وہ شجر ہوں کہ جسے دھوپ نہ بھائے افسوس
ہوگئے مجھ سے گریزاں مرے سائے افسوس
پہلے ہوتی ہے فضاؤں پہ خموشی طاری
اور پھر گونجتی رہتی ہے صدائے افسوس
سرد پڑ جائے گی اک روز یہ رخسار کی دھوپ
کاٹ کھائیں گے تری زلف کے سائے افسوس
زاویے ایسے بدلتے ہیں سرِ آئینہ
منہ سے شاباش نکلتا ہے بہ جائے افسوس
زیست کی باتوں میں آ جاتے ہیں ہر بار سبھی
کبھی لیتے ہی نہیں موت کی رائے افسوس
کوئی آواز بغاوت کی اٹھائے تو سہی
چیختے رہتے ہیں بے کار ہی ہائے افسوس
عمر گزری ہے سنجوتے ہوئے تنکا تنکا
سوچتا ہوں کہ یہ دنیا ہے سرائے افسوس
میرے چہرے نے کئی رنگ کے چہرے پہنے
آئنے بھی مجھے پہچان نہ پائے افسوس
عقل کرتی ہے سوالات ہزاروں اے شاد!
کیا جواب آئے گا اب دل سے سوائے افسوس
آپ کے تبصرے