عربی زبان میں ”فرشتوں“ کے لیے ملائکہ کا لفظ مستعمل ہے، یہ مَلَک کی جمع ہے۔
”فرشتوں پر ایمان“ ارکان ایمان کا ایک اہم اور عظیم رکن ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارکان ایمان کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:
«أَنْ تُؤْمِنَ بِاللهِ، وَمَلَائِكَتِهِ، وَكُتُبِهِ، وَرُسُلِهِ، وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ»۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر ١) تم اللہ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں، یوم آخرت اور تقدیر کی اچھائی وبرائی پر ایمان رکھو۔
اس لیے ایمان بالملائکہ کا منکر کافر ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
﴿وَمَنْ يَكْفُرْ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا﴾ [النساء: 136] جو شخص اللہ تعالی، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور قیامت کے دن کاا نکار کرے تو وہ بہت بڑی دور کی گمراہی میں جا پڑا)
”فرشتوں پر ایمان“ سے مراد یہ ہے کہ انسان اس بات پر ایمان رکھے کہ فرشتے اللہ تعالی کی بے شمار مخلوقات میں سے نہایت ہی معزز بندے ہیں۔ اور ان میں سے بعض اللہ تعالی کے حکم سے انبیاء کرام کے پاس وحی لے کر آتے ہیں۔
یہ ”فرشتوں پر ایمان“ کا وجوبی مقدار ہے، جس کا علم وعقیدہ رکھنا ہر مسلمان کے لیے فرض، بلکہ ابتدائی طور پر لازم اور ضروری ہے۔ اس بنیادی عقیدے وعلم سے محروم شخص دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ مثلا اگر کوئی شخص کہے کہ ”مجھے نہیں معلوم کہ اللہ تعالی کی مخلوقات میں سے ملائکہ یا فرشتے بھی ہیں“ تو ایسا شخص ایمان بالملائکہ سے محروم ہونے کی وجہ سےاپنے آپ کو مسلمان کہلانے کا حقدار نہیں۔ ہاں یہ یاد رہے کہ اس شخص کے متعلق یہ عمومی اور مطلق حکم ہے، اس سے بالتعیین کسی شخص کو کافر کہنا صحیح نہیں۔
امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: فرشتوں پر ایمان کئی چیزوں کو شامل ہے:
۱ ۔ ان کے وجود کی تصدیق کرنا۔
۲۔ ان کو ان کا حقیقی مقام ومرتبہ عطا کرنا اور یہ ثابت کرنا کہ وہ اللہ کے بندے اور جن وانس کی طرح ان کی ایک مخلوق ہے۔
۳۔ یہ اعتراف کرنا کہ ان میں سے بعض اللہ کے پیغمبر اور قاصد ہیں جنھیں اللہ تعالی اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اس کی طرف بھیجتا ہے… الخ۔ (الجامع لشعب الایمان للبیہقی: 1/296)
”فرشتوں پر ایمان“ امور مغیبات میں سے ہے، اس لیے اس باب میں عقل وقیاس کا کوئی دخل نہیں، کتاب وسنت اور اجماع امت ہی اس کے حصول علم کا واحد مصدر اور ذریعہ ہے۔
*ذیل میں بالاختصار فرشتوں کے متعلق سلف صالحین کے بعض اہم عقائد پیش کیے جا رہے ہیں:*
۱۔ فرشتوں کو اللہ تعالی نے نور سے پیدا کیا ہے۔ (صحیح مسلم: حدیث نمبر 2996)
2۔ فرشتوں کو ذکورت یا انوثت سے متصف کرنا جائز نہیں، نصوص کتاب وسنت میں انھیں صرف عباد الرحمن کہا گیا ہے۔ (سورۃ الزخرف:19)
حلیمی نے ”منہاج“ کے اندر اور قونوی نے ”اس کے مختصر“ میں کہا ہے:
“الملائكة لا ينقسمون إلى ذكور وإناث”۔ (فرشتے مذکر ومؤنث میں منقسم نہیں ہوتے۔) (دیکھیں: الحبائك في أخبار الملائك للسیوطی، ص: 266)
شیخ محمد بن عبد الرحمن الخمیس فرماتے ہیں:
“ونقول إن من قال بأنهم إناث فقد كفر لمخالفته كتاب الله، ولا يقال إنهم ذكور إذ لم يرد في ذلك نص صحيح” (اعتقاد أهل السنہ شرح أصحاب الحديث، ص: 14) ہم کہتے ہیں کہ جس نے فرشتوں کو مؤنث کہا وہ کتاب اللہ کی مخالفت کی وجہ سے کافر ہو گیا۔ اسی طرح یہ بھی نہیں کہا جائے گا کہ وہ مذکر ہیں اس لیے کہ اس بارے میں کوئی صحیح نص وارد نہیں ہے۔
۳ ۔ فرشتوں کی حقیقی تعداد کا علم صرف اللہ رب العزت کو ہے۔ (سورۃ المدثر:31)
البتہ أحادیث نبویہ سے ان کی انتہائی کثرت کا اشارہ ملتا ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
“ما في السماء الدنيا موضع قدم إلا عليه ملك ساجد أو قائم” (آسمان دنیا میں پیر رکھنے کی کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں پر کوئی فرشتہ سجدہ یا قیام کی حالت میں نہ ہو) ( تعظیم قدر الصلاۃ للمروزی، ص260، حدیث نمبر:253، علامہ البانی نے اسے سلسلہ صحیحہ، حدیث نمبر:1059 میں شواہد کی بنا پر حسن کہا ہے)
۴۔ فرشتوں کی وفات کے متعلق علمائے کرام کے مابین اختلاف پایا جاتا ہے۔ اکثر علما کے نزدیک تمام مخلوقات کی طرح فرشتوں کو بھی موت کا مزہ چکھنا ہے۔ جب کہ ابن حزم الظاہری اور بعض مفسرین کے نزدیک انھیں موت نہیں آئے گی۔ (دیکھیں: الفصل في الملل والأهواء والنحل لابن حزم:4/21، الوجیز فی تفسیر الکتاب العزیز للواحدی ص389، بحر العلوم للسمرقندی:2/102)
اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ فرشتوں کی موت کے متعلق صحیح اور صریح نص موجود نہیں ہے۔ جو صحیح ہیں ان میں ملائکہ کی صراحت نہیں ہے، بلکہ عموم کے ساتھ تمام مخلوقات کی موت کی بات کی گئی ہے۔ مثلا سورۃ آل عمران کی آیت نمبر:185 اور سورۃ القصص کی آیت نمبر:88۔ حالانکہ حور عین کے متعلق سب کا اتفاق ہے کہ انھیں موت نہیں آئے گی، اسی طرح جنت وجہنم بھی اللہ کی مخلوق ہے، لیکن وہ فنا نہیں ہوں گے۔
بعض احادیث کے اندر ملائکہ کی موت کی صراحت ہے لیکن وہ صحیح نہیں ہیں۔ مثلا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی صور والی لمبی حدیث جس میں ہے:
“ثم يجيء ملك الموت إلى الجبار، فيقول: يا رب، قد مات حملة العرش، فيقول الله وهو أعلم: من بقي؟ فيقول: بقيت أنت يا رب، الحي الذي لا تموت، وبقي جبريل وميكائيل، وبقيت أنا، فيقول الله: فليمت جبريل وميكائيل، فيموتان، وينطق الله العرش فيقول: يا رب، تميت جبريل وميكائيل؟ فيقول الله له: اسكت، فإني كتبت الموت على من تحت عرشي، ثم يجيء ملك الموت إلى الجبار فيقول: يا رب، مات جبريل وميكائيل، فيقول الله وهو أعلم: فمن بقي؟ فيقول: بقيت أنت الحي الذي لا تموت، وبقيت أنا، فيقول الله: أنت خلق من خلقي، خلقتك لما قد ترى، مت” (پھر ملک الموت جبار کے پاس آئےگا اور کہے گا: اے پروردگار! عرش کو اٹھانے والے وفات پا گئے۔ تب اللہ فرمائے گا حالانکہ وہ بہتر جانتا ہے: اب کون باقی بچا ہے؟ ملک الموت کہے گا: اے پروردگار تو باقی بچا ہے، جو ہمیشہ ہمیش زندہ ہے، کبھی نہیں مرے گا، اور جبریل ومیکائیل باقی ہیں، اور میں باقی ہوں۔ تب اللہ فرمائے گا: جبریل ومیکائیل بھی وفات پا جائیں! پس دونوں مر جائیں گے۔ اس وقت اللہ تعالی عرش کو قوت گویائی عطا فرمائے گا، عرش کہے گا: اے پروردگار! تو جبریل ومیکائیل کو مار دے گا؟ اللہ فرمائےگا: چپ رہ! میں نے ان پر بھی موت لکھا ہے جو میرے عرش کے نیچے ہیں۔ پھر ملک الموت جبار کے پاس آئے گا، اور کہےگا: اے پروردگار! جبریل ومیکائیل بھی وفات پا گئے۔ تب اللہ فرمائے گا حالانکہ وہ بہتر جانتا ہے: اب کون باقی بچا ہے؟ ملک الموت کہے گا: اے پروردگار تو باقی ہے، جو ہمیشہ ہمیش زندہ ہے، کبھی نہیں مرے گا، اور میں باقی ہوں۔ تب اللہ فرمائے گا: تو بھی میری مخلوقات میں سے ایک مخلوق ہے، میں نے کس کام کے لیے تمھیں پیدا کیا تھا تم دیکھ ہی چکے ہو، تم بھی مر جاؤ!)
اس حدیث کو امام اسحاق بن راہویہ نے اپنی ”مسند“ (1/84-88، ح10) میں، ابن ابی الدنیا نے ”الاہوال“ (ص515-516، ح55) میں، ابن ابی حاتم نے اپنی ”تفسیر“ (9/2930، ح16628) میں، طبرانی نے ”الاحادیث الطوال“ (ص266، ح36) میں، ابو الشیخ اصبہانی نے ”العظمہ“ (3/821-826، ح386) میں، لالکائی نے ”شرح اصول اعتقاد اہل السنہ والجماعہ“ (2/247، ح365) ممیں، بیہقی نے ”البعث والنشور“ (ص336-339، ح609) میں، اسی طرح دوسرے علما نے اپنی کتابوں میں روایت کیا ہے۔
لیکن یہ روایت ضعیف ہے، قابل استدلال نہیں۔ علامہ عراقی، حافظ ابن کثیر اور حافظ ابن حجر رحمہم اللہ وغیرہم نے اس پر کلام کیا ہے، اور اس کی نکارت کو واضح کیا ہے۔ (دیکھیں: تخریج احادیث احیاء علوم الدین: 6/2669، تفسیر ابن کثیر: 3/287، وفتح الباری: 11/368-369)
جب اس مسئلہ میں کوئی صریح اور صحیح نص نہیں ہے تو عموم سے استدلال ہی اولی ہے۔ واللہ اعلم
اور یہی اکثر علما کا موقف رہا ہے۔ شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
“الذي عليه أكثر الناس أن جميع الخلق يموتون حتى الملائكة، وحتى عزرائيل ملك الموت” (مجموع الفتاوى 4/259) اکثر لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ تمام مخلوقات کو موت واقع ہوگی۔ یہاں تک کہ فرشتوں کو بھی، یہاں تک کہ ملک الموت عزرائیل کو بھی۔
یہاں تک کہ علامہ مناوی نے فیض القدیر (3/561) میں اس کے متعلق علما کا اجماع نقل کیا ہے، لیکن جیسا کہ گزرا کہ اس مسئلہ میں اختلاف موجود ہے۔ اجماع کی بات درست نہیں ہے۔
۵۔ فرشتوں کو اللہ تعالی نے بہت ہی حسین وجمیل بنایا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَى ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوَى (سورة النجم /5-6)
ابن عباس رضي اللہ عنہ نے “ذو مرة” کی تفسیر میں کہا ہے “ذو منظر حسن” (تفسیر ابن جریر طبری: 22/10)
5۔ انسان کی طرح فرشتے نہ کھاتے پیتے ہیں، اور نہ شادی بیاہ کرتے ہیں۔ علامہ فخر الدین رازی نے اس پر علماء کا اتفاق نقل کیا ہے۔ (مفاتیح الغیب للرازی:1/90)
۶۔ فرشتے دن رات اللہ تعالی کی عبادت میں مشغول ہوتے ہیں اور انھیں کوئی تھکاوٹ نہیں ہوتی۔ (سورہ فصلت:38)
۷۔ تمام فرشتے معصوم ہیں، اور اللہ تعالی کی کوئی نافرمانی نہیں کرتے۔ (سورۃ التحریم:6)
۸۔ فرشتے مؤمن بندوں سے محبت کرتے ہیں (صحیح بخاری، حدیث نمبر:3209)، ان کے لیے رحمت ومغفرت کی دعائیں کرتے ہیں (سورۃ الشوری:5)، اور ان کی دعاؤوں پر آمین کہتے ہیں۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر 9)
۹۔ فرشتے ذکر واذکار کے حلقوں اور علم کی مجلسوں میں حاضر ہوتے ہیں۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر:2700)
۱۰۔ جو لوگ نماز جمعہ کے لیے جلدی حاضر ہوتے ہیں فرشتے ان کے نام لکھتے ہیں یہاں تک کہ خطیب خطبہ جمعہ کے لیے بیٹھ جائے۔ (صحیح بخاری، حدیث نمبر:929)
۱۱۔ بعض فرشتوں کے نام یہ ہیں:
(1) جبریل (2)میکائیل (3)اسرافیل (صحیح مسلم، حدیث نمبر:770)
(4) مالک (سورۃ الزخرف/77)
(5) منکر (6) نکیر (السنہ لابن ابی عاصم، حدیث نمبر 864، علامہ البانی نے سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ (3/379-380) حدیث نمبر (1391) میں اس کی سند کو جید کہا ہے)
(7)ہاروت (8)ماروت ( سورۃ البقرہ:102)
12 – ”ملک الموت“ کے نام کی صحیح خبر صرف اللہ تعالی کو ہے۔ یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ ان کا نام عزرائیل ہے، کیونکہ قرآن کریم یا احادیث نبویہ میں کہیں بھی ان کا یہ نام ثابت نہیں ہے۔ بعض آثار کے اندر ان کا یہ نام ملتا ہے جس پر علمائے کرام نے اسرائیلیات میں سے ہونے کا شک ظاہر کیا ہے۔
قرآن کریم میں انھیں صرف ”ملک الموت“ کہا گیا ہے، اس لیے ہمیں بھی انھیں اسی نام سے یاد کرنا چاہیے۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
﴿قُلْ يَتَوَفَّاكُمْ مَلَكُ الْمَوْتِ الَّذِي وُكِّلَ بِكُمْ﴾ (سورۃالسجدة آیت نمبر:11)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
“وأما ملك الموت فليس بمصرح باسمه في القرآن، ولا في الأحاديث الصحاح، وقد جاء تسميته في بعض الآثار بعزرائيل، والله أعلم.” (البداية والنهاية:1/ 106) ملک الموت کے نام کی صراحت نہ قرآن میں آئی ہے، نہ صحیح احادیث میں، بعض آثار میں آیا ہے کہ ان کا نام عزرائیل تھا۔
شیخ البانی رحمہ اللہ شرح العقیدۃ الطحاویہ کی تحقیق میں امام طحاوی کے قول: “وَنُؤْمِنُ بِمَلَكِ الْمَوْتِ الْمُوَكَّلِ بِقَبْضِ أَرْوَاحِ الْعَالَمِينَ” میں لفظ “ملک الموت” پر نوٹ چڑھاتے ہوئے فرماتے ہیں:
“قلت: هذا هو اسمه في القرآن، وأما تسميته بعزرائيل كما هو الشائع بين الناس فلا أصل له، وإنما هو من الإسرائيليات”۔ (متن الطحاويہ بتعليق الألباني، ص:71) میں – یعنی شیخ البانی- کہتا ہوں: قرآن میں اس کا یہی نام – یعنی ملک الموت- آیا ہے۔ جہاں تک اس کا عزرائیل والا نام ہے جیسا کہ لوگوں میں افواہ پھیلی ہوئی ہے تو اس کی کوئی حقیقت نہیں۔ یہ اسرائیلی روایات میں سے ہے۔
اسی طرح شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ” (ملك الموت): وقد اشتهر أن اسمه عزرائيل، لكنه لم يصح، إنما ورد هذا في آثار إسرائيلية لا توجب أن نؤمن بهذا الاسم، فنسمي من وكل بالموت بـملك الموت كما سماه الله عز وجل”۔ (مجموع فتاوى ورسائل العثيمين:3/ 161) ملک الموت کے بارے میں مشہور ہے کہ اس کا نام عزرائیل ہے، لیکن یہ صحیح نہیں۔ بس اسرائیلی آثار میں یہ ملتا ہے، جس کی بنا پر اس پر ایمان لانا واجب نہیں۔ لہذا جس فرشتے کو جان قبض کرنے کی ذمہ داری دی گئی ہے اسے ہم ”ملک الموت“ کہیں گے جیسا کہ اللہ عز وجل نے اس کا نام رکھا ہے۔
۱۲۔ انسان کا پیدائش سے لے کر موت تک فرشتوں کے ساتھ گہرا ربط وتعلق ہے۔ جب وہ جنین کی شکل میں رحم مادر میں ہوتا ہے تو اللہ تعالی ایک فرشتہ اس کے پاس بھیجتا ہے اور اسے چار چیزوں کے لکھنے کا حکم دیتا ہے: اس کا عمل، رزق، اجل اور نیک بخت ہوگا یا بد بخت۔ (صحیح بخاری، حدیث نمبر:3208، صحيح مسلم، حدیث نمبر:2643)
پھر پیدائش کے بعد سے لے کر موت تک اس کی حفاظت کرتا ہے، نیز اس کے ہر ایک نقل وحرکت کا مراقبہ کرتا رہتا ہے۔ (سورۃ الانفطار:10-12، سورہ الرعد:11)
اور پھر وقت اجل آجانے پر اس کی روح کو قبض کرتا ہے۔ (سورۃ السجدہ:11)
آخر میں اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں صحیح علم حاصل کرنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
ماشاءالله تبارك الله
جزاكم الله خيرا
ماشاء الله بارك الله فيكم شيخنا الكريم
اللہ تعالی آپ کی خدمات کو قبول کرے آمین