وحشت کے سوا دل میں سامان نہیں کوئی
ہمدم تو کجا گھر میں مہمان نہیں کوئی
ہر رات مجھے آنکھیں آنسو ہی پلاتی ہیں
پی پی کے سنبھل جانا آسان نہیں کوئی
خوابوں کا وطن اُجڑا، پھر بھی وہ سمجھتا ہے
بھیگی ہوئی پلکوں میں طوفان نہیں کوئی
جاتے ہوئے کہتے ہو ہر خط کو جَلا دینا
یہ دل ہے مرے پیارے شمشان نہیں کوئی
بس وصل کے قطروں سے کیوں پیاس بجھاتے ہو
کیا ہجر کے آنسو کا ارمان نہیں کوئی
کیوں عشق نہیں پھلتا بن اشک کی بارش کے
یہ دل کا چمن ارضِ ویران نہیں کوئی
آنکھوں کے سمندر سے رخسار کے ساحل تک
ہم ڈوبنے والوں کا پُرسان نہیں کوئی
اِس حسن کی گرمی میں بس زلف ہی سایہ ہے
اس بات سے اے کاشف انجان نہیں کوئی
لا جواب احساسات کی ترجمانی