دیکھا جو اس نے جا بہ جا ایک دیا بجھا ہوا
لوٹ گیا بجھا ہوا ایک دیا بجھا ہوا
وصل کی شب میں اور تھا ہجر کی شب میں اور ہوں
“ایک دیا جلا ہوا ایک دیا بجھا ہوا”
محفل رنگ و نور سے ملتا رہا ہے یہ صلہ
شکوہ کناں ہے کیوں بھلا ایک دیا بجھا ہوا
اپنے وجود پر رہا جس کو گمان شمس کا
آخرِ شب وہ کیا ہوا ایک دیا بجھا ہوا
مدتوں بعد بزم میں یار سے یار یوں ملے
ایک دیے سے جل گیا ایک دیا بجھا ہوا
روشنی کی تلاش میں قافلہ ہے رواں دواں
اور سبھی کا رہ نما ایک دیا بجھا ہوا
سارے دیے جلا دیے پھر بھی نہ روشنی ہوئی
میری نگاہ میں رہا ایک دیا بجھا ہوا
ایک ہی سب کا مسئلہ، روشنی کا مطالبہ
ایک ہی سب کا واقعہ، ایک دیا بجھا ہوا
کوئی شرر سنبھال کر مدتوں ڈھونڈتا رہا
بحر جہاں میں گم ہوا ایک دیا بجھا ہوا
کس لیے دوستوں سے ہم شکوۂ بے رخی کریں
بزم میں کون دیکھتا ایک دیا بجھا ہوا
جلتے رہو کہ جلنے سے روشنیِ وجود ہے
ورنہ یہ زندگی ہے کیا ایک دیا بجھا ہوا
سوچا تو میری روشنی پھیل گئی یہاں وہاں
دیکھا تو میرا عکس تھا ایک دیا بجھا ہوا
تیرے لبوں کی خامشی پھر مجھے یاد آ گئی
پھر کہیں رونما ہوا ایک دیا بجھا ہوا
شاد! میں وہ پتنگا ہوں جس کی سزا ہے زندگی
میرے نصیب میں رہا ایک دیا بجھا ہوا
آپ کے تبصرے