مولانا شفاء اللہ فیضی ’ناظم صاحب‘: حیاتِ درخشاں اور تابندہ کارنامے

اشفاق سجاد سلفی تاریخ و سیرت

استاذِ جلیلِ قدر مولانا شفاء اللہ فیضی ’’ناظم صاحب‘‘ رحمہ اللہ کا انتقال ۷؍نومبر ۱۹۹۷ء کو ہوا۔ آج آپ کی وفات پر ایک لمبا عرصہ گزرچکا ہے۔ اب تک میں نے آپ کی شخصیت کو موضوع بناکر بہت کچھ لکھا، آپ کی شخصیت ہی ایسی تھی کہ آپ پر جتنا لکھا جائے، کم ہے۔ یہ مضمون ان سب سے ہٹ کر ہے۔

مولانا شفاء اللہ فیضی کی پیدائش سرزمین ’’جدوڈیہہ‘‘ میں ۱۹۵۴ء میں ہوئی۔ آپ کی پیدائش پر گھر اور خاندان میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ آپ سے چھوٹے بڑے سب بڑی محبت کرتے تھے، اور آپ کی تربیت پر خصوصی دھیان دیتے تھے۔ جب آپ آٹھ نو سال کے ہوئے تو مبلغِ زماں، مصلح ِعلاقہ، داعیِ بے مثال حافظ ابوالفلاح عابد حسین بن خواجہ احمد گنگوہی رحمہ اللہ کے سرزمین ’’ٹوپاٹانڑ‘‘ میں قائم کردہ مدرسہ ’’دارالفلاح‘‘ میں داخل کرانے کی غرض سے آپ کے دادا عبدالعزیز صاحب خود لے کر گئے۔ اس زمانے میں اس ادارہ کے اندر داعی لا جواب مولانا ثناء اللہ ٹوپاٹانڑوی (متوفیٰ ۲۰۰۰ء)، مولانا وقاری جمال الدین مظاہری (متوفیٰ ۲۰۱۱ء)، مولانا احمد حسین ریاضی (متوفیٰ ۲۰۱۲ء) اور مولانا عبدالرشیدشائقی (سابق امیر صوبائی جمعیت اہل حدیث، جھارکھنڈ وبانی جامعہ محمدیہ، ڈابھا کیند) رحمہم اللہ تدریسی خدمات انجام دے رہے تھے۔ ان اساطینِ علوم وفنون اساتذہ سے کسب فیض کیا۔ مدرسہ دارالفلاح میں ۱۹۶۹ء تک قاعدہ بغدادی، ناظرہ قرآن اوراردووفارسی کی ابتدائی کتابیں پڑھیں۔

شروع ہی سے آپ کے اندر تعلیم حاصل کرنے اورایک اچھا انسان بن کرقوم وملت کی خدمت کرنے کاجذبہ دکھ رہا تھا۔ اس چیز کو آپ کے گھروالوں نے بھانپ لیااورآپ کے اندرپڑھنے لکھنے کا بے پناہ ذوق وشوق اوردلچسپی کودیکھا، تو باہر کے کسی اچھے ادارہ میں داخلہ کرانے کامنصوبہ بنایا گیا۔ اس سلسلے میں آپ کے مؤقر استاذ مولانا احمدحسین ریاضی رحمہ اللہ سے مشورہ کیا، توانھوں نے مئو کے معروف ومشہور ادارہ ’’جامعہ اسلامیہ فیض عام‘‘ میں داخلہ کرانے کا مشورہ دیا۔ اس وقت جامعہ اسلامیہ فیض عام نہایت قابل فخر ادارہ تھا، اور اس کے منتظمِ اعلیٰ معروف عالمِ دین مولانا محمداحمد ’’ناظم صاحب‘‘ رحمہ اللہ تھے۔ مولانا شفاء اللہ فیضی ’’ناظم صاحب‘‘ کے گھروالوں نے مولانااحمدحسین ریاضی سے کہا کہ آپ اپنے ساتھ لے کر مئو جائیں اورداخلہ کرادیں۔ چنانچہ وہ اپنے ساتھ لے کر گئے اور ۱۹۶۹ء میں آپ کا داخلہ اس ادارہ میں کرادیا۔ ۱۹۷۴ء میں آپ کو’’بہار مدرسہ ایجوکیشن بورڈ‘‘ کا امتحانِ فوقانیہ دینا تھا۔اس کے لیے آپ کواپنے کچھ دیگر ساتھیوں کے ساتھ گھر آنا پڑا، واقعہ کچھ یوں تھا کہ جامعہ اسلامیہ فیض عام کوچھوڑنا پڑا۔ اس کے بعدجامعہ سلفیہ، بنارس چلے گئے، اور جماعت اہل حدیث کے اس مرکزی ادارہ میں ۱۹۷۶ء تک وہاں کے کباراساتذۂ کرام سے تحصیلِ علوم وفنون کی۔

آپ نے جامعہ اسلامیہ فیضِ عام، مئو میں چوں کہ ابتدا ہی سے تعلیم پائی تھی، اس لیے اس ادارہ اوراس کے اساتذہ سے بے حد محبت تھی، یہ محبت انھیں دوبارہ وہاں کھینچ لائی، اور۱۹۷۶ء میں جامعہ سلفیہ، بنارس چھوڑ کر دوبارہ جامعہ اسلامیہ فیض عام تشریف لے گئے۔ اوراسی ادارہ سے ۱۹۷۷ء میں سندِ فضیلت وفراغت حاصل کی۔

۱۹۷۷ء ہی میں علاقہ چھوٹا ناگپور وسنتھال پرگنہ کے مرکزی ادارہ، مادر علمی ’’جامعہ محمدیہ‘‘ کے قیام کی تحریک چل رہی تھی، اس کے محرک تھے استاذ محترم شیخ عبدالرشید شائقی رحمہ اللہ۔ تحریک کامیاب ہوئی، علاقہ کی جماعتِ اہل حدیث کی ایک عمومی نشست سرزمین ’’سیمرگڈھا‘‘ میں منعقد ہوئی، جہاں اتفاق آراء سے ’’پھل جھریا‘‘ میں اس مرکزی ادارہ کے قیام کی تجویز پاس ہوگئی، اس کے فوراً بعد ادارہ پھل جھریا کی بجائے ’’ڈابھا کیند‘‘ میں قائم ہوا۔قیام کے ابتدائی دنوں میں تعلیم ڈابھاکیند کی جامع مسجدمیں ہوئی، اور بہت جلدتعمیری کام کی تکمیل کے بعدجامعہ محمدیہ کی جائے وقوع میں تعلیم وتربیت کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اس ادارہ میں تعلیم وتربیت کے آغاز کے دن ہی سے جواساتذہ اس کی خدمت کے لیے بحال ہوئے، ان میں استاذِ گرامی قدر مولانا شفاء اللہ فیضی ’’ناظم صاحب‘‘ رحمہ اللہ بھی تھے۔ ادارہ کے اول ناظم مولانا عبدالرشید شائقی بنائے گئے، مگر انھوں نے اس عہدہ پرصرف ایک سال رہ کر استعفیٰ دے دیا، جس کے بعدمولانا شفاء اللہ فیضی ’’ناظم صاحب‘‘ اکتوبر ۱۹۷۸ء میں’’ناظم‘‘ بنائے گئے، اس وقت سے تاحینِ وفات اس عہدہ پر فائز رہے۔ البتہ ۱۹۹۴ء میں جب آپ سرطان کے مرض میں مبتلا ہوئے تو ۱۹۹۵ء میں منصب ِ نظامت سے استعفیٰ دے دیا، جسے عوام اور جامعہ کی مجلس نے بیک زبان مستردکردیا اوراسے منظور نہ کیا۔ آپ نے سرطان کے مرض میں مبتلا رہ کر جامعہ محمدیہ کی خوب خدمت کی۔ آپ کا علاج ومعالجہ چلتا رہا، مگر مرض سے افاقہ نہ ہوا، اورجب بیماری حد سے زیادہ بڑھنے لگی، توآپ نے سوچا کہ اب اس عہدہ سے استعفیٰ دینے کی کیا ضرورت ہے اب تومیں دنیا ہی سے رخصت ہونے والا ہوں، مگر ستمبر ۱۹۹۷ء کی کسی تاریخ میں استعفیٰ دے دیا۔

آپ ایک کامیاب مدرس وداعی کے علاوہ بہترین منتظم بھی تھے۔ آ پ کی نظامت کے دور میں جامعہ محمدیہ نے عروج وارتقا کی منزلیں طے کیں۔ آپ کی وفات کے بعدادارہ کے اوپر جوادوار آئے، وہ اس کی واضح دلیل ہیں۔ آپ کا خواب تھا کہ جامعہ محمدیہ ترقی کرتے ہوئے ہندوستان کی صفِ اول کے مدارس وجامعات میں آجائے۔ اس کے لیے آپ نے گھر بار چھوڑا اور اپنی زندگی جامعہ ہی کے لیے وقف کردی، اورجب موت آئی، رب کا بلاوا آیاتودفترِ نظامت کی چوکی پر آخری سانس لی۔

قدیم اداروں میں ’’ناظم صاحب‘‘ کی اصطلاح پہلے کی طرح آج بھی مروج ہے، مگر نام کی بجائے اس سے خال خال ہی شخصیات متعارف ہوپاتی ہیں۔ میرے علم کی حد تک ہندوستان میں دوشخصیات ایسی ہیں، جن کونام سے زیادہ ’’ناظم صاحب‘‘ سے لوگ جانتے اور پہچانتے تھے، اور ان کی وفات کے باوجود آج بھی جب مجرد ’’ناظم صاحب‘‘ بولا جاتا ہے، تو دونوں کے علاقوں میں وہی دونوں شخصیات مراد ہوتی ہیں۔ایک جامعہ فیض عام، مئو کے سابق ناظم مولانا محمد احمد صاحب اور دوسرے ان کے تلمیذِ خاص جامعہ محمدیہ، ڈابھا کیند کے ناظم استاذِ حبیب حضرت مولانا شفاء اللہ فیضی۔ میں گاؤں کے مدرسہ اصلاح المسلمین میں زیر تعلیم تھا، اوربہت چھوٹا تھا، لوگ کہتے کہ ’’ناظم صاحب‘‘ آرہے ہیں۔ اس زمانے میں آپ کوپہچانا ضرور، مگر محسوس نہ کرسکا، اورجب ۱۹۸۷ء میں میراداخلہ جامعہ محمدیہ، ڈابھا کیند میں رابعہ ابتدائیہ (پہلی فارسی) میں ہوا،توآپ کوقریب سے دیکھنے اور محسوس کرنے کا موقع ملا۔ آپ ہم لوگوں کواس کلاس میں عربی زبان کی کتاب ’’منہاج العربیہ‘‘ پڑھاتے تھے، پھر خامسہ ابتدائیہ میں پڑھایا، جماعت اولیٰ میں آپ نے انگریزی کی کتاب پڑھائی، جماعت ثانیہ میں ترجمہ قرآن اور جماعت ثالثہ میں ہدایۃ النحو۔ آپ ایک سخت استاذ ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت مہربان ومشفق بھی تھے۔ پڑھائی کے معاملے میں اور سبق یاد نہ کرنے کی صورت میں نہایت سختی کرتے اور سخت پٹائی کرتے، مگر پٹائی کے بعداس طالب کوبلاتے اور نہایت شفقت سے سمجھاتے۔ آپ مجھے بے حد مانتے تھے ، اگرکسی کتاب میں ایک آدھ نمبر کم آتا، تو آپ ناراض ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ میں ہمیشہ کوشش کرتا کہ اچھے نمبر لاؤں، اور بفضلہ تعالیٰ ہمیشہ ایسا ہی ہوا۔ میری کاوش دیکھ کر ایک روز انھوں نے کہا کہ جب تم فارغ ہوجاؤگے تو جامعہ میں تم کواستاذ رکھ لیا جائے گا۔ میری فراغت سے قبل ہی آپ کی وفات ہوگئی ۔

آپ نہایت نرم طبیعت کے انسان تھے، اپنوں سے جدا ہوتے توآپ کے چہرہ کارنگ متغیر ہوجاتا۔ ایک مرتبہ آپ جامعہ سلفیہ بنارس آئے ہوئے تھے، واپسی پر میں آپ کوچھوڑنے بنارس اسٹیشن آیا۔ بیٹھے بات چیت کرتے رہے، ٹرین اپنے وقت سے بے حدلیٹ ہوگئی، آپ نے کہا تم چلے جاؤ، ورنہ جامعہ پہنچتے پہنچتے گیٹ بند ہوجائے گا، میں نہ چاہتے ہوئے آپ کے شدید اصرار پر چلنے کے لیے آمادہ ہوا، میری کیفیت بدل چکی تھی، اور آپ کا ساتھ چھوڑنے پر آنکھ سے آنسو نکل پڑے، آپ کی طرف دیکھا توآپ بے قابوہوکر رورہے تھے۔ بالاخیر آنسو پونچھتے ہوئے بھرائے الفاظ میں میں نے سلام کیا اورآپ سے جدا ہوگیا۔

جب میں نے عالمیت مکمل کی اور جامعہ اسلامیہ، مدینہ منورہ کی جانب سے جامعہ اسلامیہ سنابل، نئی دہلی میں منعقدہ ’’دورۂ تدریبیہ‘‘ میں شریک ہوا، توآپ کی خوشی کی انتہانہ تھی، آپ نے میرے بڑے بھائی جناب محمدسلطان صاحب کوجامعہ مدعوکرکے میرے روشن مستقبل کی بشارت سنائی ۔

آپ سرطان کے مرض میں مبتلا تھے، جامعہ سلفیہ بنارس سے جب بھی چھٹیوں میں گھرآتا، آپ سے ضرورملتا، اور باربار ملتا۔ کسی کی کیا مجال تھی کہ آپ سے ملے بغیر اپنے ادارہ کو واپس ہوجاتا۔ آپ سے جب بھی ملتا، آپ نصیحتوں پر نصیحتیں کرتے، اور اپنے بیٹے کی طرح محبت کا اظہار فرماتے۔ ۱۹۹۷ء کا سال چل رہا تھا، گرمی کی تعطیل میں آپ سے مل کر بنارس واپس ہوچکا تھا۔ آپ کی طبیعت بگڑتی جارہی تھی، ٹیلی فون کی سہولیات تو تھیں نہیں۔ بعد میں معلوم ہوا کہ آپ کواپنی وفات کے آخری دنوں میں مظلومیت کی زندگی گزارنی پڑی۔ ۷؍نومبر ۱۹۹۷ء کی تاریخ تھی، غالباً مولانا محمدطیب مدنی نے استاذ محترم شیخ احمد مجتبیٰ مدنی؍حفظہ اللہ کو فون کرکے آپ کی وفات کی الم ناک خبردی، انھوں نے استاذ جلیل شیخ محمدحنیف مدنی رحمہ اللہ کو، اور انھوں نے مجھے اپنےیہاں بلاکر یہ خبرسنائی، نگاہوں کے سامنے اندھیرا چھاگیا۔ آنکھوں سے نہ رکنے والے آنسو جاری تھے، ہچکیاں بندھ گئیں۔ میں مجازی باپ کو کھوچکا تھا، حقیقی باپ کودودھ پینے کے زمانے میں کھوکر، آپ سے باپ کی طرح شفقت ومحبت مل رہی تھی۔ میں نے دل کو قابو میں لاکر استاذ محترم شیخ محمد حنیف مدنی رحمہ اللہ کی طرف نگاہ اٹھائی، توان کو پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے پایا، کچھ دیر کے بعد انھوں نے کہا کہ’’ آج میں نے اپنے سب سے محبوب انسان کوکھودیاہے، صوفی جی کی وفات پر مجھے جوغم ہے، اتنا غم والدین کی وفات پر بھی نہ ہوا‘‘۔

آپ کی وفات پر رونے والے بہت تھے۔اور کیوں نہ ہوں، جامعہ محمدیہ نے اپنے ایک مخلص اوربے لوث خادم کوکھودیا تھا۔ ایسا خادم جس نے اس کوسجانے سنوارنے میں اپنی ساری صلاحیتیں لگادیں، جس کی تعمیر وترقی اور رعنائی کے لیے شب وروز محنتیں کرکے اوراپنی زندگی اس کے لیے وقف کرکے آخری سانس اس کی گود میں لی۔ ایک دن جامعہ محمدیہ کی رکھوالی کی ذمہ داری آپ کے ناتواں کندھوں پر علاقہ کے مخلصین کی طرف سے ڈالی گئی، اورایک دن ایسا بھی آیا کہ آپ نے یہ امانت علاقہ والوں کوواپس کرکے محبین کے کندھوں کے سہارے قبر کی راہ لی۔ جب جامعہ سے آپ کا جنازہ اٹھاہوگا، اس وقت کا منظر کیا ہوگا، جامعہ کی درودیوار کی کیفیت کیا ہوگی؟!

سالانہ تعطیل جامعہ سلفیہ، بنارس میں ہوئی، گھر آیا توسب سے پہلے جدوڈیہہ قبرستان آپ کی آخری قیام گاہ پہنچا، قبر کی زیارت کی اورمغفرت کی دعاؤں کے بعد جامعہ محمدیہ آیا، آپ کی چوکی پر نظر پڑی توآنسو سنبھال نہ سکا۔ ہرطرف نگاہ دوڑائی، توداغ کا یہ مصرعہ زبان پر آگیا ؎

آپ کی بزم میں سب کچھ ہے مگر داغ نہیں

ناظم صاحب بحیثیت ِمدرس:

آپ نے پوری زندگی ایک ہی ادارہ جامعہ محمدیہ میں پڑھایا ،جامعہ کی تعمیر وترقی میں مشغول رہنے والے انسان سے اس بات کی توقع نہیں کی جاسکتی تھی کہ وہ طلبہ کی تعلیم وتربیت میں وقت صرف کرے اور کچھ گھنٹیاں لے کر تدریسی فرائض انجام دے، مگر ناظم صاحب ایک الگ ہی انسان تھے ، وہ جب گھر سے صبح سویرے جامعہ پہنچتے، تو سب سے پہلے اپنی نگرانی میں ترانے کا اہتمام کراتے اور اس کے بعد ان طلبہ کوبلاکر پوچھتے جو گذشتہ دن غیر حاضر ہوتے، مناسب اورمعقول جواب نہ ملنے پر پٹائی کرکے سرزنش کرتے اور آئندہ غیرحاضری نہ کرنے کا عہد کراتے۔ اس کے بعد نقل دیکھنے کااہتمام کرتے اور جب یہ سلسلہ ختم ہوتا تو چھڑی لے کر طلبہ کے کلاس رو م میں پہنچ جاتے اور ہرایک سے نقل دکھانے کے متعلق پوچھتے اور نہ دکھانے والوں کو تادیبی سزا دیتے ۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا کہ ہر طالب سب کچھ چھوڑ کر نقل لکھنے کا اہتمام کرتاتھا۔

آپ چند مضامین پڑھاتے بھی تھے ، جن میں ترجمہ قرآن ،عربی ادب، نحواورانگریزی زبان وادب خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں۔ آپ کے زیر درس ترجمہ قرآن کے علاوہ عربی زبان وادب میں منہاج العربیۃاوردروس الادب ، نحو میں ہدایۃ النحواورانگریزی میں سرکاری اسکول میں رائج کتابیں ہوتی تھیں، آپ ترجمہ قرآن کو چھوڑ کر ہر کتاب کی کاپی دیکھتے تھے اور نہ لکھنے والوں کو گھٹنے پرکھڑے ہوکر مارتے تھے، اسی طرح ہر دن سبق سننے کی پابندی کرتے تھے ۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا تھاکہ طلبہ ہردن سبق زبانی یاد کرلیتے تھے اور قرآن کی طرح ہر کتاب کی عبارت اورمفہوم زبانی سنادیا کرتے تھے ۔ آپ کے اس طریقہ تدریس سے غبی اورکند ذہن طلبہ بھی ساتھیوں کی مدد سے یاد کرلیاکرتے تھے۔

آپ ششماہی اور سالانہ امتحانات کے سوالات نہ خود ترتیب دیتے تھے اورنہ ہی خود چیک کرتے تھے ۔ آپ کی کتابوں کے سوالات عام طور پر استاذ محترم مولانا لعل محمد اثری ،آپ کے استاذ محترم مولانا احمد حسین ریاضی اور ماسٹر محمد ادریس بنایا کرتے تھے۔ہم لوگوں کے لیے ہدایۃ النحو کے سوالات آ پ کے استاد مولانا احمد حسین ریاضی نے ترتیب دیاتھا اور چیک بھی ان ہی نے کیا تھا، اس میں میرے نمبرات پور ے سو آئے تھے۔اس سے اندازہ لگا یا جاسکتا ہے کہ آپ کس قدر ٹھوس پڑھا تے تھے اور یاد کراتے تھے کہ دوسروں کے امتحان لینے پر بھی آ پ کے پڑھائے ہوئے طلبہ پورے سو نمبرات حاصل کرتے تھے۔

آپ دورانِ درس طلبہ کو خارجی مطالعہ پر ابھارتے تھے ،بسا اوقات کوئی نیا مجلہ یااخبار ہاتھ میں لے کر کلاس میں آتے اور جاتے وقت کسی طالب ِعلم کویہ کہہ کردے جاتے کہ اسے پڑھ کر دفترمیں پہنچا دینا۔

ناظم صاحب بحیثیت ِناظم ِجامعہ:

اس آسمان وزمین اور سورج چاند نے علاقے میں درجنوں ناظم دیکھے ہوں گے، مگر ایسا ناظم نہیں ، جسے زمانہ اور اہل زمانہ نے ’’مولانا شفاء اللہ فیضی ‘‘ناظم صاحب کی شکل میں دیکھا۔ آپ نے بحیثیت ِناظم، جامعہ محمدیہ کو تعمیر وترقی کے جس اوج ِثریا تک پہنچایا،وہ آپ ہی کا حصہ بن کر رہ گیا۔

چمن میں پھول کھلنا تو کوئی بات نہیں

زہے وہ پھول ،جو گلشن بنائے صحرا کو

آپ کو ایک ہی فکر ستاتی رہتی تھی کہ جامعہ کب اور کس طرح ترقی کرتا ہوا مرحلہ فضیلت تک پہنچ جائے، اور ملک کے دوسرے بڑے اداروں کی صف ِاول میں داخل ہو جائے ۔ اس کے لیے آپ نے راحت و آرام کو چھوڑ ا،اپنی ذاتی ترقی کو خیر آباد کہا اور اپنی ساری توانا ئی جامعہ کی درودیوار کے استحکام کی خاطر صرف کردی، لوگوں کا کہنا ہے کہ آپ کی زبان سے جو سب سے پہلا کلمہ ادا ہوتا تھا ، وہ جامعہ اور چندہ ہوا کرتا تھا ۔ چندے کی فراہمی کے لیے آپ نے نزدیک اور دور کا پر مشقت سفر کیا، لوگوں سے روابط وتعلقات استوار کیے، اثر ورسوخ رکھنے والوں سے سفارشی خطوط لکھوائے، ہرطرح کے لوگوں سے مل کر کبھی بھاری بھرکم تعاون حاصل کیا، تو کبھی نازیبا کلمات سنے، مگر آپ نے کوئی اذیت محسوس نہیں کی اور ایک درویش کی طرح اپنے مشن میں لگے رہے۔

حلقہ جامتاڑا کے سابق ایم ایل اے محترم جناب محمد فرقان انصاری صاحب سے آپ کے رشتے استوارتھے ۔ آپ کا ان کی کامیابی کے لیے راحت وآرام ترک کرنا تو بہت معمولی اپنے علاج ومعالجہ اور سفر تک چھوڑ دیتے تھے۔ فرقان صاحب بھی آپ کو اپنی جان سے زیادہ عزیزرکھتے تھےاور آپ کی ہر بات کو لائق اعتنا سمجھتے تھے۔ دونوں کے تال میل سے جامعہ نے تعمیر وترقی کی بڑی بڑی مسافتیں طے کیں، جامعہ کو ہاسٹل ملا، لائبریری کی بلڈنگ ملی،جنریٹر کا انتظام ہوا،ایمبولینس کی سہولت ملی، اقلیتی بلڈنگ حاصل ہوئی اور طلبہ کودیگر سہولیات مہیا ہوئیں۔ میں نے خود فرقان صاحب سے سنا ہے کہ ناظم صاحب مجھ سے سرکاری فنڈ کے لیے کہتے اور مجھے ہمت نہیں ہوتی کہ آپ کی کسی بات پر نہ کہہ دوں!

لوگوں سے چندہ لے لینے کا آپ کے اندر ایک جداگانہ ہنر تھا۔ جب کوئی شخص جامعہ میں وارد ہوتا ، تو اس کا والہانہ استقبال کرتے اور فورا ًچائے منگواکر پلاتے، چائے نوشی کے دوران باتوں باتوں میں یہ کہہ ڈالتے کہ جامعہ کے لیے زمین کی بات کردی ہے ، یا فلاں روم کی کھڑکی نا مکمل ہے ، فلاں چیز ابھی تشنہ تکمیل ہے۔ میں نے سوچا کہ فلاں آئیں گے، تو یقینا یہ کام آسان ہوجائے گا ۔ اب وہ شخص جانے سے قبل ایک اچھی رقم کی رسید کٹواتا ۔ اور اس طرح آنے جانے والوں سے اچھا خاصا چندہ حاصل ہوجاتا تھا۔

کلیوں کو میں سینے کالہو دے کے چلا ہوں

صدیوں مجھے گلشن کی فضا یاد کرے گی

ترقی جامعہ کاایک انوکھا انداز:

آپ کی نظامت کے زمانے میں سن ۱۹۹۲ء میں ’’یہ بھی ایک انداز ہے ‘‘کے نام سے ایک کتابچہ شائع ہوا تھا، جس کو دیکھنے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ جامعہ کی تعمیر وترقی کے لیے ایک انوکھا انداز اختیار کیاگیا تھا ، وہ یہ کہ اس زمانے کے حساب سے جامعہ کا مطبخ خرچ یومیہ دوسو روپے مقررکیاگیا تھا اور علاقے کے ہرگاؤں کے خوشحال افراد سے اس بات کی گزارش کی گئی تھی کہ وہ سال میں ایک دن کا مطبخ خرچ مبلغ دوسور روپے دینے کی تکلیف برداشت کریں۔ اس اعلان اوردرخواست کے ساتھ ہی مختلف بستیوں کے ستاسی (۸۷) لوگ درج ِفہرست ہوگئے تھے اور اس طرح جامعہ کوایک خطیر رقم بڑی آسانی سے ملنے لگی تھی۔

یہ بابرکت اقتراح وتجویز پوکھریا کے جناب گل محمد بن فضل الر حمن صاحب نے پیش کی تھی ،کتابچہ کا اقتباس ملاحظہ ہو:

’’کئی سال پیشتر جامعہ محمدیہ، ڈابھا کیند کی نشست ِ عمومی میں جامعہ کے ایک سرگرم و متحرک ہمدرد جناب محمد مسلم صاحب راجہ بیٹھا نے یہ نعر ہ لگایا تھا کہ ’’آدھی روٹی کھائیں گے جامعہ کو آگے بڑھا ئیں گے‘‘ ۔ اب ایک دوسرے گرم جوش رفیق جناب گل محمد صاحب پوکھریا والے نے جامعہ کے اساتذہ و طلبہ کے مدعو کرنے والوں کو دیکھا اور ان کے ذوق وشوق اور علم پروری کے امنڈتے جذبات پرنظر کی ۔ نیز جامعہ کے انتظامی و تعمیری امور کا گہرائی سے مطالعہ کیا تو انھوں نے ایک مفید ومناسب مشورہ سے نوازا۔انھوں نے یہ تجویز رکھی کہ چوں کہ اخوانِ جماعت پورے علاقے میں بکھرے ہوئے ہیں او رہر گاؤں اورخطے سے صاحبِ توفیق حضرات یہ خواہش رکھتے ہیں کہ اساتذہ وطلبائے جامعہ ان کی ضیافت میں آئیں اور ان کی میزبانی کا شرف و سعادت ملے۔ مگر مستحسن و محبوب ہونے کے باوجود اس میں بہت ساری دقتیں درپیش ہوتی ہیں ،آمدو رفت کا مسئلہ ،طلبہ کے قیام وسکون کا مسئلہ،ان کی تعلیم کا سنگِ راہ بن کر حائل ہوجاتے ہیں،بسا اوقات بہت شوق سے پہنچنے والے نامراد واپس ہوجاتے ہیں۔ لہذا ایسا کیاجائے کہ ایسے لوگوں کی فہرست بنائی جائے جو مہمانانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ضیافت کاشوق وولولہ رکھتے ہیں ، اور ایک رقم مخصوص کردی جائے ، اور وہ رقم ان سے لے کر طلبہ واساتذہ میں منادی کرکے،کہ آج فلاں ہمدرد کی طرف سے آپ کی میز بانی ہورہی ہے ،مطبخ سے ان کے کھانے کا انتظام کردیا جائے۔ تجویز بڑی معقول سمجھی گئی۔چنانچہ اہلِ دل اور اصحاب ثروت کو دعوت ِعام دی گئی کہ اس عظیم کام میں حصہ لیں اور مستحق ِاجرو ثواب بنیں۔ہمیں یہ اطلاع دیتے ہوئے خوشی ہورہی ہے کہ اب تک ایسے خوش نصیب اور سعادت مند حضرات کی تعداد ستاسی پہنچ چکی ہے۔‘‘ (یہ بھی ایک انداز ہے ،ص ۱۱۔ ۱۲)

اس اقتباس کو غور سے پڑھیں اور اندازہ کریں کہ ناظم صاحب کے دورِ نظامت میں علاقے کے لوگ جامعہ سے کس قدر مربوط تھے، اور وہ کس طرح جامعہ کی تعمیروترقی کے لیے دل وجان سے سب کچھ قربان کرنے کے لیے ہمہ وقت تیا ر رہتے تھے ۔

ناظم صاحب کی اخوانِ ملت کی شکر گذاری:

ناظم صاحب اور دیگر نظمائے جامعہ کے مابین امتیاز وتفریق کرانے والے امور میں ناظم صاحب کی اخوان ِ ملت، علاقہ وغیرعلاقہ کے چھوٹے بڑے مردوں،عورتوں اور بچوں کی شکر گزاری بھی ہے۔ میں نے ’’علی گڑھ مسلم یونیور سٹی ‘‘کے بانی سر سید احمد خاں کے متعلق پڑھا ہے کہ ان کو کسی نے پرانی جوتی چندے میں دی ، تو انھوں نے اس کی مرمت کرائی، اور اس کو بیچ کر اس کی قیمت ادارہ کی تعمیر وترقی میں لگائی ،اور جوتی دینے والے کو شکریہ نامہ لکھا کہ جوتی ملی ،اس کی موچی کے یہاں مرمت کرائی، اور دوآنے میں بیچ ڈالی،اس قیمت کو ادارہ کے مفاد میں خرچ کیا گیا،میں آپ کا اس حسنِ تعاون پر شکر گزار ہوں۔ امید کہ آپ آئندہ دوسرا گراں قدر تعاون فرمائیں گے ۔

ہمارے ممدوح ناظم صاحب علاقے کے حق میں سر سید سے بھی اعلی درجہ رکھتے تھے۔ادراک وبصیرت رکھنے والے اسے ضرور محسوس کرتے ہوں گے ۔آپ نے ذاتی ملاقات کے دوران شکریے ادا توکیے ہی ،ایک تحریرکے ذریعہ عمومی شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھا :

’’ہمدردانِ جامعہ !جامعہ کی نظامت کا بارِ گراں مجھ جیسے نحیف وناتواں کندھے وجسم پہ جب ڈال دیاگیا، تومیں اس کا بالکل متحمل نہ تھا ،لیکن بزرگوں و احباب واخوان کا پیہم وشدید اصرارپر بادلِ ناخواستہ قبول کرلینا ہی پڑا،اس بارِ گراں کواٹھانے میں مجھے شدید کٹھنائیوں ،صعوبتوں اور دشواریوں کا سامناکرنا پڑا،لیکن ہمارے بہت سے بہی خواہوں،خیرخواہوں اور رفقاء اور اخوان کا اتنازیادہ تعاون ہمارے ساتھ رہا کہ میں کسی طرح اس کا متحمل ہوتوگیا ،لیکن صحیح طورپر اس کاحق ادا نہ کرسکا،یہ ایک فطری ولازمی شئ ہے اور ناتجربہ کاری و نافہمی کا قصور ہے ،جس کا مجھے پور احساس ہے ۔

بہر حال ،میں نے اس دینی و علمی ادارہ ’’جامعہ محمدیہ‘‘کے لیے آپ حضرات کے مشورے و تعاون سے جو کچھ کیا ہے اور کررہا ہوں وہ آپ حضرات کے سامنے عیاں ہیں۔

میں اس موقع پر ان تمام مخیر ،مخلص و ہمدرد معاونین کا تہِ دل سے شکریہ اداکرتا ہوں،جنھوں نے اس دینی ادارہ کے لیے یوم تاسیس سے اب تک تعاون پیش کیاہے ، چاہے وہ تعاون جس طرح کا ہو،سب سے پہلے جملہ مسلمانان ِڈابھاکیند کا کہ انھوں نے دل کی گہرائیوں سے اپنے گاؤں میں ایک دینی و علمی ادارہ کے قیا م کی اجازت دی، پھر بعض حضرات نے ادارے کے لیے اللہ کے واسطے زمین وقف کردی، ان کا اجر اللہ کے ذمہ ہے ، پھر علاقے وغیر علاقے کے ان تمام چھوٹے بڑے مردوں،عورتوں اور بچوں کا بے حد شکر گزا ر ہوں،جنھو ں نے یومِ تاسیس سے اب تک دامے درمے قدمےسخنے تعاون پیش کیا ہے، اور دن بدن تعاون پیش کرنے سے دریغ نہیں کر رہے ہیں ۔

نیز اس دینی ودعوتی ادارے کے لیے ان بزرگوں ،احباب واخوان کا بہت شکریہ ا داکرتاہوں ،جو ہند وبیرونِ ہند کے دوردراز علاقوں،شہروں،قصبوں اورگاؤں میں پھیلے ہوئے ہیں، اور جن کی ہمد ردیاں ہمہ وقت جامعہ کے ساتھ ہیں،رمضان وغیر رمضان وفصلِ اگہنی کے موقعوں پر خصوصی خیال رکھتے ہیں، ایک روپیہ سے لے کر سو ،دوسو،پانچ سو،ہزار،دوہزار،پانچ ہزاریا اس سے زائد کی رقم جامعہ میں تعلیمی وتعمیری ترقی کے لیے پیش کی ہے، اور سال بہ سال پیش کررہے ہیں۔‘‘ (یہ بھی ایک اندازہے: ص ۳ ۔ ۴)

ناظم صاحب اور جلسوں کا انعقاد:

جھارکھنڈ کے لیے بالخصوص دعوت وتبلیغ کا ایک با معنی اور بامقصد ذریعہ جلسوں کاانعقاد بھی رہا ہے۔ جامعہ محمدیہ کا قیام تعلیم وتربیت کی اشاعت کے ساتھ ساتھ دعوت وتبلیغ کے فروغ کے لیے بھی ہوا تھا۔ اس کا مکمل ادراک ناظم صاحب کو تھا ۔یہی وجہ ہے کہ ان کے دورِ نظامت میں بڑی آن بان اور شان کے سا تھ ہر سال بلاناغہ بڑے بڑے اجلاس کا انعقاد عمل میں آیا ۔ جلسوں کا انعقاد مذکورہ فوائد کے علاوہ جامعہ سے لوگوں کو جوڑنے ،اس کی شہر ت کو عام کرنے ،ملک کے مایہ ناز علماء و ادباء ،مفکرین و دانشوران اور دعاۃو زعماء کو جامعہ سے قریب کرنے ،اس کی اہمیت و افادیت سے انھیں روشناس کرانے او ر ان کے توسط سے ملک وبیرون ملک اس کا شہرہ عام کرنے کی غرض سے کیا جاتاتھا ۔ناظم صاحب اپنے اس مقصد میں سوفیصد کامیاب ہوئے ،جب کہ اس زمانے میں نقل وحمل کے وسائل کی کمی اور مادی ومعنوی ذرائع کی قلت تھی ۔

دنیا سمجھ رہی تھی کہ ہوگا کوئی فقیر

کتنی عجیب بات کہ سلطان میں ہی تھا

آپ کے زمانے میں جن اکابرین ،علماء ودعاۃ اورعلمی و دعوتی شخصیات نے آپ کی دعوت کو قبول فرمایا اور سفرکی تمام طرح کی صعوبتوں کوبرداشت کرکے جامعہ تشریف لائے،ان میں مفسر قرآن علامہ عبد القیوم رحمانی ،مولانا عبدالسلام اسلم کانپوری ،مولانا عبدالرشیدخاں جہانپوری ،مولانا بشیراللہ مئوی اعظمی ،مولانا امر اللہ عارف سراجی،مولانا محمد شعبان چترویدی ،مولانا دیندارخاں محمدی،مولانا تبارک حسین قاسمی،مولانا عبدالرب گونڈوی،مولاناعطاء الرحمن مدنی،مولاناسلیمان میرٹھی،مولانا محمد اشفاق سلفی،مولانا احمدمجتبیٰ مدنی ، مولانا رضاء اللہ عبدالکریم مدنی اور مولانا مطیع الرحمن چتر ویدی وغیرہم خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں۔

مولانا امراللہ عارف سراجی ۲۹۔۳۰؍مارچ ۱۹۸۰ء کے جامعہ کے اجلاس میں آئے تھے، اور اس علاقے میں دو ہفتہ قیام کرکے دعوت و اصلاح کا کام کیا تھا ۔آپ نے اپنے اس یادگار سفرکی روداداپنی مایہ ناز کتاب ’’منتخبات‘‘ میں نثر ونظم دونوں اصناف سخن میں تحریرکی ہے۔ان کی نثر کا ایک اقتباس ملاحظہ کریں :

’’سنتھال پرگنہ،گریڈیہہ، مدھوپوروغیرہ بہار مشرقی کا علاقہ ہے ۔یہ میری انتہائی محبوب بستی ہے۔ یہاں میرے بے حد مخلص محبوب بستے ہیں ۔میں دوروں اور جلسوں کے سلسلے میں باربار، لگاتار اس علاقے میں اس کثرت سے آیا ہوں کہ اب عوام وخواص سے گھر جیسی محبت ہوگئی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ا س علاقے کا ا ہم تر و ممتاز تر عظیم ادارہ جامعہ محمدیہ ڈابھاکیند ہے ۔ یہ ۱۹۷۷ء میں قائم ہوا ہے ۔ اس کے مو سس حضرت مولانا عبد الرشید شائقی صاحب ہیں ۔ موصوف سرِدست جامعہ کے صدرمدرس ہیں، اور ڈھائی سو طلبہ ہیں۔پچاس باہری طلبہ ہیں ، جن کے قیام و طعام کا کفیل خودجامعہ ہے ۔جامعہ کا محلِ وقوع پر فضا ، صحت افزا مقام ہے۔ ضرورت ہے کہ ا س علاقے کی پوری جماعت متفق ومتحد ہوکر اسے عروج وا رتقا سے ہمکنار کریں !‘‘ ۔ (منتخبات ص۱۱۱۔ ۱۱۲ )

اورمنظوم کلام مکمل ایک قصیدہ ہے۔ اس کا ایک نہایت وقیع شعر ہے :

یہ ڈابھا کیند کا مرکز نقیب ِفضل ِرحمانی

سراجِ ملتِ بیضا ء ضیائے نورِ یزدانی

ناظم صاحب اور تعمیر ی پیش رفت:

جامعہ محمدیہ کاجب قیام عمل میں آیا تو اول اول ڈابھا کیند کی مسجد میں تدریسی عمل کا آغاز ہوا ،اور بہت جلد موجودہ جگہ میں کچی مٹی کی دیوار کھڑی کرکے پانچ کمروں پرمشتمل کھپریل کامکان بنالیا گیا ۔میں نے جب پہلی بار جامعہ کو دیکھا تو وہ انھی پانچ کمروں پرمشتمل تھا اور آٹھ کمروں پر مشتمل بلڈنگ زیر تعمیر تھی۔ان پانچ کمروں میں سے ایک اسٹاف روم ،ایک باورچی خانہ اوربقیہ طلبہ کی رہائش گاہ تھے ۔ ناظم صاحب نے بڑی عرق ریزی اورمحنت سے زمین خریدناشروع کی ،اور ہر سال کچھ نہ کچھ زمینیں خرید ہی لیتے تھے ۔اس طرح سے جامعہ کے پاس جو زمین ہے ،اس کو خرید نے میں ناظم صاحب کامیاب ہوگئے ۔آٹھ کمروں والی بلڈنگ کے بعض کمرے جب تعمیر کے مرحلے طے کر چکے، تو اساتذہ و طلبہ اس بلڈنگ میں منتقل ہوگئے ،آپ ہی کے زمانے میں سابق ایم ایل اے جناب محمد فرقان انصاری صاحب نے لائبریری کی بلڈنگ ، طلبہ کی رہائش والی بلڈنگ ،لب سڑک والی دومنزلہ عظیم الشان بلڈنگ ، جنریٹر اور دیگر اشیاء دیے ۔

یہاں ایک بات واضح کرد وں کہ ۱۸؍ اکتوبر ۱۹۷۷ء کو جامعہ کے لیے جوزمین وقف کی گئی تھی وہ موجود ہ جگہ والی زمین نہیں ہے ،یہ پوری زمین ناظم صاحب نے مخلصین اور اصحابِ ثروت کے چندوں، عطیات وصدقات اور زکوۃ کے پیسوں سے خریدی ہے۔ جو زمین وقف کی گئی تھی ، وہ موڑلی پہاڑی کی شمالی جانب ہٹیا میدان کے پاس ہے ۔

یقیں محکم عمل پیہم محبت فاتحِ عالم

جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں

ناظم صاحب کے عہد کی جامعہ کی ایک رپورٹ :

جامعہ محمدیہ ۱۸؍اکتوبر ۱۹۷۷ء کو کھلا اور ۱۹۸۰ء کے ابتدائی ایام میں مادرِ علمی جامعہ سلفیہ، بنارس سے ’’جماعتِ اہلحدیث کی تدریسی خدمات ‘‘نامی کتاب میرے صحیح مسلم کے استاذشیخ عزیر الرحمن سلفی ؍ حفظہ اللہ کے قلم سے منظرِ عام پر آئی یعنی جامعہ محمدیہ کے قیام کے صرف دوڈھائی سال بعد ۔اس مختصر سی مدت میں ناظم صاحب اور ان کے رفقاء کار کی محنت سے جامعہ کس مرحلہ میں داخل ہو چکا تھا ،اس کا اندازہ اس کتاب کے ایک اقتباس سے کر سکتے ہیں :

’’جامعہ محمدیہ میں بحمد اللہ مولوی درجات تک تعلیم ہورہی ہے ۔فی الوقت ۹؍ اساتذہ تدریسی خدمات کی انجام دہی میں مصروف ہیں ۔نصاب پورا کرنے کے بعد طلبہ دیگر بڑے بڑے مدارس میں تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔ فی الحال طلبہ کی تعداد دو سو اکیاون (۲۵۱) ہے، جن میں سے پچاس (۵۰)طلبہ کے قیام و طعام کاجامعہ کفیل ہے ۔جامعہ کے اساتذہ تدریسی فرائض کی انجام دہی کے علاوہ علاقہ میں تبلیغی مشن کے تحت دورے کرتے ہیں۔ طلبہ کی ’’صدائے محمدی ‘‘کے نام سے ایک انجمن قائم ہے ،جس کے تحت ہر جمعرات و جمعہ کو علاقے کی مسجدوں میں اساتذہ کی نگرانی میں تبلیغی پروگرام منعقد کرتے ہیں ۔ علاقہ پر اس ادارہ کی وجہ سے سلفیت کا کافی اثر ہوا ہے ۔اراکینِ جامعہ نے آئندہ کے منصوبوں میں مکمل تعلیم و تعمیر میں اضافہ اور کتب خانہ کے قیام کو شامل کیا ہے۔ ‘‘ (جماعتِ اہلحدیث کی تدریسی خدمات ، ص۱۰۹)

پتھروں کے شہر میں شکوے، گلے، فریاد کیا؟

درد کی اب داستاں بھی مختصر ہونے لگی

ناظم صاحب کے عہدِ نظامت میں جامعہ ایک مرکزی ادارہ کی حیثیت رکھتا تھا۔ اس زمانے میں جامعہ کے علاوہ جامعہ دارالفلاح، ٹوپاٹار وٹرمنڈا، جامعہ یوسفیہ اسلامیہ، منکڈیہا، مدرسہ فیضِ عام، چھاتاپتھر اور جامعہ رحمانیہ، مدھوپور ہی قائم تھے۔ ان تمام اداروں میں(جامعہ کے علاوہ) رحمانیہ میں اچھی تعلیم ہوتی تھی۔ جامعہ محمدیہ کا چرچا عام تھا۔ علاقے کی تمام اہلِ حدیث بستیوں سے طلبہ پڑھنے یہاں آتے تھے۔ اڑیسہ اور موجودہ بہار کے ضلع نوادہ تک کے بچے زیرِ تعلیم ہوتے تھے۔ روزانہ جامعہ آنے جانے والے طلبہ وطالبات کا صبح اور دوپہر تانتا لگا رہتا تھا۔ نہ صرف اہلِ حدیث طلبہ وطالبات پڑھنے آیا کرتے تھے، بلکہ پہاڑپور کے اکثر وبیشتر بریلوی علماء جامعہ محمدیہ ہی کے فیض یافتہ ہیں۔روزانہ آنے جانے والے بچے اور بچیوں میں شہرپور سے منگیامارنی تک اور بدھی ڈیہہ ، گوراڈیہہ، سیمرگڑھا، پنڈریا، پھل جھریا اور برآباد تک کے طلبہ وطالبات ہوتے تھے۔ جامعہ اس زمانے میں بنین وبنات کا بھی مرکز تھا۔

ناظم صاحب کے عہد میں جامعہ کا تعلیمی معیار:

ناظم صاحب جب تک باحیات رہے ،جامعہ کا تعلیمی معیار بلندرہا ،اس وقت کے طلبہ جامعہ کے نصاب ِتعلیم کو مکمل کرکے مئو ناتھ بھنجن کے مدارس ،جامعہ اسلامیہ فیض عام ،جامعہ عالیہ عربیہ اور جامعہ اثریہ دا رالحدیث میں داخلہ لیتے تھے۔ ہر طالب ِعلم کا داخلہ مطلوبہ جماعت میں ہوجاتا تھا۔ میں جب جامعہ سلفیہ، بنارس سے پہلے جامعہ اسلامیہ فیض عام پڑھنے گیا تو میرا داخلہ مطلوبہ جماعت (چوتھی جماعت )میں اس سال داخلہ بندرہنے کے باوجود ہوا۔جب میں نے کلاس کرنا شروع کیا تومجھے یہاں کی تعلیم جامعہ محمدیہ کی تعلیم کے بالمقابل کمزور لگی ۔میں نے باضابطہ ناظم صاحب کو لکھا کہ مجھے جامعہ کے بالمقابل یہاں کی تعلیم کمزور لگتی ہے، اس وجہ سے پڑھنے میں زیادہ طبیعت نہیں لگتی، بہر حال ایک سال گزا رکر جب میں داخلہ کی غرض سے جامعہ سلفیہ ،بنارس پہنچا تو مجھے معلوم ہوا کہ مئو میں جس جماعت کی تعلیم حاصل کی ہے ،اس سے آگے والی جماعت جسے یہاں ثانیہ ثانویہ کہتے ہیں اور چونکہ یہ سند کاسال ہے، اس لیے اس میں داخلہ نہیں ہوتا ،مجبورا ًمجھے اولیٰ ثانویہ (چوتھی جماعت )کے امیدوار کی حیثیت سے داخلہ فارم بھرنا پڑا ۔اب میں مئو میں پڑھی ہوئی کتابوں کے نام ٹیسٹ دینے کے لیے نہیں لکھ سکتا تھا ۔ اس وجہ سے میں نے فارم میں لکھا کہ جامعہ محمدیہ سے تیسری جماعت( ثالثہ متوسطہ )کی تعلیم حاصل کرکے آیا ہوں ،اور میں نے ان کتابوں کے نام درج کیے جو جامعہ محمدیہ میں پڑھی تھی ۔جامعہ سلفیہ میں داخلے کے دو ٹیسٹ تحریری و تقریری ہوتے تھے ۔میرا تقریری امتحان استاذ محترم جناب مولانا محمد یحیٰ فیضی؍حفظہ اللہ نے لیا ،اور بلوغ المرام ،ہدایۃ النحو،امین الصیغۃ ،معلم الانشاء،القراء ۃالرشیدۃوغیرہ کتابوں سے سوالات پوچھے اورمجموعی نمبرات چالیس میں پورے چالیس نمبرات دیے ۔اس لیے کہ میں نے ان کی توقع سے بڑھ کر جوا ب دیا تھا ،اورقابلِ ذکر بات یہ ہے کہ انھوں نے خلافِ اصول مجھے اسی مجلس میں میرا نمبر بتلاتے ہوئے یہ نصیحت کی کہ جاؤ اور کل تحریری امتحان دینے سے قبل مزید تیاری کرو ،تاکہ تحریری امتحان میں بھی تم کامیاب ہوسکو ۔مجھے استاذِ مشفق ناظم صاحب کی تربیت، جامعہ محمدیہ کے دیگر اساتذہ کی تعلیم اور اپنی علمی لیاقت پر مکمل اعتماد تھا کہ میں تحریری امتحان بھی امتیازی نمبرات سے نکال لوں گا، اور ایسا ہی ہوا، اور اس طرح سے جامعہ محمدیہ کے ابناء میں بڑے بھائی مولانا محمد سلطان سلفی کے بعد میں وہ دوسرا شخص تھا ،جس کا داخلہ جامعہ سلفیہ ، بنارس میں ہوا ۔اور جب تک وہاں زیر تعلیم رہا،اپنی ایک پہچان بنا کر رہا ۔

یہ سب اس وقت کے جامعہ محمدیہ کے تعلیمی وتربیتی مستوی ومعیار کا مکمل عمل دخل تھا ،جس کا پورا سہرہ ناظم صاحب کے سرجاتا ہے ۔

ناظم صاحب ’’انجمن صدائے محمدی‘‘ کے حوالے سے :

ہر تعلیمی ادارہ میں طلبہ وطالبات کی ایک تنظیم ہوتی ہے ۔جس کے تحت طلبہ و طالبات تحریر و تقریر کی مشق کرتے ہیں اور مستقبل کے داعی اورتحقیق وتصنیف اورصحافت و انشاء پردازی کے میدان کے سپاہی بننے کی ٹریننگ پاتے ہیں۔جامعہ محمدیہ کا جب قیام عمل میں آیا اور تعلیم وتربیت کا آغاز ہوا ، تو طلبہ کی تنظیم ’’انجمن صدائے محمدی ‘‘کے نام سے قائم کی گئی ،اور اس کے تحت طلبہ نے تحریر وتقریر سے متعلق اپنی سرگرمیاں جاری کردیں۔اس انجمن کے مربی ناظم صاحب ہوا کرتے تھے اور طلبہ کی بھر پور تربیت کرتے تھے۔اپنی کثرتِ مشغولیات کے باوجود ہفتہ واری پروگراموں میں شرکت کرتے تھے، صدارت فرماتے تھے اور طلبہ کو اپنے مفید نصائح اور قیمتی مشوروں سے نوازتے تھے۔ جب میں جامعہ محمدیہ میں زیر تعلیم تھا ،تو اپنی صدارت کے موقعوں پر برنامج کے تبصرہ کالم میں مجھ سے تبصرہ لکھوا تے تھے ،جس میں اس بات کی جانب اشارہ تھا کہ تمھیں لکھنے کے میدان میں خوب محنت کرنی ہے اور ایک دن قلم پکڑنے کے لائق بننا ہے ۔

آپ کے عہدِ نظامت میں اس انجمن کا سالانہ پروگرام نہایت تزک واحتشام کے ساتھ منعقد ہوتا تھا،جس میں علاقے کی ہربستی سے لوگوں کو مدعو کیا جاتا تھا۔پروگرام کاباضابطہ ایک اشتہار چھپتا تھا اور علاقے کی جملہ بستیوں میں اسے چسپاں کردیا جاتاتھا۔

اس طرح سے یہ انجمن علاقے کی نئی نسل کو تعلیم وتربیت پر ابھارنے اورجامعہ سے مکمل فائدہ اٹھانے کی تحریک کا کام کرتی تھی ،اور اس کے پلیٹ فارم سے جامعہ کے شاندار تعلیمی و تربیتی کردار کا مظاہرہ ہوتاتھا ۔

ناظم صاحب اور جنرل میٹنگیں:

ناظم صاحب کے دورِ نظامت میں سال بھر مجلسِ منتظمہ کی میٹنگیں ہوتی رہتی تھیں ،جن میں اراکینِ جامعہ اور ہمدردانِ جامعہ مدعو ہو ا کرتے تھے۔دعوت ناموں کے ارسال وترسیل اور علاقے کی بستیوں سے لوگوں کو جامعہ کے ہمدرد بنانے میں کوئی کتر بیونت کا عمل انجام نہیں پاتاتھا ۔سبھوں کو مخلص وہمدرد سمجھاجاتا تھا،اورکسی کو کٹا کٹا دیکھ کر اسے مدعو کرکے پذیرائی اور عزت دی جاتی تھی ۔جس کے نتیجے میں وہ جامعہ کی خاطر جان دینے کے لیے تیار ہو جاتا تھا ۔ ہماری بستی ’’ ہرلا‘‘ کو ہمیشہ جامعہ کا دایاں ہاتھ سمجھا جاتا تھا۔ ہرلا والے اپنی آمدنی میں ایک حصہ جامعہ کے لیے مختص کردیاکرتے تھے ۔ یہی حال دوسری بستیوں کابھی ہوا کرتا تھا ۔ میرے والد کا جب انتقال ہوگیا تومیری والدہ ہر سال اپنے شوہرکے نام پر بیس کیلو چاول اور ایک من ( چالیس کیلو )دھان بطورصدقہ وایصالِ ثواب جامعہ کو دیا کرتی تھیں ۔اس طرح کتنی عورتیں ہوں گی جو اس نوع کا کارِخیر انجام دے کر جامعہ کی تعمیر و ترقی میں ہاتھ بٹاتی ہوں گی۔

بات کی رو میں بہک نہ جاؤں ،مجھے بتلانا یہ ہے کہ جامعہ کا ادنیٰ سے ادنیٰ کام اس وقت تک انجام نہیں پاتا تھا،جب تک کہ ناظم صاحب میٹنگ بلا کر لوگوں کی رائے نہیں لے لیتے تھے ۔اس کا فائدہ یہ ہوا کہ آپ کے متعلق کبھی کسی بد ظن نے راہ نہیں پائی ۔اور آپ پر کبھی آمریت کا الزام نہیں لگا۔

ان میٹنگوں کے علاوہ ایک سالانہ جنرل میٹنگ منعقد کیا کرتے تھے،جس کی حیثیت ایک سالانہ عظیم الشان پروگرام سے کم نہیں ہوتی تھی ۔اس میٹنگ میں نزدیک و دور اور علاقے کے جملہ افراد مدعو ہو ا کرتے تھے ۔سیاسی شخصیات ،اصحاب ِبصیرت افراد ،علماء ودعاۃ،مدارس و جامعات کے اساتذہ و نظماء اور جمعیات ومراکز کے ذمہ داران بلا تفریقِ مسلک ومشرب خصوصی مہمان کی حیثیت سے بلا ئے جاتے تھے ۔میں نے کئی بار جناب محمد فرقان صاحب ،ڈاکٹر محمدمصطفٰے انصاری صاحب اور قاری زین العابدین مظاہری (کرمئی)کو شریک ِمیٹنگ ہوتے اور اپنے تاثرات و آرا ء سے سامعین کو مستفید کرتے ہوئے دیکھا ہے۔اس طورپر یہ میٹنگ اتحاد بین المسلمین کے لیے سنگ میل کی حیثیت رکھتی تھی ۔

میٹنگ کا آغاز تلاوتِ قرآنِ کریم سے ہوا کرتا تھا، اور اس کے بعد طلبائے جامعہ کی عربی ،اردو، ہندی اور انگریزی زبانوں میں نموذجی تقریریں ہواکرتی تھیں۔ مجھے یاد آرہا ہے کہ ایک مرتبہ کی جنرل میٹنگ میں مجھے عربی میں تقریر کرنی تھی ، اور میں نے ’’الامر بالمعروف والنہی عن المنکر ‘‘کے موضوع پر تقریرکی تھی، جس کو سن کر مولانا محمد الیاس مدنی نے مجھے پانچ روپیہ انعام کے طور پر دیا تھا ۔اور اسی طرح ایک مرتبہ کی جنرل میٹنگ میں جناب محمد فرقان انصاری صاحب کے لیے تیار کیے گئے خطبہ استقبالیہ کومیں نے ہی پڑھا تھا۔

طلبہ کی نموذجی تقریروں کے بعد سیاسی وعلمی اور دینی شخصیات ورجال کے تاثرات سنے جاتے تھے اور اخیرمیں جامعہ کے محاسب (ناظم صاحب کے دورِنظامت میں ہمارے گاؤں کے جناب ماسٹر محمد طیب صاحب ہوا کرتے تھے )جامعہ کے سال بھر کے آمدو خرچ کا حساب پیش کرتے تھے ،جس سے حاضرین اپنے ایک ایک چندے اوران کے جائز استعمال کی رپورٹ سن کر اطمینان کااظہار کرتے تھے اورجامعہ سے اپنی عقیدت ومحبت میں مزید اضافہ کرکے گھروں کو واپس ہوا کرتے تھے ۔

مت سہل ہمیں جانوپھرتاہے فلک برسوں

تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں

ناظم صاحب اور باصلاحیت اساتذہ کا انتظام :

میں پورے وثوق کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں ،اوراگر قسم کھالوں تو حانث نہیں ہوں گا کہ اپنے اقتصاد اور معیشت کومستحکم کرنے ،اپنے گھرکی شان کودوبالا کرنے اورخود کو مالداروں کی فہرست میں شامل کرنے کی فکر کبھی بھی آپ کے حاشیہ خیال میں جگہ نہیں پائی ہوگی ۔آپ کو ایک ہی فکر سوہانِ روح رہا کرتی تھی کہ کس طرح جامعہ ترقی کرے،اس کا تعلیمی معیار بلند ہو ،اس کے شعبہ جات میں اضافہ ہو اور جامعہ جھارکھنڈ سے نکل کر ملک کا ایک ممتاز ادارہ بن کر اپنانام روشن کرے۔اپنی صلاحیت کی حد تک یہی کچھ سوچتے رہتے تھے اور اپنی وسعت و بساط سے اوپر اٹھ کر کام کرنے میں لگے رہتے تھے ، نہ صحت کی فکر اورنہ آرام کی سوچ کام کے آگے روڑا بن پاتی تھی۔ آ پ کے اس طرزِ فکر وعمل سے آپ کے گھر والے آپ سے نالاں بھی رہتے تھے ۔مگر جامعہ کے آگے کسی کی کوئی پرواہ نہ کرتے تھے ۔

کسی بھی ادارہ کی نیک نامی،اس کی شہرت و عظمت اورتعلیمی وتربیتی معیار کا انحصار لائق وفائق اساتذہ کے انتظام پر ہوتا ہے ،جو اس میں کامیاب ہوجا تاہے ،وہ وقت کا نباض کہلاتا ہے۔ ناظم صاحب کواس حقیقت کا بخوبی علم وادراک تھا ۔یہی وجہ ہے کہ انھوں نے بشمول دیگر اساتذہ کے مولانا محمدخالد فیضی اور مولانا مسعود عالم فیضی جیسے ماہر اساتذہ کو جامعہ کی خدمت کرنے پر راضی کرلیا تھا ۔جن سے طلبہ نے کیا سیکھا ،ابنائے قدیم سے جواب معلوم کیا جاسکتاہے۔

اورجب موقع ہاتھ آیا تو مولانا عبد العلیم مدنی ،مولانامحمد جرجیس سلفی ،مولانا عبد اللہ مدنی اورمولانا محمد طیب مدنی جیسے ماہرین علماء و مدرسین کی ٹیم کو جمع کرنے سے نہ چوکے۔اور اگر ایک استاذِجامعہ کا اعتراض سنگ راہ نہ بنتا تو ایک ملک وبیرون ملک مشہورومعروف عالمِ دین مولانا محمد اشفاق مدنی (دربھنگہ)کوبھی جامعہ میں تدریسی و تربیتی خدمات کی انجام دہی کے لیے لانے میں کامیاب ہوجاتے۔ مگر آپ کی سادہ لوحی کہہ لیجیے یا کچھ اور،آپ نے اساتذہ کی ٹیم سے ان کی خدمات حاصل کرنے کے متعلق رائے لے لی ،اور بات بگڑگئی ۔واقعہ یہ ہے کہ مولانامحمد اشفاق مدنی (دربھنگہ )دارالعلوم احمدیہ سلفیہ ،دربھنگہ چھوڑ چکے تھے ،اور وہ کسی دوسرے ادارے میں جانا چاہتے تھے ،چونکہ آپ کئی بار جامعہ کے جلسوں میں بحیثیت ِخطیب تشریف لاچکے تھے ،اس لیے یہ جگہ آپ کو پسند تھی ،آپ نے ناظم صاحب کولکھا کہ میں جامعہ میں تدریسی وتربیتی خدمات کی انجام دہی کے لیے آنا چاہتا ہوں ،لہذا آپ کی منظوری کاانتظار رہے گا ۔

میں ان دنوں جامعہ ہی میں زیر تعلیم تھا اور کسی ضرورت کے تحت آفس گیا ہوا تھا۔میں نے سنا کہ ناظم صاحب نے اساتذہ کی ٹیم کی جانب مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ مولانا اشفاق مدنی (دربھنگہ )کاخط یہاں آنے کے متعلق آیا ہے ،اس سلسلے میں آپ لوگوں کی کیا رائے ہے ؟ایک استاذنے برجستہ کہا کہ ہم اسے کبھی گوارا ہ نہ کریں گے،بلکہ اس کی مخالفت سب سے پہلے ہم کریں گے ۔ناظم صاحب اساتذہ کے درمیان اختلاف و خلفشار نہیں چاہتے تھے کہ اس سے جامعہ کاماحول خراب ہوجاتا۔اس لیے آپ نے انھیں منظوری دینے سے معذرت کرلی ۔

ناظم صاحب نے شعبہ حفظ کے مستقل قیام کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے اپنے زمانے کے ممتاز حافظِ قرآن جناب عبد الباری اصلاحی صاحب کو جامعہ میں بحال کیا اورشعبہ تحفیظ منظم ڈھنگ سے جاری کیا ۔

جب مولانا ومفتی محمد جرجیس سلفی صاحب جامعہ تشریف لائے تو ناظم صاحب نے انھیں تدریس کے علاوہ تین کام سپردکیا:

اول :دار الافتاء کا قیام

دوم: شعبہ کتابت ( طلبہ کو کتابت سکھلانا)

سوم :جامعہ کی لائبریری میں موجودکتابوں کی جلد سازی

اوران تینوں کاموں پر انھیں اضافی رقم بھی دیتے تھے ۔یہ تینوں کام ناظم صاحب کے عہدِ نظامت میں نہایت خیروخوبی کے ساتھ انجام پاتے رہے،بعدمیں خود مفتی صاحب ناظم بنے ،مگر یہ سلسلہ قائم رہا یا بندہوگیا؟اس کامجھے علم نہیں ۔

کچھ بلبلوں کو یاد ہے کچھ قمریوں کو حفظ

عالم میں ٹکڑے ٹکڑے مری داستاں کے ہیں

ناظم صاحب بحیثیتِ مربی:

ناظم صاحب ایک کامیاب مربی تھے ۔آپ اس بات کو اچھی طرح محسوس کرتے تھے کہ تعلیم وتربیت کے اندر ادنیٰ سی کمی رہ گئی توطلبہ کا مستقبل تابناک اور روشن نہیں ہو پائے گا۔اس لیے آپ طلبہ کی تربیت پر پوری توجہ صرف کرتے تھے ۔نماز چھوڑنے پر تادیبی کارروائی، کلاس سے غیر حاضررہنے پرتادیبی کارروائی ،بال بڑے بڑے رکھنے پر تادیبی کارروائی، ٹوپی سر پر نہ رکھنے پر تادیبی کارروائی، دورانِ کلاس پائجامہ پہننے کا اہتمام نہ کرنے پر تادیبی کارروائی، چھٹی لے کر گھر جانے کے بعد دیر سے جامعہ پہنچنے پرتادیبی کارروائی ،پڑھائی لکھائی پردھیان نہ دینے پر تادیبی کارروائی اور وضع قطع درست نہ رکھنے پر تادیبی کارروائی کا ہونا بالکل یقینی تھا۔

آپ ذہین طلبہ کی اچھائیوں کی رہنمائی کرتے رہتے تھے ،اور آپ چاہتے تھے کہ وہ ہمیشہ اچھاکریں۔ مجھے یاد ہے کہ امین الصیغہ کا پرچہ سوال مولانا عبد اللہ مدنی نے بنایا تھا،جس میں مجھے اٹھانوے اور میرے ایک ساتھی کو ننانوے نمبرات ملے تھے۔ ناظم صاحب سے میری ملاقات ہوئی تو انھوں نے کہاکہ امین الصیغہ میں تمھارے نمبرات کیوں کم ہیں؟۔ میں نے دماغ پر زور ڈالا تو معلوم ہوا کہ بہت معمولی غلطی سرزد ہوئی تھی، ایک جگہ زبر کی جگہ ساکن ہو گیاتھا۔

آپ طلبہ کو محنت پر ابھارتے رہتے تھے اور یہ چاہتے تھے کہ ان کے طلبہ دوسرے مدرسوں کے طلبہ پر فائق رہیں۔جامعہ کے طلبہ میں سے ایک طالب کا داخلہ فیض عام مئو میں نہ ہونے پر اس طالب پر سخت ناراض ہوئے ، جب کہ مئو ہی کے ایک دوسرے ادارہ عالیہ عربیہ میں اس کا داخلہ ہوگیا تھا۔ مگر ان کی خواہش ہوتی کہ ان کے طلبہ جہاں بھی جائیں ناکامی کا منہ نہ دیکھیں۔

مجھے ایک روز امتحان کے موقع پر آفس بلاکر کہا کہ تمھیں گھر میں پڑھنے کے لیے درکار وقت نہ ملنے کی وجہ سے پریشانی ہوتی ہوگی۔ اس لیے تم امتحان کے گزرنے تک جامعہ میں رہ کر تیاری کرو اور امتحان دو۔ میں نے کہا ناظم صاحب !میں گھرپر رہ کر جامعہ سے زیادہ تیاری کرلیا کروں گا ، ان شاء اللہ۔ اور اگر آپ چاہیں گے توہر کتاب کو ہر دن سور ہ فاتحہ کی طرح سنادیاکروں گا۔ اس پر آپ نے بڑی مسرت کا اظہار کیا ۔ اوربعد میں جملہ اسٹاف کے بیچ میری محنت ولگن کا چرچا کرتے رہتے تھے۔

آپ کی تربیت کا انداز بالکل انوکھا تھا ۔عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ کوئی استاذ کسی طالب کے خلاف تادیبی کارروائی کرڈالتا ہے تو دونوں کے مابین ہمیشہ کی عداوت شروع ہوجاتی ہے، جس کا انجام دونوں کے حق میں بڑا خطرناک ہوتاہے۔ناظم صاحب اور وں سے ہٹ کر الگ ہی اندازسے تربیت کرتے تھے ،آپ جب غصہ ہوتے تو کہتے کہاں تھا؟ اٹھا کر پٹک دیں گے،سمجھ میں آجائے گا۔ آپ اس قدر نحیف تھے کہ کسی کو پٹکنا تو دور ، اٹھا پانا آپ کے لیے محال تھا ،مگریہ آپ کا انداز تھا۔ طالب یہ محسوس کرلیتا تھا کہ ناظم صاحب غایت درجہ برہم ہوگئے ہیں،اس لیے وہ اپنے حال چال ٹھیک کرلیتا تھا ،اور کبھی کسی کی پٹائی کرنے کے بعد آپ کو لگتا کہ اسے کچھ زیادہ زور سے چوٹ لگ گئی ہے تو آپ مسکرا کر اس کی چوٹ کو ہلکا کردیتے ،یاچھٹی بعد آفس میں بلا کرسمجھاتے یا پھر کسی سامان کو لانے بازار بھیج دیتے او رکہتے کہ دو روپیہ کا تم ناشتہ کرلینا ۔ اس طرح اس طالب کا درد کم ہوجاتا تھا۔

قیس سا پھر نہ اٹھا کوئی بنی عامر میں

فخر ہوتا ہے قبیلے کا سدا ایک ہی شخص

طلبہ کے لیے داخلہ کی کوشش:

ناظم صاحب کی خواہش ہوتی تھی کہ جامعہ کے طلبہ جہاں کہیں بھی جائیں ، ممتاز رہیں اور ان کے جامعہ کا نام روشن ہو،یہاں تک کہ ایجوکیشن بورڈ کے امتحانات دینے والے طلبہ بھی ان میں امتیازی نمبرات سے کامیابی حاصل کریں۔ بورڈ کے امتحانات کی تاریخوں کے قریب آنے پر جامعہ کے طلبہ کو فارم بھرنے پر ابھارتے رہتے تھے اور امتحانات کے رزلٹ آنے کا بے صبری سے انتظار کرتے تھے،اچھے نمبرات حاصل کرنے والے طلبہ کی حوصلہ افزائی کرتے تھے اور دعاؤں سے نوازتے تھے۔

جامعہ کا نصاب تعلیم مکمل کر لینے والے طلبہ کے متعلق آپ کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ کسی اچھے ادارہ میں داخلہ پائیں ، اس کے لیے وہ ہرحکمت عملی بروئے کا ر لاتے تھے،سفارشی خطوط لکھتے تھے اور اثر ورسوخ والوں سے سفارش بھی کر واتے تھے ۔ آپ کی سفارشات کو نہ صرف قبول کیا جاتاتھا ، بلکہ سیٹیں محدود ہونے اور داخلہ بند ہونے کے باوجود آپ کی بات کی قدرکی جاتی تھی ۔میں نے عربی کی تیسری جماعت مکمل کی تو میں نے آپ سے کہا مجھے باہر جاناہے ۔ آپ نے کہا ٹھیک ہے۔ رمضان میں آپ کولکاتہ گئے ہوئے تھے، جہاں جامعہ اسلامیہ فیض عام ،مئو کے سابق شیخ الجامعہ مولانامحفوظ الرحمن فیضی سے آپ کی ملاقات ہوگئی ،آپ نے ان سے میرے داخلہ کی منظوری حاصل کرلی، اورجب گھر آئے تو مجھے بلا کر کہا کہ فیض عام میں تمھارے داخلے کی بات کر دی ہے ۔ میں شوال میں جامعہ فیض عام پہنچا تو باوجود اس کےکہ میرے پاس کوئی تحریری ثبوت نہیں تھااور عربی کی چوتھی جماعت میں داخلہ بند تھا ، صرف یہ کہنے پر کہ ناظم صاحب نے مجھے بھیجا ہے ،میرا داخلہ منظور کرلیا ۔ داخلہ امتحان استاذ الاساتذہ، شیخ الشیوخ، صوفی با صفا حضرت مولانا وحافظ نثار احمد فیضی رحمہ اللہ نے لیااور مطلوبہ جماعت کے لائق قرار دیا۔

ابنائے جامعہ کے مابین قائم نزاعات کا تصفیہ:

ابنائے جامعہ ، یہاں کی تعلیم مکمل کرکے باہرجاتے تھے، تو بسا اوقات ان کے مابین اختلافات ونزاعات واقع ہوجا تے تھے ،اس کا جب آپ کو علم ہوتا تو ان کے گھر پہنچ کر سبھوں کو اکٹھا کرتے اور ان کے مابین صلح وصفائی کراتے تھے ۔ مجھے یاد آرہا ہے کہ منکڈیہا کے مولانا شمس الدین اور ان کے دوسرے معاصرین اور ماتھا سیرکے مولانا ضیاء الحق اور ان کے معاصرین کے مابین آپسی کچھ جھگڑے چل رہے تھے، آپ نے ان دونوں موقعوں پر منکڈیہا اور ماتھا سیر جاجا کر ان ابنائے جامعہ کے ما بین قائم نزاعات کا ازالہ فرمایا اور ان کے مابین صلح وآشتی قائم کی ۔

ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں ، نایاب ہیں ہم

تعبیر ہے جس کی حسرت وغم اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم

دعوتی خدمات:

دعوتِ اسلامی کی ادائیگی ایک دینی فریضہ ہے ، جو علما ء کو انبیاء کرام علیہم السلام کی وراثت میں ملی ہے۔ اس کا مکمل فہم وادراک ناظم صاحب کوحاصل تھا۔ آپ ہر جمعہ کو علاقے کی کسی بستی میں تشریف لے جاتے تھے اور جمعہ کا خطبہ دیتے تھے ۔ اس سے نہ صرف دعوت کا فریضہ ادا ہوتا تھا، بلکہ جمعہ سے پہلے اوراس کے بعد جامعہ کے لیے اچھا خاصا چندہ بھی کرلیتے تھے ،اور تیسری چیز یہ کہ لوگ جامعہ سے مربوط ہوتے چلے جاتے تھے ،جامعہ کااثرورسوخ پھیلتا چلاجاتا تھا اور جامعہ کے تئیں لوگوں کی عقیدت ومحبت بڑھتی چلی جاتی تھی۔

علاقے میں منعقد ہونے والی شادی ، عقیقہ اور دیگر تقریبات کے موقعوں پر آپ اورجامعہ کے بعض دیگر اساتذہ اورطلبہ مدعوہوتے تھے۔ آپ ایک ٹیم کی شکل میں تشریف لے جاتے اور شادی ، عقیقہ اوردوسری تقریبات میں شرکت ایک بہانہ ہوتی اور اس راہ سے آپ دعوت کا ، اصلاح کا اورتعمیر کاکام کرتے اور جامعہ کے لیے تعاون وعطیات حاصل کرتے تھے۔

آپ بہت بڑے مقررتونہ تھے ،مگر صاف ستھری اورسنجیدگی ومتانت سے پُر تقریر کیا کرتے تھے ۔ عام طور پر جلسوں میں آپ کو صدر بنایا جاتا تھا ،اور واقعی جس جلسہ میں آپ موجود رہتے اس میں اس باوقار منصب کے لائق کوئی اورہوتا بھی نہیں تھا ۔اگر کوئی سڑک چھاپ مقرر غیر علمی بات کہہ جاتاتو آپ ناراض ہوتے اور کہتے کہ اس نے اپنے آپ کو کیا سمجھ لیاہے؟اس کا اثراس پر ایسا ہوتا کہ آپ کے پاس آکر معذرت کرتا۔

دعوتِ اسلامی کے فروغ و اشاعت اور علاقے کی بستیوں کو جامعہ سے جوڑنے کی غرض سے جامعہ کے اساتذہ و طلبہ کو جمعہ پڑھانے کے لیے اور دیگر جلسوں میں شرکت کرنے کے لیے بھیجنے کا بھر پور اہتمام کرتے تھے ۔ بدھ اورجمعرات کوہی آپ اپنے ذہن ودماغ میں فہرست سازی کرلیتے تھے کہ کسے کس بستی میں بھیجنا ہے، اورکس بستی میں جمعہ پڑھانے کے لیے آدمی موجود نہیں ہے۔آپ کا یہ طرز عمل اگر بعد کے نظماء میں بھی پایا جاتا اور دوسر ے ادارے والے بھی اس مبارک عمل کو قائم رکھ پاتے تو شاید علاقے میں د عوتی صورت حال کچھ اورہی ہوتی!

ناظم صاحب اور سہ ضلعی جمعیت اہلِ حدیث:

ابھی آپ جامعہ محمدیہ کے جواں سال ناظم تھے۔ آپ کے دایاں بازو نہایت دور اندیش عالم استاذِ محترم مولانا محمد خالد فیضی تھے ،جو تعلیمی و تربیتی خطے اور دعوتی و تبلیغی منصوبے آپ کے سامنے رکھتے رہتے تھے ۔درحقیقت آپ سرپرست کی حیثیت رکھتے تھے۔ آپ ہی کی سرپرستی میں سہ ضلعی (ضلع دمکا،ضلع دیو گھر،ضلع گریڈیہہ پر مشتمل)جمعیتِ اہلِ حدیث کے قیام کا منصوبہ بنا۔ جامعہ میں اہلِ علم کی کئی میٹنگیں ہوئیں۔ جمعیت کاقیام عمل میں آگیا ۔ اس کی ایک میٹنگ میں علاقے کے ایک شخص کی حاضری ہوئی ، ان کو شاید جماعتِ اسلامی سے مکمل وابستگی تھی۔ اس جماعت کاکرنابہت کم ہوتاہے، دوسری جمعیتوں اور مدارس پر ڈاکہ ڈالنا زیادہ ۔آں جناب نے کہا کہ جمعیت ِاہل حدیث کے بجائے جماعتِ اسلامی نام رکھا جائے!، جسے تمام غیور علمائے اہل ِحدیث نے مستردکردیا ،اور جناب مجلس سے اٹھ کر چلتے بنے۔ ہمارے اکابر اساتذہ واعیان کو اس بات کا علم وادراک تھا کہ دیگر اسلامی جماعتوں سے اشتراک کی صورت میں آگے چل کر اختلافات راہ پائیں گے۔ اس لیے اشتراک کو ناممکن مان کر اس تجویز کو ویسے ہی مسترد کردیا ، جیسا کہ علامہ ثناء اللہ امرتسری ؍رحمہ اللہ نے ’’اہل حدیث کانفرنس‘‘ کے بجائے ’’اسلامی کانفرنس ‘‘نام رکھنے کی تجویز مسترد کردی تھی۔ مولانا امرتسری ؍ رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ:

“بعض دوست ہم کومشورہ دیتے ہیں کہ اس نصوص کو الٹاکر عموم پیدا کیجئے یعنی بجائے’’ اہل حدیث کانفرنس‘‘ کے’ ’ اسلامی کانفرنس ‘‘تجویز کیجئے !، تاکہ ایک خاص فرقہ سے مخصوص نہ رہے، بلکہ عام اہلِ اسلام سے متعلق ہوجائے ۔ ہم بھی اس رائے کی قدر کرتے ہیں ،لیکن ہم ایسا کرنے سے معذور بلکہ مجبور ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں، بلکہ اس کی نظائررکھتے ہیں کہ کوئی مجلس اہلِ اسلام کی مذہبی غرض کے لئے نہیں چل سکتی ، کیوں کہ جوکام ایک فرقہ کے نزدیک جائز ہے، دوسرے کے نزدیک ناجائز ۔ اس لئے جب کبھی ایسا مسئلہ پیش ہوا ، اختلاف پیدا ہوا ، اور اختلاف سے مخالفت ہوگئی،او ر مخالفت سے شقاق ،نفاق،،، اعاذنا اللہ منہ!!!۔(روداد سالِ سوم اہلِ حدیث کانفرنس، ص: ۱۶، بحوالہ یادگار مجلہ اہلِ حدیث، دہلی، ص: ۲۲۱)

ناظم صاحب کی سرپرستی میں قائم اس سہ ضلعی جمعیتِ اہلِ حدیث نے کچھ سالوں تک کام کیا، اور بعدمیں یہ جمعیت کیسے ختم ہوگئی ، اس کا علم مجھے نہیں ہو سکا۔

سماجی خدمات:

ناظم صاحب کی شخصیت ہمہ جہت اور تنوع کی حامل تھی،اور اس سے بڑھ کر آپ ہر دل عزیز اور سبھوں میں یکساں مقبول تھے۔تمام سماجی مسائل میں لوگ آپ کو فیصل اور منصف مانتے۔میاں بیوی کے تنازعات ،طلاق وخلع کے مسائل ، زمین وجائداد کے آپسی جھگڑے ،اور دیگر امور لے کر لوگ آپ کے پاس آتے اور آپ کو ان میں حَکَم تسلیم کرتے ،آپ منصفانہ فیصلہ سناتے ، جسے دونوں فریق تسلیم کرتے تھے ۔ آپ بہت کم بولتے تھے اور سب سے اخیر میں بولتے تھے اور آپ ہی کی بات پر پنچ اتفاق کرلیتے تھے۔

کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ کوئی شخص کسی کے خلاف ظلم وزیادتی کی شکایت لے کر آپ کے پاس آتا اور آپ اس کی بات بغور سنتے اور اخیر میں بولتے :آپ جائیے!، میں اسے بلا کر ڈانٹوں گا ،اگر نہیں مانا اور اپنی حرکت سے بازنہیں آیا تواسے اٹھا کر پٹک دوں گا۔آپ تو نہایت ہلکے پھلکے اور دبلے پتلے جسم وجان کے مالک تھے، آپ کسی کو کیا پٹکتے،مگر آپ کے اندر رعب اس قدر پایا جاتا تھا کہ آپ کی یہ بات اس قدر باوزن ہوتی تھی کہ آپ کے سامنے کسی کو زبان تک ہلانے کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔ آپ دوسرے شخص کوبلا تے اور اسے اس قدر سمجھاتے کہ وہ اپنے قول و فعل سے باز آجاتا اور اس نوع کی حرکت آئندہ نہ کرنے کا عہد کرکے واپس جاتا تھا۔

آپ نے اپنی زندگی میں حل نہ ہونے کے لائق امور کوبھی حل کر کے بڑے بڑے اختلافات ونزاعات کو ختم کیا ۔ آپ کے دورِ نظامت میں علاقے کے ایک گاؤں میں لوگ دو گروپوں میں منقسم ہو گئے تھے، اور سالوں سے ایک زمین کاجھگڑا چلا آرہا تھا ، جس کے نتیجے میں ایک شخص کی جان بھی گئی تھی ۔ اس مسئلہ کو آپ نے سنجیدگی کے ساتھ لیا،علاقے کے اصحابِ دانش وبینش سے تبادلہ خیالات کیا،ہر دل عزیز سیاسی رہنما جناب محمدفرقان انصاری صاحب سے بات کی اور دونوں گروپوں کے درمیان مصالحت کرائی اور سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اس واقعہ کی یاد تازہ کردی،جو رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں آباد انصار کے دوقبیلوں (اوس وخزرج)کے مابین سالہا سال سے جاری آپسی خونی لڑائی کوختم کرکے اور دونوں کے مابین بھائی چارہ قائم کرکے انجام دیا تھا ۔

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ورپیدا

آپ جس طرح مسلمانوں کے آپسی معاملات حل فرمانے کی ذمہ داری نبھانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے تھے ، اسی طرح بلکہ اس سے بھی بڑھ کر علاقے میں ہندو مسلم فرقہ وارانہ ہم آہنگی قائم کرنے میں ناقابل فراموش رول ادا کرتے تھے ۔ بابری مسجد کی شہادت سے قبل اس وقت کے سینئر بھاجپائی لیڈر لال کرشن اڈوانی کا رتھ یاتر ا چل رہا تھا اور ملک گیر پیمانے پر جلوس نکل رہے تھے ۔ ایک رتھ یاترا کو سندوری سے نرائن پور جانا تھا۔ اس جلوس میں علاقے کے ہزاروں غیر مسلموں کی شرکت ہوئی تھی ، علاقے کے لیے ایک کٹھن گھڑی تھی ،کچھ نہیں سمجھ میں آرہا تھا کہ اس دن کیا ہوگا ؟!، کچھ لوگ تو بہت کچھ اندیشے ظاہر کررہے تھے ، جامعہ محمدیہ میں اس وقت جیرواکے ایک باورچی تھے، وہ ڈرکے مارے جنوبی جانب کے دھان کھیت میں چھپ گئے تھے۔ واقعہ اوروقت ہی کچھ ایسا تھا کہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آسکتا تھا ۔ ٹھیک ساڑھے دس بجے دن جلوس سندوری سے روانہ ہوا۔ محترم ناظم صاحب نے حالات کاجائزہ لیا اور جامعہ کے گیٹ سے روڈ پر نکل آئے ۔ ہم طلبائے جامعہ سمیت دور ونزدیک سے آئے ہوئے سیکڑوں لوگ آپ کی طرف نظر گاڑے ہوئے تھے۔ جلوس کے آگے آگے پولیس کی ایک گاڑی تھی اور دوسری گاڑی اس کے پیچھے ،اور جلوس ڈابھا کیند کو پار کررہا تھا ،پولیس کی گاڑی جامعہ کے گیٹ پر رکی اور محترم ناظم صاحب کو گاڑی پر بٹھالیا ،یہ دیکھتے ہی مسلمانوں کے جذبات قابو میں آگئے اور آپ کو گاڑی میں سوار ہوتے دیکھ کر جلوس میں شریک کسی بھی غیرمسلم بھائی نے کوئی ایسی نازیبا حرکت نہیں کی، جس سے مسلمانوں کو ٹھیس پہنچے،ان کے جذبات بھڑکیں اور اشتعال میں آجائیں۔ سبھوں نے آپ کی شخصیت کے احترام میں اپنے جوش وجذبات کوٹھنڈا کرلیا اور اس طرح بلاکسی رکاوٹ اور بلا کسی تکلیف دہ بات کے جلوس جدوڈیہہ سے پار نکل گیا۔

آپ کے انھی کارناموں اورمسلمانوں اورغیر مسلموں میں یکساں پذیرائی کودیکھ کر آپ کی وفات پر علاقہ کے ایک دور اندیش غیر مسلم نے کہا تھا کہ آج ایک ایسی شخصیت کا انتقال ہوگیا، جن کے ساتھ مسلمانوں کا اتحاد بھی ختم ہوگیا ۔اب علاقے میں کوئی بھی ایسا فردِ مسلم نظر نہیں آتا ، جس کی بات پر لوگ متحد ہو سکتے ہیں۔

ہے غنیمت گر کوئی اب تک یہاں موجود ہے

جو چلا جاتا ہے، اب اس کا بدل مفقود ہے

مدرسۃ البنات آشاڈیہ کا قیام:

ناظم صاحب نے بے سروسامانی کے زمانے میں آشا ڈیہہ میں ایک ’’مدرسۃ البنات‘‘کاقیام فرماکر بہت بڑی سماجی خدمت انجام دی۔ آپ نے ا س کے قیام کے ذریعہ نہ صرف آشاڈیہہ ، جدوڈیہہ اور لالچنڈیہہ کے بچوں اور بچیوں کی تعلیم وتربیت کے لیے بنیا د فراہم کردی، بلکہ سماجی خدمات کے لیے اسے ایک مرکز بنادیا۔ اس کے قیام سے قبل مذکورہ تینوں بستیوں کے لوگوں کواکٹھاکیا ، اور اس ادارہ کوچلانے کے لیے تینوں بستیوں کے بابصیرت افراد کی ایک کمیٹی تشکیل دی۔ آج ایک باپ اپنے چار بیٹوں کومتحد نہیں رکھ پاتاہے ۔ایسی صورتِ حال میں تین بستیوں کا مشترکہ ادارہ ہونا اور سبھوں کا اس کی تعمیر و ترقی اور مشترکہ مفاد کے لیے تعاون پیش کرنا، یقینا ایک بہت بڑاکام ہے۔

اس ادارہ کے قیام کا پس منظر مولانا احمد حسین ریاضی؍ رحمہ اللہ نے اپنی وفات سے ایک سال قبل مجھے بتایا کہ ۱۹۹۰ء کی بات ہے ،ناظم صاحب نے مجھ سے ایک دن کہا کہ آپ کمزور ہوتے جارہے ہیں اور سائیکل چلانا آپ کے لیے مشکل ہورہا ہے ،پیدل چل کر مدرسہ دار الفلاح جانااور آنا آپ کے لیے بہت مشکل ہے۔کیوں نہ ایسا کیاجائے کہ لال چنڈیہہ ،جدوڈیہہ اور آشا ڈیہہ کے اشتراک و تعاون سے ایک ’’مدرسہ البنات ‘‘ قائم کیا جائے ،جہاں آپ تدریس وتعلیم اورتربیت کا کام شروع کردیں، اورسفر کی صعوبتوں سے بچ جائیں ۔نیز ان تینوں بستیوں کی جو بچیاں ’’جامعہ محمدیہ ‘‘کے دور ہونے کی وجہ سے نہیں جاپاتیں اور تعلیم وتربیت سے محروم رہ جاتی ہیں ، ان کی تعلیم وتربیت کابند وبست بھی ہوجاتا۔ ا ٓپ کی یہ بات بڑی اہم تھی، اس لیے میں نے اپنے اس تلمیذِخاص کے مشورہ پر ایک میٹنگ بلائی اور اس میں ’’مدرسۃ البنات ‘‘ کے قیام کی تجویز پاس ہوئی ۔ اور اس طرح سے یہ مدرسہ ۱۶؍ مئی ۱۹۹۰ء کو آشاڈیہہ میں قائم ہوا، جو لالچنڈیہہ، آشاڈیہہ اور جدوڈیہہ کا مشترکہ ادارہ ہے۔

آپ کی سماجی خدمات کا یہ مختصر خاکہ ہے، ورنہ تفصیل کے لیے ایک دفتر درکار ہے!

میری کتابِ زیست کا ہر اک ورق گلاب ہے

زبانِ عطر بیز سے عدو کو بھی جواب ہے

اوصاف وکمالات:

شخصیت تیری تھی اپنے وقت کی اک بے مثال

اب کہاں پائیں گے ایسا صاحبِ فضل وکمال

ناظم صاحب ؍ رحمہ اللہ جن اوصاف وکمالات کے مالک تھے، ان اوصاف وکمالات کے حامل انسان خال خال ہی نظر آتے ہیں۔ اس کا اعتراف دوست دشمن سب نے کیا ہے، (والفضل ما شہدت بہ الأعداء)۔ آپ کے نہایت مخلص رفیق؍ شیخ عبد اللہ مدنی نے ایک روز مجھ سے کہا کہ:

’’آپ کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے ، کام کرنے اور سردوگرم کو دیکھنے کا موقع ملا۔ سفر وحضر میں آپ کے ساتھ رہا، مگر آپ کے اندر پائی جانے والی گیرائی وگہرائی کا اندازہ نہ کر سکا۔ اس علاقے میں ہر کس وناکس میں یکساں مقبول شخصیت مولانا وحافظ ابوالفلاح محمد عابد حسین بن محمد خواجہ گنگوہی کی تھی، جن کے بعد وہ درجہ کمال اور قبولیت وپذیرائی ناظم صاحب کی ذات کو حاصل ہوئی۔ آپ کے بعد بروقت کوئی ایسا نظر نہیں آرہا ہے، جسے اس طرح کی پذیرائی ومقبولیت ملنے کی امید کی جا سکے۔‘‘

یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا

ہر مدعی کے واسطے دارورسن کہاں؟

جامعہ کی ترقی کے مسائل پر غور وخوض اور اسے حرکت ونشاط عطا کرنے کے امورپر تبادلہ آراء کے لیے ایک نشست ۲۷؍مئی ۲۰۰۶ء کو جامعہ کے وسیع وعریض صحن میں منعقد ہوئی تھی، جس کی صدارت علاقہ کے معروف و مقبول سیاسی رہنما جناب محمد فرقان انصاری صاحب نے کی تھی، اس میں شیخ عبد العلیم مدنی نے پر جوش خطاب فرمایا تھا، اور دوسرا اس نوع کا خطاب خاکسار کا ہوا تھا۔ اس نشست کے صدارتی کلمات میں جناب محمد فرقان انصاری صاحب نے کہا تھاکہ:

’’جامعہ کی درودیوار کی جو حالت آج ہم اپنی آنکھوں سے مشاہدہ دیکھ رہے ہیں، یہ صرف اس لیے ہے کہ ناظم صاحب جیسا آدمی اس کو چلانے والا نہیں رہا۔اگر آپ با حیات ہوتے تو نہ اس نشست کی کوئی ضرورت ہوتی اور نہ ہی وہ مسائل ومشکلات پیدا ہوتے ، جن سے جامعہ دوچار ہے۔‘‘

بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی

اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا!

آپ کی زندگی کا ایک واقعہ ہے کہ کسی بد باطن نے محکمہ خفیہ کے دفتر میں جامعہ کے خلاف ایک شکایت ( جھوٹی بات) یہ درج کرا دی کہ جشن آزادی کے موقع پر جامعہ میں قومی پرچم نہیں لہرایا گیا۔اس کی تحقیقات کے لیے سی آئی ڈی افسر جامتاڑا سے آئے اور مختلف لوگوں سے تحقیقات کرنے کے بعد ناظم صاحب سے ملے اور کہا:

’’آپ بہت چالاک مت بنیے!، میں کہتا ہو ں کہ آپ کے مدرسہ میں جشن ِآزادی کے موقع پر قومی جھنڈا نہیں پھہرایا گیا ؟!۔ افسوس کہ میں جہاں کہیں تحقیق کی غرض سے آپ کی شکایت لے کر جاتا ہوں، وہاں کوئی میری نہیں سنتا ہے، بلکہ پہلے سے ہی آپ کے دفاع کرنے والے وہاں موجود ہوتے ہیں، میں کیا کروں؟!‘‘

میں نے ملکوں کی طرح لوگوں کے دل جیتےہیں

یہ حکومت کسی تلوار کی محتاج نہیں ہے

کچھ اور اوصاف وکمالات :

آپ خاموش طبیعت کے انسان تھے ۔ کم آمیزی ، کم گوئی اور تنہائی وعزلت نشینی کے وصف سے فطری طور پر متصف تھے۔ بکواس اور بحث وتکرار کرتے آپ کو کبھی نہیں دیکھا گیا۔ آپ جو بھی بات کرتے، وہ معنی خیز ہوتی اور مشامِ جاں کو معطر کر جاتی۔

ان کا اندازِ بیاں تھا باعثِ کیف وسرور

کوئی خود رائی نہ تھی ان میں، نہ تھا کچھ بھی غرور

آپ کے انھی اوصاف کی بنا پر زمانہ طالب علمی ہی میں’’صوفی‘‘ کے لقب سے ملقب کیے گئے۔ اور اس لقب سے تا وفات اپنے ساتھیوں ،دوستوں اور اساتذئہ کرام کے درمیان پکارے گئے۔ جو طلبہ جامعہ سے پڑھ کر جامعہ اسلامیہ فیض عام جاتے اور ماسٹر رفیع اللہ صاحب سے ملتے، تو وہ ان طلبہ سے آپ کے احوال وکوائف معلوم کرتے اور کہتے، بتاؤجی’’ صوفی صاحب ‘‘کیسے ہیں؟

ایک مرتبہ میں ’’ العربیۃ للجمیع‘‘ (سعودی عرب) کے ایک ٹریننگ کورس کی تکمیل کے لیے مرکزی جمعیتِ اہلِ حدیث ،ہند کے کمپلیکس ،اوکھلا، نئی دہلی میں تھا ، اس میں شرکت کرنے کے لیے جامعہ اثریہ دارالحدیث ،مئو سے مولانا عزیر صاحب بھی تشریف لائے ہوئے تھے۔ تعارف کے بعد انھوں نے پوچھا کہ ’’صوفی صاحب‘‘ (مولانا شفاء اللہ فیضی) جو مدرسہ چلا تے تھے، اس کی کیا حالت ہے؟اور ان کے بچے وغیر ہ کیسے ہیں؟

آپ نرم مزاج ، شیریں گفتار اور اعلی کردار کے حامل اور نہایت بردبارانسان تھے۔ لوگوں کو سننا،سنجیدگی سے ان کو جھیل لینا، برداشت کرنا ، حرف شکایت زبان پر نہ لانا، غم وخوشی ہر لمحہ میں مسکرادینااور غم و تکلیف کو دل میں چھپائے رکھنا ،آپ کا وصف ِخاص تھا۔ہنگامہ خیزی ،ترش روئی،بغض وحسد، مکروفریب، دھوکہ دہی، کذب بیانی، چرب زبانی، انانیت ، خودپسندی، خردبرداور نفاق جیسے رذائل ِاخلاق سے بعید تر تھے۔

انوکھی وضع ہے سارے زمانے سے نرالے ہیں

یہ عاشق کو ن سی بستی کے یا رب رہنے والے ہیں

اللہ تعالیٰ ناظم صاحب ؍ رحمہ اللہ کی بشری لغزشوں سے صرفِ نظر فرمائے، آپ کے حسنات کو قبول کرے اور آپ کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین!

وصلی اللہ وسلم علی خیر خلقہ محمد وآلہ وصحبہ أجمعین!

2
آپ کے تبصرے

3000
2 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
2 Comment authors
newest oldest most voted
عبد المعین محمودعالم،ٹونگوڈیہ،ضلع جامتاڑا،جھارکھنڈ

بارک اللہ فیکم وزیدمجدکم
مضمون طویل ہونےکےباوجودنگاہ دل سےپڑھنےاوربیشترباتیں یادرکھنےاورقابل نوٹ ہیں،یقینامیں اس تحریرکوپڑھنےسےقبل اتنی تفصیل سے آپ کی شخصیت سے متعارف نہیں تھا،یہ مضمون ناظم مرحوم غفراللہ لہ وادخلہ الجنۃ کی عظیم شخصیات کےکچھ اہم گوشےپرمحیط ہے۔اللہ تعالیٰ آپکی اس کاوش کوشرف قبولیت سےنوازے۔
یقیناناظم صاحب جیسی ہمہ گیر شخصیت صدیوں میں پیداہوتےہیں۔اللہ تعالیٰ ناظم مرحوم کی جملہ حسنات کو قبولیت سےنوازےاورسیئات کوحسنات میں تبدیل فرماکرخلدبریں کا مستحق بنائے۔

العبدالمذنب :عبدالمعین محمودعالم،واردحال جموئ،بہار۔

Naushad Taimee

ماشاء الله تبارك الله وتقبل جهودك العلمية