کتاب: رد عقائد بدعیہ
تالیف: مولانا نذیر احمد رحمانی اعظمی رحمہ اللہ تعالیٰ
تکملہ: سعید عابدی
اشاعت: 2023
صفحات: 440
ناشر: مرشد پبلیکیشن، نئی دہلی
رابطہ نمبر: 9990674503
اسلام نے عقائد کی اہمیت پر جتنا زور دیا ہے، مسلمانوں کی اکثریت عقائد کے تئیں اتنی ہی غفلت اور لا پرواہی کی شکار ہے بلکہ مسلمانوں کی اکثریت نے الگ الگ عنوان سے بدعات کا جو مینا بازار سجا رکھا ہے، اس سے کم از کم یہی تاثر ملتا ہے کہ اس کو دین کی تعلیمات کا ذرہ برابر بھی پاس اور پرواہ نہیں ہے۔ اسی لاپرواہی کے نتیجے میں ایسے ایسے عقائد اور اعمال مسلم معاشرے کی شناخت بن چکے ہیں کہ اغیار بھی اپنے شرکیہ امور کے جواز کے لیے انھی کا حوالہ دیتے ہیں۔ ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری رحمہ اللہ تعالیٰ نے زیر تبصرہ کتاب کے (جامعہ سلفیہ اڈیشن کے) عرض ناشر میں شیخ محمد الغزالی کی کتاب لیس من الاسلام کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’’دشمنان اسلام‘‘ نے مسلم معاشرہ میں بدعات کو فروغ دینے کی بے حد کوشش کی ہے، افریقہ میں اشاعت اسلام کو غیر مؤثر بنانے کے لیے بدعات و خرافات کو رواج دیا اور برصغیر کے مسلمانوں پر نظر ڈالنے سے مذکورہ سازش کی تصدیق ہوجاتی ہے۔ مجھے سر دست اس Conspiracy Theory کے متعلق کچھ عرض نہیں کرنا ہے، لیکن اتنا ضرور کہنا ہے کہ خود مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے نے بدعات کا ماحول گرم رکھنے اور خرافات کو پھلنے پھولنے کا جو سامان اکٹھا کررکھا ہے، اس کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ یہی لوگ اصلی ’’دشمنان اسلام‘‘ ہیں۔ آج سے کچھ کم ڈیڑھ سو سال پہلے مولانا حالی نے اپنی مسدس (اشاعت اول: 1879) میں عقائد کی بابت مسلمانوں کی مداہنت بلکہ مجرمانہ غفلت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک مصرعے ’’مگر مومنوں پر کشادہ ہیں راہیں‘‘ میں سب کچھ کہہ دیا تھا اور یہ اس وقت کہا تھا جب ہندستان کی پہلی اسلامی تحریک کے پاک طینت علما کی اصلاح عقائد کی مہم نے برگ و بار لانا شروع کردیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے برصغیر کے مسلم معاشرے میں علما کی ایک جماعت نے حالات کی سنگلاخی اور ماحول کی آشوبناکی کے باوجود صحیح اسلامی عقائد کے فروغ کے لیے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا اور متنوع اسالیب کے ذریعے ’’بھٹکے ہوئے آہو کو پھر سوئے حرم لے چل‘‘ کا فریضہ ادا کیا جس کے مثبت اور حوصلہ افزا اثرت مرتب ہوئے، زیر تبصرہ کتاب بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
مولانا نذیر احمد رحمانی رحمہ اللہ تعالیٰ (1906-1965) اس کتاب کی وجہ تالیف کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’…میں نے ایک مستقل مضمون ’’احسان عظیم‘‘ کے عنوان سے شروع کیا تھا جو مئی 1946 سے ستمبر 1947 تک (پورے سترہ مہینے) مسلسل جاری رہنے کے بعد باوجود بھی نامکمل ہی رہ گیا تھا۔ دراصل اس مضمون کے شروع کرنے سے میرا منشا یہ تھا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات وہدایات کی روشنی میں یہ ثابت کروں کہ کس طرح آپ کی بعثت ہمارے لیے اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا احسان ہے، لیکن ابھی صرف عقائد سے متعلق گفتگو چل رہی تھی کہ اسی درمیان میں ملک کی تقسیم کا افسوس ناک حادثہ پیش آگیا۔‘‘(ص:38)
اس کے بعد ملک، مسلمان اور خود مؤلف پر بھی جو کچھ بیتی اس بپتا کو ایک سے زائد مرتبہ دہرایا جاچکا ہے۔ بہر حال، تقسیم ہند کی تباہی اور ذاتی آزار و آزمائش کے گزرجانے کے بعد انھوں نے اس نامکمل کتاب کو ’’رد عقائد بدعیہ‘‘ کے نام سے شائع کرایا تھا۔ اس کتاب میں ’عرض مؤلف‘ کے عنوان سے ان کی جو مختصر تحریر موجود ہے اس پر 30؍نومبر 1956 کی تاریخ درج ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کتاب برصغیر کے مسلمانوں کے نازک ترین عہد کی یادگار ہے، معاصر منظر نامے کی سنگینی کے پیش نظر کتاب کے مشتملات اور اس کی اشاعت کے فیصلے کو دیکھ کر کچھ لوگوں کی بھنویں تن سکتی ہیں، لیکن مؤلف مرحوم جو خود اس الم ناک داستان کے ایک مظلوم کردار تھے، انھوں نے نہ صرف اس موضوع کا انتخاب کیا بلکہ اس کو قابل اشاعت بھی سمجھا تو اس کا ایک ہی مطلب ہے کہ اصلاح عقائد میں موسم و مزاج کی رعایت مناسب نہیں ہے کیونکہ یہ نغمہ فصل گل و لالہ کا پابند نہیں ہے۔
یہ کتاب نو فصلوں پر مشتمل ہے اور بقول سعید عابدی صاحب ’’علامہ نذیر احمد رحمانی رحمہ اللہ تعالیٰ نے ’’رد عقائد بدعیہ‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھنی شروع کی تھی اور اس کی انھوں نے تین فصلیں لکھنے کے بعد چوتھی فصل لکھنے کا آغاز کیا تھا مگر اس کی تکمیل سے پہلے ہی مہلت عمر تمام ہوگئی اور اس دنیا سے رحلت فرما گئے، رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ۔‘‘ ( ص:35-36)
اس کتاب میں بالترتیب مسئلۂ غیب، مسئلۂ بشریت، سایۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقت، مسئلہ حاضر و ناظر، دعا میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو وسیلہ بنانا، اللہ کے ولی، تصور شیخ، بدعی نمازیں اور کتاب اللہ سے بے اعتنائی جیسے مسائل پر مدلل انداز میں بحث کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ سعید عابدی صاحب کا ایک مقدمہ بھی ہے جو اسلام کے عقیدۂ توحید اور اس کی اقسام پر مشتمل ہے۔ مولانا رحمانی کے ’عرض مؤلف‘ میں کتاب کی وجہ تالیف اور مراجع کا تذکرہ ہے۔ اس کتاب میں ان کی تمہید (ص:41تا56) بھی شامل ہے جس میں توحید و رسالت کے بارے میں برصغیر میں پائے جانے والے مشرکانہ عقائد کی طرف اشارہ ہے، اسی ضمن میں اردو شاعری کا بھی تذکرہ آگیا ہے جس میں ظلمت و ضلالت کا اچھا خاصا مواد موجود ہے اور سادہ لوح مسلمان اردو سے محبت کی وجہ سے اس شعری ادب کی زہر ناکی سے ناواقف ہے۔
مولانا رحمانی نے جن مسائل پر گفتگو کی ہے ان میں سب سے طویل گفتگو مسئلہ غیب پر ہے جو (ص:57 تا148) پر محیط ہے، اس مسئلے میں بریلوی مکتب فکر سے وابستہ علما نے جو ضلالت پھیلائی ہے، اس کا کتاب و سنت کی روشنی میں رد ہے اور ان کے لچر پوچ دلائل کا مسکت جواب ہے۔ یہ تمام مباحث سراسر علمی ہیں اور مؤلف کی وسعت مطالعہ، اخاذ ذہن، استنباطی فکر، مناظرانہ اسلوب، منطقیانہ استدلال کے ترجمان۔ مؤلف کی بریلوی لٹریچر پر گہری نظر ہے اور اس مسلک میں داخلی سطح پر جو فکری اختلافات ہیں ان سے بھی واقفیت ہے۔ بریلوی علما فقہ و فتاوی کی شکل میں ضلالت کا جو پلندہ برسوں سے عوام کے سامنے پیش کر رہے ہیں ان پر تنقیدی نگاہ تو ہے ہی شعروسخن کے پردے میں بدعات کا جو کھیل جاری ہے، اس پر بھی نظر ہے اور اس ضمن میں ’’نور نامہ‘‘ اور ’’عہد نامہ‘‘ جیسے گمراہ کن شعری ادب پر ان کے تنقیدی تبصرے پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ مولانا رحمانی نے کتاب و سنت کی روشنی میں تحقیقی جوابات دینے کے ساتھ الزامی جوابات کا بھی اہتمام کیا ہے جو کہیں کہیں کھٹکتے بھی ہیں اور خود مؤلف کو بھی اس بات کا احساس ہے اور اعتراف بھی: ’’…مسئلہ کی نوعیت کو سمجھانے کے لیے الزامی طور پر بعض ایسی نازیبا باتیں جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف مجبوراً منسوب کرنی پڑی ہیں، جن کے تصور سے بھی ہمارے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں لیکن کیا کیا جائے کہ ہمارے مخالفین خاص اس مسئلہ میں بھی ہمیں الزام دیتے ہیں کہ یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علم کو جمیع ما کان و مایکون نہ مان کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان گھٹاتے ہیں۔‘‘ (ص:92)
کتاب میں پانچویں سے نویں فصل تک کے مباحث (ص:216 تا 434) سعید عابدی صاحب کے زرنگار قلم کی دین ہیں جو ان کی تبحر علمی کے ساتھ عصری آگہی کے بھی آئینہ دار ہیں۔ انھوں نے جن مسائل پر اظہار خیال کیا ہے، ان کو پڑھ کر مسلمانوں کی اذیت ناک محرومی، فکری افلاس اور کتاب و سنت کی واضح ہدایات کی موجودگی میں بدعات و خرافات میں زندگی گزارنے کا احساس ہوتا ہے۔ مولانا رحمانی نے غیب، بشریت، نور سایہ اور حاضر و ناظر جیسے مسائل پر ارتکاز کیا تھا جو برصغیر کے مذہبی ماحول میں حنفی اسکول کی ایک شاخ بریلوی پارٹی کی شناخت بن چکے ہیں اور بقول عابدی صاحب ’’علامہ نذیر احمد رحمانی رحمہ اللہ تعالیٰ نے جس زمانہ میں اپنی یہ گراں قدر کتاب لکھنی شروع کی تھی، اس زمانہ میں ’’شرک و بدعت‘‘ کے قائلین اور مروجین میں پہلا درجہ ’’رضا خانیوں‘‘ ہی کو حاصل تھا، لہٰذا مولانا مرحوم نے اپنا زور قلم اسی جماعت کے مغالطوں کے ردو ابطال میں صرف کیا ہے۔‘‘ (ص:437) اسی وجہ سے مولانا رحمانی کے یہاں مولوی احمد رضا خان اور مولوی نعیم الدین مرادآبادی کے گمراہ کن عقائد کے رد وابطال پر زیادہ توجہ ہے لیکن عابدی صاحب نے کتاب کے تکمیلی حصے میں اس بحث کو قدرے وسعت عطا کردی ہے اور انھوں نے جن موضوعات و مسائل پر اظہار خیال کیا ہے وہ بریلی مسلک کی شناخت نہیں ہیں بلکہ ان میں اہل دیوبند بھی ملوث ہیں، اسی لیے ان کے یہاں حاجی امداد اللہ مہاجر مکی، مولوی اشرف علی تھانوی، مولوی حسین احمد مدنی کے افکار و اعمال کا تنقیدی جائزہ بھی پایا جاتا ہے بلکہ اس فہرست میں تو ’’ القدیم الصالح والجدید النافع‘‘ کے داعی اور مناد کے گل سرسبد، سید سلیمان ندوی جیسے فاضل بھی شامل ہیں بلکہ عابدی صاحب نے تو اس کتاب کی آخری فصل ’’کتاب اللہ سے بے اعتنائی‘‘ میں احناف اور صوفیا کے رویے پر ناقدانہ تبصرہ کرتے ہوئے اہل حدیث حضرات کو بھی کھری کھوٹی سنائی ہے اور یہاں تک لکھ دیا ہے:
’’صوفیا کے حلقوں میں قرآن پاک محض کتاب تلاوت ہے لیکن اس صفت سے اہل حدیث موصوف ہوچکے ہیں اور قرآن کو سمجھ کر اس میں تدبر کے ساتھ اس کی تلاوت کا رواج نہیں رہ گیا ہے۔ یہی نہیں، بلکہ موجود وقت میں اردو زبان میں ایسا کوئی قرآن کا ترجمہ نہیں ملتا جس کو پڑھ کر غیر عربی داں کلام اللہ سے مستفید ہوسکیں۔ حافظ عبدالسلام رحمہ اللہ کی مختصر تفسیر قرآن اس مقصد کو بڑی حد تک پور اکرتی ہے اور اس کی زبان بھی بہت عمدہ ہے اور اسلوب بیان ادیبانہ ہے مگر اس کے مشکل الحصول ہونے کی وجہ سے اس کی افادیت محدود ہے۔ رہا، حافظ صاحب رحمہ اللہ تعالی کا ترجمہ قرآن تو صحیح ہونے کے باوجود عصری زبان میں نہ ہونے اور جملوں کی ساخت میں اردو قواعد کی عدم رعایت کی وجہ سے غیر مؤثر ہے کیونکہ اس میں قرآنی بیان کی قوت تاثیر معمولی درجہ میں بھی منتقل نہیں ہوسکی ہے۔‘‘ (ص:414)
مذکورہ بالا اقتباس کو محتاط الفاظ میں ایک sweeping statment کہا جاسکتا ہے جو علم وتحقیق کی دنیا میں غیر مقبول ہے، ہاں، اس میں جن خامیوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، ان کی اصلاح کے بارے میں شاید ہی دو رائے ہو۔
اس کتاب میں املا اور پروف کی غلطیاں کچھ زیادہ ہی نظر آرہی ہیں جو اس قسم کی اہم کتاب کے لیے مناسب نہیں ہے۔ کچھ غلطیاں ایسی ہوتی ہیں جن سے مزید غلطیوں کی راہ ہموار ہوجاتی ہے۔ اس لیے ان کی طرف اشارہ ضروری ہے تاکہ ان کا اعادہ نہ ہو اور قارئین کے ساتھ ارباب قلم بھی محتاط رہیں:
٭عابدی صاحب نے مولوی اشرف علی تھانوی کا ایک اقتباس نقل کیا ہے: ’’مولوی عبدالرب صاحب کے والد عبدالحق صاحب شاہ اسحاق صاحب کے شاگرد مولوی نذیر حسین کے خسر تھے۔‘‘(ص:333) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ میاں صاحب کے خسر کا نام ’’عبدالحق‘‘ تھا جب کہ ان کے خسر کا نام ’’عبدالخالق‘‘ تھا۔ (دیکھیے: الحیاۃ بعد المماۃ، الکتاب انٹر نیشنل، نئی دہلی، ص:48)
٭عبدالقادر دائپوری(ص:356) عبدالقادر ’’رائے پوری‘‘ درست ہے۔
٭ارباب بسط و کشاد(ص:437-38) صحیح املا ارباب بست و کشاد ہے۔
٭نماز جمعہ میں اعلیٰ و غاشیہ اور جمعہ و منافقوں کی تلاوت (ص:423) منافقوں میں ’’ن‘‘ کی جگہ ’’ں‘‘ چھپ گیا ہے، معنی میں تو کوئی خاص فرق نہیں ہے لیکن پڑھتے وقت عجیب سا لگتا ہے۔
٭لعن اللہ الیھود والنصاری اتخذوا قبورا أنبیائھم مساجد(ص:54) ’’قبورا‘‘ کی جگہ ’’قبور‘‘ ہونا چاہیے۔
٭امداد اللہ کا نظریہ وحدت وجود ابن عربی کے نظریہ کی صدائے باز گزشت(ص:248) اردو میں ’’صدائے باز گشت‘‘ مستعمل ہے۔
اس کتاب کی اشاعت کا اہتمام مرشد پبلیکیشن (نئی دہلی) نے کیا ہے جس نے اپنی کم سنی کے باوجود کتابوں کی طباعت کی دنیا میں جو اعتبار حاصل کیا ہے وہ قابل رشک ہے، اب تک یہاں سے جو کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں، ان سے مرشد کی ترجیحات اور حسن ذوق کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ دعا ہے کہ نشرواشاعت کا یہ کومل پودا ایک چھتنار شجر بن جائے جس کے سائے میں ارباب قلم کو حقیقی سکون میسر ہو۔ آمین
آپ کے تبصرے