توقعات کا بوجھ

حافظ عبدالحسیب عمری مدنی سماجیات

توقعات انسانی طبیعت کا خاصہ اور انسانی زندگی کا لازمی جزو ہیں۔ انسان اس دنیا میں جیتے ہوئے خود کو توقعات سے آزاد نہیں رکھ سکتا۔
کہا جاتا ہے کہ زندگی اور موت کے درمیان فرق حرکت و عمل کا ہے۔ جمود موت کی علامت ہے تو حرکت وعمل زندگی کی دلیل، اور کسی بھی انسان کو متحرک اور “زندہ” رکھنے میں دو قسم کے جذبات کا بڑا عمل دخل ہے ایک ہے نفع کا لالچ یا امید اور دوسرا نقصان سے بچنے کی خواہش اور آرزو۔
انسانی زندگی انفرادی و اجتماعی ہر سطح پر نفع و نقصان کے اسی پیمانے سے جڑی ہے۔ پھر وہ نفع و نقصان چاہے مادی ہو کہ معنوی، دنیوی ہو کہ اخروی۔
توقعات دراصل انھی جذبات اور اسی پیمانے کا ایک مظہر ہیں۔
توقعات کی دو قسمیں ہیں:
پہلی قسم ان توقعات کی ہے جو “لوگوں کو کسی بھی فرد” سے ہوتی ہیں۔ لوگ آپ سے طرح طرح کی امیدیں وابستہ کیے رہتے ہیں۔
توقعات کی اس پہلی قسم میں ایک زمانہ آپ سے توقعات لگائے بیٹھا ہوتا ہے، جتنے لوگ اتنی امیدیں اور ہر ایک کی توقعات اس کے حسب حال: ع
فکر ہر کس بقدر ہمت اوست
یہ طے ہے کہ لوگ آپ کو توقعات کے اسی پیمانے پر تول کر دیکھیں گے، انھی توقعات کی تکمیل یا عدم تکمیل کی روشنی میں آپ کے بارے میں رائے قائم کریں گے، یہ صورتحال آپ سے بڑی سمجھداری کا تقاضہ کرتی ہے۔
خود سے وابستہ لوگوں کی یہ ان توقعات کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ یہ توقعات بسا اوقات انسان کو خود کے اندر پوشیدہ صلاحیتوں سے آگاہ کرتی ہیں، خودشناسی کے بعض باب یہیں سے کھلتے ہیں، لوگوں کی آپ کی طرف اٹھی نگاہیں آپ کے لیے تحریک عمل بن جاتی ہیں اور اکثر دوسروں کی توقعات پر پورا اترنے کے چکر میں انسان ترقی کے زینے چڑھتا چلا جاتا ہے۔۔۔
تاہم لوگوں کی ان توقعات کا ایک منفی پہلو بھی ہے اور وہ پہلو یہ ہے کہ آپ اگر سمجھداری کا مظاہرہ نہ کریں تو آپ خود کو اور خود کی زندگی کو دوسروں کی مرضی پر چلانے اور ڈھالنے کے مرض میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔ ایسی صورت میں یہ توقعات آپ کے دل و دماغ کا بوجھ بن جاتی ہیں، ایک ایسا بوجھ جو لادا تو کسی اور نے ہے اور اتارنا آپ کے بس میں ہے تاہم آپ اسے اتار پھینکنے کے بجائے ڈھوئے ڈھوئے پھرتے ہیں۔ آپ کو بس یہ ڈر لگا ہوتا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے؟؟
بالخصوص قوم کے داعی، مصلح، رہنما و رہبر کے لیے یہ سوچ زیادہ نقصاندہ ہے کہ وہ لوگوں کی توقعات پر پورا اترنے کے چکر میں پڑجائے۔
انبیاء علیہم السلام کی زندگیوں سے ایک سبق یہ بھی ملتا ہے کہ قوم کا، سماج کا، منظورِ نظر بننے کے چکر میں خود کو ان کی آرزوؤں کا غلام بنانے کے بجائے اپنا دماغ اپنے قابو میں رکھنا چاہیے، اکثر قوم کی صحیح خدمت قوم کی توقعات کے دروازے سے ہوکر نہیں گزرتی، بسا اوقات قوم کی سچی خدمت قوم کے خودساختہ تصورات کے خلاف جاکر کی جاتی ہے جس طرح حضرت صالح علیہ السلام نے کیا۔ قوم نے کہا (قَالُوا۟ یَـٰصَـٰلِحُ قَدۡ كُنتَ فِینَا مَرۡجُوࣰّا قَبۡلَ هَـٰذَاۤ) تم تو ہماری آرزوؤں کا مرکز و محور تھے اور تم نے یہ کیا کیا؟ ہماری توقعات کے برعکس تم ہمی میں کیڑے نکالنے لگے؟؟ (سورة هود ٦٢)
اگر آپ خود کو ایک ماہر طبیب، ایک خیرخواہ مصلح اور ایک جہاندیدہ و تجربہ کار مربی کی جگہ دیکھتے ہیں تو پھر آپ کی نظر لوگوں کی توقعات پر نہیں ان کے مفادات کے تحفظ پر ہونی چاہیے۔
علم اور بصیرت پر مبنی آپ کی ایک رائے اور جذبات پر مبنی آپ سے وابستہ لوگوں کی توقعات دونوں کی منزل ہمیشہ ایک نہیں ہوسکتی لہذا ان توقعات کو خود کے لیے مہمیز تو بننے دیں بوجھ نہیں۔
دوسری قسم ان توقعات کی ہے جو پہلی قسم کے بالکل برعکس ہیں، یہ وہ توقعات ہیں جو فرد یا شخص اپنے اطراف و اکناف کے مختلف افراد اور چیزوں سے وابستہ کرلیتا ہے، توقعات کی پہلی قسم “دینے” کی قبیل سے تھی تو یہ قسم “لینے” سے متعلق ہوتی ہے۔
انسان اپنی زندگی میں اپنے اطراف کی دنیا اور خود سے جڑے مختلف افراد اور مختلف چیزوں سے طرح طرح کی توقعات وابستہ کرلیتا ہے، اس قسم کی توقعات دراصل مد مقابل سے جڑا ایک قسم کا لالچ اور امید ہوتی ہے، اور اگر یہ کسی مصلح اور ناصح کا معاملہ ہو تو وہ تو یہ مان کر چلتا ہے کہ میرا یہ حق بنتا ہے کہ ایک زمانہ میرے ساتھ چلے اور قوم کے پاس موجود تمام وسائل و امکانات میرے دستِ نگر ہوں کیونکہ میں بہرحال انھی کے لیے کوشاں ہوں، اور اگر یہ معاملہ ایک عام انسان کا ہو تو اس کو اپنوں سے، پرایوں سے، دوستوں سے، رشتہ داروں سے، بلکہ اپنی زندگی سے جڑی دنیا کی سبھی چیزوں سے الگ الگ قسم کی توقعات ہوتی ہیں اور یہ توقعات کبھی پذیرائی کی ہوتی ہیں تو کبھی مادی تعاون کی اور کبھی معنوی سہاروں کی۔
ماں باپ کو اپنی اولاد سے الگ قسم کی توقعات ہوتی ہیں۔
بلکہ اس دنیا میں ہر ایک شخص کو اس کی زندگی سے جڑے دوسرے شخص سے کسی نہ کسی قسم کی توقع ضرور ہوتی ہے۔ یہ دراصل ایک قسم کا احتیاج ہے جو (و خلق الإنسان ضعيفا) انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے (سورة النساء :٢٧) کا ایک مظہر ہے۔
انسانی زندگی میں یہ بات بڑی اہم ہے کہ وہ مستقبل کے تئیں پرامید رہے، مستقبل کے بارے میں اس کی مثبت سوچ، اس کا یقین اس کی کامیابی کی پہلی سیڑھی ہے اور توقعات اسی مثبت سوچ اور امید کا مظہر ہیں، یہ توقعات ایک ایسا داعیہ ہیں جو جس قدر قوی ہوگا اس کی حرکت و عمل میں اسی قدر تیزی و تسلسل قائم رہے گا۔
انسانی زندگی میں ان توقعات کی بڑی اہمیت ہے، یہی توقعات اکثر ترغیب کا باعث اور عمل کی تحریک بن جاتی ہیں۔
تاہم ایک انسان کو یہ سلیقہ بھی آنا چاہیے کہ وہ اپنی توقعات کے ساتھ کیسے ڈیل کرے۔ اسے یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اس دنیا میں کبھی کسی انسان کے سارے معاملات اس کی توقع کے مطابق انجام پذیر نہیں ہوتے۔
یہاں کبھی مد مقابل کی جانب سے مطلوبہ کردار میں کمی آتی ہے اور وہ آپ کی جائز توقعات پر پورا نہیں اترتا۔۔۔۔
کبھی انسان خود توقعات قائم کرنے میں غلطی کر بیٹھتا ہے اور اس کی توقعات حقائق سے میل نہیں کھاتیں حتی کہ بہت سارے لوگوں کی توقعات محض وہمی قسم کی ہوتی ہیں یا حد اعتدال اور معقولیت کے دائرے سے باہر ہوتی ہیں۔۔۔۔
اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ لوگ توقعات بھی اپنی خواہش کے مطابق قائم کرلیتے ہیں سامنے والے کے امکانات کا انھیں کوئی اندازہ نہیں ہوتا یا اس سلسلے میں غلط فہمی کا شکار ہوتے ہیں۔۔
یہ اور ایسے کئی پہلو ہیں جو توقعات کے سلسلے میں افراط و تفریط کی بڑی لمبی داستان اپنے ساتھ رکھتے ہیں، نتیجتا انسان کی توقعات پوری نہیں ہوتیں یا یہ دنیا توقعات پر پوری نہیں اترتی۔
ایسی صورت میں انسان بڑی آسانی سے ایک پرامید اور پرجوش شخص سے شکایات کے پتلے میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ وہ جس کی زندگی میں پہلے مثبت رویہ تھا، جوش تھا، نگاہوں کی چمک اور ارادوں کی بلندی جس کی پہچان تھی، اب منفی سوچ اس کی پہچان بن جاتی اور وہ مایوسی کا پیکر بن جاتا ہے۔ پہلے اس کی صحبت چراغ سے چراغ جلاتی تھی اب اس کی صحبت سمِّ قاتل سے کم نہیں ہوتی، اس کی صحبت مایوسی کو جنم دینے والی اور عزائم کو پست کردینے والی واقع ہوتی ہے، وہ خود کے ساتھ دوسروں کے لیے بھی حوصلہ شکن اور مضر انسان بن جاتا ہے۔
انسانی عزائم اس کے حوصلوں کو جوان رکھتے ہیں، تاہم اگر یہ عزائم محض ایک آرزو اور تمنا بن جائیں اور ناکامی کی صورت میں حسرت بن جائیں تو پھر یہ ایسا بوجھ بن جاتے ہیں جو زندگی کے سفر کو بوجھل کردیتے ہیں۔
انسانی زندگی سے جڑی ایک سچائی یہ بھی ہے کہ اکثر انسان کی توقعات اور آرزوئیں اس کی زندگی سے بڑی ہوتی ہیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نقشہ بنا کر انسانی توقعات کے اس پہلو کو اجاگر کیا ہے:
عن ابن مسعود رضي الله عنه مرفوعا : خطَّ لَنا رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ خطًّا مربَّعًا وخَطَّ في وسطِ الخطِّ خطًّا وخَطَّ خارجًا منَ الخطِّ خطًّا وحولَ الَّذي في الوسطِ خطوطًا فقالَ : هذا ابنُ آدمَ وَهَذا أجلُهُ مُحيطٌ بِهِ ، وَهَذا الَّذي في الوسطِ الإنسانُ ، وَهَذِهِ الخطوطُ عروضُهُ إن نَجا من هذا ينهشُهُ هذا ، والخطُّ الخارجُ الأمَلُ(بخاري و ترمذي) یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نقشہ کی مدد سے اس حقیقت کو اجاگر کیا کہ انسانی توقعات کی فہرست ہمیشہ زندگی کی مہلت اور مسافت سے زیادہ طویل ہوتی ہے۔
زندگی کے لیے یہ سبق بہت اہم ہے کہ آپ توقعات رکھیں، تاہم انھیں کبھی بھی اپنا بوجھ نہ بننے دیں کہ آپ کے اگلے مرحلہ میں سفر میں آپ ہی کی پیٹھ بوجھل ہوجائے گی۔
سفر میں سامان جس قدر کم ہو سفر اسی قدر آسان ہوتا ہے، بوجھل مسافر تھکتا بھی زیادہ ہے اور اس کی مسافت سفر بھی گھٹ جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ تجربہ کار مسافر سامانِ سفر کم سے کم اور ہلکا پھلکا رکھتے ہیں۔
بوجھ اور بوجھل ہونے سے متعلق یہ حقیقت شہر سے شہر تک کے سفر کے سلسلے میں جس قدر سچی ہے اسی قدر زندگی کے سفر میں بھی ہے۔۔
مذکورہ بالا دونوں قسم کی توقعات کا انسانی زندگی سے بڑا گہرا رشتہ ہے، اور ان توقعات کے پورا نہ ہونے پر لوگوں کو اکثر ان کے بوجھ سے بوجھل ہوتے، مایوس ہوتے اور شکایت کرتے دیکھا ہے، توقعات کے بوجھ تلے دبے فرد، خاندان، قوم اور سماج کے پاس صرف شکایتوں کا گٹھر ہوتا ہے۔
سماج پر نظر دوڑائیے ٹوٹتے رشتے، بگڑتے تعلقات، بکھرتی دوستیاں اور اس غم میں پگھلتی صلاحیتیں قدم بقدم ملیں گی، دلچسپ بات تو یہ ہے کہ توقعات کے پورے نہ کیے جانے کا رونا رونا بھی اب ایک خدمت سمجھا جاتا ہے۔
یہ دنیا یقینا دارالاسباب ہے اور انسان کے انھی اسباب سے تعلق کا دوسرا نام توقعات ہے تاہم ایک مومن کا حقیقی تعلق اور دار و مدار مسبِّبُ الاسباب رب کائنات پر ہوتا ہے اسی لیے نبی علیہ السلام کا یہ فرمان ہے (الغنى غنى النفس) (متفق عليه) “غنی” کا ترجمہ مالداری سے کیا جاتا ہے یا کچھ حضرات اسے بے نیازی سے تعبیر کرتے ہیں، جبکہ اس لفظ کا مفہوم بہت وسیع ہے جس میں یہ پہلو بھی داخل ہے کہ انسان کبھی بھی توقعات کے بوجھ سے بوجھل نہ ہو، اس کی بے نیازی اس کی سب سے بڑی قوت ہو؎
دنیا نے ہمیں چھوڑا جذبیؔ ہم چھوڑ نہ دیں کیوں دنیا کو
دنیا کو سمجھ کر بیٹھے ہیں اب دنیا دنیا کون کرے

آپ کے تبصرے

3000