سماج کی اصلاح ہر کوئی چاہتا ہے۔ کیونکہ ایک شائستہ معاشرہ، مہذب سماج ہر کسی کے لیے مفید ہے۔ کون ایسا شخص ہے جو عزت و احترام، عافیت و راحت کے ساتھ زندگی گزارنا پسند نہ کرے؟ اور یہ مہذب سماج میں ہی ممکن ہے۔ سماج کی اصلاح کے بہت سے طریقے ہوسکتے ہیں۔ لیکن سب سے مؤثر طریقہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ہے۔
لیکن اگر امر بالمعروف والنھی عن المنکر کا فریضہ بحسن و خوبی انجام نہ دیا جائے تو سماج و معاشرے سے دھیرے دھیرے اچھائیاں رخصت ہوجاتی ہیں اور برائیاں پیر پسارنے لگتی ہیں۔ اسی لیے نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”مَن رَأى مِنْكُم مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ، فإنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسانِهِ، فإنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ، وذلكَ أضْعَفُ الإيْمَانِ.” (صحیح مسلم:٤٩)
یعنی جب تم برائی اور غلط کام ہوتا دیکھو تو اس برائی کا گلا اپنے ہاتھوں سے مروڑ دو اور اگر اس کی طاقت نہ ہو تو اُس برائی کے خلاف لب کھولو اور اتنی بھی سکت نہ ہو تو کم سے کم اس برائی کو دل ہی میں برا جانو۔
جب تک لوگ برائیوں پر روکتے اور ٹوکتے تھے گاؤں سماج میں اس قدر برائیاں عام نہ تھیں، جس قدر آج ہیں۔ پہلے چھوٹے بڑوں کی عزت کیا کرتے تھے، نازیبا حرکات تو دور کَنْچے کھیلتے وقت اساتذہ کا گزر اس راستے سے ہو جاتا تو سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر بھاگ کر چھپ جایا کرتے تھے۔ آج حال یہ ہے کہ کھلے عام نشہ آور اشیاء کا استعمال کرتے ہیں اور اس پر فخر کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ آج کے بچوں اور نوجوانوں کی وضع قطع، چہرہ مہرہ اور گفتار ایسی ہوتی ہے کہ اللّٰہ کی پناہ!
اور المیہ تو یہ ہے کہ اُن بچوں اور نوجوانوں کی اصلاح کی فکر کسی کو دامن گیر بھی نہیں ہوتی ہے۔ نئی نسل کو راہِ راست سے ہٹا دیکھ کر آنکھیں موند لیتے ہیں کہ جائیں بھاڑ میں ہم سے کیا؟
لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کی اصلاح کا سامان نہ کیا گیا تو یہ نوجوان ہمارے پورے گاؤں سماج اور معاشرے کے لیے وبالِ جان بنیں گے اور بن رہے ہیں۔
اسی لیے نبی کریم ﷺ نے برائیوں پر آنکھ موندنے سے منع فرمایا ہے۔ اور ایک خوبصورت مثال پیش کرکے سمجھایا ہے کہ اگر برائیاں ہوتا دیکھ کر نظرانداز کریں گے تو نتیجہ نہایت ہی بھیانک ہوگا۔
صحیح بخاری کی حدیث ہے اور اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ دو منزلہ کشتی ہے بعض لوگ کشتی کے اوپری حصے پر سوار ہیں اور کچھ لوگ نیچے والے حصے میں۔ نیچے والوں کو شرارت سوجھتی ہے اور وہ پانی حاصل کرنے کے لیے کشتی میں سوراخ کرنے کا سوچتے ہیں۔ اب اگر اوپر والے نیچے والوں کو کشتی میں سوراخ کرتا دیکھ کر آنکھیں موند لیں اور انھیں من مانی کرنے دیں تو نیچے والوں کے ساتھ اوپر والے بھی ہلاک ہوجائیں گے اور اگر اوپر والے نیچے والوں کا ہاتھ پکڑ لیں انھیں سوراخ کرنے سے منع کردیں تو سارے لوگ ہلاکت سے محفوظ رہیں گے۔(صحیح بخاری: ۲٤٩٣)
سماج و معاشرہ کی مثال کشتی کی سی ہے اور اس کشتی پر سارے لوگ سوار ہیں۔ اب اگر بعض لوگ گناہوں کے ہتھوڑوں سے کشتی میں سوارخ کرنے کی کوشش کریں اور باقی لوگ انھیں من مانی کرنے دیں تو یقیناً نیک و بد سب ہلاک ہو جائیں گے۔
اللہ عزوجل فرماتا ہے: “وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَّا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنكُمْ خَاصَّةً”
تم ایسے وبال سے بچو! کہ جو خاص کر صرف ان لوگوں پر واقع نہ ہوگا جو تم میں سے ان گناہوں کے مرتکب ہوئے ہیں۔(جونا گڑھی)
عرض مدعا یہ ہے کہ ہر فرد کو اپنے گھر گاؤں اور سماج و معاشرے کی اصلاح کے لیے فکر مند ہونا چاہیے اور اصلاح کی بھر پور کوشش کرنی چاہیے اور سماج میں کچھ ایسے لوگوں کا ہونا ازبس ضروری ہے جو خیر کی دعوت دیں اور برائی سے روکیں۔
اللّٰہ عزوجل فرماتا ہے: ”وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ”
یعنی تم میں ایک گروہ ایسا بھی ہو جو بھلائی کی طرف بلائے، اچھے کاموں کا حکم دے اور برے کاموں سے روکے۔
امر بالمعروف سے بھلائی عام ہوتی ہے اور نہی عن المنکر سے برائی کم ہوجاتی ہے۔
یہ ممکن ہی نہیں کہ معاشرے کا ہر شخص امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دے۔ کیونکہ ہر شخص کا ذہن الگ ہے پیشہ الگ اور مصروفیت الگ۔ پھر بھی ہر گاؤں یا شہر میں کم از کم ایک گروپ ہونا چاہیے جو یہ فریضہ انجام دے۔ باقی لوگ ان کو سپورٹ کریں.. تاکہ معاشرہ امن کا گہوارہ بن جائے۔ ہر شخص چین کی سانس لے سکے۔ ورنہ مادر پدر آزاد معاشرہ ہر کسی کے لیے تکلیف کا باعث ہے۔ بھلا سانپوں اور بچھوؤں کے بھٹ میں کوئی انسان زندگی گزار سکتا ہے؟
برائی کی پاداش میں جب عذاب الہی نازل ہوتا ہے تو صرف برے اس کا شکار نہیں ہوتے بلکہ بروں کے ساتھ اچھے بھی پیسے جاتے ہیں۔
اس لیے ضروری ہے کہ برائی سے روکنے والوں کو کھڑا کیا جائے، ان کا سپورٹ ہو، لوگ ان کی اطاعت و فرمانبرداری کریں تاکہ مخلوق عافیت و سکون کے ساتھ زندگی گزار سکے۔
اللہ ہمیں توفیق دے۔ آمین
بہت خوب باؤ اللہ آپ کو مزید حوصلہ عطا کرے۔
ماشاء الله، اللهم بارك وزد
عمده تحرير
آخری پیراگراف پر نظر ثانی کی ضرورت ہے کیونکہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر امت کے ہر شخص پر فرض ہے گرچہ طریقہ ادائیگی مختلف ہو۔
لہذا اگر اس فریضہ کی ادائیگی کو گاؤں یا شہر کے کسی مخصوص جماعت کے ساتھ خاص کیا گیا تو اس کی ادائیگی کما حقہ ممکن نہیں۔
واللہ اعلم بالصواب