پھولوں کی شکل اوڑھ کے بیٹھے ہیں خار لوگ

حمود حسن فضل حق مبارکپوری شعروسخن

پھولوں کی شکل اوڑھ کے بیٹھے ہیں خار لوگ

اللہ کی پناہ یہ بے اعتبار لوگ


اچھا ہوں یا برا ہوں یا کس راہ پر ہوں میں

کیا فیصلہ کریں گے مرا اب دو چار لوگ؟


وہ شوخ جس نے چھین لیا ہے قرار جاں

لپکے ہیں پھر اسی کی طرف بے قرار لوگ


کرتے ہیں چاک سینہ و دامان ایک ساتھ

مشکل سے جا کے ملتے ہیں ہم دل فگار لوگ


چھیڑا جو ذکر عہد وفا بے وفاؤں کا

پہلو میں آ کے بیٹھ گیے غم گسار لوگ


طوفاں نہ ہم کو روک سکا، اب یہ حال ہے

حائل ہیں اپنی راہ میں گرد و غبار لوگ


تیرا وصال اپنے مقدر کا عیش تھا

لیکن انائے ہجر کے ہم ہیں شکار لوگ


کیا کیا نہ اس جہان ستمگر نے لے لیا

ہیں زندگی کے سامنے بے اختیار لوگ


کہنے لگے حسن ہی ہمارا امام ہے

تنہائیوں کی صف میں کھڑے بے شمار لوگ

آپ کے تبصرے

3000