یہ سچ ہے عشق مسلسل عذاب جیسا ہے
مگر مجھے تو یہ لگتا ہے خواب جیسا ہے
غموں سے آپ کا رشتہ ہے نام کا شاید
ہمارے واسطے بالکل نصاب جیسا ہے
ہر ایک شخص محبت سے نام لیتا ہے
وہ پڑھنے والوں میں اچھی کتاب جیسا ہے
وہ بول دے تو بہت اچھی بات ہے، لیکن
خموش رہنا بھی اس کا جواب جیسا ہے
وجود ہی تو عدم کی دلیل اول ہے
ظہورِ کون و مکاں بھی سراب جیسا ہے
وہ اس خلوص سے لوگوں پے ظلم کرتا ہے
کہ جیسے ظلم کا بدلہ ثواب جیسا ہے
ہمارے واسطے خنجر سے کم نہیں تھا حسن
وہ لہجہ، سب کے لیے جو گلاب جیسا ہے
آپ کے تبصرے