آزار

حمود حسن فضل حق مبارکپوری شعروسخن

بے اماں درد کی گمنام گزرگاہوں میں

دم بدم سیکڑوں رِستے ہوئے آزار ملے

ایسے آزار جو پختہ ہیں عقیدوں کی طرح

عمر نوحی بھی جنھیں خشک نہیں کر سکتی

خواب در خواب اسی سوختہ تعبیر کا رنگ

رنگ رفتہ کو جواں سال ہی رہنے دے گا

یہ وہ دکھ ہیں جو کہن سال شرابوں کے مثیل

معتبر لوگوں میں ترتیب سے تقسیم ہوئے

یہ وہ دکھ ہیں کہ جو منسوب نہیں ہو سکتے

کسی محبوب، کسی دوست، کسی غیر کے نام

یہ وہ دکھ ہیں جو مہاجر سے نظر آتے ہیں

جیسے مجبورئ قسمت نے انھیں بھیجا ہو

نفس جانے کیوں گریزاں ہے ان آلام سے جو

کبھی اٹھتے نہیں فرمان مداوا لے کر

یوں نہ ہو دل کی تمنا کہ خودی مر جائے

اور آزار کو راحت کی اماں حاصل ہو

تا دم مرگ اداسی سے سجی روحوں کو

یہی آزار شفا ہیں، یہی اکسیر بھی ہیں

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
Mohammad Aslam

Mashaallah bahut khoob