دوہزار نو میں جامعہ عالیہ عربیہ مئو سے فراغت کے بعد جامعۃ الامام البخاری سپتری نیپال میں تدریس کا آغاز کیا۔دو ہزار تیرہ تک وہاں تدریسی سفر جاری رہا۔ پھر اسی سال کے اخیر میں جامعۃ الہدی الاسلامیہ کولکاتا سے جڑ گیا۔ اور ہندوستان کے تعلیمی افق پر چمکتے دمکتے اس آفتاب علم و عرفان کے نور سے تقریبا سات سال تک اپنے قلوب واذہان کو منور کرتا رہا اور ممکنہ حد تک تشنگان علوم دینیہ تک اس کی ترسیل بھی کی۔ پھر حالات نےکروٹ لی اور اپنے مولد ومسکن میں واقع بالکل نوخیز ادارہ جامعہ حسنہ للبنات، تلکوباڑی، ارریہ(بہار) سے وابستہ ہوگیا۔
طلبہ کو پڑھانے کا تقریبا دس سالہ تجربہ بہت خوش کن اور امید افزا رہا۔ بعض طلبہ محنتی رہے اور بعض کسل مند۔ لیکن اکثریت محنتی طلبہ کی رہی۔ ان میں سے بہت سے خوش نصیب طلبہ ابھی سعودی جامعات میں پڑھ رہے ہیں۔طلبہ کو پڑھاتے ہوئے اور انھیں اپنے مقصد کی یاد دہانی کراتے ہوئے خاص پریشانیوں کا سامنا نہیں ہوا۔ رہی بات استثنائی صورت کی تو اس کا دروازہ ہر میدان میں ہمیشہ وا رہتا ہے، اسے مقفل کیا بھی نہیں جاسکتا۔ آج کے اس دور میں خاص طور پر لاک ڈاؤن کے بعد ہر طالب علم کو یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آگئی ہوگی کہ بنا محنت کے کوئی چارہ نہیں۔ مدارس وجامعات کا حال خستہ ہے۔ زمانے کے حساب سے تنخواہوں کا معیار نہایت ہی افسوس ناک حد تک پست ہے۔ قدرے اچھی تنخواہیں صرف انھی اساتذہ کو ملتی ہیں جن سے ادارے کی تعلیم وترقی اور نیک نامی مربوط ہو۔ خانہ پری کرنے والے اساتذہ ہمیشہ تہہ خانے ہی میں رہتے ہیں۔
خالص شیرشاہ آبادی نسوانی ادارے میں پڑھانے کا یہ میرا پہلا سال ہے۔ اس کا تجربہ ابتدا میں تلخ رہا اور اب اللہ کے فضل وکرم سے شیریں ہے۔ شروع شروع میں جب کلاس میں جاتا اور کلاس اور کتابوں کے اعتبار سے بچیوں کے معیار علم کو جانچتا تو بہت زیادہ قلق واضطراب اور دکھ وافسوس کا احساس ہوتا، بلکہ غصہ آتا کہ ہم تعلیم کے نام پر اپنے آپ کو اور قوم کو کتنا بڑا دھوکا دے رہے ہیں۔مسلسل اسی سوچ میں غرق رہتا کہ کیا کیا جائے۔ جامعۃ الہدی الاسلامیہ کولکاتا میں عربی زبان میں پڑھانے کا تجربہ رہا، وہ بھی منتہی درجات میں۔ اب ایسی طالبات کا سامنا تھا جنھیں عربی زبان کی شد بد تک نہیں۔ واقعی وہ لمحہ میرے لیے پریشان کن تھا۔ اعلی سے ادنی کی طرف نزول کا تکلیف دہ احساس ہمیشہ دامن گیر رہتا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ کہیں میں خود اپنا تعلیمی کیریئر برباد نہ کرلوں۔ یہ ادارہ تو بالکل نوخیز ہے اور تعمیری مراحل سے گزر رہا ہے۔ اس میں تعلیمی استحکام کے لیے ابھی مزید وقت درکار ہے۔ اس لیے میں آس پاس کے دیگر قدیم نسوانی اداروں پر بھی نظر ڈالتا تھا اور سوچتا تھا کہ کیا وجہ ہے کہ کم از کم لڑکوں کی شرح کے مطابق لڑکیاں بھی با صلاحیت بن کر کیوں نہیں نکلتی ہیں۔ کیا لڑکیاں ذہنی اعتبار سے اتنی ض کمزور ہوتی ہیں کہ فراغت کے بعد عربی تو عربی اردو میں بھی ان کو گفت ونگارش میں بے تحاشا پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نقص کہاں ہے اور طالب اصلاح پہلو کون سا ہے؟ یہ سوچتا رہا اور صبر وضبط کے ساتھ تعلیمی سلسلے کو آگے بڑھاتا رہا۔ اور بلا مبالغہ مجھے ایک مہینے کے اندر معلوم ہوگیا کہ نقص کہاں ہے اور اصلاح کس چیز کی کرنی ہے۔بنیاد پر توجہ دی۔ طالبات کے سامنے تعلیم نسواں کی ضرورت اور سماج میں منتشر بہت سی قباحتوں کے قلع قمع میں ان کے کردار کی اہمیت کو مختلف اسالیب میں واضح کیا۔ انھیں بتایا کہ اگر جامعہ میں داخل ہونے کا مقصد مناسب ازدواجی رشتے سے انسلاک تک محض وقت گزاری ہے تو یہ بہت ہی خسارے کا سودا ہے۔ اس سے دنیا سنورے گی نہ آخرت۔ اس لیے جب تک جامعہ میں ہو جم کر محنت کرو اور اس بات پر پختہ یقین رکھو کہ محنت کبھی رائگاں نہیں جاتی۔ محنت کے فوائد وثمرات سے محظوظیت کا وقت انسان کی زندگی میں دیر سویر آہی جاتا ہے۔ بہتوں کو یہ بات سمجھ میں آئی اور انھوں نے توقع سے بڑھ کر محنت کرنا شروع کیا۔ اور اب جبکہ سال رواں اپنے مطافِ تعلیم کے آخری شوط میں ہے، یہ لکھتے ہوئے بڑی مسرت وشادمانی کا احساس ہورہا ہے کہ محنت کا یہی حسین تواصل اور طلب وجستجو کا یہی خوشگوار سلسلہ اگر جاری رہا تو اس ادارے سے ایسی باصلاحیت بچیاں نکلیں گی جو فضیلت تک بہ آسانی تدریسی فرائض انجام دے سکیں گی اور پھر تعلیم نسواں بذریعۂ مرداں یا بذریعۂ نسواں کا مسئلہ بھی بہت حد تک حل ہوجائے گا،ان شاء اللہ۔
جامعہ حسنہ للبنات میں ایک سالہ تدریسی تجربہ نے یہ ثابت کردیا ہے کہ ہماری شیرشاہ آبادی بچیاں ذہنی اعتبار سے بالکل کمزور نہیں ہیں۔ وہ دیگر بچیوں کی طرح علم وہنر کے میدان میں بہت آگے جاسکتی ہیں، بشرطیکہ ان کے اندر خود اعتمادی پیدا کی جائے، ان کی خوابیدہ صلاحیتوں کو بیدار کیا جائے اور انھیں ایسا عمدہ تعلیمی وتربیتی ماحول فراہم کیا جائے جس کے اندر مس خام کو کندن بنانے کی بھر پور صلاحیت موجود ہو۔
ایسے اساتذہ یقینا خائن ہیں جو بچیوں کی کمزوریوں کا بہانہ بنا کر کلاس میں محض ٹائم پاس کرتے ہیں۔ بلکہ حقیقت میں ایسے اساتذہ تعلیم وتدریس کے خوش نما چہرے پر بدنما داغ ہیں۔ جو خود بھی برباد ہوتے ہیں اور بچیوں کی بربادی کا سبب بھی بنتے ہیں۔ ستم بالاے ستم تو یہ کہ انھیں اپنی بربادی سمجھ میں نہیں آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ نقص کا سارا ٹھیکرا بچیوں کے سر پھوڑتے ہیں، انھی کو برسرغلط اور لائق سرزنش خیال کرتے ہیں اور بلا جھجھک کہتے ہیں کہ بچیوں کے اندر حصول علم کی رغبت نہیں ہے۔ حالانکہ ایسے لوگ خود مطالعۂ کتب سے فرار کی بنا پر دن بدن علمی زوال وادبار کی عمیق کھائیوں میں گرتے جاتے ہیں۔
ہمیں اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ ہمارے علاقے میں تعلیم نسواں کے لیے بہت سارے ادارے کھل چکے ہیں۔دختران حوا کی تعلیم وتربیت کا رجحان دھیرے دھیرے بڑھ رہا ہے۔ ماحول کو پورے طور سدھارنے میں ابھی وقت لگے گا۔ اس لیے کوشش جاری رکھنا ہی وقت کا تقاضا اور اساتذہ وذمہ داران کا اہم فریضہ ہے۔ بلا شک بہت سارے ان پڑھ گارجین حضرات ایسے ہیں جو اپنی بچیوں کا ایڈمیشن صرف اس لیے کرتے ہیں تاکہ انھیں کوئی مناسب رشتہ مل جائے۔ رشتے مل جانے کی صورت میں وہ اپنی بچیوں کا سلسلۂ تعلیم بلا سوچے سمجھے منقطع بھی کروا دیتے ہیں۔ ایسے گارجین کو سمجھانا ہماری ذمہ داری ہے۔ انھیں یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ ابھی آپ کی بچی کو جو رشتہ مل رہا ہے، تعلیم کی تکمیل کی صورت میں ان شاء اللہ اس سے اچھا رشتہ ملے گا۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آپ کی بچی نہ یہ کہ خود شریعت کی روشنی میں زندگی گزارے گی، بلکہ اس کے نور علم سے ایک خاندان روشن ہوگا۔ برکت علم سے ظلمتیں کافور ہوں گی۔ ناخواندہ ساس بہو کی وجہ سے خانگی امور ومعاملات میں جو ناہمواریاں اور تلخیاں پائی جاتی ہیں، آپسی روابط وتعلقات کی ناخوش گواریوں نے جو قلق و اضطراب کی فضا قائم کر رکھی ہے، اس میں خوش گواری بچیوں کی تعلیم وتربیت ہی سے ممکن ہے۔
حروف آخریں یہ کہ ہماری بچیاں بھی علم وہنر کے میدان میں اپنا جوہر دکھا سکتی ہیں اور اس وقت کے منجمد اور پرسکون تعلیمی سمندر میں ایسا تلاطم وارتعاش پیدا کرسکتی ہیں، جس کی لہریں نہ صرف شیرشاہ آبادی قوم بلکہ ایک عالم کو شاد کام اور تازہ خرام کریں گی۔ بشرطیکہ انھیں تعلیم وتربیت کا سازگار اور شخصیت ساز ماحول ملے۔ اور ایسا اسی وقت ہوگا جب ذمہ داران مدارس تعلیم کے نام پر تجارت کرنے سے باز آجائیں گے۔ اللہ تعالی توفیق ارزانی کرے۔ آمین
جزاکم اللہ خیرا بہت عمدہ
شكرا
بہترین ترجمانی
بہت خوب🌹👌
الله يبارك في حياتكم يا شيخنا الجليل.
آمين يارب العالمين
وجزاكم الله خيرا
ماشاء اللہ بارک اللہ فیک یا شیخ ۔آپ نے بالکل حقیقت بیانی سے کام لیا ہے ۔بہترین اور قابل عمل تحریر ہے ۔
جزاكم الله خيرا