’’قطرے سے گہر ہوتے تک‘‘ کا سفر

ابو تحریر تعارف و تبصرہ

’’دام ہر موج میں ہے‘‘ (محمد ابوالقاسم فاروقی، مرشد پبلیکیشن، نئی دہلی،2021) کی فہرست مضامین پر نظر ڈالتے ہی میرے ذہن میں ظ انصاری کا ایک جملہ ’’یہ ہے ہمارے زمانے کا مولوی‘‘ مچلنے لگا، جو انھوں نے مولانا ابوالکلام آزاد کے ڈرائنگ روم میں بھانت بھانت کی کتابوں کو دیکھنے کے بعد کہا تھا، پس منظر انہی کی زبانی سنیں تو زیادہ مزہ آئے گا: ’’…علم علم کی تصانیف چنی ہوئی تھیں، کسی کے دس بارہ ورق پڑھے گئے، کسی میں یاد داشتوں کی چٹ لگی ہوئی، کوئی پرانی کتاب تازہ ترین مگر ہم موضوع تصنیف کی پیٹھ سے لگی کھڑی تھی، یعنی ظاہراً انہی دوچار دن میں اس کی ورق گردانی کی گئی ہے، موضوعات ایسے کہ بعض کی تو ہمیں ہوا بھی نہیں لگی تھی۔ ابن رشیق کی کتاب ’’العمدۃ‘‘ ہے تو وہیں Golden Treasury موجود اور خدا جانے، کیا کیا، 33 برس اس شام کو گزر گئے، آج تک یاد ہے کہ Genetics کے تعلق سے کوئی تصنیف میز پر رکھی تھی اور R.N.A. D.N.A کے حرف میں نے پہلی بار اسی پر دیکھے۔ دل نے کہا: یہ ہے ہمارے زمانے کا مولوی۔ اس سے علم کی تشنگی سیکھنی چاہیے اور کس درجہ وسعت!‘‘ (ظ انصاری، مولانا آزاد کا ذہنی سفر، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، جامعہ نگر، نئی دہلی، 2012 ص:6)
ہم نے فاروقی صاحب کا ڈرائنگ روم تو نہیں دیکھا ہے لیکن اس کتاب کے دریچے سے اس کی ایک جھلک دیکھنے کی کوشش کی تو کتابوں کی ایک پوری کائنات نظر آئی جس میں زبان اور موضوع دونوں لحاظ سے ایسی بوقلمونی اور رنگا رنگی نظر آئی کہ ’دامن دل می کشد کہ جا اینجاست‘ کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ چند کتابوں کے نام ملاحظہ فرمائیں تاکہ مذکورہ بالا اقتباس کے محل اور موزونیت کے حوالے سے کسی قسم کی غلط فہمی کو راہ نہ ملنے پائے۔الکفایۃ فی علم الروایۃ (خطیب البغدادی) منہاج السنۃ (علامہ ابن تیمیہ) ترجمان وہابیہ (نواب صدیق حسن خان) عقائد الشیعہ فی المیزان (ڈاکٹر محمد کامل الہاشمی) آب حیات (مولانا محمد حسین آزاد) تاریخ ادبیات ایران (ڈاکٹر براؤن) تاریخ تحریک آزادیِ ہند (ڈاکٹر تارا چند) انقلاب ۱۸۵۷ (پی سی جوشی) کاشی کا اتہاس (پروفیسر موتی چندر)
The RSS: A menace to India (A.G. Noorani)
Two faces of Indira Gandhi (Uma Vasudev)
Islamic Reform and revival in Nineeteenth-Century India: The Tariqah-i- Muhammadiyah (Harlan O. Pearson)
اور تو اور Genetic Engineering پر ایک پورا مضمون ہے جس کی قبیلے کے بہت سے لوگوں کو ہوا بھی نہیں لگی ہوگی۔
زیر تبصرہ کتاب کچھ کم تین درجن مقالات؍ مضامین؍ اداریے؍مقدمے پر مشتمل ہے جو الگ الگ مناسبت اور مواقع سے قلم بند کیے گئے تھے، بیش تر مضامین شائع ہوچکے ہیں، ان کا معیار، انداز اور اسلوب یکساں نہیں ہے، اور ہو بھی کیسے سکتا تھا، کیونکہ ان تخلیقات کا دورانیہ کچھ کم نصف صدی پر مشتمل ہے جس سے فاروقی صاحب کے تحقیقی اور تخلیقی سفر کے ارتقائی مرحلے کی تفہیم میں مدد ملتی ہے اور نئی نسل کو بہت سیکھنے کا موقع بھی: ’’میری تحریروں کا پہلا مجموعہ ’’دام ہر موج میں ہے‘‘ پیش خدمت ہے، یہ مجموعہ چھوٹے بڑے تیس مضامین پر مشتمل ہے، ان میں سے بیشتر شائع شدہ ہیں، آخر کے تین مضامین کافی پرانے ہیں اور عہد طالب علمی کی یادگار ہیں، یہ مبتدیانہ کوششیں تھیں، جن سے نومشقی کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے، بقیہ مضامین 1987 سے 2019 کے درمیان لکھے گئے، چالیس پینتالیس سال کے طویل عرصے میں نوشت و خواند، فکری رجحانات اور اسلوب بیان میں تبدیلیاں فطری اور ناگزیر ہیں، یہ فرق قاری مضامین کے مطالعے کے دوران محسوس کرسکتا ہے۔‘‘ (پیش لفظ، ص:10)
مضامین کے موضوعات میں کافی تنوع ہے جس کو بنیادی طور پر دینیات، ادبیات، سماجیات کے ساتھ تاریخ اور تعلیم کے خانے میں رکھا جاسکتا ہے، حجم کے لحاظ سے بھی مضامین میں رنگارنگی ہے کچھ کافی طویل ہیں لیکن اطناب ممل نہیں اور کچھ مختصر ہیں لیکن تشنہ نہیں۔مضامین کی قرأت کے دوران آپ ایک ایسے محقق سے روبرو ہوسکتے ہیں جو ترش ابرو والا روایتی محقق نہیں بلکہ ایک شگفتہ مزاج اور یارباش محقق ہے، ایک کام یاب تخلیق کار سے مل سکتے ہیں جس کی فکر تازہ آپ کی کشت خیال کو شاداب کرسکتی ہے۔ کتاب کا آغاز مذہبی مضامین سے ہوتا ہے جن کی تعداد چار ہے اور عناوین سے ان کے محتویات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے:
(1)عصر حاضر میں سیرت طیبہ کی معنویت (2)خلیفۂ اول صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی تنقیص اور شیعہ (3)اسلام اور سائنس (4)حیاتیاتی تکنیک اسلام کی نظر میں
اول الذکر دونوں مضامین کا تعلق سیرت و سوانح سے ہے، فاروقی صاحب کے گہر بار قلم نے جس انداز سے اس کو ٹریٹ کیا ہے، خصوصاً اس مضمون (عصر حاضر میں سیرت طیبہ کی معنویت) میں وہ جس انداز سے قاری کو صحراے عرب اور شتربانوں کے گہوارے سے پیرس تک کی سیر کراتے ہیں، وہ خوب ہے۔ آخر الذکر دونوں مضامین کا تعلق اسلام اور سائنس سے ہے جو کسی زمانے میں سلگتا ہوا موضوع ہوا کرتا تھا اور اس پر لکھنے والے زیادہ تر افراد افراط و تفریط کا شکار ہوگئے تھے لیکن فاروقی صاحب نہ آئین نو سے ڈرتے ہیں اور نہ ہی طرز کہن پر اڑتے ہیں بلکہ اعتدال اور احتیاط کے ساتھ اپنے خیالات پیش کرتے ہیں۔ انھوں نے پہلے سائنس سے متعلق اسلامی نقطۂ نظر پیش کیا ہے، مذہب اور سائنس کے دائرے پر بحث کی ہے، اس کے بعد جدید سائنس کے ایک اہم گوشے کو اسلامی شریعت کی روشنی میں سمجھنے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ ان مضامین کو ایک ساتھ پڑھتے ہیں تو فاروقی صاحب کی بصیرت، دانشوری اور عصری آگہی کی داد دینے کو جی چاہتا ہے اور ایک بار پھر ظ انصاری کا جملہ یاد آتا ہے ’’یہ ہے ہمارے زمانے کا مولوی‘‘۔
کتاب میں تاریخی مضامین کی اکثریت ہے جن کو موٹاموٹی دوحصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے، ایک حصہ تہذیبی و ثقافتی تاریخ سے متعلق ہے اور دوسرے کا تعلق سیاسی نشیب و فراز کی داستان سے ہے۔ پہلے تہذیبی و ثقافتی تاریخ سے متعلق مضامین کے بارے میں بات کرتے ہیں، جن کا تعلق ہندستان کی پہلی اسلامی تحریک کے تعارف اور تجزیے سے اور اسی تحریک سے وابستہ تین شخصیات کی خدمات سے ہے۔
(1)وہابیت: ایک مطالعہ (2)۱۸۵۷ اور وہابی تحریک (3)برصغیر میں پاک ہند کے چند تاریخی حقائق: ایک تعارف
پہلے اور دوسرے مضمون میں کتابیات کے تحت بالترتیب اردو، عربی اور انگریزی کی 27 اور 28 کتابیں درج ہیں جن سے دونوں مضامین کے تحقیقی معیارکا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ فاروقی صاحب نے اس تحریک کے بنیادی لٹریچر اور اس کے اثرات کا جس انداز سے تجزیہ کیا ہے، اس سے ان کی تاریخی بصیرت اور تحقیقی ژرف نگاہی دونوں کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ تیسرا مضمون ایک کتاب کا مقدمہ ہے جو اسی تحریک کے حوالے سے ہے۔ اب ان کے ساتھ تین اور مضامین (1)تحریک رد قادیانیت اور مولانا سیف بنارسی رحمہ اللہ (2)جماعت اہل حدیث کے ایک فدا کار: مولانا محمد داؤد راز رحمہ اللہ (3)جبہ و دستار کی نیلامی) کو پڑھتے ہیں تو اس تحریک سے وابستہ شخصیات کی علمی خدمات کا ایک نقشہ ذہن میں آجاتا ہے جو تحریک کے مجموعی کردار کی تفہیم میں مدد کرتا ہے۔ پہلے اور دوسرے مضمون کے عنوان سے محتویات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے لیکن تیسرے مضمون کے عنوان سے مشتملات کا پتہ نہیں چلتا ہے۔ اس کا بھی تعلق جماعت اہل حدیث کے ایک عظیم فرد مولانا ابومحمد ابراہیم آروی سے ہے جس میں ان کی کتاب زندگی کے ایک اجلے ورق یعنی دینی تعلیم کے میدان میں ان کی انقلابی فکر کا ایک مختصر تعارف ہے۔ یہ مکمل چھ مضامین ہوگئے جس سے تحریک اہل حدیث کے خدو خال واضح ہوجاتے ہیں۔
تہذیبی و ثقافتی تاریخ سے متعلق دوسرے مضامین میں شہروں اور شخصیات کا تعارف ہے جن میں طبع زاد اور تلخیص دونوں ہیں، فاروقی صاحب نے جس مضمون کی تلخیص پیش کی ہے، اس کا حوالہ بھی دے دیا ہے، عموماً اس قسم کے مضامین کو اپنے کھاتے ڈال لیا جاتا ہے اور حوالہ بھی کسی عسیر الحصول کتاب کا دے دیا جاتا ہے تاکہ سہل انگار قاری کو بھنک ہی نہ لگنے پائے، عناوین ملاحظہ فرمائیں: (1)ایک تھا روہیلہ (2)نمک حرام کی حویلی اور رنگ محل کا باسی (3)شاہ دولہ کے چوہے (4) شہر بنارس کا تاریخی، ثقافتی اور مذہبی تعارف (5)بنارسی کاریگروں کا تیار کردہ غلاف کعبہ (5)عاشق معشوق بنارس (6)ماہی اودھ کے اسرار
مذکورہ بالا مضامین میں تین کا تعلق تو بنارس سے ہے جو بنارس کی تہذیبی اور ثقافتی تاریخ کے ایسے انوکھے اور ان چھوئے گوشے پر مشتمل ہیں جس سے کبیر ونذیر کے شہر کے بہت سے باسی بھی ناواقف ہوں گے۔
ہندستان کے سیاسی نشیب وفراز سے متعلق دو مضامین ہیں، پہلا مضمون (دام ہر موج میں ہے) تو سرنامۂ کتاب ہی ہے جو مسئلۂ بابری مسجد کے تاریخی پس منظر اور اس تنازعے کے سماجی اثرات پر روشنی ڈالتا ہے۔ دوسرا مضمون (احتجاجی مظاہرے جو تحریک بن گئے) ہندستان میں گزشتہ ایک صدی کے احتجاجی مظاہرے کی تاریخ اور ان کی حرکیات اور ابعاد سے گفتگو کرتے ہوئے این آر سی احتجاج پر ختم ہوجاتا ہے۔
فاروقی صاحب کا اردو ادب اور شعر و سخن سے پرانا رشتہ ہے جس کی گواہی کتاب میں شامل مضامین بخوبی دے رہے ہیں، بعض مضامین کافی پرانے ہیں اور ان میں گزرے موسموں کی بوباس بھی ہے لیکن ان کے ادبی ذوق اور رجحان کی تفہیم میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ جن لوگوں کو فاروقی صاحب کے ساتھ اردو ادب کے موضوعات پر بات کرنے کا موقع ملا ہوگا، ان کو ایک آدھ مضمون پڑھ کر ایسا لگ سکتا ہے کہ سینے کا علم، مکمل طور پر، سفینے میں منتقل نہیں ہوپایا ہے، پر یہ مضامین ان کی ادبیات شناسی اور تنقیدی بصیرت کی ترجمانی کررہے ہیں۔ ’بر صغیر میں تذکرہ نویسی کی روایت‘ میں اس فن کے ارتقائی سفر اور اردو کے ساتھ عربی اور فارسی میں تذکرہ نگاری کی روایت کا جو تعارف اور تجزیہ پیش کیا ہے، وہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ ہاں، تذکرے کے درمیان میں اچانک ایک جگہ حالی اور شبلی کی سوانح نگاری پر ایک پیرا گراف آجاتا ہے جو زائد لگتا ہے، اگر اس کو وہاں سے نکال بھی دیں تو نفس موضوع کی تفہیم میں کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ (ص:282) مضامین کے عناوین سے ان کے مشتملات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے اور فاروقی صاحب کے مطالعے میں حیرت انگیز تنوع کا بھی۔ مضامین کے عنوانات ملاحظہ فرمائیں:
(1)اردو ادب اور دینی مدارس (2)ولی دکنی کی شاعری (3)اردو رسم الخط: ایک تجزیاتی مطالعہ (4)خودی کا نشہ(یاس یگانہ چنگیزی) (5)کاغذ دھول (حکیم مظہر سبحان عثمانی) (6)عشق چیست؟ (7)برصغیر میں تذکرہ نویسی کی روایت (8)ترجمہ نگاری کے چند اصول (9)تزک بابری اور اس کے چند اہم تراجم
اس کتاب کا اہم مضمون ’ہندستان میں عصمت دری کی بڑھتی ہوئی شرح اور اس کے عوامل‘ ہے جس میں فاروقی صاحب نے ہندستان کے موجودہ تناظر میں عصمت دری کے واقعات کا تجزیہ کرتے ہوئے اس کے عوامل کی طرف رہ نمائی کی ہے، اس مضمون کی قرأت سے اندازہ ہوتا ہے دینیات اور ادبیات کے ساتھ وہ سماجیات کا بھی علم رکھتے ہیں اور اصول عمرانیات کی روشنی میں سماجی مسائل کی تفہیم کے ہنر سے بھی واقف ہیں۔
فاروقی صاحب عالم دین ہیں، تدریس کے پیشے سے وابستہ رہے ہیں، دینیات کے ساتھ ادبیات بھی ان کے مطالعے کا حصہ رہا ہے، اردو اور عربی ادب کے ساتھ انگریزی ادب سے بھی لو اور لگاؤ ہے جس کی شہادت بعض مضامین بھی دے رہے ہیں۔ کتاب میں شامل مضامین کے مطالعے سے ان کے علمی سفر کی پوری کہانی ایک سلیو لائڈ فلم کی طرح آنکھوں کے سامنے رقص کرنے لگتی ہے۔ اسی لیے مجھے لگتا ہے کہ فاروقی شناسی کے لیے اس کتاب کا مطالعہ ضروری ہے، کتاب کی اور بھی خوبیاں اور خصوصیات ہیں لیکن حوالے کا التزام اس کتاب کی ایک اہم خصوصیت ہے، اردو عربی کے ساتھ انگریزی کتابوں کے بھی حوالے ہیں اور سب مستند ہیں۔ کتاب سے مصنف کی تاریخی بصیرت، عصری حسیت اور سماجی شعور کے ساتھ ان کی تجزیاتی قوت اور تخلیقی وفور بھی جھلک رہا ہے جو بجائے خود خاصے کی چیز ہے۔
399 صفحات پر مشتمل اس کتاب کی طباعت بھی خوب ہے، ٹائٹل، گٹ اپ اور تزئین سے سلیقہ مندی اور پیشہ ورانہ مہارت کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے۔ پروف ریڈنگ کی غلطیاں نہ کے برابر ہیں، جس سے ہم کو بڑی مایوسی ہوئی، کیونکہ ہمارا تعلق تو ’اغلاط نامے‘ کی نسل سے ہے، سو ہم نے بڑی محنت اور تلاش بسیار کے بعد ایک آدھ نکال لی ہے جس کی طرف اشارہ کیے دیتے ہیں: مولانا ابواکلام آزاد(ص:230) آشیش آنندی(ص:86 ) صحیح نام’ نندی‘ ہے۔ نہرو رپورٹ (ص:346) میں نہرو سے جواہر لال نہرو نہیں، موتی لال نہرو مراد ہیں۔ جنتا دل(ص:353-54) کی جگہ ’جنتا پارٹی‘ ہونا چاہیے۔
کتاب کے ناشر عزیزم عبدالقدیر سلمہ کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں، میری ان سے ملاقات بہت پرانی تو نہیں ہے م، پھر بھی اس تعلق پر چھ سات برساتیں بیت چکی ہیں، ایک زمانے تک مجھے بھی وسعت مطالعہ کے بارے میں خوش فہمی تھی لیکن ان سے ملاقات نے بتادیا کہ یہ غلط فہمی بھی ہے، ان کے ذہن میں کتابوں کا جو مینابازار سجا ہوا ہے، اس سے اپنے بیگانے سب فائدہ اٹھا رہے ہیں، لیکن ناشر کا حد سے زیادہ علم دوست اور باذوق ہونا تجارتی لحاظ سے رِسکی سمجھا جاتا ہے، لیکن وہ اس کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ اللہ کرے انھوں نے دہلی کی زمین پر کتابوں کی اشاعت کا جو کومل پودا لگایا ہے، وہ ایک چھتنار شجر بن جائے اور اس کے گھنیرے سائے میں ادب دوست حضرات آرام کرنے کے ساتھ ساتھ ناشر کے آرام کا بھی خیال رکھیں۔
ــابو تحریر،نئی دہلی
20جولائی 2022

آپ کے تبصرے

3000