپنا اور اپنے دین کا ان سے تعارف کرائیں۔ آپ کا کام کوشش کرنا ہے۔ آپ کی کوشش کو کامیاب بنانا اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ یہ کام اللہ پر چھوڑ دینا چاہیے۔ عمومًا ہم لوگ صرف ان غیر مسلم ہم وطنوں سے ملتے ہیں جو قدرے اچھے، سنجیدہ ہوتے ہیں، لیکن جو لوگ شدید قسم کی غلط فہمیوں کا شکار ہیں، جو آپ سے شدید نفرت کرتے ہیں، دشمنی کرتے ہیں، آپ کو برا بھلا کہتے ہیں؛ ایسے لوگوں کے لیے نبوی طریقہ یہ ہے کہ آپ ان کے حق میں ہدایت کی دعا کریں۔ اللہ کے نبی نے طائف میں زخمی ہونے کے باوجود پتھرمارنے والوں کے حق میں یہ دعا فرمائی تھی:
اَللّٰہُمَّ اھدِی قَوْمِی فَإنَّہُمْ لا یَعْلَمُوْن (اے اللہ! میری قوم کو ہدایت عطا فرما کہ وہ لوگ مجھے نہیں جانتے)
ہمیں اس سنت پر بھی اخلاص کے ساتھ عمل کرنا ہوگا۔ کیا معلوم کہ اللہ کب کس کی بدگمانی دور کردے اور کب کس کو ہدایت دے دے۔ یاد رہے کہ ہمارا کام مایوس ہوے بغیر حوصلے کے ساتھ کوشش کرنا ہے۔ باقی نتائج اور فیصلہ اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ غیر مسلموں کی غلط فہمیوں کے ازالے کے لیے دوسری قوموں کے ساتھ میل ملاقات کو بڑھانا چاہیے کہ دوریاں غلط فہمیوں اور بدگمانیوں کو پیدا کرتی ہیں۔ جب یہ لوگ قریب آئیں گے تو ثمامہ بن اثال کی طرح ان کی بھی غلط فہمیاں دور ہوسکتی ہیں۔ واللہ ولی التوفیق
ماشاءاللہ بہت عمدہ نصیحتیں ہیں اللہ تعالیٰ آپ کو صحت وسلامتی عطا فرمائے اور ہم سبھوں کو اس پر عمل کی توفیق دے آمین ۔