بزم میں تذکرہ درد جگر آیا ہے
ذہن میں سب کے ترا نقش ابھر آیا ہے
ہوگئی اب تو تمناؤں کی رنگت پیلی
خون دل سارا نگاہوں میں اتر آیا ہے
کتنی آنکھوں کے بدلتے ہوئے تیور دیکھے
تب کہیں آنکھ ملانے کا ہنر آیا ہے
کسی چہرے سے لگاؤ نہ محبت کا پتا
کب بھلا بحر کے ساحل پہ گہر آیا ہے
شیشہ مرگ سے جب ہٹ گئی گرد دنیا
چہرہ زیست بدستور نظر آیا ہے
ترکہ عشق سے ان کو تو ملا دیدہ نو
اور حصے میں مرے دیدہ تر آیا ہے
مجھ کو احساس نہ تھا رشتہ جسم و جاں کا
ہائے جب یاد وہ دوران سفر آیا ہے
آپ کے تبصرے