راجیو گاندھی: ارمان و فتوحات (معاصر ہندستان کی ایک معتبر دستاویز)

ابو تحریر تعارف و تبصرہ

کتاب: راجیو گاندھی: ارمان و فتوحات
مصنف: وجاہت حبیب اللہ
مترجم:شبیر احمد صدیقی، محمد حارث بن منصور
سن اشاعت: ۲۰۲۳ء
ناشر: براؤن بک پبلی کیشنز، نئی دہلی
صفحات: ۳۵۰
قیمت: ۶۵۰؍روپے


سنجے گاندھی کی حادثاتی موت (جون ۱۹۸۰ء) کے بعدراجیو گاندھی ہندستانی سیاست کے مطلع پر نمودار ہوئے اور پہلا انتخاب(جون ۱۹۸۱ء) امیٹھی (اترپردیش) سے لڑا تھا۔ اندرا گاندھی کی درد ناک موت (۳۱؍اکتوبر ۱۹۸۴ء) کے بعد ہندستان کی وزارت عظمی ان کے حصے میں آئی اور ۱۹۸۴ء کے عام انتخابات میں ان کی پارٹی (کانگریس) نے ۵۳۳؍میں سے ۴۲۶؍سیٹیں جیت کر ایک بے مثال کام یابی حاصل کی اور راجیو اس انتخابی مہم کا بنیادی حصہ تھے، لیکن اگلے پارلیمانی انتخابات (۱۹۸۹ء) میں ان کی پارٹی ۱۹۷؍سیٹوں پر سمٹ کر رہ گئی، جس کی وجہ سے مرکز میں ایک غیر کانگریسی حکومت قائم ہوئی، لیکن جلد ہی ملک میں عام انتخابات (مئی ۱۹۹۱ء) کا اعلان ہوگیا اور شری پیرم بدور(چنئی) میں ایک انتخابی مہم کے دوران ایک خود کش حملے میں راجیو گاندھی کی موت ہوگئی۔ راجیو کی سیاست میں اچانک آمد اوران کی زندگی کے الم ناک انجام کا یہ پورا مرحلہ ایک دہائی پر مشتمل ہے، لیکن یہ دورانیہ جدید ہندستان کی تاریخ میں کئی لحاظ سے یادگار ہے، کیونکہ اس مرحلے میں عالم وجود میں آنے والے واقعات اور حوادث نے ملک کے سیاسی اور سماجی منظر نامے پر گہرے اثرات ڈالنے کے ساتھ جنوبی ایشیا کی صورت گری میں بھی ایک کردار ادا کیا اور راجیو گاندھی اس کے سب سے اہم اور توانا کردار تھے۔ زیر تبصرہ کتاب ’راجیو گاندھی: ارمان و فتوحات‘ (ترجمہ: شبیر احمد صدیقی اور محمد حارث بن منصور) میں اسی عہد کی کہانی ورق در ورق پھیلی ہوئی ہے، جو معروف بیورو کریٹ، وجاہت حبیب اللہ کی کتاب My Years with Rajiv Gandhi: Triumph and Tragedy کا اردو ترجمہ ہے۔
یہ کتاب مصنف کے پیشہ ورانہ ایام کی یادوں پر مشتمل ہے، وہ ۱۹۶۸ء بیچ کے آئی ایس افسر ہیں اور اَسی(۸۰) کی دہائی میں دو وزیر اعظم (اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی) کے ساتھ پرائم منسٹر آفس(پی ایم او) میں کام کر چکے ہیں اور اسی سے متعلق یادوں اور تجربات کو پیش کیا ہے، لیکن یہ کتاب صرف اَسی کی دہائی کے واقعات پر مشتمل نہیں ہے، بلکہ ان کے عملی سفر کی ایک داستان ہے، جس میں اَسی کی دہائی کے اہم سیاسی تطورات کو خاص طور پر پیش کیا ہے۔ راجیو گاندھی نے ہندستان کی جدید کاری کا جو خاکہ تیار کیا تھا اور اس میں رنگ بھرنے کے لیے جو انتھک جدوجہد کی تھی، وہ سب اس کتاب میں موجود ہے۔ بوفورس، بابری مسجد، خالصتان مومنٹ، آپریشن بلیو اسٹار، شاہ بانو کیس، سلمان رشدی کی کتاب ’شیطانی آیات‘ پر پابندی، میرٹھ، ہاشم پورہ ملیانہ، بھاگل پور کے فرقہ وارانہ فسادات میں پولس اور انتظامیہ کا غیر منصفانہ کردار، پنجاب، کشمیر اور شمال مشرق کی ریاستوں کے تنازعات اور معاہدے سے متعلق اپنی یادیں پیش کرنے کے ساتھ دیہی ہندستان میں غربت کے خاتمے کے لیے زمینی سطح پر کوشش، ایشین گیمز (۱۹۸۲ء)، ٹیلی کام کمیشن (۱۹۸۹ء) پنچایتی راج کا تصور، قومی تعلیمی پالیسی، دیہی ہندستان پر توجہ ابتدائی تعلیم، زراعت اور محکمہ سراغ رسانی میں جدید تکنیک کے استعمال لیے راجیو گاندھی کی خدمات کا تجزیہ پیش کیا ہے۔ سارک کانفرنس کے نشاطات، مالدیپ کی مدد، سری لنکا میں فوجی مداخلت، افغانستان کے سیاسی نشیب و فراز اور لکش دیپ میں اپنی تعیناتی کی کہانی کو دل چسپ انداز میں پیش کیا ہے۔ تاریخی معلومات اور تجزیاتی بصیرت نے کتاب کو اہم بنا دیا ہے۔
مصنف نے اس کتاب میں متعدد افراد کے کردار اور کارنامے کے حوالے سے بھی گفتگو کی ہے جو راجیو کے قریب تھے اور ان کے فیصلوں میں شریک بھی اور مصنف سے بھی ان کے مراسم تھے، جن میں میرے پسندیدہ صحافی اور ناپسندیدہ سیاست داں، ایم جے اکبر(ص: ۱۴۲-۱۴۳) سے متعلق حصہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ انھوں نے اس کتاب کے ذریعے ہندستانی تاریخ کے ایک مشکل ترین وقت میں ایک نئے اور قدرے ناتجربہ کار وزیر اعظم سے ذاتی اور پیشہ ورانہ تعلقات کو الفاظ عطا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایک وزیر اعظم جو ذاتی امنگوں سے آزاد اور نرگسیت سے دور تھا، اس کے ذہن میں ملک کی تعمیر و ترقی کا ایک نقشہ تھا اور اس میں رنگ بھرنے کی شدید خواہش تھی، لیکن ’’یاران سیاست مشرب‘‘ کے اقتدار کی ہوس، ذاتی مفادات کی تکمیل، رقابت اور رنجش نے ملک کو کئی سانحات سے دوچار کیا، حالانکہ مصنف نے لکھا ہے کہ راجیو گاندھی کو بابری مسجد کا تالا کھولے جانے کی اطلاع نہیں تھی، یہ کتاب پی ایم او کے طریقۂ کار کو سمجھنے میں بھی مدد کرتی ہے۔
یہ ایک اہم کتاب ہے اور اس کا اردو ترجمہ بر وقت اور بر محل ہے، معاصر سیاسی منظرنامے میں اس کتاب کی اشاعت اور تشہیر کی بہت زیادہ ضرورت ہے، مصنف نے راجیو گاندھی کے دور وزارت عظمی کے تجزیے میں جو اسلوب اختیار کیا ہے اس میں ہمدردی جھلکتی ہے اور کہیں کہیں طویل رفاقت کی پرچھائیاں بھی ہیں ’’مدلل مداحی‘‘ والی کیفیت نہیں ہے، جو مصنف اور کتاب دونوں کو اعتبار عطا کرتا ہے۔ ۲۰۱۴ء سے جو یہ راگ الاپا جارہا ہے کہ ملک میں ستر سال میں کچھ نہیں ہوا ہے، یہ کتاب دلائل کی روشنی میں اس پروپیگنڈہ اور پرسپشن کو پاش پاش کرتی ہے اور راجیو گاندھی کے انجازات کو بہترین انداز میں پیش کرتی ہے، جس سیاسی منظر نامے میں یہ کتاب لکھی گئی ہے اس کے پیش نظر مصنف کا اسلوب مناسب ہے، انھوں نے خود ہی اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ’’مجھے اس کتاب کو لکھنے کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ تاکہ میں خود اپنے آپ کو سمجھ سکوں اور دوسروں کو یہ سمجھانے میں معاون و مددگار ہوسکوں کہ میرے لیے عہد زریں یا دربار شاہی کیا تھا، میں اپنے آپ کو راجیو گاندھی کے دربار کا مطرب اور مغنی تصور کرتا ہوں۔‘‘ (ص:۳۶)
مصنف کے دوست اور معروف دانش ور گوپال کرشن گاندھی کے بقول: ’’حبیب اللہ کی حیثیت راجیو گاندھی کے لیے بالکل ویسی ہی ہے، جیسی حیثیت ابوالفضل کی اکبر کے لیے تھی۔‘‘(سرورق) یہ کتاب سیاست، سماج اور تاریخ کے بارے میں مصنف کے گہرے مشاہدے اور مطالعے اور ان کی تجزیاتی بصیرت کی ترجمان ہے۔
ترجمہ نگاری ایک مشکل فن ہے، کیوں کہ اس میں مترجم کو تخلیق کار کے خیالات کی ترسیل کا کام انجام دینا ہوتا ہے۔ شاید اسی لیے امریکی علمی حلقوں میں ترجمہ نگاری کے لیے Recreation کی اصطلاح کا بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ مترجم کے لیے Source Language اور Target Language میں مہارت کے ساتھ ان کے مزاج کا یکساں شعور، تہذیبی روایات، سماجی رشتوں اور محاورات سے بخوبی واقفیت ضروری ہے۔ کتاب کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کتاب کے مترجم میں یہ خوبیاں کافی حد تک پائی جاتی ہیں اور انھوں نے ترجمے میں کافی محنت کی ہے۔ ترجمے کا ایک نمونہ ملاحظہ فرمائیں:
’’خونی تقسیم سے باہر نکل کر، اپنی بقا کے اندیشے کے بیچ ہندستان نے، خاص طور پر مذہب، تعلیم، ثقافت اور زبان کی رنگا رنگی اور تنوعات کو تسلیم کرتے ہوئے، اپنے آپ کو ایک ثقافتی تانے بانے سے جوڑے رکھنے کی کوشش کی، جس نے تھوڑی بہت سیاسی خود مختاری میں نسلی تنوعات کو بھی جگہ دینے کی کوشش کی۔‘‘(ص:۲۷۵)
لیکن کہیں کہیں ترجمہ پن سے عبارت بوجھل ہوگئی ہے، ابہام بھی در آیا ہے اور متن کے سیاق و سباق اور تناظر کی رعایت نہ کرنے کی وجہ سے کہیں کہیں ترجمہ ناقص لگ رہا ہے، چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں:
٭ ایک عنوان Discord and Accord کا اردو ترجمہ ’’اختلاف اور اتفاق‘‘ (ص:۱۸۹) کیا گیا ہے، لیکن مذکورہ بالا عنوان کے محتویات سے لگتا ہے کہ یہ ترجمہ درست ہونے کے باوجود مفہوم کو مکمل طور پر اداکرنے سے قاصر ہے، کیونکہ اس میں مختلف علاقائی تنازعات کو حل کرنے میں راجیو گاندھی کی کوششوں کا تجزیہ کیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں کئی ایک معاہدے ہوئے تھے، جیسے پنجاب میں راجیو اور لونگوال معاہدہ (ص:۱۹۷)، آسام میں کل آسام طلبہ یونین اور کل آسام گنگا سنگرام پریشد اور حکومت ہند کے درمیان معاہدے(ص:۲۰۰)، میزورم امن معاہدہ(ص:۲۰۸)، راجیو گاندھی اور فاروق عبداللہ معاہدہ(ص:۲۲۱)، اس کے پیش نظر مذکورہ بالا اردو ترجمے (’’اختلاف اور اتفاق‘‘) کی جگہ ’’تنازعات اور معاہدے‘‘ کا عنوان زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔
٭ انگریزی میں مخفف؍اختصاریہ لکھنے کا چلن عام ہے اور اردو ترجمہ کرتے وقت اس میں قدرے احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے اور رعایت کی بھی، کیونکہ قارئین میں فرق مراتب ہوتا ہے، زیرہ تبصرہ کتاب میں ایسے الفاظ و اصطلاحات موجود ہیں جن کو سمجھنے میں بعض قارئین کو پریشانی ہوسکتی ہے۔ جیسے: CBMS اور DGMO (ص: ۲۳۹) HUMINT اور COMINT(ص: ۲۴۴)۔ حاشیے میں ان کا فل فارم، مکمل ترجمہ؍تشریح کردینے سے قارئین کے لیے آسانی ہوجاتی۔ یہاں پر ان کا فل فارم پڑھ سکتے ہیں:
Confidence-building Measures, Director General of Military Operation, Human IntelligenceاورCommunication Intelligence.
٭ ترجمہ نگاری سے زبان کا دامن وسیع ہوتا ہے ،اسی لیے الفاظ و اصطلاحات سازی کا عمل صدیوں سے جاری ہے، اردو میں بھی اس کی طرف توجہ دی گئی ہے اور مترجمین کو اس سے استفادہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ قارئین کو اچھے سے اچھا ترجمہ پڑھنے کا موقع ملے۔ کتاب میں ایک جگہ ’’ہز ہولنیس‘‘(ص:۱۵) لکھا ہے، جب کہ اس کا اردو ترجمہ ’تقدس مآب‘ مستعمل ہے اور اس کو مزید عام کرنے کی ضرورت ہے۔ ’’وکندریقرت‘‘(ص:۲۹۷) Decentrallization کا ہندی ترجمہ ہے، اردو میں اس کے لیے ’’لامرکزیت‘‘ کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔ کتاب میں ایک جگہ ’’شیڈول کاسٹ (پسماندہ ذاتیں) اور شیڈول ٹرائب (پسماندہ قبائل)‘‘(ص:۲۷۷) لکھا ہے جو غلط ہے، جب کہ اسی کتاب میں مذکورہ بالا دونوں اصطلاحات کا صحیح ترجمہ بھی موجودہے: ’’درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل‘‘(ص:۳۰۱)، ملیٹینٹ یعنی شورش پسند (ص:۳۰) ’عسکریت پسند‘ زیادہ مناسب ہے۔
٭ انگریزی لفظ Grandfather کا اردو ترجمہ اس کتاب میں ’دادا‘ کیا گیا ہے، ’’پارلیمانی جمہوریت کی بنیاد رکھنے کا سہرا ان [راجیو گاندھی] کے دادا نہرو کے سر ہے۔‘‘(ص: ۲۷۹) …تاکہ انھیں [راجیوگاندھی] اپنے دادا کے طرز عمل کو اپنانے کی ترغیب دی جاسکے۔‘‘(ص:۳۱۵) انگریزی لفظ کا ترجمہ ’دادا‘ بالکل درست ہے، لیکن یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ جواہر لال نہرو، راجیو گاندھی کے نانا تھے۔ ان کے دادا کا نام تو شاید ہی کسی کو یاد ہوگا؟ ویسے راجیو گاندھی کے دادا کا نام جہان گیر فریدون گاندھی تھا۔
٭ کتاب میں مترادفات کا کثرت سے استعمال کیا گیا ہے اور اکثر مقامات پر یہ مترادفات غیر ضروری معلوم ہوتے ہیں، چند نمونے ملاحظہ فرمائیں: ایمبیسیڈر (سفیر) (ص: ۱۶) رائٹر اور محرر(ص:۸۷) اسٹرٹیجی اور حکمت عملی(ص:۹۴) سیاسی گائڈ اور رہنما(ص:۹۷) ابتداء اور شروعات کے عمل (ص:۹۹) برباد اور ضائع (ص:۹۹)سرنڈر کرنے اورہتھیار ڈالنے(ص۴۷)
٭ کتاب میں چند مقامات پر سن کی غلطیاں در آئی ہیں، امید ہے کہ اگلے اڈیشن میں ان کی اصلاح کردی جائے گی۔ مثال کے طور پر سرورق پر یہ جملہ موجود ہے کہ: ’’انھوں نے [وجاہت حبیب اللہ] ۱۹۵۸ء سے لے کر اپنی سبک دوشی ۲۰۰۵ء تک…‘‘ صحیح سن ۱۹۶۸ء ہے(دیکھیں ص:۱۶)۔
’’[گوپال کرشن گاندھی]۱۹۱۷ء میں نائب صدر جمہوریہ کے عہدے پر فائز ہونے کے قریب پہونچ گئے تھے۔‘‘(ص:۱۶) اس کو ۲۰۱۷ء ہونا چاہیے تھا۔
’’۱۹۸۵ء میں اندرا گاندھی کے سفاکانہ قتل کے بعد…‘‘ (ص:۱۰۶) اس کی جگہ ۱۹۸۴ء ہونا چاہیے۔
’’۱۹۷۶ میں جب بنگلہ دیش کا قیام عمل میں آیا…‘‘(ص:۲۰۰) اس کو ۱۹۷۱ء ہونا چاہیے۔
’’…مسلمانوں کا عظیم مدرسہ دارالعلوم دیوبند میں قائم ہوا۔ محمد علی جوہر اس کے بانیوں میں ہیں۔‘‘ (ص:۱۳۳) دارالعلوم دیوبند کا قیام ۱۸۶۶ء میں ہوا تھا اور اس کے تقریباً بارہ سال بعد ۱۸۷۸ء میں پیدا ہونے والے جوہر کیسے اس مدرسہ کے بانیوں میں ہوسکتے ہیں؟
٭ اس اہم ترین کتاب میں املا کی غلطیاں کھٹکتی ہیں، حتی کہ سرورق پر ایک دو نہیں کئی ایک غلطیاں موجود ہیں جو اس بات کی گواہی دے رہی ہیں کہ پروف ریڈنگ کا خاص اہتمام نہیں کیا گیا ہے، سو ہم نے اس کی پروف ریڈنگ بھی کرڈالی تاکہ کتاب کی اشاعت دوم میں اصلا ح کی جاسکے:

غلط

صفحہ نمبر

صحیح

غور و خوذ

۷۲

غوروخوض

مضبوت

۱۹۱

مضبوط

نکتۂ اتصال

۷۲

نقطۂ اتصال

ازدھا

۵۴

اژدھا

درست اور سہی

۴۴

صحیح

سورش

۲۹

شورش

موخوذ

۱۹۱

ماخوذ

برافرختگی

۴۹

برافروختگی

معائینہ

۱۰۰

معائنہ

دیکھائی

۳۸

دکھائی

ہائفن ؍قومے

۸۶

کاما؍کامے

الیکشن گیمز

۷۵

ایشین گیمز

پاریٹی

۹۰

پارٹی

کھراگپور

۲۸۰

کھڑگ پور

جماعت  علمائے ہند

۱۳۹

جمعیت علماے ہند

خودنشوشت

سرورق

خود نوشت

ہوش و ہواس

۳۴۱

ہوش و حواس

سنگینیت

۱۷۸

سنگینی

٭ اس کتاب میں املا میں یکسانیت نہیں پائی جاتی ہے، ایک لفظ کے متعدد املا موجود ہیں، جو قاری کو الجھن میں ڈال دیتے ہیں جیسے Development کے متعدد املا موجود ہیں: سینٹر فار ڈولپمنٹ آف ٹیلیما ٹکس(ص:۱۱۸)، منسٹری آف ہیومن ریسورس ڈیولپ مینٹ (ص:۲۸۰)، کمیونٹی ڈویلپمنٹ پروگرام(ص:۲۹۰)، آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ص:۳۱۹)، مزید مثالیں بھی دیکھ سکتے ہیں: منی شنکرایئر (ص:۸۷)، منی شنکر آئر (ص:۳۰۱)، سام پیٹرودا(ص:۷۵)، سام پٹرودا (ص:۱۱۸)، ’مانیکشا‘ اور ’مانیکشاہ‘ (ص:۴۳)، گوبا چوف اور گوربا چوف(ص:۲۵۸)، سپرم کورٹ (ص:۲۷۶) سپریم کورٹ(ص: ۲۷۷)۔ اسی طرح انتساب میں مصنف کی والدہ کا نام ’حامدہ‘ اور بعض مقامات پر ’حمیدہ‘ (ص:۲۲و ۲۶) لکھا گیا ہے، انگریزی سے اردو ترجمہ کرتے وقت ایسی غلطی کا امکان زیادہ رہتا ہے، لیکن اردو زبان و ادب سے تعلق رکھنے والے کے لیے یہ بے خبری خطرناک ہے، کیونکہ بیگم حامدہ حبیب اللہ کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں۔ پہلے اردو الفاظ کو ایک ساتھ لکھنے کی جو روایت تھی، اردو اسکالرس کی کوشش سے اس کا چلن بہت کم ہوگیا ہے، لیکن اس کتاب میں اسی پرانی رسم کو دہرایا گیا ہے، جیسے: ’’انکے، کیلئے، خوشحال، سبکدوش، سائنسدان ،کردینگے، داسمنسی، پولٹبیورو، انسٹیٹیوٹ اورٹیلیویژن‘‘ وغیرہ۔
اس کتاب کی اشاعت کا اہتمام براؤن بک پبلی کیشنز (نئی دہلی) نے کیا ہے، جس نے ایک مختصر مدت کے دوران تاریخ، ادب، تہذیب اور صحافت کے موضوعات پر معیاری کتابیں شائع کر کے ایک شناخت قائم کی ہے، اس کتاب کی طباعت بھی عمدہ اور دل کش ہے، سرورق جاذب نظر ہے اور کتاب میں وہ تمام صوری خوبیاں موجود ہیں جو اس پبلی کیشنز کی پہچان ہیں، اللہ کرے یہ سفر کام یابی کے ساتھ جاری رہے۔

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
جنید خان

کیا خوبصورت تبصرہ کیا ہے آپ نے
خامیوں پر برمحل گرفت اور خوبیوں کا اعتراف