خدا گواہ ہے آنکھوں نے بند توڑ دیا
عزیر شمس نے جس دم جہاں کو چھوڑ دیا
لہو اگلتا ہوا دل، بدن سراپا غم
وجود بہتا رہا سیلِ اشک میں پیہم
زبان گُنگ، شکستہ بدن، اداس نظر
مگر کریں بھی تو کیا موت سے ہے کس کو مفر
تمام عمر کٹی پڑھتے اور پڑھاتے ہوئے
وہ اس جہاں سے گیا علم و فن سکھاتے ہوئے
شعور و آگہی، فکر و کلام، علم و فن
فدا کیا تھا اسی راستے میں تن من دھن
وہ نیکوکار، ملنسار اور خوش اخلاق
وہ مرد صبر و قناعت، ہر ایک فن میں طاق
جہانِ ورثہِ اسلاف کا وہ رہبر تھا
وہ ابن تیمیہ کے بحر کا شناور تھا
وہ بھوجیانی کا پیرو وہ میمنى کا اسیر
معلّمی کا ثنا خواں، بڑے بڑوں کا مشیر
وہ نیکیوں کا تھا رسیا، خفا تھی اس سے بدی
بجا ہے فخر کرے شمس پر ہماری صدی
کتاب و سنت و فقہ و اصول فقہ و ادب
عروض و منطق و تاریخ میں وہ شیخِ عرب
ابوالکلام ہوں غالب ہوں یا کہ حالی ہوں
عبور سب پہ تھا رازی ہوں یا غزالی ہوں
صدی تھی بیسویں چھپّن تھا سن ولادت کا
پھر اس کے بعد بنا شمس وہ فراست کا
انھوں نے والد ماجد سے سیکھا علم و فن
اساتذہ بھی رہے ان کے سر پہ سایہ فگن
صنم کدے سے بنارس کے ارض کعبہ تک
وہ سیکھتا ہی رہا علم ہر جگہ ان تھک
عزیر شمس پہ رب کریم رحم کرے
درِ بہشت کھُلے اور صبائے خلد چلے
کہوں تو کیا میں کہوں دو ہزار بائس کو
کہ دور کردیا کاشف سے اس نے کس کس کو
ماشاءاللہ کاشف صاحب علامہ رحمہ الله کے متعلق اشعار میں پروئ گئی باتیں کافی مطالعہ اور غور و خوض کے بعد کہیں جاسکتیں ہیں لیکن آپ نے منظوم کلام میں ان حقیقی تعارف کرا دیا
بارک اللہ فی علمک