یہ کیا کہ اہل خرد لگ رہے ہیں سب بیمار

حمود حسن فضل حق مبارکپوری شعروسخن

یہ کیا کہ عشق میں ناکامیاں ہی دکھتی ہیں

یہ کیوں کہ قیمتی چیزیں یہاں پے بکتی ہیں


یہ کیا کہ مجھ کو خلاف قیاس ہونا تھا

یہ کیوں کہ مجھ کو کسی دل کی آس ہونا تھا


یہ کیا کہ تو نہیں یادیں تری ستاتی ہیں

یہ کیوں کہ پہلے ہنساتی ہیں پھر رلاتی ہیں


یہ کیا کہ رنگ وفا زرد پڑ رہا ہے اب

یہ کیوں کہ ذوق جنوں سرد پڑ رہا ہے اب


یہ کیا کہ یاد نہیں ہم کو نیند کب آئی

یہ کیوں کہ بھیڑ بھی دینے لگی ہے تنہائی


یہ کیا کہ اہل خرد لگ رہے ہیں سب بیمار

یہ کیوں کہ اہل جنوں دکھ رہے ہیں سب بیدار


یہ کیا کہ روگ عجب لگ گیا مرے من کو

یہ کیوں کہ کوئی بھی پہچانے نہ مرے فن کو


یہ کیا کہ اپنے بھی سب ہو گئے ہیں بے گانے

یہ کیوں کہ سائے لگے ہیں پسینہ ٹپکانے


یہ کیا کہ حرف دعا میں تمھارا ذکر نہیں

یہ کیوں کہ سب کی خبر ہے تمھاری فکر نہیں


یہ کیا کہ شکوۂ اہل جہان ہے ہم کو

حقیقتوں پے بھی کچھ کچھ گمان ہے ہم کو


خدا کا شکر مگر حوصلہ سلامت ہے

قنوط کفر ہے، بے چارگی ملامت ہے


یہ کیوں کہ تیر لگا آہ تک نہیں آئی

حسن نے شعر پڑھا واہ تک نہیں آئی

آپ کے تبصرے

3000