قیام اسرائیل: اسباب ومحرکات اور مغرب کے مفادات

رفیع احمد سیاسیات

فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ الْآخِرَةِ جِئْنَا بِكُمْ لَفِيفًا (الاسراء:۱۰۴)

والجماعة بركة والفرقة عذاب

7 /اکتوبر2023ء کو فلسطینی مزاحمتی جماعت‘‘حماس’’ کی عسکری ونگ ‘‘کتائب عز الدین القسام’’ کے مجاہدین نے آپریشن ‘‘طوفان الاقصی’’ کی شکل میں صہیونی ریاست کے ایک بڑے حصے پر زمینی اور ہوائی حملہ کیا اور یہ حملہ اتنااچانک اور بھیانک تھا کہ صہیونی ریاست اور اس کی فعال انٹیلی جنس‘‘موساد’’ اور اس کی حلیف امریکی ایجنسی ‘‘سی آئی اے’’ کو اس کی خبر تک نہ ہوئی۔اس حملے میں 1400 سو سے زائد عام صہیونی بشمول فو ج کے اہل کار مارے گئے اور دو سو سے زائد صہیونیوں کو قید کر کے جنگجو مجاہدین لے گئے۔دراصل یہ جوابی کارروائی تھی جو صہیونی ریاست اپنے مغربی آقاؤں کے ساتھ مل کر جنوری 2023ء سے پورے فلسطین میں فتنہ وغارت گری اور ریاستی انتہا پسندی مچا رکھی تھی۔صہیونی اوباشوں نے دن رات فلسطینیوں کا جینا حرام کر رکھا تھا، ان کی زمینوں پر ناجائز قبضہ، ان کی املاک کو ہتھیانا، کھلا ہوا ظلم وجور تھا جو اس سا ل یعنی2023ء میں مزید شدت سے جاری تھاجس کی پاداش میں نہتے فلسطینی ہزاروں کی تعداد میں شہید کر دیے گئے۔یہ تو اس سال کی بھیانک بربریت تھی جوصہیونیت نے برپا کرکھی تھی ورنہ عام فلسطینی تو 1948ء سے برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کے استعماری ایجنڈوں سے مسلسل ظلم وجور برداشت کرتے چلے آرہے ہیں۔

یہود-فلسطین تنازع: ایک مختصرتعارف:

تاریخ کا یہ باب کب کیسے شروع ہوا، اس بارے میں مؤرخین اور مبصرین کی آراء مختلف ہیں۔چنانچہ الجزیرہ پر شائع شدہ ایک دستاویزی فلم ‘‘النکبۃ (2008)’’ کی فلسطینی تخلیق کار روان الضامن نے اپنی کہانی کاآغاز نپولین بونا پارٹ سے کیاہے جس نے سلطنت عثمانیہ کے خلاف اپنی جنگ کے دوران محاصرہ عکہ کے تناظر میں 1799ء میں فلسطین میں یہودی وطن کی تجویز پیش کی تھی۔ فرانسیسی کمانڈر کو بالآخر شکست ہوئی لیکن مشرق وسطی میں یوروپی گڑھ قائم کرنے کی اس کی کوشش کو 41 سال بعد برطانیہ نے دوبارہ دوہرایا جب وزیر خارجہ لارڈ پالمر سٹن نے استنبول میں اپنے سفیر کو خط لکھا، جس میں کہاگیاکہ وہ سلطان پر زور دیں کہ وہ مصر کے گورنر محمد علی کے اثرورسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے فلسطین کو یہودی تارکین وطن کے لیے کھول دے۔ اگرچہ اس وقت فلسطین میں صرف تین ہزار یہودی رہتے تھے لیکن فرانسیسی اشرافیہ بیرن ایڈ منڈ جیمزڈی روتھمشیلڈ جیسے امیر لوگوں نے یوروپ سے دیگر لوگوں کو ان کے ساتھ شامل ہونے او ر بستیاں قائم کرنے کے لیے سپانسر کرنا شروع کردیا۔

آسٹریا کے مصنف نیتھن برن بام(Nathan Birnbaum) نے 1885 ءمیں‘‘صہیونیت’’ کی اصطلاح اس وقت ایجاد کی جب یہودی، خاص طور پر مشرقی یورپ سے، فلسطین میں مسلسل آتے رہے۔ آسٹریا، ہنگری کے صحافی ڈاکٹر تھیوڈور ہرزل کی کتاب (The Jewish State) ایک دہائی بعد منظر عام پر آئی، جس میں 20ویں صدی کی آمد کے ساتھ اس طرح کے (ملک) کے قیام کا تصور پیش کیا گیا تھا۔

عام مؤرخین اور مبصرین کاخیال ہے کہ برطانیہ کے 1917ء کے بالفور ڈیکلریشن ہی اس عرب-فلسطین متنازعہ کا نقطہ آغاز ہے اور چونکہ1907 تک برطانیہ مشرق وسطیٰ میں اپنے غلبے کو مضبوط کرنے کے لیے‘‘بفرسٹیٹ’’ کی ضرورت پر غور کر رہا تھا، برطانوی صیہونی رہنما ہائم ویزمین (Heim Weissmann)، جو ایک حیاتیاتی کیمیا دان تھا، نے اس وقت مقبوضہ بیت المقدس جا کر جافا کے قریب زمین خرید کر ایک کمپنی قائم کی، تین سال کے اندر اندر شمالی فلسطین کے علاقے مرج بن عامر میں تقریبا 10 ہزاردونم زمین حاصل کی گئی، جو ایکڑ کے برابر زمین کی پیمائش ہے، جس کی وجہ سے 60 ہزار مقامی کسانوں کو یورپ اور یمن سے آنے والے یہودیوں کو مجبورا جگہ دینی پڑی۔ 1916ء میں برطانیہ نے اس کمپنی کی مشروعیت کا اعتراف کیا اور فسلطین میں تجارت کی کھلی اجازت دے دی۔

پہلی عالمی جنگ (1914ء-1919ء) کے بعد مشرق وسطی کے اس حصے پر حکمرانی کرنے والی سلطنت عثمانیہ کی شکست کے بعد برطانیہ نے فلسطین کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔اس سرزمین پر اس وقت یہودی اقلیت اور عرب اکثریت کے ساتھ ساتھ دیگر چھوٹے نسلی گروہ بھی آباد تھے۔ انیسویں صدی کے یوروپ پر اگر ایک سرسری نگا ہ ڈالی جائے تو خود یہودی رہنما تسلیم کرتے ہیں کہ یوروپین ممالک میں ان کا عرصہ حیات تنگ ہوچکا تھا، انھیں زبردستی مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیاجاتاتھا،ان کی عورتوں اور دوشیزاؤں کو داسی کے مانند رکھا جاتاتھا۔بچوں اور نوجوانوں کاان ممالک میں کوئی پرسان حال نہیں تھا اور اس سے کون نہیں واقف ہے کہ جرمنی کے تانا شاہ ہٹلر نے ان کے ساتھ کیا کچھ برتاؤ کیا۔ مسلسل اور منظم ظلم وستم کی پاداش میں یہودیوں کی ایک بہت بڑی تعداد ان عیسائی ملکوں کو خیر باد کہہ کر شمالی افریقہ اور سلطنت عثمانیہ کے زیر کنٹرول علاقوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئی۔اور برطانیہ نے 1917ء میں بالفور ڈیکلریشن کے تحت فلسطین میں یہودیوں کو بسانے کا کام شروع کیاتو عربوں-یہودیوں کے درمیان مشرق وسطی میں خونریز تصادم کی داستان شروع ہوگئی۔1947ء میں اقوام متحدہ کے ذریعے فلسطین میں صدیوں سے آباد عربوں کے حقوق کو نظر انداز کرکے فلسطین کو دوحصوں میں تقسیم کردیا۔ یہودی آبادی اور اس کے حلیفوں نے اس فیصلے کو مان لیا اور اپنی الگ اسرائیلی ریاست کا علان کردیا اور تمام عرب ممالک نے متحدہ طور پراس نئی ریاست کے خلاف مورچہ کھول دیا اور 1948ء میں پہلی بار خونریز تصادم نے جنگ کی صورت اختیار کرلی۔اب تک عربوں اور اسرائیل کے درمیان چار جنگیں1956ء، 1967ء اور 1973-74ء لڑی گئیں۔ ان جنگوں کے بعد اسرائیل نے پورے فلسطین کے علاوہ مصر کا صحرائے سینا کی پٹی اور شام کے مرتفع گولان اور مضافات پر بھی قبضہ کرلیالیکن1991ء میں ناروے کی مداخلت سے فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان معاہدہ اوسلو طے پایا، جس کے تحت سطح مرتفع گولان اورمشرقی بیت المقدس پر اسرائیل نے جو قبضہ کرلیاتھا ، اسے لوٹانے سے انکار کردیا اوران پر قبضہ تاحال برقرار ہے۔اس کے علاوہ مغربی کنارے اور بیت المقدس کے اردگرد فسلطینیوں کے گھر مسمار کرکے یہودی بستیاں بسانے اورغزہ کے علاقے میں بچوں اور دوسرے شہریوں کو بمباری کا نشانہ بنانے کا اسرائیلی سلسلہ بھی تاحال جاری ہے۔

اسرائیل کے قیام کے اسباب ومحرکات:

مسئلہ فلسطین دنیاکا پیچیدہ، قدیم اور حساس مسئلہ ہے۔ اس قضیے میں مذہب ، نسل اور کلچر کے تمام تر تضادات اپنی پوری شدت کے ساتھ موجود ہیں۔ زمینی حقائق کی بات کریں تو اس وقت موجود ہ اسرائیل کا رقبہ تقریبا اکیس ہزار مربع کلو میٹر اور آبادی انسٹھ لاکھ (59)ہے۔ اس آبادی میں یہودیوں کی تعداد اڑتالیس (48) لاکھ ہے اور عربوں کی تعداد گیارہ (11) لاکھ ہے۔ اسرائیل نے جون 1967ء کی جنگ میں جس علاقے پر قبضہ کیاتھا، فلسطینی قیادت کا دعوی ہے کہ یہی مستقبل کی فلسطینی ریاست ہے۔ اس علاقے کا رقبہ چھ ہزار مربع کلو میٹر سے کچھ کم نہیں ہے اور اس کی آبادی بیس (20) لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ دوسرے علاقے کو غزہ پٹی کہاجاتاہے۔ یہ اسرائیل کی مغربی سرحد، مصر اور بحیرہ روم میں گھری ہوئی ایک چھوٹی سی پٹی ہے جس کا رقبہ تین سو ساٹھ (360)مربع کلو میٹر ہے اور اس کی آبادی گیارہ (11) لاکھ کے قریب ہے۔ گویا فلسطینی ریاست میں اکتیس (31) لاکھ فلسطینی رہتے ہیں۔

دوسراسبب: ایک یہودی وطن کا احساس:

اس تنازع کا پہلا سبب جیساکہ ہم نے اس کی مختصر تاریخ میں ذکر کیاہے کہ اس کے پیچھے گریٹ برطانیہ کی مکمل حمایت اور پشت پناہی کارفرماتھی۔ علاوہ از یں یہودیوں میں ایک یہودی وطن کا احساس سترہویں صدی عیسوی میں انتہا پسند یہودیوں نے پیدا کیاتھا کہ ان کا اصل وطن فلسطین ہے ،جہاں انھیں واپس جانا چاہیے مگر باقاعدہ اس کو ایک تحریک کی شکل جرمنی کے ایک مشہور دانش ور اور وکیل تھیوڈر ہرزل نے دی جس نے 19ویں صدی میں صہیونیت(Zionism) کے نام سےشروع کیا۔زایان یا صہیون دراصل یروشلم کے قریب ایک پہاڑی کا نا م ہےیا یروشلم کے بابلی نام (Zion)سے مشتق ہے۔ ابتدا میں یہ خیال بھی تھا کہ دنیا میں کہیں بھی کوئی ایسی جگہ مل جائے جہاں یہودی امن سے رہ سکیں اور اس ضمن میں نظر انتخاب یوگنڈا پر گئی تاہم یہودیوں کی اکثریت نے اسے نامنظور کرکے فلسطین ہی کو اپنا مقصد قرار دیا۔

تیسرا سبب:طاقت کا بے جا استعمال اور انتہا پسندی :

یہودیوں کی انتہا پسندی جگ ظاہر ہےجیسا کہ پہلے سبب میں اس کو ذکر کیاگیاہے۔چنانچہ حالیہ غزہ اور اسرائیل جنگ شروع ہونے سے پہلے نومبر 2022ء میں انتخابات کے بعد اسرائیل کا اقتدار سنبھالنے والی الٹرا راٹسٹ، انتہاپسند، قدامت پسندصہیونیت کے علمبردار سیاسی پارٹیوں (Likud, United Torah Judaism, Shas, Religious Zionist Party, Otzma Yehudit, Noam and National Unity) کے اقتدار میں آنے کی وجہ سےوزیر برائے نیشنل سکیورٹی اتمار بن گویر بیت المقدس میں واقع مسجد الاقصی میں داخل ہوکر برملا یہ کہتاہے کہ مسجد اقصی کی موجودہ حیثیت کو تبدیل کردیاجائے گا۔ اس موجودہ حکومت کا وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو بھی دائیں بازو کے انتہا پسند نظریات کا مالک ہے۔بلکہ حالیہ انتخاب کے بعد سے نیتن یاہو پہلے سے بھی زیادہ فلسطین دشمن پالیسیوں کو عملی جامہ پہنا رہاہے کیونکہ دائیں بازو کی انتہا پسند جماعتوں کی حمایت کے بغیر اس کی حکومت قائم نہیں رہ سکتی۔ دائیں بازو کی ان پارٹیوں نے اسرائیلی پارلیمنٹ میں پہلے سے زیادہ نشستیں حاصل کی ہیں۔ کابینہ میں شامل اس کے وزیر خزانہ اور نیشنل سکیورٹی کے محکموں پر قابض ہیں۔

طاقت کابے جا استعمال اسرائیل کی ایک اہم خصوصیت ہے۔ بلکہ اسرائیل کی اس جارحیت کے نتیجے میں مشرق وسطی کا امن1948ء سے ہمیشہ خطرے میں رہاہے۔ لیکن حالیہ حماس-اسرائیل جنگ میں صہیونیت کے علمبرداروں نے طاقت کا بے انتہا استعمال کیا جو ہیروشیما اور ناگا ساکی پر گرائےگئے نیوکلیئر بموں سے بھی زیادہ ہے اور اس کے نتیجے میں غزہ پٹی کے تقریبا بیس لاکھوں فلسطینی باشندوں اور مغربی کنارے میں رہنے والے ہلاک شدگان کی تعداد28ہزار سے متجاوز ہوچکی ہے۔اور زخمیوں کی تعدادتو 60لاکھ سے زائد ہے۔

تیسرا سبب :اسرائیل کو اقوام متحدہ کی پشت پناہی :

اسرائیلی اخبار (Israel Times)نے لکھا ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 2022ء میں صرف اسرائیل کے خلاف جتنی تنقیدی قراردادیں پاس کی ہیں، وہ دنیا کے تمام ممالک کے خلاف پاس ہونے والی کل قرار دادوں سے زیادہ ہیں۔ چنانچہ پچھلے سال 15 اسرائیل مخالف قراردادیں منظور کی تھیں اور دیگر تمام ممالک کے خلاف کل 13 قرار دادیں تھیں۔تھوڑا اور پیچھے جاکر جائزہ لیں تو 2015ء سے لے کر اب تک اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اسرائیل کے خلاف 140 قرار دادیں منظور کی ہیں، جن میں بنیادی طور پر فسلطینیوں کے ساتھ ناروا سلوک، پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات اور دیگر غلط اقدام پر تنقید کی گئی ہے۔2013ء تک اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی جانب سے 45 قراردادوں میں اسرائیل کی بطور ریاست مذمت بیان کی گئی ہے۔ پچھلے سال یعنی 2023ء کی اگر بات کریں تو جنرل اسمبلی نے اسرائیل کے خلاف 14 قراردادیں منظور کی ہیں۔اگر تاریخ میں اور زیادہ پیچھے مڑ کر دیکھا جائے تو 1967ء سے 1989ء تک اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے 131 قراردادیں منظور کی ہیں جن میں عرب اسرائیل تنازع کو براہ راست فوکس کیاگیاہے۔

یہ بھی اقوام متحدہ کی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے کہ جنرل اسمبلی میں سن 2018ء میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت قرار دینے اور وہاں اپنے سفارت خانے کو منتقل کرنے کے فیصلے کے خلاف پیش کی گئی قرارداد بھاری اکثریت سے منظور کر لی گئی۔ اقوام متحدہ کے کل 193 رکن ممالک میں سے 128 نے قرارد اد کے حق اور9 نے مخالفت میں ووٹ دیا، 35 ممالک نے ووٹ دینے سے احتراز کیا۔ماضی میں امریکہ اپنے سیاسی دباؤ، دھونس اور لالچ پر مشتمل ہتھکنڈے استعمال کرکے جنرل اسمبلی کے فیصلے اپنے حق میں کرلیاکرتاتھا جیسے 1951ء میں کوریا کے مسئلے میں تھا۔ اسے یونائیٹنگ فار پیس ریزولیوشن کہاجاتاہے ۔ اس قرار داد کی بنیاد پر امریکہ نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر شمالی کوریا پر حملہ بھی کیاتھا۔لیکن 1960ء کی دہائی اوراس کے بعد جب افریقہ اور ایشیا کی محکوم قوموں کی ایک بڑی تعداد نوآبادیاتی تسلط سے آزاد ہوکر اقوام متحدہ کی رکن بنیں تو اس ادارے کا نقشہ ہی تبدیل ہوگیا اور ہر قرارداد پر جنرل اسمبلی میں اب امریکہ کو منہ کی کھانی پڑتی ہے۔چنانچہ اس مرتبہ اقوام متحدہ میں امریکہ کو جس تنہائی کاسامنا کرنا پڑا وہ اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔سکیورٹی کونسل میں پانچ مستقل اراکین میں سے چار اور تمام غیر مستقل یعنی 10 ملکوں نے بیت المقدس پر امریکی اقدام کے خلاف ووٹ دیا۔اس سے یہ واضح ہوتاہے کہ امریکہ اقتصادی اور عسکری لحاظ سے دنیا کا سب سے طاقت ور ملک ہونے کے باوجود بین الاقوامی سطح پر تنہائی کا شکار ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ ٹرمپ کی اسرائیل نواز پالیسیاں ہیں۔

چوتھا سبب:اسرائیل کو امریکہ کی غیر مشروط عسکری امداد:

مشرق وسطی جو اپنے جغرافیائی محل وقوع اور شاہراہ ریشم کی مختلف گزر گاہوں کے سنگم کی وجہ سے قدیم زمانے سے عالمی اہمیت کا مالک تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد تیل کی پیداوار کی بنا پر یوروپ اور امریکہ کے لیے مزید اہمیت اختیار کرچکا تھا۔چنانچہ امریکہ نے اسرائیل کے قیا م (1948ء) کے بعد برطانیہ اور فرانس کے کمزور ہوجانے کی وجہ سے مشرق وسطی میں اپنی سب سے پہلی سیاسی کوشش 1952ء میں لبنا ن میں کی تھی جب وہاں مغرب نواز حکومت کےخلاف ایک عوامی انقلاب برپا تھا۔مشرق وسطی میں امریکی مداخلت کی دوسری مثال 1953ء میں ایران میں ڈاکٹر مصدق کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کی کارروائی ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ 1948ء سے اب تک امریکہ اسرائیل کاسب سے بڑا پشت پناہ چلا آرہاہے، امریکہ کی مالی اور فوجی امداد کے بغیر اسرائیلی ریاست زندہ نہیں رہ سکتی۔چنانچہ اسرائیل کے قیام (1948ء) اور پہلی عرب اسرائیل جنگ (1948ء تا 1949ء)سے چوتھی جنگ (1973 تا 1974ء) میں امریکہ کی طرف سے اسرائیل کو سیاسی، سفارتی اور عسکری امداد ملتی رہی ہے۔ لیکن حالیہ حماس-اسرائیل جنگ میں جیسا کہ میڈیا کی خبروں سے عیاں ہے کہ امریکہ نےاپنا ساتوں بحری بیڑا (US Seventh Fleet) اسرائیل کی مدد کےلیے خلیج فارس میں کھڑا کر رکھا ہے۔

اس کے علاوہ شام کے شمال مشرقی علاقے میں امریکہ کی تقریبا دوہزار فوج کی موجودگی اور مسلسل عراقی جنگوں کے بعد وہاں امریکہ کی دفاعی اور عسکری طاقت کا وجود، کوئی واحد مثال نہیں ہےبلکہ مشرق وسطی میں امریکی مداخلت کی تاریخ بڑی پرانی اور اس کادائرہ بہت وسیع ہےخواہ یہ 1991ء میں پہلی خلیجی جنگ کا معاملہ ہو یا پھر 2003ء میں بغیر کسی جواز کے عراق پر زمینی، ہوائی اور بحری فوج کے ساتھ حملہ کر کے ملک کو نہ صرف فوجی بلکہ معاشی، ثقافتی اور سیاسی لحاظ سے بھی تباہ کردیا،یہ سب کچھ اس لیے کیا گیا تھا کہ اسرئیل کو کسی بھی آئندہ بڑے خطرے سے بچایاجاسکے۔اسی طرح گیارہ ستمبر 2001ء کے ورلڈ ٹریڈ سنٹرپر حملے کے بعد امریکہ کا افغانستان میں بیس سالوں تک موجود رہنا ، کیا ایران کو آنکھ دکھانا تھا یا اسرائیل کو کسی طالبانی ممکنہ حملہ سے بچانا تھا؟امریکہ اور ایران کے درمیان چلنے والا طویل جوہری مذاکرات اسرائیل کی حفاظت کے سوا کچھ نہ تھا۔اس کے علاوہ جبرالٹر سے بحرین، قطراور ڈیاگوگارشیا تک امریکی بحری اڈوں کے اردگرد امریکہ کے تین بحری بیڑوں(پانچواں، چھٹا اور ساتواں) سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں تباہ کن جہازوں، فریگیٹس، آبدوزوں اورطیارہ بردار جہازوں کی موجودگی کے بارے میں آپ کیاکہتے ہیں؟نیز ابھی حالیہ اسرائیل-حماس جنگوں(2023ء) کے دوران امریکہ کی اسرائیل کو ہر طرح کی عسکری مدد اور بحری جہازوں کا غزہ کے سمندر پر گھات لگائے کھڑے رہنا کس طرف غمازی کررہاہے۔ خلیج فارس کے اردگرد پانیوں میں اس سے قبل بحری، زمینی اور ہوائی طاقت کا اتنا بڑااجتماع دیکھنے میں نہیں آیا۔اپنے اتحادیوں کے ساتھ امریکہ کا یمنی حوثیوں پر دوچار ہوائی حملہ(2024ء) امریکی پشت پناہی کی ایک کڑی ہے۔امریکہ نے طاقت کے اتنے بڑے اجتماع کا آخر کار کیوں اہتمام کررکھا ہے؟ یہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔مگر دنیا خوب جانتی ہے کہ امریکہ اپنی جنگی قوت کے ذریعے خلیج فارس اور جزیرہ نماعرب میں ایسی حکومتوں اورعناصر کو مرعوب کرنا چاہتاہے جو مشرق وسطی کے بارے میں اس کی پالیسی سے اختلاف کرنے کی جرات رکھتے ہیں۔یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ امریکہ اور مشرق وسطی کے درمیان ثقافتی اور تجارتی روابط کا آغاز 19 ویں صدی سے چلا آرہاہے۔مگر خطے کی سیاسی، معاشی اور سکیورٹی معاملات میں امریکہ کی بھر پور اور براہ راست مداخلت دوسری جنگ عظیم کے بعد شروع ہوتی ہے۔اس سے قبل مشرق وسطی، برطانیہ اور فرانس کے زیر اثر خطہ سمجھا جاتاتھا۔

یہ سوال اکثر پوچھا جاتاہے کہ امریکہ آخر کیوں اسرائیل کی امداد میں آخری حد تک جانے کے لیے تیار رہتاہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے پروفیسر نوم چومسکی کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے مشرق وسطی پر امریکی بالادستی کو برقرار رکھنے اور اس کے خلاف ہر چیلنج کو شکست دینے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اس ضمن میں 1967ء کی جنگ کا حوالہ دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ اس جنگ میں اسرائیل نے مشرق وسطی میں امریکی مفادات کو چیلنج کرنے والی ایک قوت، عرب قوم پرستی کو شکست دی تھی۔ اب بھی خلیج فارس سےلے کر بحیرہ روم تک مشرق وسطی کے وسیع خطے میں امریکہ کے خلاف ایک نئے چیلنج یعنی چین کا مقابلہ کرنے کے لیے اسرائیل امریکہ کے لیے واحد ڈھال کی حیثیت رکھتاہے۔ حالیہ برسوں میں چین نے مشرق وسطی کے دو اہم مماک سعودی عرب اور ایران کے ساتھ معیشت، تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں قریبی تعلقات قائم کرکے خطے میں قدم جمانے میں اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ امریکہ کہہ چکا ہے کہ مشرق وسطی بلکہ وسطی، مغربی اور جنوبی ایشیا میں امریکہ کے لیے سب سے بڑا چیلنج روس نہیں بلکہ چین ہے۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے اس نے انڈو پیسفک خطے کا تصور پیش کرکے مشرق بعید سے لے کر بحر ہند کے مغربی کنارے اور بحیرہ احمر تک ایک دفاعی لائن قائم کرنے کی کوشش کی ہے اس کے مغربی کنارے کے دفاع کی ذمہ داری اسرائیل کے ہاتھ میں ہے۔ اس لیے وہ امریکہ کی طرف سے بھاری اور غیر مشروط فوجی امداد حاصل کرتاہے۔

چنانچہ مشرق وسطی میں اس وقت اسرائیل امریکہ کو سب سے بڑا اور اہم ترین حلیف مانتاہے اور اس نے اسرائیل کو1951ء سے 2023ء تک 112277.10ارب ڈالر کی فوجی اور 33413.80 ارب ڈالر کی اقتصادی امداد دی ہے۔

https://images.axios.com/nvHHdcfJOr9GmH34MnDnjHOAh68=/fit-in/1366×1366/2023/11/02/1698959433167.png

پانچواں سبب: عالمی میڈیا پرصہیونیت کی بالادستی:

پیغام رسانی کے مختلف ذرائع ہر دور میں استعال کیے جاتے رہے ہیں۔پہلے ٹیلی گراف کا زمانہ تھا، اس کے بعد ریڈیو کا دبدبہ تھا پھر اخبارات، رسائل وجرائد اور ٹیلی ویژن کا دور آیا لیکن اب انٹرنیٹ کا زمانہ ہے جو معلومات فراہم کرنے کا تیز ترین ذریعہ ہے۔پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے علاوہ سائبر میڈیا میں انٹر نیٹ، ویب سائٹ اور بلاگ وغیرہ شامل ہیں۔قابل تشویش بات یہ ہے کہ دنیا بھر کے میڈیا کو کنٹرول کرنے کی دوڑ میں یہودی لابی سب سے آگے ہے۔دنیا کی ٹاپ نیوز ایجنسی، ٹی وی چینل اور اخبارات ان کے پاس ہیں۔عالمی میڈیا میں سی این این، اے بی سی نیوز، واشنگٹن پوسٹ، وال سٹریٹ جرنل، فاکس نیوز، 20تھ سنچری سمیت متعدد بڑے نام یہودی لابی کا حصہ ہیں۔ یہودی لابی کا بدنام ‘‘صہیونی پرٹوکولز’’ میں ذرائع ابلاغ پر مکمل قبضے کا منصوبہ بھی شامل تھا۔اس منصوبے کے 12ویں شق میں پوری دنیا کے میڈیا پر قبضے کے حوالے سے درج ہے:‘‘ہم (صہیونی)میڈیا کو اپنے قبضے میں رکھیں گے اور ایسا قانون بنائیں گے کہ پریس کے لیے یہ ناممکن ہوجائے گا کہ وہ ہماری پیشگی اجازت کے بغیر کوئی بھی خبر چھاپ سکے۔ہم ایسے نیٹ ورک مالکان کی ہمت افزائی کریں گے جن کی کمزوریاں ہمارے ساتھ میں ہوں اور ہم ان کو اپنے طرز پر چلا سکیں گے۔ ہم ذرائع ابلاغ کو خبر رساں ایجنسیوں کے ذریعے کنٹرول میں رکھ سکیں گے’’۔

اس وقت دنیا کا 98 فیصد میڈیا صہیونیوں کے نرغے میں ہے جو بڑی کمپنیاں یہودیوں کی ملکیت ہیں، ان میں سب سے بڑی والٹ ڈزنی ہے۔امریکہ بھر میں ان کے 225 ٹی وی سینٹر ہیں جب کہ یوروپ بھر میں پھیلے ہوئے ٹی وی چینل کا بھی یہ گروپ بڑا حصہ دار ہے۔ دوسری بڑی کمپنی Time Warner Cable ہے۔ اس کامالک گرال لیون ایک یہودی ہے۔ دنیا کی تیسری بڑی کمپنی News Corporation ہے۔ Ycom بھی ایک دیو ہیکل میڈیا کمپنی ہے جس کا مالک ایک یہودی ہے۔ اس کمپنی کے 160 ملکوں میں 170 سے زائد میڈیا ہاؤس کا م کررہے ہیں۔فلم انڈسٹری کے 80 فیصد پر یہودی قابض ہیں۔ امریکہ سے شائع ہونے والے ڈیڑھ ہزار اخبارات میں سے 75 فیصد اخبارات یہودیوں کی ملکیت ہیں۔‘‘نیوز ہاؤس’’یہودیوں کا ایک بڑا شاعتی ادارہ ہے، جو 26 روزنامہ اور 24 میگزین شائع کرتاہے۔ امریکہ کے تین بڑے اخبارات جن میں سے ہر ایک کی اشاعت 90 لاکھ سے متجاوز ہے، یہودیوں کی ملکیت ہیں۔ سی این این کا چیئر مین ولیم پالنسکی ایک یہودی ہے۔اسی طرح ‘‘واشنگٹن پوسٹ’’ کو بھی 1933ء میں Meyer Eugene نامی ایک یہودی نے خرید لیاتھا۔ ‘‘نیوز ویک’’ نامی مشہور ہفت روزہ بھی اسی واشنگٹن پوسٹ کے یہودی مالک کی ملکیت ہے۔وال اسٹریٹ جرنل کی روزانہ اشاعت لگ بھگ اٹھارہ لاکھ ہے اور اس گروپ کے زیرانتظام امریکہ بھرسے 24 دوسرے اخبارات اور میگزین شائع ہوتے ہیں۔ اس گروپ کا چیئر مین اور چیف ایگزیکٹیو پیٹر گین ایک مشہور یہودی ہے۔سونی کارپوریشن اگرچہ جاپان کی کمپنی ہے مگر اس کے تحت سونی کارپوریشن آف امریکہ کا مالک Michel P. Schulhof نامی ایک یہودی ہے۔ جہاں تک نیوز ایجنسیوں کا تعلق ہے تو اہم ایجنسیوں پر بھی یہودیوں کا قبضہ ہے۔ انٹرنیٹ کے تمام سرچ انجن یہودیوں کے ہاتھ میں ہیں۔رابرٹ چرنن جو 2009ء تک نیوز کارپوریشن کے صدر اور فاکس انٹرٹینمنٹ کے چیئر مین اور سی ای او تھے، ایک سرگرم یہودی ہیں۔ انھوں نے 2003ء میں عراق پر حملے سے پہلے فاکس نیوز کے ذریعے سخت اور شدید پروپیگنڈا مہم چلا کر اس حملے کے لیے راہ ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ مورٹائمرز کرمین، جو 2008ء میں امریکہ کی 48ویں امیر ترین شخصیت تھے، نیویارک ڈیلی نیوز، یو ایس نیوز اینڈ ورلڈ رپورٹ کے مالک اور کانفرنس آف پریزیڈ نٹس آف میجر جیوئش امریکہ آرگنائزیشن کے سربراہ ہیں۔ یہ امریکہ میں اسرائیل کی لابنگ کرنے والا سب سے بڑا گروپ ہے۔

سوشل میڈیا نیٹ ورک کی بات کریں تو فیس بک، انسٹاگرام اور ٹویٹر کے مالکا ن بھی سرگرم یہودی ہیں۔نیو میڈیا کے ان طاقتور عناصر کو استعمال کرکے دنیا بھر میں پھیلے اور خصوصی طور پر امریکہ میں اپنے پیر جمائے یہودی لابی اور ان سوشل میڈیا کے مالکان اپنی انتھک کوششوں سے اسرائیل کےمفاد میں رائے عامہ کو ہموار کرنے میں ہمہ تن منہمک نظر آتے ہیں۔

اسرائیل سے مغرب کے سیاسی وسفارتی مفادات:

یوں تو مغربی ممالک بشمول امریکہ کے سیاسی تعلقات عرب ممالک کے ساتھ قائم ہیں لیکن 1948ء میں اسرائیل کے قیا م کے بعد ان مغربی ممالک کی سیاسی اور سفارتی جہتیں کئی رخ اختیار کرگئیں۔ان مغربی ممالک نے اپنے سیاسی اثرورسوخ کو مشرق وسطی میں برقرار رکھنے کے لیے اسرائیل کو ایک پل کی حیثیت سے اب تک استعمال کرتے چلے آرہے ہیں۔ چنانچہ 1977-78ء میں مصر کے انور سادات اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات معمول پر لے آئے اور اسرائیل کوعلاقائی امن میں شراکت دار کے طور پر قبول کرلیا۔عرب لیگ میں شامل مملکت ہاشمیہ یعنی اردن اور افریقی ملک موریطانیہ بھی اسی صف میں کھڑے ہیں جب کہ اس سے پہلے ترکی نے اسرائیل سے اپنے سفارتی،تجارتی اور سیاسی تعلقات 1948ء سے ہی قائم کر رکھا ہے۔2020ء میں متحدہ عرب امارات، بحرین ، مراکش اور سوڈان نے ‘‘ابراہم ایکارڈ’’ کی بالادستی اور مغربی ممالک کے دباؤ میں اسرائیل سے اپنے سفارتی تعلقات قائم کرلیے۔یہ بھی واضح رہے کہ یہ عرب ممالک اپنے اسرائیلی تعلقات سے زیادہ مغربی ممالک خاص طور پر امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو اہمیت دیتے ہیں۔اس کے علاوہ سعودی عرب، قطر، مسقط اور عمان سے بھی اپنے سفارتی تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے ان مغربی ممالک کا دباؤ حد سے زیادہ بڑھا ہواہے۔عام طور پر اس کے پیچھے دو وجوہات بیان کی جاتی ہیں۔ایران کے خلاف ہمنوا ممالک کی صف بندی اور تیل کی برآمد سے حاصل ہونے والی آمدنی سے مالا مال ریاستوں کے ساتھ تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں تعاون سے اسرائیل کی تیزی سے گرتی ہوئی معیشت کو سہارا دینا۔اسرائیل اپنے قیام سے ہی نہ صرف دفاعی بلکہ معاشی لحاظ سے بھی بیرونی امداد خصوصی طور پر امریکی امداد کا محتاج رہاہے کیونکہ قدرتی یا معدنی ذخائر کا ملک نہیں ہے۔ امریکہ کے ساتھ انتہائی قریبی دفاعی اور معاشی تعلقات اسرائیل کے وجود کی ضمانت رہے ہیں مگر 2008ء کے مالیاتی بحران کے اثرات یعنی کسادبازاری سے امریکی معیشت ابھی تک باہر نہیں نکل سکی ہے اور ان حالات میں اب اس کے لیے اسرائیل کی مدد جاری رکھنا امریکہ کے لیے ممکن نہیں ہے۔اس لیے وہ اب امیرعرب ممالک کی منڈیوں کی طرف رجوع کررہاہے۔ایک تیسری وجہ یہ بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ گزشتہ کئی برسوں سے یہ خلیجی عرب ممالک فلسطینی ڈائسپورا کے گڑھ چلے آرہے ہیں۔ اس کی وجہ سے خلیج کے امیر عرب ممالک نہ صرف حماس کے لیے فنڈ کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں بلکہ ان ممالک میں مختلف عہدوں پر موجود فلسطینی ان ممالک کی علاقائی پالیسیوں پر اثرانداز ہورہے ہیں۔اسرائیل خلیجی عرب ممالک میں سرایت کرکے فلسطینیوں کو ان کے ایک اہم سورس سے محروم کرنا چاہتاہے۔ اس کے علاوہ خلیج فارس بحرہند کا ایک اہم حصہ ہے۔ اس میں قدم جما کے اسرائیل جنوب اور جنوب مشرقی ایشیا کے علاوہ مشرقی افریقہ کی جیوپولیٹکس میں ایک اہم شراکت کابننا چاہتاہے۔

جرمنی اور اسرائیل کے درمیان تعاون زیادہ تر سائنسی اور تعلیمی شعبوں میں ہے اور دونوں ممالک معاشی اورفوجی اعتبار سے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور حالیہ حماس کے 7/اکتوبر 2023ء کے حملے کے بعد اسرائیل کو جرمنی کی فوجی امداد ہر سال کی مدد سے کافی زیادہ ہے بلکہ خبررساں ایجنسی رائٹر(Reuter) کی ایک خبر کے مطابق جرمنی نے صرف 2023ء میں اسرائیل کی فوجی مدد دس گنا زیادہ کی ہے۔چنانچہ جرمن حکومت نے اسرائیل کو تقریبا 303 ملین یورو (323 ملین ڈالر) مالیت کے دفاعی سازوسامان کی برآمد کی منظوری دی جو کہ سال 2022ء میں 32 ملین یورو مالیت کی دفاعی برآمدات سے دس گنا زیادہ ہے۔

اسرائیل کو سیاسی اورعسکری امداد کی دوڑ میں فرانس اور دیگر یورپین ممالک کچھ کم نہیں ہیں اور برطانیہ کا تو کہنا ہی کیا، وہ تواسرائیل کے قیام کے روز اول سے ہی دامے درمے قدمے سخنے ہر طرح سے اس کی پشت پناہی کرتارہاہے اور ہر طرح کا غیر مشروط تعاون پیش کرتا رہاہے۔

اسرائیل سے مغرب کے تجارتی مفادات:

یوں تو مغربی ممالک بشمول امریکہ کے تجارتی مفادات خلیجی ممالک سے وابستہ ہیں لیکن ان ممالک میں بیسویں صدی کی درمیانی دہائیوں میں تیل اور معدنی ذخائر کی دریافت کے بعد مغربی طاقتوں کی مسابقاتی دوڑ شروع ہوگئی۔تیل اور معدنیات کے ذخائر پر قبضہ کرنے کے لیے خلیجی ممالک سے تجارتی رشتہ مزید مستحکم کرنے کا سنہرا موقع ہاتھ آیا۔یوں تو یوروپین اور خلیجی ممالک کے مابین تعلقات سن 1989ء کے ایک تعاونی معاہدے کے تحت وجود میں آئے جس میں اقتصادی تعلقات، موسمیاتی تبدیلی، توانائی، ماحولیات اور ریسرچ وتحقیق پر مبنی ہیں۔18/مئی 2022 کو یوروپی کمیشن کے نمائندوں اور جی سی سی کے رکن ممالک کے درمیان ایک جامع اور مضبوط شراکت کی تجویز پیش کی گئی اوراسی سال ماہ جون میں اس کی توثیق بھی کردی گئی۔علاوہ از یں تجارتی اور سرمایہ کاری کے تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے لیے سن 2017ء میں دونوں کمیشن کے مابین تجارتی اور سرمایہ کاری ڈائیلاگ قائم کیا گیا جس کی آخری بیٹھک مارچ/2023ء سعودی عرب کے شہر ریاض میں منعقد ہوئی تھی۔

جی سی سی کے تمام رکن ممالک تیل اور معدنی ذخائر سے مالا مال ہیں۔1948ء میں قیام اسرائیل سے بہت پہلے ہی ان ذخائر کی دریافت ہوچکی تھی اور گریٹ برطانیہ اپنے نوآبادیاتی ہتھکنڈے کا استعمال کر ان ذخائر پر اپنا کنٹرول برقرار رکھنا چاہتا تھا لیکن سوئے قسمتی کہ دوسری عالمی جنگ (1949ء) کے بعد فرانس اور برطانیہ کی اقتصادی صورت حال دیگر گوں ہوجانے کے بعد زیر کنٹرول علاقےاس کی گرفت سے آزاد ہونے لگے اور نازی ہولوکاسٹ سے پریشان یہودیوں کی کھیپ بھی فلسطین کا رخ کرنے لگی۔ چنانچہ 1917ء کے برطانوی اعلامیے بالفور کے تحت اس وقت کے برطانیہ کے وزیر خارجہ آرتھر بالفور نے یہودی برادری سے ایک ‘‘قومی گھر’’ کا وعدہ کیاتھا جو کہ اس اعلامیے کے مینڈیٹ میں شامل تھا۔اس خفیہ ایجنڈے کے تحت یہودی آبادی کو فلسطین میں بسایا گیا اور جب اقوام متحدہ نے 1947ءمیں فلسطینی علاقوں کو دو ریاست میں تقسیم کرکے ایک یہودی گھر ‘‘اسرائیل ’’ کے قیام کا اعلان کردیاتو یہودیوں نےاسے قبول کرلیا۔

قیام اسرائیل کے بعد یوروپین ممالک اس کی سیاسی اور عسکری مدد کے درپے ہوگئے اور مشرق وسطی میں اپنے پیر جمانے کے ساتھ ان معدنی ذخائر پرنظر ان کے خفیہ ایجنڈوں کا حصہ تھیں۔چنانچہ یوروپی یونین کے صدر Ursula von der Leyen نے جون/2022ء میں اسرائیل اور مصر کے ساتھ اسرائیلی گیس برآمد کرنے کے لیے ایک مفاہمت پر دستخط کیے اور بچ جانے والی گیس کو مائع کرنے اور اسے یوروپی منڈیوں میں بھیجنے کے لیے مصر میں زیر استعمال پلانٹس یا تیرتی سہولیات کے استعمال پر غورکررہاہے۔ مزید برآں خود اسرائیل نے اکتوبر/2023ء میں اعلان کیا کہ اس نے چھ کمپنیوں کو لائسنس دیے ہیں جن میں کچھ برطانوی اور اطالوی انرجی کمپنیاں شامل ہیں۔ اسرائیل بشمول یوروپین ممالک اور امریکہ کی نظریں ان پر مرکوز ہیں۔کئی حالیہ تحقیقات میں اس طرف کھل کر اشارہ بھی کیاگیا ہے۔ چنانچہ اقوام متحدہ کی کانفرنس برائے تجارت وترقی (UNCTAD) کی ایک رپورٹ میں دعوی کیا گیاہے کہ غزہ پٹی کے پاس لیونٹ بیسن میں قدرتی ذخائر کی تقریبا 122 ٹریلین کیوبک گیس جب کہ قابل بازیافت تیل کا تخمینہ 1.7 بلین بیرل لگایا گیاہے۔1967ء سے فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی فوجی قبضے اور 2007ء سے غزہ پٹی کی ناکہ بندی کرکے اسرائیل ان ذخائر پر ڈی فیکٹو کنٹرول قائم کررکھا ہے۔برطانوی ملٹی نیشنل آئل اینڈ گیس فرم BP plc نے اسرائیلی حکومت کے ساتھ عرصہ دراز سے ڈیل کر رکھا ہے، جس نے فلسطینی اتھارٹی اور غزہ پٹی کی قیادت کو تلاش اور ترقی کے حقوق سے مؤثر طریقے سے نظر انداز کیاہے۔اسرائیل نے مقبوضہ مغربی کنارے کے اندر واقع میگڈ آئل اور قدرتی گیس فیلڈ کا بھی کنٹرول سنبھالا ہواہے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ یہ میدان 1948ء کی جنگ بندی لائن کے مغرب میں واقع ہے۔ابھی حال ہی میں مشرقی بحیرہ روم میں گیس کے بڑے ذخائر دریافت ہونےکے بعد ان ممالک کی نظریں ان پر بھی ہیں۔ ان معدنی دریافتوں کے بعد اسرائیل یوروپین ممالک کے ساتھ نہر سویز کے متبادل پر بھی غور کررہاہے ۔ اقوام متحدہ کی مذکورہ بالا رپورٹ کے مصنف عاطف کبرسی ، جو میک ماسٹر یونیورسٹی میں معاشیات کے ریٹائرڈ پروفیسر ہیں، کا کہنا ہے کہ :‘‘یوکرین جنگ کے بعد روس نے اپنے تیل اور گیس کی سپلائی یوروپ کے لیے کم کردیاہے اس لیے ہر کوئی متبادل کی تلاش میں ہے’’۔

اوپر مذکور سورہ بنی اسرائیل کی آیت کریمہ کی تشریح وتفہیم ‘‘ابراہم ایکارڈ’’ کے تناظر میں دیکھیں تو یہ واضح ہوتاہے کہ مغربی ممالک بشمول امریکہ کی اسرائیل کوغیر مشروط اور لامحدود عسکری و اقتصادی مددمشرق وسطی میں بد امنی کا واحد سبب ہے اور اس کا نقطہ انتہا یہ ابراہیمی معاہدہ ہے۔اس معاہدہ سے نسل ابراہیم کواقتصادی اور تجارتی فائدہ تو ہوسکتاہے لیکن فلسطینیوں کو اس معاہدہ اور فریق ثانی سے کوئی امید ہے اور نہ ہی ان کی کھوئی ہوئی عزت وسطوت دوبارہ مل سکتی ہے۔ بلکہ عرب ممالک اس قضیہ کو ہی بھلا چکے ہیں اور ناچاقی اور آپسی رسہ کشی نے ان کو گھیر رکھا ہےاور یہی مفہوم اوپر مذکور حدیث نبوی سےعیاں ہے۔ابراہیمی معاہدہ تو مشرق وسطی پر اسرائیلی بالادستی قائم کرنے کا آخری حربہ ہے جو گریٹر اسرائیل کا خواب شرمندہ تعبیر کرے گا۔اللہ رحم کرے۔

آپ کے تبصرے

3000