کلمہ توحید اور انسانیت کے فروغ میں سعودی عرب کی کاوشیں

فیصل عزیز مدنی سیاسیات

بین مذاہب مکالمے کے لیے قرآن نے ایک ایسی بنیاد دی ہےجو تمام مذاہب کی اصل اور تمام میں قدرے مشترک ونقطۂ اتفاق ہے۔ قرآن نے “کلمہ سواء” سے اس کو تعبیر کیا ہے۔ جس کا اردو ترجمہ کلمہ مشترکہ سے کیا گیا ہے۔ اس سے مراد کلمۂ توحید “لا إله إلا الله” ہے۔ یہ وہی کلمہ توحید ہے جو دعوت اسلامی کی بنیاد ہے۔ تمام انبیاء کی دعوت کا آغاز اسی کلمہ توحید سے ہوا۔ اس کلمہ توحید کو قبول کرنے کے بعد ہی کسی کے لیے اسلام کا دروازہ کھلتا ہے۔ جس کے بعد وہ دائرہ اسلام میں داخل ہوسکتا ہے۔ اس کلمہ کے مقتضیات اور شروط کی عدم ادائیگی یا اس میں خلل کی وجہ سے ایک مسلمان دائرہ اسلام سے خارج بھی ہوجاتا ہے۔ یہی کلمہ جنت میں دخول کی چابی بھی ہے۔ مسلمانوں کی زندگی کی کا سب سے بڑا مشن اس کلمہ توحید کی بالادستی ہونی چاہیے۔ جو افراد ، جماعتیں اور ممالک اس کلمہ کی نشر واشاعت اور بالادستی کو اپنا مشن اور نصب العین بنالیں وہ یقیناً کامیابی کی راہ پر ہیں۔ مملکت سعودی عرب واحد اسلامی ملک ہے جس کے پرچم میں یہ کلمہ تحریر ہے۔ اس کلمہ توحید کی بنیاد پر ہی یہ مملکت وجود میں آئی اور اس کلمہ کی بالادستی اس مملکت کی سب سے بڑی ترجیح ہے۔ ایسی مملکت کے ساتھ کھڑا ہونا تمام مسلمانوں کا مذہبی فریضہ ہے۔ ایسی مملکت کے ساتھ دشمنی اسلام کے ساتھ دشمنی شمار ہوگی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
قُلۡ يَٰٓأَهۡلَ ٱلۡكِتَٰبِ تَعَالَوۡاْ إِلَىٰ كَلِمَةٖ سَوَآءِۭ بَيۡنَنَا وَبَيۡنَكُمۡ أَلَّا نَعۡبُدَ إِلَّا ٱللَّهَ وَلَا نُشۡرِكَ بِهِۦ شَيۡـٔٗا وَلَا يَتَّخِذَ بَعۡضُنَا بَعۡضًا أَرۡبَابٗا مِّن دُونِ ٱللَّهِۚ فَإِن تَوَلَّوۡاْ فَقُولُواْ ٱشۡهَدُواْ بِأَنَّا مُسۡلِمُونَ
ترجمہ : کہو، “اے اہل کتاب! آؤ ایک مشترکہ کلمہ کی طرف ( ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمھارے درمیان یکساں ہے) یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرائیں، اور ہم میں سے کوئی اللہ کے سوا کسی کو اپنا رب نہ بنا لے” اس دعوت کو قبول کرنے سے اگر وہ منہ موڑیں تو صاف کہہ دو کہ گواہ رہو، ہم تو مسلم (صرف خدا کی بندگی و اطاعت کرنے والے) ہیں۔
اس آیت میں جس مشترکہ کلمہ کی طرف لوگوں کو دعوت دی گئی ہے، وہ جن وانس کی تخلیق کا مقصد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَمَا خَلَقۡتُ ٱلۡجِنَّ وَٱلۡإِنسَ إِلَّا لِيَعۡبُدُونِ
ترجمہ : میں نے جن اور انسانوں کو اِس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں
اس مشترکہ کلمہ سے مراد ( لا إله إلا الله محمد رسول الله ) ہے۔ اللہ نے اس کلمہ کی مکمل وضاحت اور تبلیغ کردی ہے۔ اب اس میں کسی کمی بیشی کی گنجائش نہیں ہے۔ کیونکہ دین مکمل ہوگیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا
ترجمہ: آج میں نے تمھارے لیے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کردیا اور تمھارے لیے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا۔
اس عظیم کلمہ کے مفہوم میں اعمالِ الہی کی توحید بیان کی جاتی ہے۔ وہ یہ کہ اللہ ہر چیز کا مالک ہے اور وہ اپنی ملکیت میں تنہا ہے۔ کوئی اس کی ملکیت میں ساجھی ہے نہ اس کے بالمقابل کوئی اپنی مستقل ملکیت رکھتا ہے۔ اسے کسی چیز کی تخلیق کرنے یا اپنی ملکیت میں تصرف کے لیے کسی حمایتی اور مددگار کی ضرورت نہیں ہے۔
اس مشترکہ کلمہ کے مفہوم میں بندے کی توحیدِ بندگی بھی بیان کی جاتی ہے۔ وہ یہ کہ شریعت سے ثابت شدہ ہر وہ عبادت جس سے ثواب کی امید کی جاتی ہے م، اسے کسی غیر اللہ کے لیے انجام دینا ایسا شرک ہے جو دائرۂ اسلام سے نکال دیتا ہے۔
اس مشترکہ کلمہ کے مفہوم میں اللہ کے اسماء وصفات کی توحید بھی بیان کی جاتی ہے۔ وہ یہ کہ کتاب وسنت سے ثابت شدہ اسماء وصفات کے حقیقی معانی ہیں۔ مگر ان کی کیفیت کا علم ہمیں نہیں ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ۖ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ
ترجمہ: کائنات کی کوئی چیز اس کے مشابہ نہیں، وہ سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے۔
اس آیت میں اللہ کی صفتِ سماعت و بصارت کا اثبات تو ہے مگر اس کی کیفیت اور مشابہت کا انکار ہے۔ لہذا ہم کسی بھی صفت کی تاویل، تحریف، تشبیہ، تمثیل اور کیفیت بیان کرتے ہیں نہ ہی اس کو بے معنی سمجھتے ہیں۔
اس مشترکہ کلمہ کے مفہوم میں یہ بات آتی ہے کہ اس کلمہ کو اپنانے کا مطلب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل کرنا، جس چیز سے آپ نے منع کیا اس سے اجتناب کرنا، جو کچھ آپ نے بتایا اس پر ایمان لانا، اور آپ ہی کے بتائے ہوئے طریقے پر اللہ کی عبادت کرنا۔
اس مشترکہ کلمہ کا ایک تقاضا یہ ہے کہ محکم (یعنی ایسی آیات جن کے معنی ومراد میں کوئی شک و شبہ نہیں)، انھیں مضبوطی کے ساتھ اپنایا جائے، اور متشابہ آیات کے پیچھے نہ پڑ کر ان کے معنی ومراد کی تعیین کے لیے انھیں محکم آیات کی طرف لوٹا دیا جائے۔ ذیل کی حدیث سے یہی ہدایت ملتی ہے۔
عن عائشة ، قالت: تلا رسول الله صلى الله عليه وسلم: هو الذي انزل عليك الكتاب منه آيات محكمات هن ام الكتاب واخر متشابهات فاما الذين في قلوبهم زيغ فيتبعون ما تشابه منه ابتغاء الفتنة وابتغاء تاويله وما يعلم تاويله إلا الله والراسخون في العلم يقولون آمنا به كل من عند ربنا وما يذكر إلا اولو الالباب سورة آل عمران آية 7، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” إذا رايتم الذين يتبعون ما تشابه منه، فاولئك الذين سمى الله فاحذروهم” (رواه مسلم)
ترجمہ: ‏‏‏‏ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت پڑھی: «هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ، فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ، وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلاَّ اللَّهُ، وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِنْ عِنْدِ رَبِّنَا، وَمَا يَذَّكَّرُ إِلاَّ أُولُو الأَلْبَابِ» ”پروردگار وہ ہے جس نے تجھ پر کتاب اتاری اس میں بعض آیتیں مضبوط ہیں (محکم) وہ تو جڑ ہیں کتاب کی اور بعض متشابہ (گول گول یا چھپے مطلب کی)، پھر جن لوگوں کے دل میں گمراہی ہے وہ کھوج کرتے ہیں متشابہ آیتوں کا فساد چاہتے ہیں اور اس کا مطلب چاہتے ہیں حالانکہ اس کا مطلب کوئی نہیں جانتا اللہ کے سوا اور جو پکے علم والے ہیں وہ کہتے ہیں ہم ایمان لائے اس پر سب آیتیں ہمارے پروردگار کے پاس سے آئی ہیں اور نصیحت وہی سنتے ہیں جو عقل رکھتے ہیں۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو کھوج کرتے ہیں متشابہ آیتوں کا ان سے بچو وہ وہی لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے بتلایا۔“
اس کلمہ مشترکہ کے کچھ حقوق اور تقاضے ہیں جن کے بغیر لوگوں کے معاملات میں استحکام اور درستگی ممکن نہیں ہے۔ یہاں ان تمام کے تفصیلی بیان کی گنجائش نہیں ہے۔ البتہ سب سے نمایاں تقاضا جس کی ادائیگی میں آج کل کوتاہی کی جارہی ہے اور جس کے سبب مسلمان دشمنانِ اسلام کے لوٹ مار کا سامان بن گئے ہیں، وہ ہے اللہ کا پیغامِ اتحاد جسے چھوڑ دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا
ترجمہ: سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
إِنَّ اللَّهَ يَرْضَى لَكُمْ ثَلاثًا، وَيَسْخَطُ لَكُمْ ثَلاثًا، يَرْضَى لَكُمْ أَنْ تَعْبُدُوهُ وَلا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا، وَأَنْ تَعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا، وَأَنْ تُنَاصِحُوا مَنْ وَلَّى اللَّهُ أَمْرَكُمْ
ترجمہ: اللہ تعالیٰ خوش ہوتا ہے تمھاری تین باتوں سے اور ناخوش ہوتا ہے تین باتوں سے۔ خوش ہوتا ہے اس سے کہ تم عبادت کرو اس کی اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ اس کی رسی سب مل کر پکڑے رہو۔ (یعنی قرآن پر عمل کرتے رہو) اور پھوٹ مت ڈالو۔ اور خیر خواہی کرو ان کے ساتھ جن کو اللہ نے تمھارے معاملات پر ذمہ دار بنایا ہے۔”
بلا شبہ کلمہ مشترکہ کو اختیار کرنے، اس کی حفاظت کرنے اور اسے حرزِ جاں بنانے کے سلسلے میں امت مسلمہ کی کوتاہی کا سب سے بڑا سبب دین سے جہالت ہے۔ اسی طرح خواہشات کے غلام علماء سوء امت مسلمہ کے منصبِ قیادت پہ قابض ہیں۔ جو ناسمجھ مسلمانوں کو بھڑکا کر ان کے درمیان اختلاف وانتشار کی وسیع خلیج پیدا کر رہے ہیں جسے پاٹنا مشکل ہے۔ یہ وہ نام نہاد علماء ہیں جنھیں واجب، مستحب، حرام، مکروہ کے درمیان فرق کرنے کی اہلیت بھی نہیں ہوتی۔ انھیں اس بات کا علم ہی نہیں ہوتا کہ کن امور میں اختلاف کی گنجائش ہے اور کن امور میں نہیں؟ انھیں حکمران اور عوام کے حقوق کے تعلق سے کوئی شد بد ہوتی ہے نہ انھیں حاکمِ وقت کے ان خصوصی اختیارات واحکام کا علم ہوتا ہے جن میں اختلاف وتنازع اور دخل اندازی جائز نہیں۔ یہ وہی جاہل علماء ہیں جو فتنہ وفساد اور نفرت وانتشار کے لیے ایندھن کا کام کرتے ہیں۔
یہاں میں ان تمام مسلمانوں سے جو مسلمانوں کے آپسی اتحاد کے خواہاں ہیں، انھیں کلمہ مشترکہ کی طرف آنے کی دعوت دیتے ہوئے اللہ کے قول (تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ) کی یاد دہانی کرانا چاہوں گا۔ ان سے میری درخواست ہے کہ اس کلمہ کو اسی طرح اپنائیں اور اسے اپنی زندگیوں میں اتاریں جیسا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بقول: “میں نے تم کو ایک ایسے صاف اور روشن راستہ پر چھوڑا ہے جس کی رات بھی دن کی طرح روشن ہے، اس راستہ سے صرف ہلاک ہونے والا ہی انحراف کرے گا۔”
مسلمانو! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذیل کی وصیت مضبوطی سے تھام لو!
“لا تباغضوا، ولا تحاسدوا، ولا تدابروا وكونوا عباد الله إخوانا، ولا يحل لمسلم ان يهجر اخاه فوق ثلاث” (رواہ مسلم)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مت بغض رکھو ایک دوسرے سے، مت حسد کرو ایک دوسرے سے، مت دشمنی کرو ایک دوسرے سے اور اللہ کے بندے بن جاؤ! بھائیوں کی طرح”
مسلمانو! مملکت سعودی عرب اسلام کی علمبردار اور ایمان کا قلعہ ہے۔ جو کلمہ مشترکہ کی بنیاد پر وجود میں آئی اور ایک ایسا نمونہ پیش کیا جس کی مثال امت میں ماضی کی کئی صدیوں تک نہیں پائی جاتی ہے۔ یہاں کے حکمران، عوام اور علماء سب کے سب کلمہ مشترکہ پر کار بند ہیں۔ لہذا ایسی مملکت توحید کے خلاف کسی قسم کی سودے بازی نہ کرو!
سعودی عرب نے مختلف اسلامی جمعیات اور تنظیموں کے قیام اور ان کی امداد کے ذریعے مسلمانوں کی شیرازہ بندی اور ان کے فیصلوں کو متحد کرنے کی سعی کی، رنگ و نسل کی تفریق کے بغیر پوری اسلامی دنیا کے لیے مدد کا ہاتھ بڑھایا، مظلوم مسلمانوں کے مسائل کا دفاع کیا، اقوام متحدہ کے منبروں پر ببانگِ دہل اعلان کیا کہ یہ ایک اسلامی ریاست ہے جو اسلام کے خلاف کسی بھی چیز کو برداشت نہیں کرے گی۔ ان سب کے باوجود بھی مملکت کے خلاف کینہ رکھنے کا کیا مطلب ہے؟ کیا یہ رویہ حق ظاہر ہوجانے کے بعد بھی گمراہی پہ جمے رہنے جیسا نہیں ہے؟
لوگو! مملکت سعودی عرب کے خلاف کسی قسم کا سمجھوتہ اور سودے بازی نہ کرو! ایسے امور کی وجہ سے جن میں م مصلحت کی بنیاد پر مختلف موقف اختیار کرنے کا جواز پایا جاتا ہے۔ جان لو! کہ امت مسلمہ کے انتشار، کمزوری اور قتل و غارت گری کے پیچھے ان گھس پیٹھیوں کا ہاتھ ہے جو اسلام کا لبادہ اوڑھ کر امت کی صفوں میں داخل ہوگئے۔ تاریخ اسلامی میں اس قسم کا پہلا شخص عبداللہ بن سبا یہودی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان سب کے پیچھے ان مسلمانوں کا بھی ہاتھ رہا ہے جو دشمن کے آلۂ کار بنے رہے۔ ابن علقمی شیعہ بھی اسی قبیل کا آدمی تھا۔ جو دشمن کے ساتھ مل کر مسلمانوں اور اسلامی سلطنت کے خلاف سازش کا حصہ بنا۔ مسلمانو! آپ اس چیز سے بچیں کہ کہیں آپ بھی غیر شعوری طور پر ان کے طریقے پر چلنے والے نہ بن جائیں۔
ہمیں اللہ کے اس حکم کو مضبوطی سے تھامے رہنا چاہیے جو حکم بشمول آخری پیغمبر تمام رسولوں کو اللہ نے دیا۔ اس حکم کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ مَا وَصَّى بِهِ نُوحًا وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ اللَّهُ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَنْ يَشَاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَنْ يُنِيبُ ﴾ [الشورى: 13]
ترجمہ: اُس نے تمھارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اُس نے نوحؑ کو دیا تھا، اور جسے (اے محمدؐ) اب تمھاری طرف ہم نے وحی کے ذریعہ سے بھیجا ہے، اور جس کی ہدایت ہم ابراہیمؑ اور موسیٰؑ اور عیسیٰؑ کو دے چکے ہیں، اِس تاکید کے ساتھ کہ قائم کرو اِس دین کو اور اُس میں متفرق نہ ہو جاؤ یہی بات اِن مشرکین کو سخت ناگوار ہوئی ہے جس کی طرف اے محمدؐ تم انھیں دعوت دے رہے ہو اللہ جسے چاہتا ہے اپنا کر لیتا ہے، اور وہ اپنی طرف آنے کا راستہ اُسی کو دکھاتا ہے جو اُس کی طرف رجوع کرے۔

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
ارشد

عجیب تحریر, طریقہ استدلال غیر واضح۔ میری رائے اپنے علم کے مطابق ہے۔