أنزلوا الناس منازلَھم

وسیم المحمدی معاملات

کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن سے اکیلے میں گفتگو کرتے وقت ان کی بہت ساری باتیں نظرانداز کرنا بڑا آسان ہوتا ہے۔وہ باتیں کتنی گھٹیا اور ناقابل برداشت ہیں یہ تب پتہ چلتا ہے جب سننے والے اور بھی لوگ ہوں۔ تب صرف ایک ہی خیال آتا ہے کہ بندہ کسی طرح چپ ہوجائے بس۔ دل کرتا ہےاس کے منہ پر کچھ چپکادیا جائے یا کسی طرح وہ بے ہوش ہوجائے یا بھول جائے کہ اسے بولنا ہے۔ کچھ بھی خیال آتا ہے صرف اس لیے کہ وہ نہ بولے۔

حساسیت اور بے حسی میں یہی فرق ہوتا ہے۔ یہی فرق شریف اور رذیل میں بھی ہوتا ہے۔ شریف خیر خواہ ہوتا ہے اور رذیل خودغرض۔ شریف نیکی سمجھ کر کوئی غلطی کرجائے تو چپ بیٹھ جاتا ہے۔ رذیل کا مطلب نہ نکلے تو ایسا ناچتا ہے کہ دنیا چھوٹی پڑجاتی ہے۔

ڈاکٹر وسیم المحمدی صاحب نے اپنے اس مضمون میں ظلم کے جس دوسرے پہلو پر روشنی ڈالی ہے وہ اس لیے زیادہ اہم ہے کہ شریف انسان کے لیے اس سے بچنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے لے کر سفیان ثوری اور امام شافعی رحمہم اللہ جیسے نیک طینت اور شریف طبع لوگ بھی اس تجربے سے دوچار ہوئے یا اس مسئلے کو سمجھا اور بیان کیا۔

یہ مسئلہ دیر سویر ہر شریف انسان کی زندگی میں پیش آتا ہے۔ پہلے جو کام نیک معلوم ہوتا ہے اسی پر بندہ بعد میں افسوس کرتا دکھائی دیتا ہے۔ خیرخواہی نیک کام ہے، اچھا سلوک بھی ثواب کا کام ہے، مگر درزی کو قلم دینے سے تاریخ ساز قوم کا نہیں پاجامہ پہننے والے لوگوں کا بھلا ہوتا ہے۔ بندے کا نیک نیت ہونا کافی نہیں ہے، نیک نیتی کے ساتھ تمیز بھی ہونی چاہیے واہ اور آہ کے موقع محل کی۔

اسی تمیز کو یہاں توازن برتنے کے آداب میں ڈھال دیا ہے ڈاکٹر وسیم المحمدی صاحب نے۔یہاں تک کہ معانی ومحسوسات کے اظہار میں بھی اس کا التزام ضروری ہے۔ جیسے توقیر کی ایک حد ہوتی ہے اقرار کی بھی ہوتی ہے۔ اعتراف تک تو ٹھیک ہے مگر وارفتگی میں تعریف کی حد پار کرجانا حوصلہ افزائی نہیں اپنی عزت داؤں پر لگانا ہے۔ گھٹانا بڑھانا دونوں ناانصافی ہے دونوں ظلم ہے۔ افراط وتفریط سے بچنا اور راہ اعتدال پر چلنا ہمارے دین کا امتیاز ہے۔ معروف تو کمی برتنا ہے مگر بیشی سے جو چھچھیا لیدر مچتی ہے اس کا مشاہدہ دنیا کرتی ہے، بس سبب نہیں جانتی۔

اسی سبب کواقوال سلف کی روشنی میں بڑی حکمت سے بیان کیا گیا ہے۔ قابل مبارک باد ہیں ڈاکٹر صاحب کہ انسانی تعامل کے ایسے نادر پہلو کو انھوں نے موضوع بنایا اور موضوع کی وضاحت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ گذشتہ مضامین کی طرح ڈاکٹر صاحب کا یہ مضمون بھی پہلے پیراگراف سے آخری جملے تک قاری کو اپنے سحر میں باندھے رکھتا ہے۔ توجہ باقی رہتی ہے اور دلچسپی بڑھتی جاتی ہے۔ (ایڈیٹر)


جبران خلیل جبران عصر حاضر کا ایک مشہور فلسفی شاعر گزرا ہے، یہ ان شعراء میں سے تھا جو پیدا تو عالم عرب میں ہوئے، مگر زندگی کی ناہمواریوں نے انھیں یورپ و امریکا جاکر بسنے پر مجبور کردیا۔

جبران نے زندگی کی ابتدا صفر سے کی،مگر مسلسل جد وجہد سے شہرت کی بلندیوں تک پہنچا۔ زندگی کی کرم فرمائیوں نے اسے ہجرت کے ایک سے زائد کرب جھیلنے پر مجبور کیا، اور قید حیات پے در پے بند غم سے الجھتی سلجھتی، لڑتی جھگڑتی اور جوجھتی رہی۔ اس نے محرومیت سے لبالب عربی زندگی بھی دیکھی اور ترقی یافتہ یورپ و امریکہ کے چپے بھی خوب کھنگالے۔

جبران خلیل شاعر وفلسفی تھا ہی، ساتھ ہی ساتھ مصور بھی تھا۔ شاعر اگر مصور بھی ہو تو اس کے یہاں تخیل،تصویر کشی اور باریک بینی کی فراوانی کا کیا کہنا۔ ایسے لوگ عموما خیالات کے بادشاہ ہوتے ہیں، اور بڑی ہی پینی نظر رکھتے ہیں۔ سو جبران خلیل بھی تھا۔ بندہ بہت ہی ذکی الحس اور انفعالى طبیعت كا مالک تھا جو اس کی شعر وشاعری میں نمایاں ہے۔ جبران زندگی کے معارک سر کرتے ، عرب سے یورپ و امریکہ تک پڑھتے، کڑھتے اور ابناء آدم کے ساتھ طویل تجربہ سے گزرتے ہوئے اس نتیجہ تک پہنچا:(إننا نشعر بالأسى على أنفسنا أحیانا، لیس لأننا أسأنا التصرف، بل لأننا أحسنا التصرف أکثر من اللازم) کہ بسا اوقات ہم اپنے آپ پر اس لیے افسوس اور ماتم نہیں کرتے ہیں کہ ہم نے کسی کے ساتھ زیادتی کردی ہے، یا اس کو تکلیف پہنچادی ہے، بلکہ اس لیے کف افسوس ملتے ہیں کہ ہم کسی کے ساتھ ضرورت سے زیادہ بھلائی سے پیش آگئے یا اس کے ساتھ غیر ضروری حسن اخلاق کا مظاہرہ کردیا۔

وضع الشیء فی غیر موضعہ ظلم ہے۔ اس لیے وضع الشیء فی موضعہ عدل ہے۔ اور بعینہ یہی چیز حکمت بھی ہے۔ گویا عدل کا دوسرا نام حکمت ہے۔ اور حکمت کا دوسرا رخ عدل وانصاف ہے۔ البتہ میدان عمل وتطبیق میں دونوں کے اطلاق وتقیید میں حسب سیاق وحسب احوال و ظروف وسعت اورتنگی آتی رہتى ہے۔

ظلم کے لیے ضروی نہیں ہے کہ ہم کسی کا حق چھین لین، کسی کی عزت وتکریم میں کوتاہی کردیں، کسی کی کی اہانت وتحقیر کے مرتکب ہوجائیں۔ ظلم یہ بھی ہے کہ ہم کسی کو اس کے حق سے زیادہ دے دیں یا جس عزت وتکریم کا وہ مستحق نہیں ہے اس سے بھی اسے نواز دیں۔ یہ عدل وانصاف اور حکمت ودانائی سب کے منافی ہے۔ کیونکہ یہ میزان عدل پر فٹ نہیں بیٹھتا، بلکہ ظلم کی تعریف اس پر صادق آتی ہے۔

توازن چاہے نظریہ میں ہو یا تعامل میں، تعامل چاہے انسان کے ساتھ ہو یا حیوان کے ساتھ، جمادات کے ساتھ ہو یا نباتات کے ساتھ، معانی کے ساتھ ہو یا مبانی کے ساتھ؛ پرسکون اور کامیاب زندگی کے لیے انتہائی ناگزیر ہے۔ کسی بھی شیء کے تئیں متوازن نظریہ رکھنا یا کسی بھی مخلوق سے تعامل میں افراط وتفریط سے بچ کر اعتدال کے ساتھ تعامل کرنا جس قدر ضروری ہے اسی قدر مشکل ترین بھی ہے۔ زندگی کا یہ ایسا گراں قدر خزینہ ہے جو بہت ہی تپسیا کے بعد حاصل ہوتا ہے۔ جب عمر رفتہ کا بیشتر حصہ گزر چکا ہوتا ہے، زندگی تجارب کی بھٹی میں پک کر کندن ہو چکی ہوتی ہے، تب کہیں جاکر یہ سلیقہ آتے آتے آتا ہے، پھر بھی یہ امکان قوی رہتا ہے کہ آزمائش کا ہلکا سا جھونکا یا پیچیدگی کی چھوٹی سی گانٹھ کہیں قدم افراط یا تفریط کی طرف مائل نہ کردے۔

اجتماعی زندگی میں تعلقات ایک ناگزیر شیء ہے۔ یہ تعلقات آپسی محبت، ایک دوسرے کی قدر اور مقابل کو اس کا جائز حق دینے سے قائم رہتے اور پروان چڑھتے ہیں، بصورت دیگر تعلقات کی گاڑى کچھ دور چلتی ہے، پھر کھڑکھڑا کر رک جاتی ہے۔

یوں تو زندگی میں کسی بھی چیز کو اس کی اصل قدر وقیمت سے کم یا زیادہ اہمیت دینا مضر،نقصان دہ اور عدم توازن کی کھلی دلیل ہوتا ہے ۔ تاہم آپسی تعلقات اور احباب کی تکریم وقدردانی میں افراط وتفریط کافی گھاٹے کا سودا ہوتا ہے، جس کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب بہت کچھ ہاتھ سے نکل چکا ہوتا ہے۔

عموما جب ہماری نظر سے مشہور عبارت (أنزلوا الناس منازلہم) گزرتی ہے تو ہمارے ذہن میں یہ مفہوم ابھرتا ہے کہ جو لوگ صاحب مقام ومرتبہ ہوں انھیں ان کا پورا پورا حق دینا چاہیے۔ اور ان کی عزت وتکریم کرتے وقت ان کے مقام ومرتبہ کا مکمل خیال کرنا چاہیے۔ اس طرح یہ مفہوم عموما ان لوگوں سے جڑ جاتا ہے جو سوسائٹی میں کوئی مقام ومرتبہ رکھتے ہیں یا عمر، علم ،دین اور شرف کے اعتبار سے صاحب حیثیت ہوتے ہیں۔

بلا شبہ اس عبارت کا کلیدی مفہوم یہی ہے، جس کا سیاق بھی تائید کرتا ہے۔تاہم اس نص کی دلالت یا اس معنى میں وارد آپ صلى اللہ علیہ وسلم کا عمل آفاقی ہے۔ مقصود یہ ہے کہ ہر انسان کو بلا افراط وتفریط اس کا جائز اور مستحق مقام ومرتبہ دینا چاہیے، اور جس طرح ایک معزز انسان سے معاملہ کرتے وقت اس کى عزت وشرف کا پورا پورا لحاظ کرنا چاہیے، اسی طرح کم مقام ومرتبہ کے حقدار کو مقام ومرتبہ دیتے وقت غلو سے بچنا اور مبالغہ سے گریز کرنا چاہیے۔ اور جو جس عزت وتکریم کا حقدار نہ ہو اسے بلا وجہ وہ عزت وتکریم نہیں دینی چاہیے جس کا وہ مستحق نہیں ہے، دوسرے لفظوں میں کسی نا اہل کو کسی چیز کا اہل نہیں بنانا چاہیے۔ کیونکہ اس سے سوسائٹی میں فساد لازم آتا ہے۔غور کریں تو (أنزلوا الناس منازلہم) کی لغوی تشکیل اس دوسرے مفہوم کی واضح تائید کرتی ہے۔

البتہ اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ کسی کی تحقیر کی جائے، اس کو کم تر آنکا جائے۔ بلکہ مقصود یہ ہے کہ ہر انسان کو اس کے وہ حقوق دیے جائیں جس کا وہ مستحق ہے اور اس کی وہ عزت وتکریم کی جائے جو اس کے مقام ومرتبہ سے میل کھاتی ہے۔

چونکہ لوگ اپنے مقام ومرتبہ میں مختلف ہیں اس لیے ان کی عزت وتکریم میں بھی یہ فرق ملحوظ رکھا جائے۔ اس میں نہ کوئی زیادتی ہے، نہ کوئی ظلم، بلکہ یہی انصاف کا تقاضا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالى نے اپنى حکمت ومشیت کے تحت لوگوں کو مختلف مراتب میں تقسیم کردیا ہے، چنانچہ اس کی رعایت ضروری ہے اور یہی عین عدل ہے۔

مگر سچائی یہ ہے کہ اجتماعی زندگی میں ہم سے دونوں طرح کی غلطیاں ہوتی ہیں۔ چنانچہ کبھی ہم کسی کو اس کے استحقاق سے زیادہ عزت دے دیتے ہیں اور سخاوت وفیاضی میں اسے وہ بھی عطا کردیتے ہیں جس کا وہ اہل نہیں ہے، جبکہ دوسری طرف کسی پر زیادتی کرتے ہوئے اسے اس کا جائز حق بھی نہیں دیتے۔ اس طرح اجتماعی زندگی میں ظلم کی یہ دونوں صورتیں افراط وتفریط کے ساتھ ہم سے انجام پاتی رہتی ہیں۔

تاہم ظلم کی یہ دوسری قسم بہت ہی واضح اور اس کے برے اثرات اکثر لوگوں کے لیے عیاں وبیاں ہوتے ہیں۔ اس ظلم کا ارتکاب کرنے والا عموما اس کى شناعت یا کم از کم اس کی قباحت یا اس عمل کے منفی پہلو سے واقف ہوتا ہے، اور اسے یہ احساس رہتا ہے کہ وہ یہ غلط کر رہا ہے، مگر اس کا ہوائے نفس، اس کی کوئی مصلحت یا کوئی مجبوری اس سے یہ زیادتی کروادیتی ہے۔

جبکہ ظلم کے پہلی قسم کی شناعت وقباحت کی طرف اکثر لوگوں کی نگاہ نہیں جاتی یا بہت کم جاتی ہے۔ بلکہ ہم بسا اوقات اسے سخاوت وفیاضی یا کار ثواب سمجھ کر انجام دیتے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ظلم کی یہ پہلی قسم اپنى شناعت وقباحت میں دوسری قسم سے کسی طرح کم نہیں ہے، بلکہ کبھی کبھار اس کی شناعت اس سے بھی بڑھ جاتی ہے۔ سوسائٹی پر اس ظلم کے پڑنے والے ہمت جہت منفى اثرات پر اگر ہم غور کریں تو یہ چیز بہت ہی آشکارا ہو کر ہمارے سامنے آجائے گی، اور یہ اچھی طرح سمجھ میں آجائے گا کہ اگرچہ ظلم کی یہ دونوں قسمیں ایک صحت مند سوسائٹی کے لیے بہت ہی ہانیکارک ہیں، اور بہت سارے مقامات پر یہ لازم وملزوم بھی ہوتی ہیں، تاہم ظلم کی پہلی قسم بہت اونچے پیمانے پر فساد بپا کرتی ہے، اور عمدہ معاشرہ بننے کی راہ میں راستے کا پتھر بن جاتی ہے۔

ظلم کی یہ قسم جس قدر نقصان دہ ، قباحت سے لبریز اور شناعت سے پرہے اسی قدر اس کے اقسام وانوع اور شاخسانے نہایت باریک اور مخفی بھی ہیں، جنھیں سلف کے احوال پر باریک نظر رکھنے والا، یا پھر زندگی کے گہرے تجارب رکھنے والا فراست مند انسان ہی سمجھ پاتا ہے۔

آپ غور سے دیکھیں تو پوری اسلامی تاریخ، بلکہ پوری انسانی تاریخ اس ظلم سے کراہتی ملے گی، اور ہر دور میں اس ظلم کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات اور بھیانک حوادث اس کی شناعت پر گواہی دیں گے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ظلم کی سطح اگر چھوٹی ہے تو نسبتا نقصان کم ہوتا ہے، اور سطح اگر بڑی اور اونچی ہے تو نقصان بھیانک ہوتا ہے۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال ائمہ ضلال و کفر کی پذیرائی، اہل جہل وفساد کی بلا وجہ کی واہ واہی اور باطل افکار کے حاملین کی مختلف بہانوں سے مختلف انداز میں شاباشی ہے۔ یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے۔ ورنہ تاریخ میں اس ظلم اور اس کی تباہ کاریوں کی مثالیں بھری پڑی ہیں۔

واعظ کے منبر اور امام کے محراب پر نظر ڈالیے، مسجدوں سے مزاروں تک کا جائزہ لیجیے۔ مکاتب سے مدارس، مدارس سے جامعات کا سفر کیجیے۔بڑے بڑے جلسہ گاہوں اور کانفرنسوں کو غور سے پڑھیے، سیکڑوں ایکڑ پر بنی دانش گاہوں کی سیر کیجیے، سیاست کے گلیاروں میں جھانکیے، گاؤں، محلے، تحصیل اور ضلع سے لے کر صوبائی اور ملکی انتظامیہ کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھیے، ہر جگہ اسی ظلم کا قہر وجبر اور اس کے سنگین نتائج چیختے چلاتے نظر آئیں گے۔ ظلم وجبر کا ایک تسلسل نظر آئے گا، بس ہر جگہ محض سطح کا فرق دکھے گا۔

ظلم کی یہ نوعیت انفردای سطح پر بھی پائی جاتی ہے اور اجتماعی سطح پر بھی، اور دونوں جگہ اس کے برے اور سنگین نتائج اس کی سطح کے اعتبار سے پاؤں پسارے نظر آتے ہیں۔ اس کا شر اس قدر مستطیر ہے کہ اہل علم وفضل اور اہل دانش وبینش نے بہت ہی واضح انداز میں اس سے روکا اور اس کے برے نتائج سے آگاہ کیا ہے اور اس پر کھلے لفظوں میں تنبیہ کی ہے کہ کسی کو اس کے مقام ومرتبہ سے آگے نہ بڑھاؤ کیونکہ اس کا نتیجہ خوش آئند نہیں ہوتا، اور لوگوں سے تعامل کرتے وقت وفور جذبات میں بے راہ روی اور بے اعتدالی کے شکار مت ہو جاؤ کہ اس کا انجام ندامت اور پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ چنانچہ کسی دانا نے بڑى ہی خوبصورتی سے اسى طرف یہ کہتے ہوئے اشارہ کیا ہے:(لا تبالغوا بالحب، ولا تبالغوا بالاھتمام أو الاشتیاق، فخلف کل مبالغۃ صفعۃ خذلان) کہ کسی کی محبت و چاہت ، اس کی عزت وتکریم اور اس کے ساتھ برتاؤ اور حسن سلوک میں مبالغہ آرائی سےاحتراز کرو، کیونکہ ہر مبالغہ کے پیچھے نامرادی کا تھپڑ اور بے وفائى کا تازیانہ ہوتا ہے۔

چونکہ اجتماعی زندگی میں خرابیاں عموما انفرادی زندگی میں موجود خرابیوں کا نتیجہ ہوتی ہیں، اور اجتماعی زندگی میں روا پانے والا ظلم غالبا انفرادی زندگی میں ہونے والے ظلم کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ سلف صالحین نے اس ظلم کی سنگینی سے آگاہ کرتے وقت نہ صرف انفرادی طور پر اس سے باز رہنے کی تلقین کی ہے بلکہ اس کا ارتکاب کرنے کی صورت میں اس کے سنگین نتائج سے بخوبی آگاہ بھی کیا ہے۔

یہ امیر المؤمنین ، چوتھے خلیفہ، آپ صلى اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی ، آپ کی چہیتی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا کے شوہر، علی بن ابی طالب (وفات:۴۰ھ) رضی اللہ عنہ ہیں، آپ کی تربیت آپ صلى اللہ علیہ وسلم کى زیر نگرانی ہوئى ہے۔ آپ صلى اللہ علیہ وسلم آپ پر بہت زیادہ بھروسہ اور اعتماد کرتے تھے، نہ صرف آپ سے شدید محبت کرتے تھے بلکہ آپ کی محبت کو ایمان کا معیار بتاتے تھے۔

على بن ابی طالب رضى اللہ عنہ کو اللہ تعالى نے علم و حکمت اور قوت و شجاعت سب کچھ بھرپور انداز میں عطا کیا تھا، آپ نے زندگی کا ہر رنگ وروپ دیکھا، بڑی بڑی آزمائشوں سے گزرے، جمل اور صفین جیسی ہولناک جنگیں جھیلیں، خوارج ،روافض اور نواصب سب سے نبرد آزما رہے، اور کوفیوں کی بے وفائیاں اور احسان فراموشیاں جھیلتے جھیلتے رفیق اعلى سے جا ملے۔ غرضیکہ میدان عمل سے میدان کارزار تک زندگی کا ہر رنگ بڑی گہرائی سے دیکھا، ایک طویل اور بھر پور تجربہ سے گزرے۔

ظلم کی اس نوعیت کے بارے میں آپ کا ایک شاہکار قول ہے:(من أنزل الناس منازلہم رفع المؤنۃ عن نفسہ، ومن رفع أخاہ فوق قدرہ، اجترّ عداوتہ) یعنی:جس نے لوگوں کو ان کے حقیقی مقام ومرتبہ تک محدود رکھا ، اس نے اپنے نفس کو مشقت وپریشانی سے بچا لیا۔ اور جس نے اپنے بھائی کو مستحق مقام سے زیادہ سر پر چڑھا لیا تو گویا اس نے زبردستی اس کی عداوت و دشمنی کا راستہ اپنے لیے ہموار کر لیا۔

روز مرہ کے تجربات اور مشاہدات دونوں اس پر شاہدہیں۔ عموما ایسا ہی ہوتا ہے کہ اگر آپ نے کسی کو ضرورت سے زیادہ بھاؤ دیا اور اس کو اس کے مقام ومرتبہ سے زیادہ بڑھایا تو کبھی نہ کبھی وہ تعلق لا تعلقی یا عداوت و دشمنی پر جاکر ختم ہوگا، لیکن عزت واحترام اور تکریم وتقدیر میں اگر توازن رہا تو تعلقات دیرپا ثابت ہوں گے۔

یہ سفیان ثوری (۹۷-۱۶۱ھ) رحمہ اللہ ہیں۔ آپ بہت بڑے محدث گزرے ہیں، علم حدیث میں امامت کے درجہ پر فائز تھے، امیر المؤمنین فی الحدیث جیسے بلند اور ممتاز لقب سے سرفراز تھے۔ علم حدیث کے ساتھ ساتھ آپ فقہ وتفسیر میں بھی امامت کے درجہ پر فائز تھے۔ دوسری صدی ہجری کے اس زمانے میں جو تابعین عظام کا زمانہ تھا آپ نے تقریبا چھ سو اساتذہ سے کسب فیض کیا۔ امام مالک، سفیان بن عیینہ، یحیى بن سعید القطان اور عبد اللہ بن مبارک رحمہم اللہ جیسے علم وعمل کے پہاڑ آپ کے شاگرد تھے۔ آپ بہت ہی عبادت گزار، نیک اور خشیت الہٰی سے لبریز انسان تھے۔ اپنا تجربہ اور مشاہدہ بیان کرتے ہوئے سفیان ثورى رحمہ اللہ دو ٹوک انداز میں فرماتے ہیں:(وجدنا أصلَ کل ِّعداوۃ ٍاصطناع ُالمعروفِ إلى اللئام)، کہ ہم نے ہر عداوت کی تہہ میں جاکر غور کیا تو پایا کہ اس کا سبب نا اہلوں اور کمینوں کے ساتھ خیر خواہی اور احسان کرنا ہے۔

یہ ان کا ذاتی تجربہ اور مشاہدہ ہے۔ اور اجتماعی زندگی کی کڑوی سچائی بھی یہی ہے کہ نا اہل کے ساتھ بھلائی زرخیز نہیں ہوتی، اور کسی نالائق و بد بخت کے ساتھ کی گئی نیکی عموما الٹا نقصان پہنچاتی ہے اور آپسی تعلقات کی جڑ بڑی بے رحمی سے کاٹ دیتی ہے۔

یہ امام شافعی (۱۵۰-۲۰۴ھ)رحمہ اللہ ہیں، دوسری صدی ہجری میں آپ نے زندگی گزارى۔ ائمہ اربعہ میں ایک عالى مقام رکھتے ہیں۔ آپ امام مالک رحمہ اللہ کے شاگرد اور امام احمد رحمہ اللہ کے استاذ ہیں۔

آپ فقیہ بھی تھے اور اصولی بھی، محدث بھی تھے اور شاعر وادیب بھی۔ صحیح معنوں میں ہر فن مولى تھے۔ اللہ تعالى نے عجیب قسم کی فراست عطا کی تھی، مخاطب کا چہرہ پڑھ لیا کرتے تھے۔ ذہانت وفطانت بے مثال تھی۔ فہم وفراست بے نظیر۔ حکمت ودانائی سے بھرپور آپ کے مقولے مشہور ہیں، جو زندگی پر آپ کی گہری نظر اور عمیق تجربے پر شاہد ہیں، آپ ہی کا قول ہے:(إذا تخلى الناسُ عنكَ في كربٍ، فأعلم أن الله يريد أن يتولى أمرَك) یعنی:جب لوگ مصیبت وپریشانی میں آپ کا ساتھ چھوڑ دیں، تو آپ یقین کرلیں کہ اللہ تعالى آپ کے معاملات کو خود حل کرنا چاہتا ہے۔ اسی طرح:(مَا حَكَّ جِلْدَك مِثْلُ ظُفْرِكَ، فَتَولَّ أنْتَ جَمِيعَ أَمْرِكَ) یعنی:آپ کی جلد آپ سے اچھا کوئی نہیں کھجلائے گا، اس لیے آپ بذات خود اپنے سارے معاملات دیکھیں۔نیز فرمایا:(لو أصبتَ في تسعٍ وتسعين وأخطأت في واحدة، لترك الناس ماأصبت وأسروها، وأعلنوا ما أخطأت وأظهروها، فانفض عنك غبارَ الناس) یعنی:اگر آپ ننانوے (۹۹)معاملات میں درست اور برحق ہوں، اور ایک میں غلطی کرجائیں، تو لوگ آپ کے درست معاملات اور آپ کی سچائی و برحقی کو نہ صرف درکنار کردیں گے بلکہ اس پر پردہ ڈال دیں گے، اور اس ایک معاملہ کو جس میں آپ نے غلطی کی ہے خوب اچھالیں گے اور اس کا ہر سو چرچا کریں گے، اس لیے لوگوں سے اپنا دامن جھاڑ لیں۔ آپ ہی کہا کرتے تھے کہ علم کلام سیکھنے والوں کو جوتے چپل اور ڈنڈوں سے مارو، اور انھیں گلی کوچوں میں گھماؤ اور کہو:یہ کتاب وسنت چھوڑ کر علم کلام سیکھنے کی سزا ہے۔

آپ اپنا ذاتی تجربہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:(ما أکرمتُ أحدا فوق قدرہ إلا اتضع من قدری عندہ بمقدار ما أکرمتہ) کہ میں نے کسی کو اس کے حقیقی قدر ومنزلت سے زیادہ عزت نہیں دی، مگر اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ میں نے اس کی جس قدر زیادہ عزت کی، اسی قدر میری اس کے یہاں عزت کم ہوگئی۔

غور کریں تو یہ کتنی گہری بات ہے۔ جس قدر آپ کسی کو اس کے مستحق مقام ومرتبہ سے بلند کریں گے، اسی قدر آپ اپنا جائز مقام ومرتبہ اس کے یہاں کھودیں گے۔ اب آپ اس کی جو بھی توجیہ کریں، مگر یہ بہت بڑی سچائی ہے، اور عموما ایسا ہی ہوتا ہے کہ اگر آپ نے تشجیعا وتکریما بھی کسی کی ضرورت سے زیادہ عزت وتوقیر کی،لگاؤ اور محبت میں اسے اس کے مقام ومرتبہ سے اونچا بڑھادیا ، تو کبھی نہ کبھی وہ آپ کا بد ترین اور شر پسند منافس ثابت ہوگا۔ آپ کی عزت وشرف سے کھیل جائے گا، یا آپ کو نیچا دکھانے میں کوئی کوتاہی نہیں کرے گا۔ لیکن اگر آپ نے اسے اس کے حدود میں رکھا تو وہ جلدی یہ ہمت نہیں کر پائے گا۔

در اصل ہوتا یہ ہے کہ جب آپ کسی انسان کو اس کی کسی صلاحیت، اس کے کسی خیر، اس کی کوئی نیکی، اس کی کسی اچھی صفت ، یا پھر اپنی طبعی فیاضی اور فطری خوش خلقی یا کسی راجح مصلحت کی بنا پر اسے اپنے دل ودماغ اور عمل وتعامل میں مستحق سے زیادہ مقام ومرتبہ دیتے ہیں تووہ انحراف طبیعت اور افتاد طبع کا شکار ہوجاتا ہے۔ اسے اچھے انداز میں ہضم نہیں کرپاتا۔ اور بسااوقات اپنی کج فہمی اور کم ظرفی کی بنا پر خود کو اس عزت وتکریم کا اصلی مستحق اور کرنے والے کو اسی لائق اور کم تر سمجھ بیٹھتا ہے، اور پھر وہ غل گپاڑہ مچاتا ہے کہ عزت کرنے والے کی عزت اور محبت کرنے والے کی محبت خود دہائی دینے لگتی ہے۔

اس لیے آپسی تعلقات نبھاتے وقت یہ اہم ترین اجتماعی قاعدہ ہمیشہ یاد رکھیں:(إذا رفعتَ أحدا ًفوقَ قدرِہ، قلَّ قدرُک عندہ، وعادَاک) کہ اگر آپ نے کسی کو اس کے حقیقی مقام ومرتبہ سے زیادہ بھاؤ دیا، اور بلا وجہ اسے سر پر چڑھا لیا تو نہ صرف آپ کی قدر وقیمت اس کے یہاں کم ہوجائے گی، بلکہ کسی نہ کسی دن وہ آپ کا شدید مخالف ثابت ہوگا اور پھر بد ترین دشمن بن جائے گا۔

ایسے کم ظرفوں کے یہاں اختلاف کی کوئی سیما بھی نہیں ہوتی، عداوت و دشمنی کے لیے ان کے یہاں کوئی حدود طے نہیں ہوتے۔ ایسے لوگ جب تک سر بازار مخالف کے کپڑے جلد سمیت نہ اتار دیں، اس کی عزت وآبرو سے پوری طرح کھیل نہ جائیں، انھیں اپنے مظنون ومجنون غلبہ کا یقین کامل نہ ہوجائے، اور وفور جوش میں وہ سرمست ہوکر رقص نہ کرنے لگیں،بھلے ہی اس کی قیمت ان کو اور مخالف دونوں کو کچھ بھی ادا کرنی پڑے؛ جب تک ایسا نہ ہوجائے ایسے لوگوں کی ابلیسی طبیعت کو بالکل شانتی نہیں ملتی۔

اس لیے اگر آپ متوازن، معتدل، پرسکون اور سعادت سے پر زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو بلا شبہ آپ ظلم کی دوسری قسم سے بھی بچیں، اور کسی کو اس کے مقام ومرتبہ سے ہر گز نہ گرائیں، اسے اس کا پورا پورا حق دیں، اس کی عزت وتکریم کریں، اور جس محبت اور مقام ومرتبہ کا وہ مستحق ہے اسے دینے میں ذرا بھی بخل سے کام نہ لیں۔ تاہم ایسا کرتے وقت بہت چوکنا رہیں، اللہ تعالى سے فراست اور زیرکی طلب کریں، اور ظلم کی پہلی قسم سے بھی پوری طرح گریز کریں۔ کسی کو اس کے مقام ومرتبہ سے آگے ہرگز نہ بڑھائیں، نہ کسی کو ضرورت سے زیادہ بھاؤ دیں، نہ ہی اس کو سر چڑھائیں۔

ورنہ ایسا نہ ہو کہ عزت وتقدیراورتشجیع و تکریم کے نام پر کیا گیا یہ ظلم آپ کی فیاضی، آپ کی سخاوت ، آپ کی تواضع اور آپ کی خوش خلقی کی دلیل بننے کے بجائے، آپ کی حماقت، آپ کی بے چارگی، آپ کی کسمپرسی اور آپ کی کج فہمی کے لیے حجت بن جائے۔

اور پھر زندگی کے کسی نازک موڑ پر جب آپ کے نیک جذبات کا نہایت سفاکی سے استغلال اور آپ کے مخلصانہ تعامل کا بڑی بے رحمی سے استحصال ہو اس وقت آپ کو اپنی اس فیاضی پر ترس آئے،آپ کی یہ سخاوت ندامت کا استعارہ ثابت ہو اور آپ خود حسرت و یاس اور پچھتاوے کا پتلا بن جائیں۔

وما علینا إلا البلاغ

9
آپ کے تبصرے

3000
9 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
8 Comment authors
newest oldest most voted
نسیم سعید تیمی

بہت نصیحت آموز تحریر، عموما ظلم کی پہلی قسم کا اندازہ اس کا خمیازہ بھگتنے کے بعد ہی ہوپاتا ہے۔

MOHAMMAD KHAN

شکرا

وسيم المحمَّدي

جزاكم الله خيرا

حافظ عبدالحسیب

ذات اور سماج کے اندر جھانکتی اور بہت ساروں کے لئے رازہائے سربستہ سے پردہ اٹھاتی مفکرانہ و مربیانہ زندہ جاوید تحریر۔۔۔۔
خوب صورت پیرایہء بیان اور سلف صالحین کے قیمتی تجربات پر مبنی اقوال سے مزین یہ شہپارہ ہم سب کی طرف سے کاتب کے شکریہ کا تقاضہ کرتی ہے ۔۔

Aftab Alam

ما شاء الله تبارك الله بہت ہی عمدہ تحریر ہے۔ جزاكم الله وبارك فيكم ونفع بكم الإسلام والمسلمين

ابوفصیح فضل الرحمان

بارک اللہ فی علمک وعملک ۔
واللہ ھذہ المکتوبہ ممتاز جدا
انا قرآت کاملا وامل فی امری السباقہ لکئی افکر مستقبلا ۔ان شاء اللہ تعالیٰ
اخوکم
ابو فصیح الرحمٰن مراد بلتستانی باکستانی

Shafaur Rahman

👍👍

طارق بدر سنابلی

زندگی کو ایک الگ ڈھنگ سے جینے کا سلیقہ سکھاتی یہ علم و تجربات سے لبریز تحریر!
اللہ تعالیٰ دکتور وسیم المحمدی کے علم و عمل اور صحت و تندرستی میں خوب خوب برکتیں عطا فرمائے!
آمین ثم آمین!!!

ارشادالحق المحکم

بارک اللہ فیکم
ڈاکٹر صاحب ماشاءاللہ نادر موضوعات پر قلم اٹھاتے ہیں۔۔ اور حق ادا کر دیتے ہیں۔۔ نہایت علمی اور شاندار مضمون۔۔ نفع اللہ بہ العباد و البلاد