روح کو کوئی شرم و عار نہیں
جسم سامان افتخار نہیں
دیکھ کر مجھ کو کھل رہی ہو کیوں
میں خزاں ہوں کوئی بہار نہیں
ایک ہی دل تھا، مر گیا وہ بھی
اب مجھے بھی کسی سے پیار نہیں
میں نے جھلا کے جو کیا سو کیا
غم نصیبی کا کوئی بار نہیں
بے قراری کا کر رہا ہوں علاج
پھر بھی دل کو مرے قرار نہیں
تم ہو وہ، جس کے آگے لگتا ہے
دل پے تھوڑا بھی اختیار نہیں
مسلک عشق و عاشقی میں حسن
ہوش والوں کا اعتبار نہیں
آپ کے تبصرے