صحرا میں پھر رہا ہوں شجر دیکھو کب ملے

عبدالکریم شاد شعروسخن

محفل میں یوں تو لوگ بہت با ادب ملے

لیکن پھر اس کے بعد عجب ان کے ڈھب ملے


تنہائیوں نے ساتھ نہ چھوڑا کبھی مرا

ملنے کی طرح مجھ سے مرے یار کب ملے


ہم تیشہ جنوں لیے پھرتے ہیں در بہ در

کوئی ہمیں بھی کوہ کنی کا سبب ملے


اک آدمی کی مجھ کو سدا جستجو رہی

ملنے کو یوں تو یار بہت روز و شب ملے


دن بھر جو رفعتوں کے پیمبر بنے رہے

ہوتے ہی شام وہ سر بزم طرب ملے


انسان تو کوئی نظر آیا نہیں مگر

جو بھی ملے وہ صاحب نام و نسب ملے


بازار میں تلاش تھی آب حیات کی

سارے دکان دار مجھے جاں بہ لب ملے


اے شاد! مجھ دوانے کو آرام اب کہاں

صحرا میں پھر رہا ہوں شجر دیکھو کب ملے

آپ کے تبصرے

3000