ابلیس کا دام ہمرنگ زمین (٢)

رشید سمیع سلفی تعلیم و تربیت

قرآن میں اللہ تعالیٰ نے ابلیس کے دوسرے ہتھکنڈوں اور حربوں کا بھی ذکر فرمایا ہے،ضروری ہے کہ قرآن کے اس بیان کے تناظر میں حالات حاضرہ کا ایکسرے لیا جائے تاکہ پتہ تو چلے کہ ابلیسی کارستانی کہاں کہاں انسانیت کے خرمن پر بجلی گرارہی ہے؟ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُبَتِّكُنَّ آذَانَ الْأَنْعَامِ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللَّهِ ۚ وَمَن يَتَّخِذِ الشَّيْطَانَ وَلِيًّا مِّن دُونِ اللَّهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُّبِينًا (نساء:۱۱۹)اور انھیں راہ سے بہکاتا رہوں گا اور باطل امیدیں دلاتا رہوں گا اور انھیں سکھاؤں گا کہ جانوروں کے کان چیر دیں اور ان سے کہوں گا کہ اللہ تعالٰی کی بنائی ہوئی صورت کو بگاڑ دیں ، سنو! جو شخص اللہ کو چھوڑ کر شیطان کو اپنا رفیق بنائے گا وہ صریح نقصان میں ڈوبے گا۔

غور کیجیے وہ کہتا ہے میں انھیں گمراہ کروں گا،دنیا میں انسان کی ہمہ گیر ضلالت کے بعد ابلیس کے اس وعدے کی سچائی پر کسی تشریح کی ضرورت نہیں ہے،وہ ضلالت اور گمراہی میں سروقد انسانیت کو غرق کرچکا ہے،دوسری قومیں تو گمراہ تھیں،اس نے مسلمانوں میں بھی ضلالت وغوایت کی مہم چھیڑ کر اکثریت کو گمراہی و ضلالت کےغار میں دھکیل دیا ہے،گمراہ قوموں کا وہ کون سا گناہ ہے جس تک امت محمدیہ کو نہیں پہنچایا ہے،انسانی تاریخ کا بدترین شرک امت محمدیہ کررہی ہے،وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود کی تفصیلات میں جائیے تو قرآن کا نظریۂ توحید ایک مذاق نظر آتا ہے اور قبوری شریعت اور تصوف کے بعض مسائل پر غور کیجیے تو پوری اسلامی شریعت معطل ہوکر رہ جاتی ہے،آپ کیا کہیں گے جب ایک پہنچا ہوا صوفی حدیث کا حوالہ سن کر کہتا ہے کہ ہم ڈایرکٹ اللہ سے روایت کرتے ہیں،یہ تمھاری سندیں ہمارے کسی کام کی نہیں،ابلیس نے مسلمانوں میں ضلالت کا ایسا دام ہمرنگ زمین بچھایا کہ تسبیح بکف مولوی یہود ونصاریٰ سے بھی دوقدم آگے نکل گیا ہے،اب وہ سب کچھ قبروں پر ہورہا ہے جو مشرکین مکہ بتوں کے لیے کرتے تھے،قبوری شریعت کا پورا لٹریچر امت میں صرف شرک کو فروغ دینے کے لیے ہے،کیا شرک کے بعد بھی ضلالت کی کوئی سرحد باقی رہ جاتی ہے؟

دوسری بات اس نے بتائی کہ میں انھیں آرزوئیں دلاؤں گا،امیدیں دلاؤں گا،آج یہ امت تشنہ امیدوں اور نامراد آرزوں کے ازدہام میں زندگی گزاررہی ہے،روزانہ نہ معلوم کتنے آرزو دل کے ریشوں میں تشکیل پا کر شعور کی زمین پر بس جاتے ہیں،پھر اس کی تکمیل کے لیے وجود کی پوری مشنری حرکت میں آجاتی ہے،آرزؤیں اتنی کہ عمر نوح بھی شرماجائے،انسان‌کا دل تشنہ تکمیل آرزوں کا ایک مدفن بنا ہواہے،انسان یہ جانتے ہوئے کہ مرنا ہے،مرکر قبر میں اترنا ہے لیکن ہوش کے ناخن اس لیے نہیں لیتا کہ ابھی زندگی پڑی ہے،ابھی تو شباب ہے،جبکہ موت گھات میں ہے،وہ عمر اور حالات نہیں دیکھتی ہے،کتنے ہیں جو روزانہ جوانمرگی کا شکار ہورہے ہیں،کتنے ہیں جو حادثات میں زندگی ہار جارہے ہیں؟موت کا تماشا جاری وساری ہے،لیکن انسان آرزؤوں کے لق ودق صحرا میں سرگرداں ہے،وہ سمجھتا ہے کہ زندگی کا سفر ابھی لمبا ہے،جب وقت قریب آئے گا توبہ کرلیں گے،ابھی سے دینداری اور تقوی کا آزار کیوں پال کر رکھیں۔

اب تو آرام سے گذرتی ہے

عاقبت کی خبر خدا جانے

یہود نے کہا:

وَقَالُواْ لَن يَدْخُلَ ٱلْجَنَّةَ إِلَّا مَن كَانَ هُودًا أَوْ نَصَٰرَىٰ ۗ تِلْكَ أَمَانِيُّهُمْ ۗ قُلْ هَاتُواْ بُرْهَٰنَكُمْ إِن كُنتُمْ صَٰدِقِينَ(بقرة:۱۱۱)یہ کہتے ہیں کہ جنت میں یہود و نصاریٰ کے سوا اور کوئی نہ جائے گا ، یہ صرف ان کی آرزوئیں ہیں ان سے کہو کہ اگر تم سچے ہو تو کوئی دلیل تو پیش کرو ۔

غور کیجیے آرزؤوں کے اس بہار صدرنگ کی اسیر کیا امت مسلمہ نہیں ہے؟ہر جماعت اور گروہ اپنے تئیں جنت کا بلاشرکت غیرے مالک سمجھ بیٹھاہے،اس نفسیات میں یہود ونصاریٰ مبتلا ہوکر ہمیشہ دست وگریباں رہے،امت مسلمہ میں بھی یہ خبط خوب پھلا پھولا ہے،اختلاف وانتشار کو ہوا دینے میں جنون برتری وتقدس کا بہت بڑا دخل ہے،برتری کا یہ جام نوش کرنے کے بعد جو عالم مدہوشی طاری ہوتی ہے اس میں ساری انسانی واخلاقی قدریں بہہ جاتی ہیں،آرزؤوں کا یہ نشہ امت محمدیہ نے بھی کیا، آج یہ نشہ اپنے شباب پر ہے،مسلمانوں میں تکفیر کا فتنہ اسی فکری لت کا شاخسانہ ہے،خود کو حق کا نمائندہ اور دوسروں کو طاغوت کا علمبردار سمجھنے کی خو ہر طرف نظر آرہی ہے،یہ دور یہودیت ونصرانیت بہت پہلےگذر چکا ہے،امت مسلمہ کا اس ڈگر پر چلنا یقینی تھا کیونکہ نبی کی پیشین گوئی یہی تھی:

لَتَتَّبِعُنَّ سَنَنَ مَنْ قَبْلَكُم شِبْرًا بشبْر، وذراعًا بذراع، حتَّى لو سَلَكُوا جُحْر ضَبٍّ لَسَلَكْتُمُوهُ

تیسری بات ابلیس نے یہ کہی کہ میں اسے حکم دوں گا اور یہ جانوروں کے کان چیر دے گا تاکہ یہ ان کے خداؤں کے لیے وقف شدہ جانور کی حیثیت سے دیکھا جائےاور احترام کیاجائے،جانوروں کے تقدس واحترام کا نظریہ بھی شیطان کا پروان چڑھایا ہوا ہے،وہ جو اشرف المخلوقات تھا اور پوری کائنات جس کے لیے وجود میں لائی گئی تھی وہ بھی اس کی تقدیس کے آگے سر بسجود ہے،الگ الگ مقامات پر الگ الگ انداز میں تقدیس کے اس تصور پر عمل کیا جارہا ہے،مسلم اور غیر مسلم کی تفریق نہیں ہے،مسلمانو‌ں کا ایک طبقہ بھی جانوروں کو غیر اللہ کے نام پر آزاد کردیتا ہے،ہمارے یہاں گائے اور بیل کو قومی جانور قرار دے کر اس کی تعظیم کی جاتی ہے،گائے کے تقدس واحترام میں تو انسانی جانوں کو بھی اہمیت نہیں دی جاتی ہے،سیکڑوں جانیں اس ملک میں گائے کے نام پر لے لی گئی ہیں،کسی بھی انسان کےقتل کے لیے صرف ایک شک کافی ہے کہ اس کے پاس گائے کا گوشت ہے۔

ابلیس آگے کہتا ہے،میں انسان سے اللہ کی تخلیق میں رد‌وبدل اور تغیر کراؤں گا،یہ شیطان کا خطرناک حربہ تھاجسے اس نے انسانیت پر آزمایا،اللہ کی فطرت سے چھیڑ خوانی موجودہ دور میں سنگین صورت اختیار کرچکی ہے،یہ خطرناک عمل شیطان کے آشیرواد سے اتنا ترقی کرچکا ہے کہ بیوٹی پارلروں میں حسن و خوبصورتی کے نام‌ پر جو کچھ ہورہا ہے وہ تو معمولی ہے،جلد کے رنگ تبدیل کرانا،بھؤوں کے بال نکالنا،بال میں بال جوڑوانا،پلاسٹک سرجری کے ذریعے چہرےکا ناک نقشہ تبدیل کرنا،بدن پر ٹیٹو بنوانا تو ادنی درجہ ہے،اب انسان اس راستے پر بہت دور تک چلا جانا چاہتا ہے،اگر یقین نہ آئے تو رحم مادر میں انسانی تصرفات کے جدید طریقوں پر غور کرلیجیے،ٹیسٹ ٹیوب بے بی کا طریقۂ حمل و ولادت کیا ہے؟اللہ نے حمل وولادت کا جو طریقہ رائج کیا تھا،یہ اس سے علیحدہ طریقہ ہے،اللہ کے نظام کو سمجھ کر اپنے من موافق حمل و ولادت یہ فطرت سے چھیڑ چھاڑ ہے،علماء نے جن طریقوں کے جواز کا فتویٰ دیا ہے،فی الحال اس سے بحث نہیں ہے،بحث اس پر ہے کہ میاں بیوی اگر حمل و ولادت کے جھمیلوں سے بچنا چاہتے ہوں تو وہ کسی عورت کا رحم بطور کرایہ لےکر اپنے بچے کی نشوونما اس عورت کے رحم میں کراتے ہیں،ولادت ہوتی ہے،عورت پیسہ لے کر چلی جاتی ہے،بچہ میاں بیوی کو دے دیا جاتا ہے،اس بچے سے اس عورت کا کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے جو اس نومولود کو چند مہینے نہ صرف اپنے رحم میں نشو نما دیتی ہے بلکہ اسے درد زہ اٹھا کر پیدا بھی کرتی ہے،کیا یہ اللہ کی تخلیق میں ردوبدل نہیں ہے؟یہ ابلیس کے اسی حربے کا شاخسانہ ہے۔

آگے بڑھتے ہیں، genetic engineeringکی ترقی کے بعد اللہ کی تخلیق سےچھیڑچھاڑ کا سلسلہ دراز سے دراز تر ہوتا جارہا ہے،مستقبل میں اور نہ جانے کیسے کیسےمحیرالعقول واقعات سامنے آئیں گے،ایک جاندار کے خلیے کو ایک مخصوص پروسیس سے گزراکر اسی جیسا دوسرا جاندار پیدا کرنے کی روش تو عام ہوچکی ہے،نباتات اور جانوروں پر تجربے ہورہے ہیں لیکن دعویٰ اس بات کا بھی ہے کہ انسان پر بھی یہ تجربہ کامیابی سے ہم کنار ہوگا۔

نظام کائنات میں اتھل پتھل بھی فطرت‌ سے چھیڑچھاڑ کا نتیجہ ہے،گلوبل وارمنگ پر مسلسل عالمی تشویش بڑھتی جارہی ہے،انٹارکٹکا کا برف پگھل پگھل کرسمندر میں سمارہا ہے،سمندر کی سطح بلند ہورہی ہے،اس کا نتیجہ یہ ہوگاکہ ساحلی علاقے زیرآب ہوجائیں گے جس کے خدشات ماہرین ظاہر کررہے ہیں،زمین کے درجۂ حرارت میں اضافہ،اوزون پرت میں شگاف،موسمیاتی تبدیلیاں اور نئی نئی بیماریوں کا پیدا ہونا،فضائی آلودگی جیسے مسائل سے دنیا جوجھ رہی ہے اور اس پر کانفرنسیں اور سیمینار بھی ہورہے ہیں،بحران کے زیادہ ذمےدار ممالک کو پابند کرنےکی کوشش بھی کی جارہی ہے،انسان جنگلات کو ختم کرکے اونچی اونچی بلڈنگیں بنا رہا ہے،ندیوں کو پاٹ کر زمین کے برابر کررہا ہے،کثرت سے باندھ اور پل تعمیر کررہا ہے،انسانی کارستانی کے نتیجے میں زہریلی گیسیں خلاووں اور فضاؤں کو مسموم کررہی ہیں،گلوبل وارمنگ کا مسئلہ سائنسدانوں کے لیے دردسر بنا ہوا ہے،اندازہ لگاییے کہ انسان کس طرح زمین پر ابلیسی چالوں کا آلۂ کار بنا ہوا ہے،شیطانی شہ انسان کو فطرت میں دخل اندازی کے اس مقام پر پہنچاچکی ہےکہ کرۂ ارض پر انسان کی بقا وسالمیت خطرے میں نظر آرہی ہے،لہذا اس حقیقت کو گہرائی سے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ شیطان انسان کا کتنا بڑا اور خطرناک دشمن ہے اور وہ آدم کی اولاد سے اپنی ازلی دشمنی کا بدلہ لینے کے لیے کس حد تک جاسکتا ہے،پس اے اللہ شیطان سے تیری پناہ۔

آپ کے تبصرے

3000