اسم الکتاب: اسھامات دائرۃ المعارف العثمانیۃ بحیدرآباد الھند فی نشر علوم الحدیث والمشیخات و الأثبات
اسم المؤلف: راشد حسن المبارکفوری
عدد الصفحات:280
الناشر: دارالمقتبس،بیروت ،لبنان،2024
نوآبادیاتی ہندوستان میں مسلمانوں کے نشاطات کا ایک گوشہ اسلامی تراث کے احیا اور اشاعت سے عبارت ہے جس میں مسلم ریاستوں کے علم دوست ذمے داران کی توجہ،برطانوی استعمار کے تعاون اور انفرادی کوششوں سے جدید تعلیم،تحقیق و تصنیف اور ترجمے کے ادارے وجود میں آئے اور اپنے اپنے میدان میں قابل ذکر کارنامے انجام دیے جن کے آثار و اثرات آج بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔سید نذیر حسین محدث دہلوی کی مثالی درس گاہ اور ان کے تلامذہ کی متنوع خدمات، دارالعلوم دیوبند کا قیام، سرسید احمد خاں کے تعلیمی نشاطات ،نواب صدیق حسن خان کی خالص علمی سرگرمیاں سب اسی عہد کی یادگار ہیں جب سیاسی لحاظ سے مسلمانوں کا ستارہ گردش میں تھا۔اسی زمانے میں حیدرآباد دکن کی آصف جاہی ریاست کی سرپرستی میں دائرۃ المعارف العثمانیہ کا قیام(1888)مسلمانوں کی علم دوستی اور اسلاف کی علمی تراث کی نشرواشاعت سے دل چسپی کی ایک درخشاں مثال ہے۔زیر تبصرہ کتاب اسی ادارے کی مختصر تاریخ اور اس کی علمی خدمات کے ایک مخصوص گوشے کے تعارف پر مشتمل ہے۔
اس کتاب کا نقش اول ایک مقالہ تھا جو جامعہ عثمانیہ حیدرآباد کے سیمینار(دائرۃ المعارف العثمانیۃ حیدرآباد: انجازات وطموحات4-25 مارچ 2018)کے لیے لکھا گیا تھالیکن مؤلف کی حرکی شخصیت اور خوب سے خوب تر کی جستجو کی ادانے ان کو اسی منزل پر ٹھہرنے نہیں دیا بلکہ مقالے کو کتابی شکل میں پیش کرنے کا حوصلہ بھی عطا کیا جو آج ہمارے سامنے ہے۔یہ کتاب مقدمہ،خاتمہ، ضمیمہ اورفہرست مراجع کے علاوہ چار ابواب پر مشتمل ہے۔پہلے باب میں نظرۃ عابرۃ علی تاریخ الدائرۃ وجھودھا علی مرالعصور کے عنوان سے ادارے کے قیام کے محرکات اورمقاصد پرطائرانہ نظر ڈالنے کے ساتھ اس میں فعال کردار اداکرنے والے،مادی اور معنوی تعاون پیش کرنے والے ارباب علم و دانش کاتعارف ہے۔عماد الملک حسین بلگرامی،محمد ملا عبدالقیوم اور حافظ انوار اللہ حیدرآبادی کا خاص طور پرتذکرہ کیا ہے جنھوں نے اس تحقیقی ادارے کو قائم کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا تھا۔مؤلف نے ڈاکٹر محمدسلطان محی الدین کی کتاب(علما ء العربیۃ و مساھماتہم فی الأدب العربی فی العہد الآصفجاھی)کے حوالے سے ادارے کے تین مرحلے(پہلا مرحلہ :1308 تا1338 ھ ،دوسرامرحلہ:1338 تا1356 اور تیسرا مرحلہ: 1948) کا تذکرہ کیا ہے اور ہر ایک مرحلے کے انجازات اور انتاجات پرسلیقے سے گفتگو کی ہے ۔
دوسرا باب (التعریف بتراث أصول الحدیث والأثبات والمشیخات) اور تیسرا باب (التعریف بکتب السنۃ ودواوینھا وعلومھا)بالترتیب علم اصول حدیث اور کتب احادیث سے متعلق مطبوعات کے تعارف پر مشتمل ہے۔انھوں نے کتابوں کا تعارف پیش کرتے وقت ان کی اہمیت اور مشتملات کی طرف اشارہ کیا ہے ، مصنفین کے سوانحی حالات لکھتے وقت ان کی علمی خصوصیات اور انفرادیت کو بیان کیا ہے اور مزید معلومات کے لیے معتبر مراجع کی طرف رہ نمائی بھی کردی ہے ۔مؤلف نے اس باب میں دائرۃ المعارف کی مطبوعات کی تحقیق و تصحیح سے متعلق اہم اورمفید معلومات پیش کی ہیں۔تحقیق؍ تصحیح شدہ مخطوطے کی اہمیت، اس کے دستیاب نسخوں کی تفصیل ،محقق ؍مصحح کے مقدمے کے مشتملات اور طریقۂ تحقیق پر بہترین انداز میں روشنی ڈالی ہے۔مثال کے طور پر خطیب بغدادی کی مشہور کتاب (الکفایۃ فی علم الروایۃ)کے تعارف میں سب سے پہلے اس کتاب کی بغدادی کی طرف نسبت کے متعلق متعدد امور کی طرف اشارہ کیا ہے۔ تراجم اور طبقات کی معتبر کتابوں کے حوالے سے گفتگو کی ہے اور اس کی اہمیت اور قدامت کے بارے میں حافظ ابن حجر کا ایک اقتباس بھی نقل کردیا ہے۔اس کے بعد دائرۃ المعارف سے منظر عام پر آنے والے اس کتاب کے دونوں اڈیشن کی تحقیق اور تصحیح کے بارے میں مکمل تفصیل پیش کردی ہے ۔حاشیے میں خطیب بغدادی کے سوانحی حالات کو سلیقے سے بیان کیا ہے ، جس سے مؤلف کے تحقیقی ذوق اور علمی وسعت کا اندازہ لگایاجاسکتا ہے۔
کتاب کا چوتھا باب (انطباعات أھل العلم فی مآثر الدائرۃ وجھودھا العظیمۃ)دائرۃ المعارف کی خدمات کے بارے میں ملک اور بیرون ملک کی معروف اور معتبر علمی شخصیات کے تاثرات پر مشتمل ہے جن سے ادارے کی شہرت اور اس کی متنوع خدمات کی قدروقیمت کا پتہ چلتا ہے۔ان شخصیات میں مولانا ابوالکلام آزاد(وزیر تعلیم ہند)،ڈاکٹر عبد الحلیم محمود( شیخ الازھر)،ڈاکٹر حسنی سبح(رئیس مجمع اللغۃ العربیۃ بدمشق)، مولانا ابوالحسن علی ندوی(ندوۃ العلماء لکھنو)، ڈاکٹر محمد حسن الزیات،شیخ محمد بن عبداللہ السبیل،ڈاکٹر عبداللہ عبدالمحسن الترکی اور شیخ عبد الرحمان بن عبد العزیز السدیس جیسے نام شامل ہیں۔
ملحق الوثائق کے عنوان سے مطبوعات کے پہلے اور آخری صفحے کا فوٹو منسلک ہے۔مراجع میں 61 کتابوں کے نام درج ہیں جو کتاب کی علمی حیثیت کا پتہ دیتے ہیں۔کتاب کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ مؤلف نے حواشی خوب سجائے ہیں اور بعض کافی طویل ہیں لیکن فائدے سے خالی نہیں ہیں مثال کے طور پر نواب صدیق حسن خان کے حوالے سے حاشیے میں ان کی حیات و نشاطات سے متعلق مواد اور معلومات کی تفصیل بیان کردی ہے جس میں نواب صاحب کی تصنیفات کے ساتھ دیگر مصنفین کی کتابوں کی طرف بھی رہ نمائی ہے۔اسی طرح مطابع کے قیام میں سید نذیر حسین محدث دہلوی کےتلامذہ کی خدمات پر جوحاشیہ ہے وہ خوب ہے اور مؤلف کی وسعت معلومات کی شہادت دے رہا ہے۔(ملاحظہ فرمائیں: ص:23 تا28)
٭
٭ ایک زمانے میں مولانا محمد بن یوسف سورتی دائرۃ المعارف سے وابستہ تھے جس کی طرف مؤلف نے اشارہ بھی کیا ہے۔سورتی صاحب نے اپنے مقالات میں اسلامی علوم کی تحقیق و تدوین اور نشرواشاعت میں اس کی خدمات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قیمتی آرا سے نوازا تھا ۔
1۔ دائرۃ المعارف النظامیۃ(ماہ نامہ جامعہ، جامعہ ملیہ اسلامیہ ،نئی دہلی، جنوری 1926)
2۔ دائرۃ المعارف النظامیۃ اور کتب قدیمہ کی اشاعت(ماہ نامہ معارف ، دار المصنفین،اعظم گڑھ، جنوری و فروری 1932)
3۔ ’’تذکرۃ السامع و المتکلم‘‘اور فن تعلیم پر ایک نظر(ماہ نامہ معارف ، دار المصنفین،اعظم گڑھ، دسمبر 1939)
پہلامضمون دائرۃ المعارف کے تعارف اور چالیس سالہ کارنامے پرنقد اور قیمتی مشورے پر مشتمل ہے۔دوسرا مضمون دوقسطوں میں شائع ہوا تھا اور اس میں بھی قدیم کتابوں کی اشاعت کی جانب رہ نمائی اور مطبوعات پر نقد وتبصرہ ہے جو بہت مفید ہے ۔آخری مضمون ایک کتاب پر علمی تبصرہ ہے۔ مؤلف سے میری التجا ہے کہ کتاب کی دوسری اشاعت سے قبل مذکورہ بالامضامین کی روشنی میں ضروری اضافہ کردیں گے تو کتاب کی افادیت دو چند ہوجائے گی ۔یہ کتاب حدیث اور علوم حدیث سے متعلق مطبوعات کے تعارف تک محدود ہے اگر اس میں عربی زبان و ادب سے متعلق تراث کی نشرواشاعت کو بھی شامل کرلیا جائے تو مزید مفید ہوسکتا ہے ۔ویسے ،زیرہ تبصرہ کتاب کو سامنے رکھ کریہ کام کوئی اور بھی کرسکتا ہے۔
٭ دائرۃ المعارف آصف جاہی حکومت کی سرپرستی میں قائم ہوا تھا ،اس ریاست کا ایک مختصر تعارف بھی شامل کتاب ہوتا تو ہندستانی مسلمانوں کی علمی خدمات کا ایک اجلا ورق بھی سامنے آجاتا اور ان کی علم دوستی اور علما نوازی کا سبق تازہ ہوجاتا۔دراصل اس ریاست کے سیاسی کردار کی وجہ سے قوم پرست لوگوں نے برطانوی استعمار سے تعاون اور ٹیپو سلطان کی گزارش کو درخور اعتنا نہ سمجھنے کی وجہ سے ہدف تنقید بنایا، اشتراکیت گزیدہ، کمیونسٹ اور فاشسٹ لوگوں نے ان کی جانب سنگ ملامت پھینکے ، خود ریاست کے لال بجھکڑوں کے نوشتۂ دیوار نہ پڑھنے کی وجہ سے بھی بھاری قیمت چکانی پڑی اور یہی سب موضوعات آج لوگوں کی زبان پر ہیں ۔ ایسے منظر نامے میں ریاست کی علمی خدمات کا تعارف بہت ضروری ہوجاتا ہے تاکہ ان کی علمی سرپرستی کا جو درخشاں باب نگاہوں سے اوجھل ہوتا جارہا ہے ،سامنے آجائے اور عوام ان کے سیاسی کردار کے ساتھ ان کے علمی نشاطات سے بھی متعارف ہوسکیں۔
٭ دائرۃ المعارف العثمانیۃ کا نام پہلے دائرۃ المعارف النظامیۃ تھا جیساکہ مولانا سورتی کے مضامین سے معلوم ہوتا ہے ۔ نام میں یہ تبدیلی کب اور کیسے ہوئی ؟ کتاب اس کے بارے میں خاموش ہے۔ مؤلف نے دائرۃ المعارف کے قیام کی تاریخ(1300 ھ۔1882 ء)لکھی(ص:17)جب کہ یہ ادارہ 1888 میں قائم ہوا تھا، مؤلف نے بھی(ص:29) پرحاشیے میں ادارے کے پہلے دور کا یہ سن (1308 تا1338 ھ)لکھا ہے۔مؤلف نے دائرۃ المعارف کے اراکین میں ایک نام(چوتھے نمبر پر)مولانا فضل حق خیرآبادی(ت:1278 ھ۔1861 ء)کا بھی لکھ دیا ہے (ص:40-41) جو اس ادارے کے قائم ہونے سے کچھ کم تیس سال پہلے وفات پاچکے تھے۔ان کے لڑکے مولانا عبدالحق خیرآبادی (1828 ۔1899)کچھ عرصے تک حیدرآباد دکن میں مقیم تھے۔میرا خیال ہے کہ غلطی سے بیٹے کی جگہ باپ کا نام لکھ دیا گیا ہے ۔ قمری اور عیسوی تقویم میں ایام کی کمی بیشی کی وجہ سے، دونوں کو ایک ساتھ لکھتے وقت سن میں ایک آدھ سال کافرق آجاتا ہے جیسے اس کتاب میں خواجہ الطاف حسین کی تاریخ وفات (1333 ھ۔1915 ء)لکھی ہے(ص:37)جب کہ سن عیسوی کے اعتبار سے ان کی تاریخ وفات 31 ؍دسمبر 1914 ہے ۔ اس سلسلے میں احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔
اس کتاب کے مؤلف ،راشد حسن مبارک پوری(استاذ جامعہ اسلامیہ فیض عام مئو ناتھ بھنجن،اترپردیش) کا شمار جدید نسل کے معتبر اہل قلم میں ہوتا ہے ،ان کا تعلق مبارک پور (اترپردیش)کے ایک معروف علمی خانوادے سے ہے جس نے علم حدیث کی نشرواشاعت میں کلیدی کردارادا کیا ہے ۔وہ خاندان کے علمی پس منظر کے سہارے بھی زندگی بسرکر سکتے ہیں لیکن وہ’’مری ہے منزل یہاں سے آگے‘‘کے مصداق خاندانی علمی روایت سے استفادہ کرتے ہوئے اس کو مزید وسعت اور تب و تاب عطا کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں اور اللہ کے فضل سے کام یاب بھی ہیں ۔ان کا جہان تخلیق متنوع ہے اور معیاری بھی ، ان کے یہاں زبان (عربی؍اردو)اور موضوع (اسلامیات؍ادبیات)دونوں لحاظ سے رنگارنگی اور بوقلمونی پائی جاتی ہے۔ان کے تخلیقی سفر کا ایک گوشہ اسلاف کی علمی تراث کے احیا اور عالم عرب میں ہند-اسلامی ادبیات کے تعارف سے عبارت ہے جو لائق صد تحسین ہے۔وہ تصنیف و ترجمہ نگاری کے ساتھ تحقیق و تدوین کا بھی اعلی اور عمدہ ذوق رکھتے ہیں اور کمال اعتماد کے ساتھ عربی اور اردو میں لکھتے ہیں،ان کے اسلوب نگارش میں علمیت اور ادبیت کی شان جلوہ گر ہوتی ہے۔مجھے لگتا ہے کہ ابھی ان کے علمی اور تخلیقی سفر کے بھرپور تجزیے کا وقت نہیں آیا ہے کیونکہ ان کا اشہب قلم تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہا ہے اور مجاز لکھنوی کے مصرعے ’’راستے میں رک کے دم لوں یہ میری عادت نہیں‘‘کی عملی تصویر ہیں۔ دعا ہے کہ وہ اسی طرح ورق ورق بصیرتوں کی روشنی سجاتے رہیں۔آمین
آپ کے تبصرے