ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی ایک سو پچاس ملین سے زیادہ ہے۔ انڈونیشیا کے بعد یہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی مسلم آبادی ہے، جو بنگلہ دیش اور مشرق وسطی کے تمام ممالک سے زیادہ ہے، دنیا کے دس فیصد سے زیادہ مسلمان ہندوستان میں بستے ہیں اور یہاں کی کل آبادی کا14.4 فیصد مسلمان ہیں، ہندوؤں کے بعد دوسری سب سے بڑی آبادی مسلم قوم کی ہے، پھر بھی وہ مسلم مائنارٹی (اقلیت)کہلاتی ہے اور ترقی کی دوڑ میں سارے ہندوستانیوں سے پیچھے ہے۔
ہندوستان کا جمہوری آئین مسلمانوں کو وہ تمام بنیادی حقوق مساویانہ طور پر عطا کرتا ہے جو دوسری قوموں کو حاصل ہے، مگر ان کی زبوں حالی، معاشی بدحالی اور تعلیمی پسماندگی آزادی کے وقت جیسی تھی، اسی طرح (بلکہ بعض چیزوں میں اس سے بڑھ کر) آج بھی ہے۔ سرکاری اور غیر سرکاری جائزوں کے اعداد و شمار نے جو انکشافات کیے ہیں، وہ نہایت چونکا دینے والے اور ہولناک ہیں،1983ء میں گوپال سنگھ کا سروے 1988ء میں نیشنل سمپل سروے (N.S.S) کی رپورٹ اور 2006 میں سچر کمیٹی کی رپورٹ مسلمانوں کی بدحالی کی داستان سنارہی ہے، مرکزی اور صوبائی حکومتیں پرکشش اسکیمیں بناتی ہیں، لیڈران مسلمانوں کے سامنے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہیں، ان سے ہمدردیاں ظاہر کرتے ہیں ، وعدے کرتے ہیں اور ان کو حسین خواب دکھا کر ووٹ سمیٹتے ہیں اور پھر اسٹیج سے غائب ہوجاتے ہیں۔
ہندوستانی مسلمانوں کے سامنے یوں تو بے شمار مسائل ہیں،لیکن ان میں سب سے اہم ان کی تعلیمی پسماندگی، صحیح قیادت کی کمی،اردو زبان کا مسئلہ، مرکزی اور صوبائی حکومتوں کا متعصبانہ رویہ اور عدم تحفظ کا احساس ہے،ہم درج ذیل سطور میں مذکورہ مسائل کی سنگینی اور مسلم معاشرہ کی تنزل پذیر حالت کا ایک جائزہ پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔
سماجی اور معاشی حالت
مسلمانوں کی موجودہ حالت کا اندازہ آپ اس سے کرسکتے ہیں کہ سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق ” مسلمانوں کی سماجی اور معاشی حالت دلتوں سے بھی بدتر ہے، سرکاری اور پبلک سیکٹروں میں ان کی نمائندگی مایوس کن ہے” 1993 میں آئی۔اے۔ایس(انڈین ایڈمنسٹریشن سروس) میں 789 کامیاب امیدواروں میں صرف 20 مسلم تھے، کامیاب امیدواروں کا یہ محض 2.5 فیصد تھا، 2005 میں یہ تعداد تین فیصد تک پہنچ چکی تھی جو ساڑھے چودہ فیصد مسلم آبادی کے مقابلے میں بہت معمولی ہے، یہ صرف ایک مثال ہے، دیگر سرکاری شعبوں میں بھی مسلمانوں کی نمائندگی کا یہی حال ہے۔ سچر کمیٹی کے سروے کے مطابق آئی پی ایس میں 4 ، بھارتی ریلوے میں 4.5، شعبۂ تعلیم میں 6.5 پولیس کانسٹبل میں 6 ، شعبۂ صحت میں 4.5، شعبۂ نقل و حمل میں 6.5، عدلیہ میں 7.8 فیصد مسلمانوں کی نمائندگی ہے، 13/ مارچ 1971 تک مختلف وزارتوں کے تحت درجہ اول اور درجہ دوم کی 39375 ملازمتوں میں مسلمانوں کی تعداد صرف 677 تھی۔ یہ تعداد مسلم آبادی کے مقابلے میں محض 1.7 فیصد ہے۔
کسی بھی صوبہ میں مسلمانوں کی آبادی کے تناسب سے ان کی نمائندگی نہیں ہے۔ کیرالہ، آسام،بنگال، مہاراشٹر، بہار اور یوپی میں مسلمانوں کی آبادی دوسروں صوبوں کی بہ نسبت زیادہ ہے، لیکن ان صوبوں میں بھی مسلمانوں کی حالت بہتر نہیں ہے، پبلک سیکٹروں میں کہیں بھی ان کی نمائندگی دہائی کے ہندسے کو نہیں چھو سکی ہے۔ حساس اور تعلیم یافتہ مسلمانوں نے ایسے ادارے اور تربیتی مراکز کھولنے کی ضرور کوشش کی، جن کے ذریعے سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کو بھی ان کا حق مل سکے، لیکن اس میں ان کو بہت کم کامیابی مل سکی،ان کے سامنے ناقابل بیان مشکلات ہوتی ہیں، ایسی ٹیکنکل خامیاں نکالی جاتی ہیں کہ ان کا سارا جوش اور جذبہ سرد پڑ جاتاہے، سرکاری ملازمتوں میں ان کے لیے گنجائش نہیں ہے، ان کے پاس نہ فیکٹریاں ہیں نہ کارخانے اور نہ ایکسپورٹ امپورٹ کا کاروبار، ان کے لیے دستکاری، چھوٹی موٹی تجارت یا محنت کشی کا راستہ کھلا ہوا ہے، دیہی علاقوں میں بھی وہ زمینوں سے محروم ہیں۔کچھ مخصوص تجارتیں ضرور تھیں، آزادی کے بعد جن سے مسلمان وابستہ تھے اور ترقی کی طرف گامزن تھے مثلا چمڑے کا کاروبار، گوشت کا کاروبار، پارچہ بافی، برتن سازی، تانبے پیتل کے سجاوٹی سامانوں پر نقاشی، اور نجاری وغیرہ اب یہ صنعتیں بھی ان سے چھن چکی ہیں، کیونکر اور کن پالیسیوں کے تحت ان کے ہاتھوں سے یہ تجارتیں چھینی گئیں یا ان مین مصنوعی کساد بازاری پیدا کی گئی یہ الگ موضوع ہے، جن علاقوں میں مسلمان اپنی ان حرفتوں اور گھریلوں صنعتوں کی بدولت خوش حال تھے، مثلا بنارس، مئو ناتھ بھنجن، مراد آباد، بھیونڈی، بھاگل پور ، مالیگاؤں اور میرٹھ وغیرہ ان کو فرقہ وارانہ فسادات کے ذریعہ تباہ کردیا گیا،اس کےعلاوہ ان کاروباروں میں بڑے غیر مسلم سرمایہ دار کود پڑے، نتیجتاً ان علاقوں کے خوش حال مسلمان بھی اب اقتصادی طور پر کمزور اور خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں، نیشنل سمپل سروے 1988 کی رپورٹ کے مطابق اس وقت 52.3 مسلمانوں کی ماہانہ آمدنی Rs 150 یا اس سے کم ہے 4.4 فیصد مسلمان سرکاری ملازمتوں میں ہیں،3.7 فیصد مسلمانوں کو اپنی تجارت کے لیے حکومت سے مالی امداد فراہم کی گئی، صرف 5 فیصد مسلمانوں کو سرکاری بینکوں سے قرض ملا ہے۔
وقف بورڈ
ہندوستان کے مخیر مسلمانوں نے بڑی بڑی جائدادیں خاص مقاصد کے لیے وقف کی ہیں، نیز پاکستان جاتے وقت کافی مسلمان اپنی جائدادیں وقف کرکے چلے گئے، ان جائدادوں کے انصرام وانتظام کے لیے مرکزی اور صوبائی حکومتوں نے باقاعدہ ایک محکمہ”وقف بورڈ” کے نام سے بنایا ہے،اس بورڈ کے ممبران سیاسی اثر و رسوخ کی بنا پر متعین کیے جاتے ہیں، اوقاف کی آمدنی کو اگر ایمانداری سے استعمال کیا جائے تو ایک حد تک مسلمانوں کی معاشی بدحالی میں فرق پڑسکتا ہے، مگر یہاں بھی بدعنوانی اور غبن کا بازار گرم ہے، بدعنوانی اور بے انتظامی کی وجہ سے اوقاف کے بیشتر حصوں پر غیر مسلمین قابض ہیں نیز آمدنی کا ایک بڑا حصہ بورڈ کے ممبران، عہدیداران اور ملازمین کے شکم میں چلا جاتا ہے۔
تعلیمی پس ماندگی
مسلم قوم کی بے حسی اور مرکزی و صوبائی حکومتوں کی عنایات سے محرومی کا یہ نتیجہ ہے کہ ہندوستانی مسلمان اس میدان میں بھی باکل پھسڈی ہیں۔ مسلم بچوں کے لیے ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ انھیں عصری تعلیم کے ساتھ کم ازکم پرائمری سطح تک دینی تعلیم حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ ہر مسلمان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کا بچہ کم از کم قرآن ناظرہ اور ابتدائی دینی تعلیم سے واقف ہو تاکہ اسے اپنی مذہبی شناخت اور تشخص کا پوری طرح علم ہو، یہ تعلیم صرف مدارس اور مسلمانوں کے ذریعہ چلائے جانے والے اسکولوں میں ہی ممکن ہوسکتی ہے، معاشی تنگی کی وجہ سے نچلے اور متوسط طبقہ کے مسلمان مہنگے اور پرائیویٹ اسکولوں میں تعلیم دلانے کے متحمل نہیں ہوسکتے ہیں، اس لیے ان کی جائے پناہ مکاتب اور مدارس ہی ہوتے ہیں، ان مدارس کی حالت زیادہ بہتر نہیں ہوتی ہے، یہ صرف عوامی چندوں کے سہارے چلتے ہیں، ان کی طرف حکومت کی کوئی توجہ ہوتی ہے اور نہ انھیں کوئی سرکاری مدد ملتی ہے، ان مدارس اور مکاتب کے معلمین اور معلمات کی تنخواہیں اتنی کم ہوتی ہیں کہ بسا اوقات ان کے گھر کے چولھے نہیں جلتے ہیں، مدارس کے بچوں اور بچیوں کے پاس کاپیاں ہوتی ہیں نہ کتابیں، نہ یونیفارم اور نہ صفائی ستھرائی کا کوئی اہتمام ہوتا ہے، نسبتا خوش حال مسلمان اپنے بچوں کو ضرور پرائیویٹ اسکولوں میں بھیجتے ہیں، مگر ہائی اسکول اور انٹر کلاسز تک پہنچتے پہنچتے ان کا حوصلہ دم توڑ دیتا ہے، خط افلاس کے نیچے زندگی گزارنے والے مسلمانوں کے بچے یا تو سرے سے مدارس اور اسکول کا منھ ہی نہیں دیکھتے ہیں، کچھ بچے پرائمری یا آٹھویں کے بعد اپنے والدین کے ساتھ دو وقت کی روٹی مہیا کرنے میں لگ جاتے ہیں،پورے معاشرہ میں ناخواندگی عام ہونے کی وجہ سے بچوں کو تعلیمی ماحول مل ہی نہیں پاتا ہے، نتیجہ کے طور پر اسکول جانے والے بچے محنت سے جی چراتے ہیں اور تعلیم میں آگے نہیں بڑھ پاتے ہیں۔
انھیں وجوہ کی بنا پر مسلمان لڑکوں اور لڑکیوں میں تعلیم کا تناسب غیر مسلموں کے مقابلے میں بہت کم ہے، نیشنل سمپل سروے (N.S.S) کی 1988 کی رپورٹ کے مطابق 50.5 ہندوستانی مسلمان ناخواندہ ہیں، 4 فیصد مسلمان ہائی اسکول تک تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ 1.6 فیصد مسلمان گریجویٹ ہیں، سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق 6 سال سے 13 سال تک 14 فیصد بچے اسکول جاتے ہیں 14-15 سال کے 12 فیصد 16-17 تک کے 10 فیصد 18-22 تک کے 10.2 فیصد 23 اور اس سے اوپر کے 7.4 فیصد طلبہ تعلیم حاصل کرتے ہیں۔
مسلمانوں کے سامنے ایک اہم مسئلہ زبان کا بھی ہے، ہندوستان میں 60 فیصد مسلمانوں کی مادری زبان اردو ہے، اس بات سے سب واقف ہیں کہ سب سے بہتر ذریعہ تعلیم وہی ہوتا ہے، جو مادری زبان میں ہو، ایسے علاقے جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے یا مسلمانوں کی معتد بہ تعداد رہتی ہے،اردو میڈیم اسکولوں کا قیام بہت ضروری ہے، ہندوستانی آئین نے بھی مسلمانوں کو یہ حق دیا ہے، لیکن ان علاقوں میں اردو میڈیم اسکول کمیاب ہیں، ( اردو کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش میں تو اردو میڈیم اسکولوں کا کال ہے)، جہاں کہیں اسکول ہیں ،وہاں اردو کی نصابی کتابیں نا پید ہیں یا آؤٹ آف ڈیٹ ہیں ، اگر کجھ کتابیں شائع بھی ہوتی ہیں تو وہ اپ ڈیٹ نہیں ہوتی ہیں یا ان کی اشاعت بہت محدود ہوتی ہے، ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ سرکاری نصاب کی کتابوں میں ایسے مضامین شامل کر دیے جاتے ہیں جو مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچاتے ہیں، نیز ہندو مذہب کی دیوی دیوتاؤں کی اساطیری کہانیوں کو شامل نصاب کیا گیا ہے، جسے مسلمان بچے بھی پڑھنے پر مجبور ہیں، ہندوستان جیسے کثیر المذاہب اور جمہوری ملک میں اس طرح کی چیزیں یقیناً جمہوریت کے منافی ہے۔
ان حالات میں بھی اگر مسلمان چاہیں تو اس مسئلہ کی سنگینی کو ایک حد تک کم کرسکتے ہیں، آزادی کے بعد یوپی میں دینی تعلیمی کونسل اور مہاراشٹر میں انجمن اسلامیہ کی کوششیں اس میدان میں قابل تحسین ہیں، افسوس کہ مرور وقت کے ساتھ کونسل کی کوششیں ماند پڑگئیں، لیکن مہاراشٹر میں انجمن آج بھی سرگرم عمل ہے، مہاراشٹر کے مسلمانوں میں تعلیم کی جو بھی پیش رفت ہے اس میں انجمن کا اہم کردار ہے، یہ یاد رکھیں کہ تقسیم ہند سے قبل ہمارے پاس اردو یونیورسٹی، ڈگری کالجز اور ہر علاقہ میں انٹر اور ہائی اسکول تھے جو آزادی کے بعد ختم ہوگئے، 1980 کے بعد مسلمانوں میں کچھ تعلیمی بیداری ضرور آئی ہے، لیکن یہ بیداری لڑکیوں کی تعلیم تک محدود ہے۔ یہ تسلیم ہے کہ ہم مختلف مسلکوں میں بٹے ہوئے ہیں مگر عصری علوم، ٹیکنکل ادارے، انجینیرنگ اور میڈیکل کالجز کے قیام میں مسلک قطعا رکاوٹ نہیں بنتا ہے، اس کے لیے ہم متحدہ پلیٹ فارم بنا سکتے ہیں، شمالی ہند کے مسلمان جنوبی ہند کے مسلمانوں سے سبق حاصل کرسکتے ہیں، مسلمانوں کی بدقسمتی یہ بھی ہے کہ تعلیم کے فروغ کے لیے مرکزی اور صوبائی حکومتیں جو اسکیمیں بناتی ہیں، مسلمانوں کو نہ ان کی خبر ہوتی ہے اور نہ وہاں تک رسائی ہوتی ہے، 1990 میں مرکزی حکومت نے حق تعلیم (Right to Education) کا نفاذ کیا ، اس قانون کے تحت 6 سال سے 13 سال تک ہر بچہ کو تعلیم حاصل کرنے کا حق ہے، یہ حق دلانے کی ذمہ داری سرکار کی ہے، اس اعتبار سے بھارت دنیا میں پہلا ملک ہے، جس نے حق تعلیم کی ذمہ داری حکومت کے سپرد کی ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ مسلم بچے اس قانون سے کہاں تک فیض یاب ہوتے ہیں۔
قیادت کی کمی
1947 کے فسادات میں مسلمانوں نے جو جانی اور مالی نقصان اٹھایا، وہ ناقابل بیان اور ناقابل تلافی ہے، تقریباً پچاس ملین مسلمانوں نے اپنا الگ ملک بنالیا، تعلیم یافتہ اور اعلیٰ طبقہ کے بیشتر لوگ ہندوستان چھوڑ کر پاکستان چلے گئے، جن مسلمانوں نے ہندوستان میں رہنے کو ترجیح دی، ان کی تعداد بھی کم نہ تھی وہ خوف و ہراس اور امید و بیم کے درمیان سانسیں لے رہے تھے، مسلمانوں کے پاس اپنا نظام حیات،اپنی تہذیب اور اپنا معاشرہ تھا، مگر آزادی کے بعد سیاسی قالب بدل چکا تھا،وہ ہندوستان کے جمہوری نظام میں ضم تو ہوگئے ،لیکن برادران وطن کی نظروں میں وہ سدا کے لیے مشکوک بن چکے تھے، اس بھنور سے انھیں مولانا آزاد جیسے لوگ ہی نکال سکتے تھے، مگر کانگریس نے انھیں تعلیم کا قلمدان تھما کر ان کی سرگرمیوں کو محدود کردیا تھا، آزادی کے دس سال بعد وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے، ان کے بعد کل ہند پیمانے پر کوئی پر اثرشخصیت مسلمانوں میں ابھر کر سامنے نہ آسکی، سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے کچھ لیڈران ضرور تھے، لیکن ان کے اثرات اور مقبولیت بہت محدود تھی۔
اس وقت پارلیمنٹ اور مجلس قانون ساز میں مسلم نمائندوں کی تعداد پہلے کے بہ نسبت زیادہ ہے، مگر یا تو ان میں مسلم مسائل کو سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے یا وہ صرف دولت اور شہرت کی لالچ میں سیاسی میدان میں اترے ہیں یا وہ پارٹی کی پالیسیوں میں جکڑے ہوئے ہیں، ابھی حال میں مظفر نگر کے فساد میں سپا کے مسلم لیڈروں کا جو رویہ رہا ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ہے، سپا کی حکومت میں مسلم ایم ایلیز کی اچھی خاصی تعداد ہے، لیکن وہ سپا حکومت پر فساد روکنے کے لیے کوئی خاص دباؤ نہیں ڈال سکے۔
ہندوستانی مسلمانوں نے کانگریس کے ساتھ مل کر آزادی کی لڑائی لڑی تھی، آزادی کے بعد کانگریس سے پوری امید تھی کہ وہ مسلمانوں کو ساتھ لے کر چلے گی، ان کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرے گی، افسوس کہ چہار دہائی تک حکومت کرنے کے باوجود مسلمانوں کے لیے وہ کچھ نہ کرسکی، نہرو کے مرنے کے بعد تو کانگریس نے اپنی پالیسیاں بھی بدل لیں، وہ ایک عرصہ تک مسلمانوں کو نہرو اور آزاد کی افیم دے کر سلاتی رہی، دوسری طرف شدت پسندت تنظیموں کو بیدار کرنے میں لگی رہی، بابری مسجد کی شہادت کے بعد مسلمانوں کو احساس ہوا کہ کانگریس نے انھیں کٹھ پتلی بنا کر نچایا، ان کا صرف استحصال کیا، دوسری طرف بھارتیہ جنتا پارٹی مسلم دشمنی اور فرقہ وارانہ منافرت کے سہارے خود کو بے پناہ طاقت ور بنا لیا، مجبور ہو کر مسلمانوں نے علاقائی پارٹیوں کا دامن تھامنا شروع کردیا، بے سمتی کا یہ سفر بغیر کسی رہبرکے اب بھی جاری ہے۔
کیا مسلمان اپنی علاحدہ سیاسی پارٹی بنا کر کامیاب ہوسکتے ہیں؟ مولانا آزاد نے آزادی سے قبل مسلمانوں کو کانگریس میں ضم ہونے کا مشورہ دیا تھا، آزادی کے بعد ملکی حالات نے جس طرح کروٹ بدلی، اگر وہ زندہ ہوتے تو شائد اپنا مشورہ واپس لے لیتے،کچھ مسلم رہنماؤں نے سیاسی پارٹیاں بنانے کا تجربہ بھی کیا، مسلم لیگ، مسلم مجلس مشاورت اور ابھی حال میں علما کونسل، پیس پارٹی وغیرہ کی تشکیل ہوئی، لیکن انھین کوئی خاص مقبولیت حاصل نہ ہوسکی، اویسی کی مجلس اتحاد المسلمین کی مقبولیت بھی صرف اپنے علاقے تک رہ گئی، اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ایسی سیاسی پارٹیوں پر علاحدگی پسند اور فرقہ واریت کا لیبل چسپاں کردیا جاتا ہے، دوسری وجہ یہ ہے کہ اکثریت کا تعاون ملنا مشکل ہوجاتا ہے، ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جموں کشمیر کے علاوہ کوئی ایسا صوبہ نہیں ہے جہاں مسلمان اکثریت میں ہوں اور وہ مسلم نمائندوں کو پارلیمنٹ میں بھیج سکیں، مسلمان پورے ملک میں بکھرے ہوئے ہیں اور بکھرے ہوئے افراد متحدہ طاقت نہ بن سکتے ہیں نہ بناسکتے ہیں۔
یہ اعتراف کرنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ موجودہ مسلم لیڈروں کے پاس نہ رہنمائی کا سلیقہ ہے نہ صلاحیت اورنہ قوم و ملت کے لیے خود کو قربان کرنے کا جذبہ ہے، اس کے برعکس ریا و نمود ،شہرت اور دولت حاصل کرنے کے جنون نے انھیں بزدل، خود غرض ،موقع پرست اور ابن الوقت بنا کر رکھ دیا ہے، ان حالات میں ہماری نظر علماء دین کی طرف اٹھنا فطری ہے، ماضی میں بھی ہمارے علما نے قیادت کا علم اٹھایا تھا، 1857 کی جنگ آزادی ہو یا تحریک آزادی کی جدوجہد، ہمارے علما نے نہ صرف قیادت کی بلکہ سفینے کو ساحل تک پہنچایا، مگر مسلمانوں کی بدقسمتی نے یہاں بھی پیچھا نہیں چھوڑا، مسلم علما اپنی الگ دنیا بسائے ہوئے ہیں، ان کی سرگرمیاں تضلیل و تکفیر تک محدود ہیں، انھوں نے سیاست کو اپنی زندگی سے خارج کردیا ہے، جو ایمان دار اور با صلاحیت ہیں وہ سیاسی میدان میں آنا نہیں چاہتے ہیں، مذہبی اختلافات اپنی جگہ پر مگر سیاسی اتحاد تو قائم کیا جاسکتا ہے 1919 میں مسلمانوں کے مسائل حل کرنے کے لیے مفتی کفایت، مولانا ثناء اللہ امرتسری اور مولانا عبد الباری فرنگی محلی ایک جگہ جمع ہوسکتے ہیں اور علما کی جمعیت قائم کر سکتے ہیں، تو آج بھی علما کی جماعت قیادت کا مسئلہ کیوں نہیں حل کرسکتی ہے، انتظار طویل ضرور ہوسکتا ہے مگر ہم اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہیں۔
اردو زبان
عہد مغلیہ میں سرکاری زبان فارسی تھی، برٹش دور میں فارسی کی مقبولیت کم ہوتی گئی اور اس کی جگہ اردو نے لے لی، 1834 میں انگریزوں نے فارسی کی جگہ اردو کو دے دیا،1857 کے بعد سرکاری کام کاج انگریزی اور اردو میں ہونے لگا، پورے ہندوستان میں اردو کا بول بالا تھا، اسلامی لٹریچر کا بیشتر سرمایہ اردو میں منتقل ہونے لگا، اردو زبان ہندوستان کے زیادہ تر مسلمانوں کی مادری زبان بن گئی، غیر مسلموں کے لیے بھی یہ زبان اجنبی نہ تھی، تعلیم یافتہ غیر مسلم اردو اسی طرح بولتے اور لکھتے تھے، جیسے مسلمان لکھتے اور بولتے تھے، اردو اور ہندی کا جھگڑا تو بہت بعد کی پیداوار ہے، آزادی کی صبح طلوع ہوئی تو اردو کو گرہن لگ گیا، پارلیمنٹ کی کثرت آرا سے ہندی سرکاری زبان بن گئی اور اردو خود اپنے ہی وطن میں اجنبی بن گئی۔
بہار اور یوپی کو اردو کا وطن کہا جاتا ہے، ان صوبوں میں مسلمانوں کی مادری زبان اردو ہے، پھر بھی اردو کی کسمپرسی ناقابل بیان ہے، آج گنتی کے اسکول اور کالجز ہیں جہاں اردو کی پڑھائی کا انتظام ہے، صرف مکاتب اور مدارس ہیں جو زبان کی حد تک اردو کو زندہ رکھے ہوئے ہیں ، سرکاری اسکولوں میں اردو کے معلمین کمیاب ہیں، معلم ہیں تو اردو پڑھنے والے لڑکے نہیں ہیں، اردو کا معلم دوسرے مضامین پڑھا کر اپنی ملازمت برقرار رکھے ہوئے ہے، معلمین کی تربیت کا کوئی انتظام نہیں ہے، اردو میں لکھی ہوئی درخواستیں سرکاری اداروں میں قبول نہیں کی جاتی ہیں اور ردی کی ٹوکری کی نذر ہوجاتی ہیں، یوپی کے پرائمری اسکولوں کے داخلہ فارم میں مادری زبان کا کالم نہیں ہے، اس طرح یوپی اور بہار میں 16 ملین سے زیادہ لوگ اپنے اس بنیادی حق سے محروم ہیں جسے انھیں آئین نے دیا ہے، اس کی ذمہ داری صرف صوبائی حکومت پر عائد نہیں ہوتی بلکہ مرکزی حکومت بھی اس کی قصور وار ہے، ہمارے آئین نے زبان کے بارے میں یہ حق دیا ہے کہ اگر کسی زبان کے بولنے والے کثیر تعداد میں ہیں تو صدر جمہوریہ کی سفارش پر اس زبان کو ثانوی زبان کا درجہ دیا جاسکتا ہے، ظاہر ہے یہ کام صوبائی اور مرکزی حکومت ہی کرسکتی ہیں۔
حکومتیں اردو بولنے کے صحیح اعداد و شمار فراہم نہیں کرتی ہیں، رائے شماری کرنے والے دیدہ و دانستہ مادری زبان کے کالم میں ہندی لکھ دیتے ہیں، کہا جاتا ہے کہ ثانوی زبان بنانے کے لیے ایک تہائی آبادی کی مادری زبان اردو ہونا چاہیے، در اصل یہ تجویز گورنمنٹ آف انڈیا کے ایک کمیشن کی ہے، یہ نہ آئین کی کوئی دفعہ ہے اور نہ سپریم کورٹ نے ایسا کوئی حکم جاری کیا ہے، آج صوبائی اور مرکزی حکومتیں صرف اردو اکیڈمیاں قائم کر کے اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوجاتی ہیں، اردو کا بھلا اسی وقت ہوسکتا ہے جب روزی روٹی سے اردو کو جوڑا جائے۔
اردو پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ یہ صرف مسلمانوں کی زبان ہے اور مسلمانوں کی طرح یہ بھی غیر ملکی ہے، اردو کا رسم الخط قابل قبول نہیں ہے، اس لیے اس زبان کو ختم ہوجانا چاہیے، تفصیل میں جائیں گے تو بات بڑی لمبی ہوجائے گی، یقیناً ہندوستانی مسلمانوں کا مذہبی اور تہذیبی سرمایہ اردو میں ہے، یہ بھی سچ ہے کہ ہندوستان کے 60 فیصد مسلمان اردو بولتے اور سمجھتے ہیں، لیکن اس حقیقت سے انکار کرنا ناممکن ہے کہ یہ زبان ہندوستانی فضا ہی میں پروان چڑھی ہے، مسلمانوں کی طرح ہندوؤں نے اس کے فروغ میں بھرپور حصہ لیا ہے، رسم الخط کے معاملے میں اردو تنہا نہیں ہے، سندھی اور کشمیری زبانیں بھی دائیں طرف سے لکھی جاتی ہیں، بعض لوگ کہتے ہیں کہ اردو اور ہندی میں کوئی فرق نہیں ہے، یہ ایک مغالطہ ہے اردو اپنی مستقل حیثیت رکھتی ہے، اس کا اپنا نثری اور شعری لٹریچر ، رسم الخط اور گرامرہے، جس کا ہندی سے کوئی تعلق نہیں ہے، اہم مسئلہ اردو کو اس کا جائز حق دینا، اس کی ترقی کے لیے راہ ہموار کرنا ہے، اردو کے بارے میں حکومتوں کامنفی رویہ جمہوریت کے لیے ایک داغ ہے۔
فرقہ وارانہ فسادات
ہندوستانی جمہوریہ کے آئین نے اگرچہ ہندوستان کے تمام شہریوں کویکساں آزادی دی ہے، اپنے مذہب پر عمل کرنے، اس کی تبلیغ کرنے اور ملازمتوں میں بغیر کسی تفریق مواقع کا حق دیا ہے، اس کے باجود ہندوستانی مسلمانوں کی نہ جان محفوظ ہے نہ مال۔ وہ ہمہ وقت عدم تحفظ کے احساس کا شکار ہیں ، وہ آزادی کے بعد سے اب تک مستقل اور مسلسل خوف و ہراس میں زندگی بسر کررہے ہیں، وجہ صرف یہ ہے کہ وہ مسلمان ہیں، ان کا جرم یہی ہے کہ ان کا تعلق اسلام سے ہے، جہاں چار برتن ہوتے ہیں ، ان کے کھنکنے کی آواز ضرور آتی ہے، انگریزوں کے دور میں بھی ہندو مسلمانوں میں فسادات ہوئے لیکن فسادات اور منافرت کا جو ماحول آج ہے، ایسی زہر آلود ہوا تو کبھی نہیں چلی تھی، مسلمانوں کے خلاف نفرتی ماحول بنانے کی ابتدا 1925 کے بعد شروع ہوئی، اس کا ٹرائل سب سے پہلے ناگپور میں 1927 میں ہوا،جہاں ایک مخصوص فرقہ کے لوگ مسلمانوں کی عبادت گاہ کے سامنے ڈھول تاشے بجاتے ہوئے اور بدتمیزیاں کرتے ہوئے گزرے، مسلمانوں کے احتجاج کرنے پر وہ تشدد پر اتر آئے،اس فساد میں مسلمانوں کے جان و مال کا کافی نقصان ہوا، آزادی کے بعد مسلم مخالف فسادات ایک معمول بن گیا، حکومت ہند کی وزارت داخلہ کی ایک رپورٹ کے مطابق 1954 سے 1992 تک 13356 اہم فسادات ہوئے یہ تعداد 2013 تک چودہ ہزار سے متجاوز ہوگئی، ایک مصنف اور دانشور جے۔بی۔ ڈیسوزا لکھتے ہیں:
” کتنے شرم کی بات ہے کہ برٹش دور کے 150 سالوں میں جس قدر جانیں
گئیں، آزادی سے لے کر اب تک مسلم مخالف فسادات میں اس سے کئی
گنا زیادہ جانیں گئیں، انگریزوں کا اصول تھا” پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو”
یہ قول ہم پر زیادہ صادق آتا ہے، فرقہ وارانہ فسادات کا یہ تسلسل در اصل
“ہندتو” کے ان طویل المیعاد منصوبوں کا ایک حصہ ہے، جس کا مقصد
ہندوستان میں بکھرے ہوئے اسلامی نقوش کو مٹانا اور مسلمانوں کو اس
طرح کچل دینا کہ ان کی حیثیت دلتوں سے زیادہ نہ ہو، وہ اسپین کے مسلمانوں
کی طرح نیست و نابود ہوجائیں یا اپنی تہذیب اور تشخص سے محروم ہوجائیں۔”
یہ فسادات ون وے ٹریفک کی طرح ہیں، جس میں صرف ایک ہی فریق تباہ و برباد کیا جاتا ہے، پولیس فورسز اور پی اے سی جسے سرکار فساد ختم کرنے کی ذمہ داری سونپتی ہے وہ خود فریق مخالف بن جاتی ہے، وہ غنڈوں اور شر پسند عناصر کے ساتھ مل کر مسلمانوں کو مارنے اور ان کے اموال لوٹنے میں مصروف ہوجاتی ہے، 1969 احمدآباد، 1980 مرادآباد،1987 میرٹھ، بابری مسجد کی شہادت کے بعد کے فسادات نیز 2002 گجرات کے ہولناک فساد میں پولیس کا جو کردار رہا ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ہے، حتی کہ پولیس کے اعلیٰ افسران بھی اس سے بری نہیں ہیں، دوران فساد یا فساد کے بعد بے قصور مسلمان خاص کر نوجوانوں کی گرفتاریاں شروع ہو جاتی ہیں،مثال کے طور پر 1970 میں بھیونڈی کے فساد میں 17 ہندو اور 59 مسلمان مارے گئے، لیکن پولیس نے 21 ہندو اور 901 مسلمانوں کو گرفتار کیا، ان فسادات کو ہوا دینے میں میڈیا کا بھی اہم رول رہتا ہے، مظفر نگر 2013 کے فساد میں یقیناً میڈیا نے کیمپوں میں پناہ گزیں مسلمانوں کی زبوں حالی کو کوریج تو دیا لیکن یہ مسلم قوم کی ہمدردی میں نہیں تھا،بلکہ یوپی حکومت کی نالائقی کو ہائی لائٹ کرنے کے لیے کیا گیا۔
فسادات کا نشانہ ایسے علاقوں کو بنایا جاتا ہے، جہاں کے مسلمان خوش حال ہیں اور کسی گھریلو صنعت سے وابستہ ہیں، مثلا بنارس، مئو ناتھ بھنجن، میرٹھ، مرادآباد ، بھاگل پور وغیرہ، دراصل یہ مسلمانوں کو معاشی طور پر برباد کردینے کی ایک سوچی سمجھی سازش ہے، فسادات کا یہ تسلسل ہندوستان کو ہندو سامراجیہ مین تبدیل کرنے کی ہندتو کے منصوبے کاایک حصہ ہے جو تین مراحل پر مشتمل ہے ریہرسل، اقدام اور عمل، آسام میں بنگلہ دیشی کے نام سے مسلمانوں کی بڑے پیمانے پر تباہی اور 2002 میں گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام اسی سودیشی فاشزم کا ریہرسل تھا۔
صوبائی اور مرکزی حکومتوں کا متعصبانہ رویہ
کوئی ملک اسی وقت ترقی یافتہ بن سکتا ہے،جب اس کے تمام شہریوں کو، خواہ ان کا تعلق کسی مذہب یا کسی علاقہ سے ہو،سب کو ترقی کی دوڑ میں یکساں اور مساویانہ موقع ملے، اگر کسی خاص مذہب سے وابستہ افراد یا کسی خاص علاقہ کو نظر انداز کردیا جائے تو یقیناً وہ ملک پس ماندہ ہی کہلائے گا، آر ایس ایس نے ، نفرت، تعصب اور مسلم دشمنی کے زہرکی جو کاشت کی ہے، اس نے حکومت کے تمام شعبوں میں ادنی اور اعلی مناصب پر بیٹھے ہوئے لوگوں کے ذہنوں کو مسموم کردیا ہے، یہی وجہ ہے کہ قدم قدم پر مسلمانوں کو حکومت کے متعصبانہ رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ایک طرف حکومت مسلمانوں کے حقوق اور ان کے مفادات کے لیے اسکیمیں بناتی ہے چنانچہ مرکز میں کانگریس حکومت سچر کمیٹی کی زیادہ تر سفارشات کو نافذ کرنے کا دعوی کررہی ہے، حکومت نے اقلیتی امور کے لیے مستقل وزارت بھی قائم کردی ہے، دوسری طرف انتخابی حد بندی اس طرح کی گئی ہے کہ مسلم اکثریتی علاقوں کی سیٹوں کو رزرویشن کے تحت مخصوص کردیا گیا ہے، ظاہر ہے کہ ہندو اکثریتی علاقوں سے مسلمان امیدواروں کو کامیابی کی بہت کم امیدیں رہتی ہیں، ووٹر لسٹ سے مسلمانوں کے ناموں کو ہٹادیا جاتا ہے، مثال کے طور پر 1994 میں حیدرآباد اور سکندرآباد میں 138000 مسلمانوں کے نام ووٹر لسٹ سے ہٹا دیے گئے، اگر سروے کیا جائے تو ہر صوبہ میں اس کی مثالیں مل جائیں گی، دراصل مسلم اکثریتی علاقوں کو اقلیتی علاقوں میں تبدیل کرنے کی یہ ایک منظم سازش ہے۔
ملازمت کے خواہش مند مسلم نوجوان اگر تحریری امتحان پاس کر لیتے ہیں تو شفوی امتحان میں انھیں فیل کردیا جاتا ہے، بعض پرائیویٹ کمپنیاں تو علی الاعلان یہ کہہ دیتی ہیں کہ مسلم امیدوار آنے کی زحمت نہ کریں،سرکاری ملازمتوں میں داڑھی رکھے ہوئے مسلمانوں کو ہدف ملامت بنا یا جاتا ہے۔ مولانا آزاد نے آزادی سے قبل کہا تھا ” ایک بار ملک آزاد ہوگیا تو فرقہ واریت کا جنون دم توڑ دے گا” افسوس کہ ان کی یہ پیشین گوئی پوری نہ ہوسکی، اس کے برعکس پورا ملک منافرت اور فرقہ واریت کی لپٹوں میں جھلس رہا ہے، جمہوریت کا دامن تو اب تار تار ہوچکا ہے، بابری مسجد کی شہادت کی داستان ہو یا گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام ہو، یا مظفر نگر کا فساد ہو یا دہشت گردی کے نام پر بے قصور مسلمانوں کی اندھا دھندھ گرفتاری ہو، مرکزی اور صوبائی حکومتیں جمہوری اقدار کو بچانے میں بالکل ناکام رہی ہیں، سیکولر لیڈر اور روشن خیال دانش وران اظہار تشویش سے زیادہ کچھ کرنے سے مجبور ہیں، مسلمان مسلسل خوف و ہراس میں ہیں،، اس خوف نے نوجوانوں کے دلوں مین اعلی تعلیم کے جذبے کو سر کردیا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اقلیت میں اور بھی قومیں ہیں، مسلمان ہی شدت پسندوں کا کیوں نشانہ ہیں؟ میں سمجھتا ہوں کہ اس کی سب بڑی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے پاس ایسا مذہب ہے جس نے پوری دنیا کے مسلمانوں کو ایک رشتے میں پرو رکھا ہے، ہندوستان میں ان کی ایک ہزار سالہ حکومت کے آثار پورے ملک میں بکھرے ہوئے ہیں، ان کے پاس ایک نظام حیات ہے جس سے وہ کبھی دست بردار نہیں ہوسکتے ہیں، دوسری طرف شدت پسند قوتیں ہندوستان کو ایسی مملکت میں تبدیل کرنا چاہتی ہیں، جس میں صرف ہندو مذہب اور ہندو کلچر کا بول بالا ہو، اس راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ مسلمان ہیں، اس لیے ہندتو کا ترجیحی یا اولین مقصد ہے کہ مسلمانوں کو اس حد تک کچل دیا جائے کہ وہ اسپین کے مسلمانوں کی طرح ختم ہوجائیں یا وہ ہندو تہذیب میں ضم ہوجائیں اور اپنی مذہبی شناخت اور تشخص کو ختم کردیں۔ان کے کچھ خاص ایجنڈ ے یہ ہیں (۱) مسلمان غیر ملکی ہیں اس لیے انھیں ہندوستان میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے (۲) وہ پاکستان کی شکل میں اپنا حصہ لے چکے ہیں (۳) ان کی وفاداری مشکوک ہے (۴) ان کے اندر حب الوطنی کا جذبہ نہیں ہے (۵) وہ قومی دھارا میں شامل نہیں ہونا چاہتے ہیں، قومی دھارا سے ان کا مطلب ہے کہ مسلمان اپنا مذہب اور اپنی تہذیب چھوڑ کر ہندو تہذیب میں ضم ہوجائیں (۶) وہ اپنے مذہب کو سب سے اعلیٰ اور ارفع سمجھتے ہیں اور دوسرے مذاہب کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں (۷) وہ ملکی قومیت پر یقین نہیں رکھتے ہیں، ان کی تمام ہمدردیاں پاکستان کے ساتھ ہوتی ہیں (۸) وہ یکساں سول کوڈ کی مخالفت کرتے ہیں (۹) وہ ہندوستان کے قدیم کلچر کو نہیں اپناتے ہیں اس کے برعکس اس کی توہین کرتے ہیں (۱۰) مسلمان بسنت، بیساکھی، دیپاولی اور دسہرہ وغیرہ تیوہاروں کو قومی تیوہار ماننے پر تیار نہیں ہیں (۱۱) وہ شیواجی اور دیگر ہندو پیشواؤں کی تعظیم نہیں کرتے ہیں نہ ہی اورنگ زیب اور سلطان ٹیپو کی مذمت کرتے ہیں، یہ ان کے ڈھکے چھپے ایجنڈے نہیں ہیں، آپ ان کے سیاسی، سماجی لیڈران، ان کے کارکنان، ان کی سبھاؤں، ان کے سماروہوں، ان کی ریلیوں اور ان کے بھاشڑوں میں علی الاعلان یہ سٻ باتیں سنتے ہیں، مسلمان چاہے جتنا صفائیاں دے لیں، اپنی قومیت اور حب الوطنی کا ثبوت پیش کریں وہ اپنے عزائم اور منصوبوں سے ایک انچ ہٹنے والے نہیں ہیں۔
یہ مضمون دس سال پہلے لکھا گیا، ان دس سالوں میں ملک اس قدر تیزی سے آمریت کی طرف بڑھا ہے کہ اس کی شدت کو ناپنے کے لیے کوئی آلۂ پیمائش نہیں ہے، حقیقت یہ ہے کہ شدت پسند قوتیں اپنی منزل کے بے حد قریب ہیں، انھوں نے نفرت کی ایسی آگ لگائی ہے جس کا بجھنا بظاہر مشکل دکھائی دے رہا ہے،ان کا ٹارگٹ صرف مسلمانوں کو معاشی اور سماجی حیثیت سے مفلوج کرنا اور اپنے ہی وطن میں انھیں اجنبی بنانا ہے،اور وہ یہ کرچکے ہیں ان حالات میں مسلمان کیا کریں؟ روشنی کی کوئی کرن نظر نہیں آتی، جب مایوسی کا اندھیرا اس قدر گھٹ ٹوپ ہو جائے ،خوف اپنی انتہا کو پہنچ جائے اور دہشت کا یہ عالم ہو کہ ہم صرف آنکھ بند کر کے سوچیں کہ اللہ کا شکر ہے کہ ہم سلامت ہیں تو سمجھ لیں کہ نیستی ہمارا مقدربن چکی ہے، اللہ کے لیے اس طرح کےمنفی خیالات دلوں سے نکال دیں ، یقین جانیں کہ جب کوئی ظالم و جابر،اقتدار اور حکومت کے نشہ میں چور ہوکر ظلم کی چکی میں عوام کو پیسنا شروع کر دیتا ہے تو انسانیت سسک پڑتی ہے، مظلومین کی آہیں عرش معلی سے ٹکرانے لگتی ہیں، ہر بن مو سے آواز نکلتی ہے کہ یا اللہ تیرا انصاف کہاں ہے، ظالموں نے تیری زمین کو تیری مخلوق پر تنگ کردیا ہے، انسانی خون کی یہ ارزانی، معصوم جانوں کی یہ رائگانی کیا تیری نظروں سے اوجھل ہے، مکافات عمل کب ہوگا، تیری پکڑ تو سب سے مضبوط ہے، تو اس ظالم کو اپنے شکنجہ میں کب کسے گا؟
ظالم کی سرکشی اور بغاوت شباب پر پہنچ جاتی ہے،وہ رب کی دی ہوئی مہلت کو نظر انداز کردیتا ہے، اور سمجھتا ہے کہ اس کی جڑیں تحت الثری میں ہیں، کوئی طاقت اسے ہلا بھی نہیں سکتی ہے، وہ مسلسل اپنی سفاکی اور درندگی کا کھیل جاری رکھتا ہے، جوں ہی مہلت پوری ہوتی ہے ، مکافات عمل کا آغاز ہو جاتا ہے، اس کا آہنی حصار ریزہ ریزہ ہوجاتا ہے، ہوا کا ایک معمولی سا جھونکا اس کو نیست و نابود کرنے کے لئے کافی ہوتا ہے۔
یادر کھیں، انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنا محاسبہ کریں، اور مندرجہ ذیل آیات کی روشنی میں اپنا لائحۂ عمل متعین کریں
اللہ تعالی کا فرمان ہےوَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ ۖ وَاصْبِرُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ
اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں اختلاف نہ کرو کہ تم ناکام نہ ہوجاؤ اور تمھاری ہوا اکھڑ جائے، صبر کرو بےشک الله صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے،
اللہ نے دوسرے مقام پر فرمایا؛ واعتصموا بحبل الله جمیعا ولا تفرقوا
اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑلو اور آپس میں اختلاف نہ کرو
آج اگر امت مسلمہ ایمانی قوت اور مومنانہ فراست کو بروئے کار لائےتو فساد فی الارض کا یہ ماحول خود بخود امن و سکون کے گہوارے میں بدل جائے گا، ہم خود کو مسلمان کہتے ہیں لیکن وہ ایمانی جذبہ کہاں ہے جس کی بدولت ہمارے اسلاف نے ایران و روما کو فتح کیا،
علو اورعروج کے لئے ایمانی قوت شرط ہے” انتم الاعلون ان کنتم مؤمنین” ہمیں خوف و ہراس کی دلدل اور مسائل کے بھنور سے نکلنا ہے تو سچا مسلمان بن کر جینا پڑے گا۔
آپ کے تبصرے