وہ خود سے ملتے ہیں آئینہ رو بہ رو کر کے
تلاشتے ہیں گہر سیرِ آب جو کر کے
نظر میں رونقِ بازار ہے مثالِ سراب
بھٹک رہا ہوں دوانوں سی اپنی خو کر کے
کوئی بھی راہ میں ملتا ہے جب غموں سے بھرا
نچوڑ لیتا ہوں تھوڑی سی گفتگو کر کے
تمام عمر سرابوں کی نذر ہوتی رہی
ملا نہ کچھ بھی سمندر کی جستجو کر کے
کوئی بھی جسمِ تمنا پہ فٹ نہیں بیٹھا
لباس پھاڑتا رہتا ہوں میں رفو کر کے
میں روندتا ہوں کسی آرزو کو ہر لمحہ
قدم اٹھاتا ہوں تجدید آرزو کر کے
یہ بات اہل گلستاں کو کیسے سمجھاؤں
بہار آئی ہے سودائے رنگ و بو کر کے
ہوائیں تیرے قدم سے قدم ملائیں گی
تو اپنی لو تو دکھا مائلِ نمو کر کے
ہم ایسے پیاس کے ماروں کو دیکھ لے جس دم
شراب ٹوٹ پڑے خود کو بے سبو کر کے
نماز کے لیے آتے ہیں سوئے مسجد شاد!
مگر کہاں چلے جاتے ہیں سب وضو کر کے
بہترین غزل
مبارکباد