برصغیر ہندوپاک میں جماعت اہل حدیث کی صحافتی خدمات کی تاریخ کافی وسیع ہے، سلفیان ہند جہاں ایک طرف سیف وسنان کے ساتھ باطل طاقتوں سے نبرد آزما تھے، مسند تدریس پر جلوہ افروز ہوکر تعلیم وتعلم کی مجلسیں سجائے ہوئے تھے وہیں ان سب کے شانہ بشانہ ان محترم حضرات کا قلمی کارواں بھی پورے زور وشور سے رواں دواں تھا، مولانا ثناء اللہ امرتسری (م۱۹۴۸ء) کا اخبار اہل حدیث، مولوی محمد حسین بٹالوی (م:۱۹۲۰ء) کا اشاعت السنہ، مولانا محمد جوناگڑھی (م ۱۹۴۱ء) کا اخبار محمدی، مولانا ابوالکلام آزاد (م۱۹۵۸ء)کے الہلال والبلاغ، مولانا تقریظ احمد سہسوانی(م۱۹۷۱ء) کا اہل حدیث، مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کا جریدہ ترجمان وغیرہ اسی سلسلۃ الذہب کی کڑیاں ہیں جنھوں نے جماعت کے ہدف اور نصب العین کو سامنے رکھتے ہوئے اسلامیان ہند کے لیے آوازیں بلند کیں اور ہندوستان کے صحافتی باب میں انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔
محترم ابن احمد نقوی (عبدالقدوس ابن احمد اطہر نقوی) کا نام بھی اسی صحافتی کارواں میں شمار کیا جاتا ہے، محکمہ کارپوریشن کے ایک غیر علمی پیشے سے وابستہ ہوتے ہوئے نقوی صاحب نے جب میدان صحافت میں قدم رکھا تو اسے لالہ وگل سے آراستہ وپیراستہ کر دیا، تاریخ اہل حدیث سے ادنی شغف رکھنے والوں کے سامنے سیدتقریظ احمد سہسوانی کا نام اجنبی نہیں ہوگا، مولانا محمد جوناگڑھی کی وفات کے بعد سہسوانی صاحب کے ذمہ اخبار محمدی کی ادارت آئی، بعدہ ۱۹۵۰ء میں اخبار اہل حدیث کا از سر نو اجرا ہوا تو اس کے مدیر مقرر کیے گئے، مرحوم مدرسہ دارالحدیث رحمانیہ جب فسادات کی نذر چڑھ کرخانماں برباد ہوگیا تو مولانا ابوالکلام آزاد نے بعض اہل حدیث حضرات سے رابطہ کر کے فرمایا تھا کہ مدرسہ رحمانیہ میں اگر کسی طرح چھوٹے بڑے پیمانے پر درس وتدریس کا سلسلہ شروع ہوجاتا تو یہ محفوظ رہتا، اس کاز کے لیے مولانا نے مدرسے کے ایک حصے میں سید تقریظ احمد سہسوانی کوبٹھادیا اورچند طلبہ ان کے سپرد کیے، مگر فسادات کی تندی کے سبب یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔ ابن احمد نقوی سہسوانی صاحب کے صاحبزادے ہیں۔ عزیز دوست محمد عاصم افضال (جامعہ ام القری مکہ مکرمہ) نے نقوی صاحب کے مختصر حالات زندگی قلم بند کیے ہیں جو دی فری لانسر(آن لائن) پر دستیاب ہیں۔
زیر نظر کتاب ابن احمد نقوی صاحب کے مقالات کا انتخاب ہے جسے مشہور صحافی جناب سہیل انجم نے بڑی محنت اور عرق ریزی کے بعد’’التوعیہ‘‘ کی فائلوں سے جمع کیا ہے، محنت اور عرق ریزی بایں معنی کہ ایک ہزارسے زائد صفحات پر مشتمل موصوف کے قلمی کارناموں کا بدقت مطالعہ، نظر ثانی اور پھر حسن انتخاب بجائے خود ایک پرمشقت عمل ہے، سہیل انجم کے الفاظ میں :’’ ۔۔۔۔۔کچھ دنوں کے بعد انھوں نے التوعیہ میں شائع ان کے مضامین کے تقریبا ایک ہزار صفحات کی زیراکس کاپی میرے پاس بھیج دی، صرف اتنا ہی نہیں بلکہ جناب عبدالستار نے پیام توحید اور استدراک میں شائع ان کے متعدد مضامین بھی فراہم کر دیے، اس طرح کل صفحات گیارہ بارہ سو تک پہنچ گئے، اتنے مضامین کو پڑھنا اور پھر ان میں سے انتخاب کرنا ایک مشکل امر تھا۔۔۔۔۔۔۔۔اس طرح یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ بہت سخت انتخاب کرنا پڑا۔‘‘ (ص:۷،۸) تقریبا ایک ماہ قبل دلی کے شاہین باغ میں اس کتاب کا اجرا عمل میں آیا، اس علمی مجلس میں مولانا رفیق احمد رئیس سلفی، مولانا ابو اشعر فہیم، جناب سہیل انجم اور محترم ابن احمد نقوی، ڈاکٹر جابر زماں، مولانا صلاح الدین مقبول اور مولانا عبدالقدیر سلفی جیسی مقتدر شخصیات نے شرکت کی، استاد محترم مولانا محمد ابوالقاسم فاروقی صاحب مسند صدارت پر جلوہ افروز ہوئے۔
زیر نظر کتاب بعنوان ’’مقالات ابن احمد نقوی‘‘ مرتبہ سہیل انجم درمیانہ سائز کے ۴۶۸ صفحات پر مشتمل ہے، دانش کدہ پبلیکیشن مئو ناتھ بھنجن کی طرف سے امسال یہ کتاب شائع ہوئی ہے جس میں ۴۰ مقالات شامل ہیں، ابتدا میں سہیل انجم صاحب کا پانچ صفحاتی پیش لفظ اور بعدہ ۸ صفحات میں نقوی صاحب کا ’’من کہ۔۔‘‘ کے عنوان سے ذاتی تعارف ہے، مقالات کے انتخاب میں تنوع وتعدد کا خاص خیال رکھا گیا ہے، زیادہ تر مضامین سیاسی نوعیت کے ہیں، علاوہ ازیں مولانا آزاد پر ۵ مضامین، مختلف شخصیات پر ۵ مضامین، ایک سفرنامہ جو چار قسطوں پر مشتمل ہے، عالم اسلام کے حوالے سے ۸ مضامین اور باقی مقالات میں ہندوستانی مسلمانوں کے مسائل مثلا فرقہ پرستی، بابری مسجد، مشترکہ سول کوڈ، فرقہ وارانہ فساد وغیرہ پر گفتگو کی گئی ہے، مرتب نے ان تمام مضامین کو ایک ترتیب کے ساتھ شامل کتاب کیا ہے۔
ابن احمد نقوی کے قاری کو سب سے پہلے اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ مقالہ نگار نے اپنی تحریروں کو جذبات نگاری سے حد درجہ دور رکھا ہے، موصوف اپنے قارئین کو جذباتیت اور وجدانیت میں غرق کرکے ان سے خراج تحسین نہیں لوٹتے، وہ ملک کے پرآشوب ماحول کا حقیقت پسندانہ اور منطقی تجزیہ کرنے پر یقین رکھتے ہیں، قارئین کو یاد ہوگا کہ ایک زمانہ تھا کہ اردو صحافت میں جذبات نگاری کا دور دورہ تھا، بہت سارے یومیہ، ہفتہ وار اخبارات ومیگزین جذباتی تحریروں کے ذریعہ قارئین کے خون کو گرم کر دیتے اور خوب واہ واہی لوٹتے، نقوی صاحب نے اس طرز تحریر کو نہیں اپنایا، بقول مرتب: ’’وہ کسی بھی مسئلے کے ہر پہلو کو انتہائی سنجیدگی کے ساتھ رکھتے اور حقیقت پسندانہ طرز استدلال اختیار کرتے۔ وہ قارئین کو جذباتیت کا انجکشن لگا کر اپنے مداحوں کی تعداد بڑھانے سے گریز کرتے اور مسائل پر سنجیدگی سے غور کرنے پر زور دیتے رہے۔‘‘ (ص۶) مولانا رفیق احمد رئیس سلفی کے بقول: ’’وہ جس موضوع پر قلم اٹھاتے ہیں اس کے تمام پہلوؤں کا بڑی باریک بینی سے جائزہ لیتے اور استدلالی انداز میں نتائج کا استخراج کرتے ہیں، انھوں نے اپنے ہر مضمون میں مسلمانوں کو جذباتیت کو ترک کرنے کی تلقین کی۔‘‘ (خطاب بموقع رسم اجرا، بحوالہ قومی آواز) خود نقوی صاحب کا کہنا ہے کہ ’’میں نے جب سے لکھنا شروع کیا ہے کبھی جذباتیت کو نہیں اپنایا۔‘‘ (ص۱۵)
نقوی صاحب کا سیاسی شعور بہت ہی رچا ہوا ہے، انھوں نے ہندوستان کے فرقہ وارانہ ماحول کا بنظر غائر جائزہ لیا ہے، ان کی دوراندیش نظروں کے سامنے آزاد ہندوستان کی نصف صدی کی تصویر ہے جو بہت تیزی سے تبدیل ہوتی جارہی ہے، فرقہ واریت اور فسطائیت کا عفریت پورے ملک میں دندناتا پھر رہا ہے، بایں موقع وہ قائدین ملت کی بے بصیرتی اور غیر دانشمندی پر بھی شکوہ کناں ہیں، فرماتے ہیں: ’’حقیقت یہی ہے کہ ہمارے ان بے بصیرت قائدین نے فضول اور لاطائل بحثوں اور کٹ حجتی کے ذریعے اکثریت کے ذہن کو خراب کیا، انھیں یہ یقین کرنے پر مجبور کر دیا کہ مسلمان اپنی فکر میں انتہا پسند اور بے لچک ہوتے ہیں۔‘‘ (ص۴۲)
مذکورہ کتاب کی روشنی میں نقوی صاحب کے سیاسی افکار ابھر کر سامنے آتے ہیں، ان مضامین کا مطالعہ کرنے کے بعد قاری اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ موصوف ہندو مسلم اتحاد کے پرجوش حامی ہیں، انھیں مسلمانوں سے شکایت ہے کہ انھوں نے ملکی سیاست میں کبھی سنجیدگی سے حصہ ہی نہیں لیا اور ہمیشہ جذبات کے طوفان میں بہہ گئے، مسلمانوں کو اپنے سیاسی دھارے میں تبدیلی کی اشد ضرورت ہے، انھیں یہ بھی اقرار ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ سیاست میں ہمیشہ متعصبانہ رویہ روا رکھا گیا ہے (اور اس پر انھوں نے بہتیری مثالیں بھی پیش کی ہیں مثلا مولانا ابوالکلام آزاد، رفیع احمد قدوائی، ڈاکٹر ذاکر حسین، برکت اللہ خان، عبدالغفور، آصف علی،ص۵۰،۵۳) تاہم ان تمام تیرہ بختیوں کے باوجود ان کی فکر میں امید کی ایک کرن روشن ہے، وہ اس ظلمت کدہ شب سے پریشان ضرور ہیں تاہم ناامید بالکل بھی نہیں ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بیشتر مضامین کے اختتام پر وہ حوصلہ افزا کلمات اور امید وبیم کے الفاظ ضرور رقم کرتے ہیں، ایک مقام پر لکھتے ہیں: ’’قومیں ایسی ہی صبر آزما جدوجہد سے زندگی پاتی ہیں، قربانیاں ہی ملت کی تاریخ کا روشن ترین باب ہیں، وقت پھر ہم سے ایسی ہی قربانیوں کا مطالبہ کر رہا ہے۔‘‘(ص۳۶)
ملی مسائل پر گفتگو کرتے ہوئے فاضل مقالہ نگار بابری مسجد کا مقدمہ بڑے زور وشور سے اٹھاتے ہیں، ظاہر ہے کہ یہ صرف ایک عبادت گاہ کی شہادت نہیں تھی بلکہ ایک قوم کی مذہبی شناخت پر وار اور اس کے ورثے پر ناجائز دراندازی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی ثقافت کی بقا کا مسئلہ بھی در پیش ہے، فاضل مقالہ نگار کبھی تو بابری مسجد کو مسجد اقصی سے جوڑتے ہیں بایں معنی کہ دونوں مساجد مظلومیت کا نشان بن چکی ہیں، اور کبھی غیر مسلموں کے مذہبی مقدسات کی توڑ پھوڑ پر بعض مسلم حکمرانوں (مثلا اورنگ زیب عالمگیر، محمود غزنوی) کو بھی نشانہ بناتے ہیں، موصوف کا تاریخی مطالعہ بھی کافی عمیق ہے، بہت سارے مضامین میں جب ان کا راہوار قلم جوش مارتا ہے تو سیاست کی پر پیچ وادیوں کا سفر کرتے ہوئے وہ تاریخ کے جھروکوں میں گم ہو جاتے ہیں اور کسی معمولی وغیر معمولی مناسبت سے معلومات کا انبار لگا دیتے ہیں ۔
زیر نظرکتاب میں امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد پر پانچ مضامین شامل ہیں، علاوہ ازیں دیگر مضامین میں متعدد مقامات پر ضمنا آزاد کا تذکرہ ہوا ہے، محسوس ہوتا ہے کہ فاضل مقالہ نگار مولانا ابوالکلام آزاد سے کافی متاثر ہیں اور ان کے سیاسی افکار کو بنظر تحسین دیکھتے ہیں، جواہر لال نہرو اور گاندھی جی کی سیاست کی بھی مدح سرائی کرتے ہیں اور انھیں سیکولر لیڈر گردانتے ہیں، سردار پٹیل پر تاریخی حوالوں سے کافی تنقید کرتے ہیں اور آزادی کے بعد بطور وزیر خارجہ ان کے رول پر سخت لعن طعن کرتے ہیں، تاہم اس ضمن میں ’’سی پارہ آزاد‘‘ کے عنوان سے جو مضمون قلم بند کیا ہے اس میں مولانا آزاد کے موقف کا بھی سخت محاکمہ ومحاسبہ کیا ہے بلکہ ان افکار (وہ اوراق جو مولانا کی وفات کے تیس سال بعد شائع ہوئے) کی آزاد کی طرف نسبت کرنے میں بھی فاضل مقالہ نگار متردد ہیں۔(ملاحظہ ہو صفحہ ۱۰۰، ۱۰۱)
ابن احمد نقوی ایک کہنہ مشق قلمکار ہیں اور ان کا تعلق اس جماعت سے ہے جس نے اپنے نظریات وافکار میں منہج سلف کو پوری وسعت ظرفی کے ساتھ قبول کیا ہے اور موصوف نے موقع بموقع اس نسبت کا اظہار بھی کیا ہے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’میں نے اپنے مضامین میں سلفیت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی تاکہ سلفیوں میں اپنے ماضی سے کماحقہ واقفیت ہو۔‘‘(ص:۱۵) بعض دیگر مقامات پر بدعت اور اہل بدعت کی سخت سرزنش کی ہے (ملاحظہ ہو ص:۱۸۵، ص۱۸۷) ایک مضمون ’’مولانا آزاد اور مسلک اہل حدیث‘‘ (ص۱۲۰،۱۳۸) میں مولانا آزاد مرحوم کی مسلک اہل حدیث سے وابستگی اور لگاؤ کو اجاگر کیا ہے اور اس ضمن میں تاریخ اہل حدیث کے بہت سارے گوشوں سے پردہ اٹھایا ہے تاہم مولانا آزاد کی اہلحدیثیت سے متعلق معلومات ہنوز تشنہ ہیں، مقالہ نمبر ۲۶ کے تحت ’’ملا عبدالنبی: عہد اکبری کا اہل حدیث عالم‘‘ (ص۲۹۳،۳۱۲) پر سیر حاصل گفتگو کی ہے، متعدد مقامات پر سرسید احمد خان کی وہابیت پر بھی روشنی ڈالی ہے۔
فاضل مقالہ نگار کا اسلوب انتہائی شستہ، سلیس اور رواں ہے، یہ وہی اسلوب ہے جو صحافت کی جان ہے، عبارت میں سادگی ہے جو بسا اوقات سہل ممتنع کا احساس دلاتی ہے، تصویر کشی اور منظر نگاری میں نقوی صاحب کا طرز تحریر قاری کو اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے، شاہ سعود کی ہندوستان آمد (۱۹۵۶ء) کی بہت ہی خوبصورت عکاسی کی ہے، حالانکہ اس مضمون کی تاریخ کتابت ۲۰۱۶ تحریر ہے، تقریبا ساٹھ سال بعد اس واقعے کی بہترین منظر کشی قابل تعجب ہے، اپنے دو عزیز القدر دوستوں پروفیسر نورالحسن انصاری (ص۳۲۷،۳۴۱) اور پروفیسر عبدالودود اظہر دہلوی (ص۳۴۱،۳۵۲) کا بہترین خاکہ حوالہ قرطاس کیا ہے، ان مضامین میں مولانا مجاز اعظمی اور فضا ابن فیضی کا بھی ضمنا متعدد بار تذکرہ ہوا ہے۔ کل ملا کر نقوی صاحب کے متعلق کہا جاسکتا ہے کہ ان کا سیال قلم اکیسوی صدی کے قاری کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔
کتاب کی طباعت دیدہ زیب ہے اور اس میں کتابت کی غلطیاں نہ کے برابر ہیں تاہم بعض مقامات پر یہ اغلاط در آئی ہیں، مثلا ۱۳۲ پر ایک کتاب کے حوالے میں مصنف کا نام محمد عزیز سلفی لکھا ہے، جب کہ صحیح محمد عزیر(محمد عزیر شمس، محقق) ہے،ص۳۱۴ پر مرقوم ہے ’’انھوں نے وہاں ماموراور مقیم انگریزوں کی حفاظت اور باغیوں کے ہاتھوں مرنے سے انھیں بچایا‘‘ میرے خیال سے حفاظت کے بعد ’’کی‘‘ ساقط ہوگیا ہے،ص۳۲۰ پر اکبر کا ایک شعر کچھ اس طرح تحریر ہے:
ہماری باتیں ہی باتیں ہیں سید کام کرتا تھا
نہ بھولو فرق جو ہے کہنے والے اور کرنے والے میں
دوسرے مصرعے میں ’’اور‘‘ زائد ہے،، ص۳۴۵ پر ’’تقیۃ الایمان‘‘ ہے جسے تقویۃ الایمان ہونا چاہیے۔
غلطی ہائے مضامین کے بیان میں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ کتاب میں موجود قرآنی آیات کی کتابت میں متعدد مقامات پر غلطیاں ہیں جو تشویشناک ہیں، بعض جگہوں پر تو اعراب اور رموز کے ساتھ آیات درج کی گئی ہیں لیکن متعدد مقامات پر ایسا نہیں ہے، مثلا صفحہ ۱۲۷ پر ’’أارباب متفرقون‘‘ ، صفحہ ۱۵۱ پر ’’مؤدۃ‘‘ صفحہ ۳۱۰ پر ’’ یحسبھم الجاہلون۔۔۔۔‘‘ املا کے ساتھ پروف کی بھی غلطیاں ہیں، صفحہ ۲۹۷ پر ایک حدیث میں ’’من یطع الامیر قد اطاعنی‘‘ ہے، جب کہ صحیح ’’فقد أطاعني‘‘ ہے، صفحہ ۱۴۵ پر مسند احمد کی ایک حدیث میں ’’علی اتمر‘‘ تحریر ہے جب کہ درست ’’أحمر‘‘ ہے، علاوہ ازیں مسند احمد میں میم بھی ساقط ہے، صفحہ ۱۲۶ پر حضرت خبیب بن عدی کے اشعار میں غلطی ہے، پہلے مصرعے میں’’آبالی‘‘ ہے جب کہ صحیح ’’أبالي‘‘ ہے، اسی طرح مذکورہ اشعار کے تیسرے مصرعے میں ’’إن یشأ‘‘ مرقوم ہے جب کہ صحیح ’’وإن یشأ‘‘ مع واو ہے۔ یہ چھوٹی موٹی غلطیاں کتاب کی وقعت اور قدر وقیمت میں حائل نہیں ہوتیں، تاہم قرآن کریم کی آیات کی صحت میں خط واملا کا اہتمام بہت ضروری ہے، امیدہے کہ اگلے ایڈیشن میں ان امور پر توجہ دی جائے گی۔ کل ملا کر یہ مختلف مضامین کا یہ حسین مرقع اصحاب علم وفضل وطلبہ کے لیے ایک بیش بہا تحفہ اور اردو صحافت میں ایک قابل قدر اضافہ ہے، اللہ تعالیٰ مرتب ومؤلف کو جزائے خیر دے اور ان کی اس کاوش کو شرف قبولیت بخشے۔
آپ کے تبصرے