میں یہ جواب نہیں لکھوں گا

حافظ عبدالحسیب عمری مدنی تذکرہ

زندگی ایک درسگاہ ہے، آدمی سیکھنا چاہے تو روز مرہ کے معمولات بھی بہت کچھ سکھا جاتے ہیں اور زندگی کی بھاگ دوڑ میں آس پاس کے واقعات و حوادث آدمی کو کئی طرح کی سیکھ دے جاتے ہیں۔ یہ ماہِ شعبان ہے جس میں عموما مدارسِ اسلامیہ میں امتحان کا موسم ہوتا ہے، اسی حوالے سے آج ایک واقعہ یاد آیا جو آپ قارئین کی نذر ہے۔
بات ہے اس دور کی جب میں مدینہ یونیورسٹی کے کلیة الحديث میں زیر تعلیم تھا، امتحان ہال میں ہم سبھی طلبہ پوری یکسوئی کے ساتھ امتحان لکھنے میں مصروف تھے، ہال کی نگرانی کرتے ہوئے اساتذہ ادھر سے ادھر ٹہل رہے تھے، مجھ سے آگے کی کرسی پر ہمارا ایک ہم سبق ساتھی بیٹھا ہوا جوابات تحریر کرنے میں محو تھا، لیبیا سے تعلق رکھنے والا یہ طالب علم متوسط درجہ کا تھا، نگران استاذ نے دیکھا کہ اس طالب علم نے ایک جواب غلط لکھا ہے، ٹہلتے ٹہلتے ہی استاذ نے جوابی کاپی کے مذکورہ مقام پر انگلی رکھی اور طالب علم سے پوچھا یہ کیا لکھا ہے؟؟ استاذ نے اس سے آگے کچھ نہیں کہا، نہ یہ بتایا کہ جواب غلط لکھا ہے اور نہ صحیح جواب سے آگاہ کیا۔ طالب علم نے پہلے تو استاذ کو دیکھا پھر اپنے جواب پر نظر ڈالی، ایک لمحہ توقف کے بعد اسے احساس ہوگیا کہ جواب غلط ہے۔
عموما ایسی صورت حال میں طالب علم استاذ کا شکرگزار ہوتا ہے لیکن یہ طالب علم بگڑ گیا، استاذ پر اپنی ناراضگی دکھلانے لگا، کہنے لگا یہ آپ نے کیا کیا؟ آپ نے خیانت کی! امتحان ہال میں آپ کسی طالب علم کی غلطی پر متنبہ کرنے کے مجاز نہیں ہیں، اب آپ کے ٹوکنے کے بعد نہ صرف یہ کہ مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہے بلکہ اب مجھے صحیح جواب بھی معلوم ہے لیکن وہ جواب اب میں نہیں لکھوں گا کیونکہ اب اگر لکھوں گا اور نمبر لوں گا تو یہ خیانت پر مبنی ہوں گے، پوری طرح میرے اپنے حاصل کردہ نہیں ہوں گے اور ایسے ناجائز نمبر مجھے نہیں چاہیے۔
ادھر استاذ کا حال برا کہ ہمدردی بے جا واقع ہوئی نتیجہ میں شرمندگی اٹھانی پڑ رہی ہے۔
بہرحال اس طالب علم نے اپنے پہلے غلط جواب کے ساتھ ہی جوابی کاپی جمع کروادی۔
اس ایک واقعہ نے بہت کچھ سکھایا۔
اتق اللہ حيثما كنت (تم جہاں کہیں رہو اللہ سے ڈرتے رہو) کی عملی تصویر دیکھی۔
یہ سیکھا کہ طالب علم کے اندر نمبرات کے لالچ سے زیادہ اپنی عزتِ نفس کا خیال اور اپنی امانت و دیانت کا پاس و لحاظ ہونا چاہیے کیونکہ ایسا ہی مبنی بر إخلاص علم بابرکت ہوا کرتا ہے۔
اگلی سیکھ یہ ملی کہ اساتذہ کو بھی کس قدر امانتدار ہونا چاہیے، کیونکہ یہ مقام طلبہ کی تقویم کا ہے ہمدردی کا نہیں، ایک آئینہ کی طرح بلا کم و کاست طالب علم کو خود کی قابلیت کے بارے میں اپنے آپ کو خود کے جوابات کی روشنی دیکھنے کا موقعہ ملنا چاہیے۔
ایسا اور بھی بہت کچھ ہے جو ہم سیکھنا چاہیں تو اس جیسے واقعات ہمیں سکھلاتے ہیں۔

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
Nayeem Akhtar

ما شاء الله ممتاز