جامعہ رحمانیہ بنارس میں داخلہ کے لیے درخواست بھیج چکا تھا، لیکن قدیم طلبۂ جامعہ سلفیہ بنارس کی شوال میں سوئے بنارس روانگی کے دن صبح تک مجھے کوئی جواب موصول نہ ہوا۔ یاس وامید کی اس خلجانی کیفیت اور اپنے مقصد عزیز سے متعلق خیالات میں محو تھا کہ اسٹیشن کی طرف خالی ہاتھ روانگی سے کچھ ہی دیر پہلے مولانا عبد القدوس نسیم بنارسی (ناظم اعلیٰ جامعہ رحمانیہ بنارس، حال ناظم اعلیٰ جامعہ سلفیہ کے خال محترم) کے دست مبارک کا تحریر کردہ نہایت خوشخط خطاب (بذریعہ ڈاک) داخلے کا پیام مسرت لے کر باصرہ نواز ہوا۔
تیرے احساں کا نسیمِ صبح کو اقرار تھا
باغ تیرے دم سے گویا طبلۂ عطار تھا
سبحان اللہ! اس وقت میری خوشی کا عالم کیا تھا؟ اسے الفاظ کا جامہ پہنانا تو میرے لیے مشکل ہے، لیکن دل ہی دل میں بزعم خویش یہ امکانات روشن ہوگیے کہ مدینہ یونیورسٹی میں داخلہ کے پہلے زینے پر (براہِ جامعہ سلفیہ) قدم رکھ دیا، جس کے لیے مکتب درجہ چہارم وپنجم سے بلا ناغہ دعائیں کیا کرتا تھا۔
چونکہ جامعہ رحمانیہ کمیٹی کی خصوصی نگرانی میں (ویسے عمومی سرپرستی تو مرکزی جمعیۃ اہل حدیث ہند کی تھی) جامعہ سلفیہ کا قیام عمل میں آیا تھا۔ لہٰذا رحمانیہ سے فراغت کے بعد جامعہ سلفیہ میں داخلہ بلا کسی شرط وقید کے براہِ راست ہو جاتا تھا۔
بڑی ناسپاسی ہوگی اگر یہ اعتراف نہ کروں کہ مولانا مقصود احمد سلفی (حال مدرس معہد الصالحات اونرہوا، بلرام پور، یوپی) کے تعاون اور مولانا محمد عیسیٰ سلفی (شنکر نگر، بلرام پور) کی وساطت سے داخلے کی کاروائی پہلی فرصت میں مکمل ہو گئی۔
اس سال (۱۳۸۹ھ=۱۹۶۹ء) جامعہ رحمانیہ کے آخری کلاس (جماعت رابعہ) میں صرف خاکسار اور اس کے ہونہار، نکتہ رس ونکتہ بیں رفیق مولانا بدر الزماں نیپالی کا داخلہ ہوا تھا۔
جماعت رابعہ (جامعہ رحمانیہ) کے ہمارے قابلِ احترام اور ذی شان رفقائے درس کی فہرست درج ذیل ہے جو بعد میں اپنے اپنے میدانہائے عمل میں کامیاب ترین نظماء، مصنفین ومحققین، دعاۃ ومبلغین اور مدرسین و معلمین کی حیثیت سے ملک وبیرون ملک میں آسمان علم وفضل کے آفتاب وماہتاب بن کر چمکے۔
– مولانا عبد اللہ سعود سلفی حفظہ اللہ(ناظم اعلیٰ جامعہ سلفیہ، بنارس)
– ڈاکٹر رضاء اللہ مبارکپوری رحمہ اللہ(سابق شیخ الجامعہ، بنارس)
– مولانا محمد عزیر شمس رحمہ اللہ(معروف محقق، مکہ مکرمہ)
– مولانا رفیع احمد عاقل حفظہ اللہ(آزاد داعی ومبلغ اور تاجر، آسٹریلیا)
– مولانا عبد القدوس خیر اللہ حفظہ اللہ(سینئر مدرس، جامعہ محمدیہ منصورہ، مالیگاؤں)
– مولانا الطاف الرحمن عبد الحلیم بنارسی حفظہ اللہ(داعی، مدرس اور تاجر، حیدرآباد)
– ڈاکٹر بدر الزماں نیپالی حفظہ اللہ(صدر جمعیۃ التوحید، کپل وستو، نیپال)
– مولانا محمد عزیر املوی حفظہ اللہ(عالمیت کے بعد تجارت میں مصروف ہو گئے)
– صلاح الدین مقبول احمد(عفا اللہ عنہ)
جب ہمارا یہ گروپ جامعہ سلفیہ پہنچا تو نئے رفقائے درس کا کافی اضافہ ہوا، مدینہ یونیورسٹی میں نئے حضرات کا اضافہ ہوگیا، بلکہ کئی سابقین (جیسے مولاناسہیل احمد (مئو)، ڈاکٹر عبدالباری فتح اللہ (ریاض) ولاحقین (جیسے مولانا عبد اللہ عبد التواب جھنڈا نگری) بھی ساتھ ہوگئے اور ڈاکٹر رضاء اللہ رحمہ اللہ جو عالمیت کے بعد ہی علامہ تقی الدین الہلالی رحمہ اللہ (۱۳۱۱ ھ- ۲۵ شوال ۱۴۰۷ ھ) کی خدمت میں مغرب چلے گئے تھے وہ ایک سال وہاں گزار کر کے مدینہ یونیورسٹی آئے، اور ہم لوگ عالمیت کے بعد دو سال تخصص (فضیلت) کا کورس مکمل کرکے گیے تو وہ ایک سال آگے ہوگئے تھے۔
ہمارے یہ تمام حضرات قابلِ ذکر ہیں لیکن اپنی علمی، تحقیقی اور تدریسی کارکردگی کے سبب شیخ شہاب اللہ جنگ بہادر (امارات) ڈاکٹر عبد القیوم محمد شفیع (قطر) اور شیخ عبد المجید صاحب زاد رحمہ اللہ (سابق مدرس جامعہ سراج العلوم، جھنڈا نگر) خاص اہمیت رکھتے ہیں۔
ہمارے رفقائے جامعہ رحمانیہ میں ڈاکٹر رضاء اللہ مبارکپوری رحمہ اللہ (-۲۰۰۳ء) نے سوئے منزل روانگی میں سبقت فرمائی اور ابھی ایک ماہ قبل (۲۰۲۲/۱۰/۱۵ء) کو مولانا محمد عزیر شمس رحمہ اللہ بغیر کسی پیشگی اطلاع کے نہایت خاموشی سے ہمیں داغِ مفارقت دے گئے، اور شاید ہماری درماندگی وکم کوشی کا لحاظ کرکے ہمیں کچھ بعد میں اطمینان سے آنے کے لیے چھوڑ گئے (أنتم سبقتم ونحن بکم لا حقون)، اللہ تعالیٰ انھیں غریق رحمت فرمائے اور موجودین کو صحت وعافیت کے ساتھ اپنی اطاعت میں عمر طویل سے نوازے۔
ڈاکٹر رضاء اللہ اور شیخ عزیر شمس (رحمہما اللہ) کی وفات میں عجیب مشابہت رہی، ڈاکٹر صاحب صوبائی جمعیۃ اہل حدیث ممبئی کی دین رحمت کانفرنس میں ’’قضاء وقدر‘‘ کے موضوع پر خطاب ختم کرکے اسٹیج پر بیٹھے، غشی طاری ہوئی ہاسپٹل لے جایا گیا اورجاں بحق ہوگئے اور شیخ عزیر شمس اپنی رہائش گاہ (مکہ مکرمہ) پر چند مبتدی طلبہ کو کچھ علمی وعظ ونصیحت فرما رہے تھے، عشاء کی اذان ہوئی وضو کے لیے اٹھتے ہوئے لڑھک گئے، پھر جاں بر نہ ہو سکے۔ (رحمہما اللہ)
ہے اسی قانون عالم گیر کا یہ سب اثر
بوئے گل کا باغ سے، گل چیں کا دنیا سے سفر
وفات کی خبر:
رفیق گرامی شیخ محمد عزیر شمس رحمہ اللہ کی وفات کی اندو ہناک خبر خاکسار کو بنارس میں ملی، صبح پہلی فلائٹ سے مجھے بنارس جانا تھا کہ ایرپورٹ سے ہی پہلے (مئو) جاکر احباب سے ملاقات کرکے شام کو بنارس آجاؤں گا، لیکن اللہ کو منظور صبح ایرپورٹ پہنچا تو فلائٹ کینسل ہو چکی تھی، لہٰذا شام کی آخری فلائٹ سے تقریبًا ۹؍بجے رات کو ایرپورٹ پہنچا راستے میں سخت رَش کی وجہ سے تقریبًا ۱۱؍بجے رات کو جامعہ سلفیہ پہنچ سکا۔ مہمان خانے میں کھانا کھانے لگا، چند دیگر مدرسین واحباب موجود تھے۔ اتنے میں ڈاکٹر عبدالصبور ابوبکر(نائب شیخ الجامعہ، ومترجم حسن البیان فیما فی سیرۃ النعمان) بائیں طرف آکر بغل کرسی پر بیٹھے اور اس اندوہ ناک حادثہ کی خبر دی، اس وقت متضاد خبریں آرہی تھیں، دعائیں ہو رہی تھیں کہ اللہ یہ خبر غلط ثابت ہو، لیکن چند ہی منٹ میں مولانا ابو صالح دل محمد سلفی (مدرس جامعہ سلفیہ) نے عزیز گرامی مولانا ثناء اللہ صادق تیمی وفقہ اللہ کے حوالے سے خبر کی تصدیق کی، پھر کسی چوں چر ا کی کوئی گنجائش باقی نہ رہی۔
﴿وَلَن يُؤَخِّرَ اللهُ نَفْسًا إِذَا جَاءَ أَجَلُهَا وَاللهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ﴾ (المنافقون:۱۱)
’’إن العین تدمع، والقلب یحزن، ولا تقول إلا ما یرضی ربّنا، وإنّا لفراقك (یا عزیر) لمحزونون‘‘.
اللہم اغفر لہ، وارحمہ، وعافہ واعف عنہ، وأکرم نزلہ ووسع مدخلہ!
شنبہ (۱۰/۱۵ / ۲۰۲۲ء) کے دن میں آرام کا موقع نہ مل سکا تھا، شام کو یہ جانکاہ حادثہ، رات کو نیند نے بھی یاوری نہ کی، فجر سے قبل تھوڑی سی غنودگی نے حرکت ونشاط کے قابل بنایا، جامعہ کی خوب صورت ومرتب لائبریری ہال میں ملک کے مختلف صوبہ جات سے آئے ہوئے علماء، اراکین ومشاہدین میٹنگ کے لیے پہنچے، خلاف معمول مولانا عبداللہ سعود (ناظم اعلیٰ جامعہ سلفیہ) نے تلاوت قرآن کریم کے لیے مائک خاکسار کو دلوایا، سورۃ الحدید کی دو آیتیں:
﴿اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَزِينَةٌ وَتَفَاخُرٌ بَيْنَكُمْ…﴾ (الحدید: ۲۰-۲۱) کی تلاوت کی، اس کے بعد ناظم اعلیٰ نے شیخ عزیر شمس رحمہ اللہ کے بارے میں بھرپور تعزیتی کلمات سے میٹنگ کا آغاز کیا اور بتایا کہ:
’’انھوں نے چند ماہ قبل شیخ عزیر شمس رحمہ اللہ سے مکہ مکرمہ میں آخری ملاقات کے وقت کہا کہ آپ کا علمی مشروع ختم ہو چکا ہے، اب آپ جامعہ سلفیہ چلیں، تو اس پر انھوں نے کہا کہ میری ایک شرط ہے، وہ یہ کہ صلاح الدین کو بھی لے آؤ۔‘‘
خیر!یہ تو یوں ہی ایک بات تھی، ہم جیسے خس وخاشاک کی رفاقت کی ذرا بھی پروا کیے بغیر انھیں تو داعی أجل کو لبیک کہنا تھا۔
اب نہ دنیا میں آئیں گے یہ لوگ
کبھی ڈھونڈے نہ پائیں گے یہ لوگ
نصف صدی کی رفاقت:
رفیق گرامی شیخ محمد عزیر شمس رحمہ اللہ سے رفاقت کی مدت نصف صدی (۱۹۶۹-۲۰۲۲ء) سے زائد زمانہ پر محیط ہے جس میں( ایک سال جامعہ رحمانیہ +۶ سال جامعہ سلفیہ بنارس +۴ سال مدینہ یونیورسٹی)کے گیارہ سال زمانۂ طالب علمی کے بھی شامل ہے۔
٭ اللہ تعالی نے انھیں ذہانت وفطانت کی دولت سے مالا مال کیا تھا، جامعہ رحمانیہ وجامعہ سلفیہ کی سات سالہ مدت طالب علمی میں صرف دور بار راقم سطور کی پہلی پوزیشن آئی اور بقیہ پانچ سالوں میں اکثر وہی پہلی پوزیشن پر برقرار رہے۔
٭ مدینہ یونیورسٹی میں انھوں نے کلیۃ اللغۃ میں داخلہ لیا اور خاکسار کلیۃ الحدیث الشریف میں داخل ہوا۔ اس چار سالہ مدت طالب علمی کی خصوصیت یہ رہی کہ ہم پانچ سلفی طلبہ (مولانا سالم بنارسی، حافظ محمد صالح بنارسی (إمارات)، مولانا عبد القدوس خیر اللہ (مالیگاؤں)،مولانا عزیر شمس اور خاکسار) کا قیام ’عمارۃ الغشّام بشارع المطار‘کے مختلف فلیٹوں میں تھا، لیکن خورد ونوش کا معاملہ ایک ساتھ تھا، سالم صاحب اور حافظ صالح کو کھانا پکانا آتا تھا، اور بقیہ تینوں کو پکانا نہیں لیکن کھانا آتا تھا، یاد نہیں آرہا ہے کہ قرعہ اندازی کے ذریعے یا اپنی اپنی پسند سے ہم تینوں کی ذمے داری ایسی تھی:خاکسار کی روٹی وغیرہ لانے کی، عبدالقدوس صاحب کی اشیاء کی خریداری کی اور عزیر صاحب کی برتن دھونے کی۔ بڑی مرنجاں مرنج زندگی گزری عزیر رحمہ اللہ کہتے کہ جاؤ تم لوگ پریشان ہو میں تو اپنا کام چند منٹ میں پورا کرکے بیٹھ رہا ہوں، سالم صاحب فراغت کے بعد مدینہ ہی میں سفارت خانے کے ما تحت حج کمیٹی کی بلڈنگ میں بحثیت ملازم رہے، پھر وطن واپس ہوکرناظم جامعہ سلفیہ کے آفس سکریٹری رہے اور وفات پائی ۔ (اللھم اغفرلھم جمیعًا)
٭ ذہین وفطین طالب علم کو اگر ابتدا سے ہی کثرتِ مطالعہ کا شوق بھی ہو تو معلومات کی فراوانی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے اور اس کے اظہار کا موثر ترین ذریعہ کتابت وتحریر اور تصنیف وتالیف ہی ہے، عزیر صاحب کے اس وصف نے انھیں زمانۂ طالب علمی سے ہی تحریر وتصنیف کا عادی بنا دیا، اور ان کی پہلی تحقیق ’رفع الالتباس عن بعض الناس‘(مصنفۂ علامہ شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ)، ۱۹۷۶ء میں جامعہ سلفیہ سے شائع ہوئی۔
٭ ۱۹۸۱ء میں مدینہ یونیورسٹی سے فراغت کے بعد انھوں نے ایم ، اے کے لیے جامعہ أم القری میں داخلہ لیا، ’التأثیر العربی فی شعر حالی ونقدہ‘ کے عنوان سے رسالہ لکھا، اور ۱۹۸۵ء میں ڈگری حاصل کی، پھر ڈاکٹریٹ کا رسالہ بعنوان ’الشعر العربی فی الھند‘ مکمل کرنے کے بعد سپر وائزر سے اختلاف رائے ہوا، پھر معاملہ مزید الجھ گیا، انھوں نے خود بھی اسے سلجھانے کی کوشش نہیں کی، ڈگری چھوڑ دی اور کچھ مدت کے لیے ہندوستان واپس آگئے۔
قابل ذکر ہے کہ طلبہ کے لیے یونیورسٹی کی جانب سے سہولیات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مختلف ممالک کی لائبریریوں سے استفادہ کیا جو بطور خاص مخطوطات سے متعلق دل چسپی میں مزید اضافہ کا باعث بنا۔
بہر حال پھر کچھ مدت کے بعد مکہ مکرمہ واپسی ہوئی، مختلف علمی وتحقیقی اداروں سے منسلک رہے، پھر فضیلۃ الشیخ الدکتوربکر بن عبداللہ ابو زید رحمہ اللہ (۱۲۶۵-۱۴۲۹ھ) کی منتخب تحقیقی ٹیم کے رکن کی حیثیت سے ۱۹۹۹ء میں وابستہ ہو گئے اور بقیہ زندگی اسی کام کے لیے وقف کردی۔
٭ ڈاکٹر بکر بن عبداللہ ابو زید رحمہ اللہ(۱۲۶۵-۱۴۲۹ھ):
منفرد انشا پرداز، باکمال مصنف، محقق ومدقق، علم دوست اور عابد وزاہد انسان تھے، ان کا پسندیدہ مشغلہ مطالعہ اور تحریر وتصنیف تھا، وہ مدینہ یونیورسٹی کی لائبریری میں بھی رہے، مدینہ منورہ میں قاضی امام وخطیب اور مدرس بھی رہے، وکیل عام وزراۃ العدل، منظمۃ المؤتمر الإسلامی (OIC)کے ما تحت قائم شدہ عالمی ادارہ ’المجمع الفقہی العالمی بجدّۃ‘ کے صدر نشین، دار الافتاء اور ہیئۃ کبار العلماء کے معزز رکن رہے۔
ان کی مستقل کتب ورسائل اور تحقیقات کی تعداد تقریبًا سو کے قریب ہے، اگر سب کو یکجا کیا جائے تو تقریبًا تیس سے زائد جلدیں بنیں گی، شنید ہے کہ’أعمال کاملہ‘ کے طور پر ان کی طباعت کا پروگرام بنایا جا رہا ہے، ان میں سے بہت سے رسائل موجودہ دور میں پیدا شدہ اہم مسائل ونوازل کے بارے میں ہیں۔ اگر انھیں اردو اور ہندی میں منتقل کر دیا جائے تو علما وطلبہ اور عوام الناس کے لیے بہت مفید ثابت ہوں گے۔
یادش بخیر!:
بڑی ناسپاسی ہوگی (پھر کبھی موقع ملے نہ ملے) اگر اس مناسبت سے ڈاکٹر بکر ابو زید رحمہ اللہ کی حوصلہ افزائی، خورد نوازی اور علم دوستی کا تذکرہ نہ کروں، کیونکہ علماء وطلبہ کی ہمت افزائی ان کا خاص وصف تھا۔ تحقیقی کمیٹی کے لیے رفیقِ گرامی کا انتخاب اس کی روشن دلیل ہے۔
ڈاکٹر بکر بن عبداللہ ابو زید رحمہ اللہ نے ۱۹۸۷ء میں اپنا معروف رسالہ ’براء ۃ أھل السنۃ من الوقیعۃ فی علماء الأمۃ‘ لکھا، یہ شیخ محمد زاہد الکوثری (-۱۳۷۱ھ) کے گمراہ کن خیالات اور تحریروں کی نشان دہی میں بہت سنجیدہ رسالہ تھا، جب یہ رسالہ کویت میں نظر نواز ہوا، تو اسی سال ۱۹۸۷ء میں اس پر میں نے تبصرہ کیا جو اس وقت ’مجلۃ الجامعۃ السلفیۃ‘ میں بھی شائع ہوا اور خط کی صورت میں اسے مؤلف گرامی ڈاکٹر بکر رحمہ اللہ کو بھی بھیج دیا، یہیں سے تعلقات کی ابتدا ہوئی۔
اسی طرح ’تحریف النصوص من مآخذ أھل الأھواء في الاستدلال‘کے عنوان سے انھوں نے ایک پر مغز رسالہ لکھا جس میں خاکسار کی کتاب ’زوابع فی وجہ السنۃ‘ سے کئی نصوص حوالے کے ساتھ نوٹ کیے۔ میں اس وقت کویت عراق کی جنگ کے بعد مولانا عبد الحمید رحمانی رحمہ اللہ کے تصنیفی و تحقیقی ادارہ ’مجمع البحوث العلمیّۃ الاسلامیہ‘ زیر اشراف ’مرکزأبو الکلام آزاد للتوعیۃ الاسلامیہ‘دہلی کا مدیر تھا، میں نے اس کتاب پر بھی تبصرہ کیا جسے فاضل گرامی فضیلۃ الشیخ عبد القدوس محمد نذیر حفظہ اللہ (الریاض) کے ذریعہ انھیں ارسال کیا، شیخ عبدالقدوس حفظہ اللہ اس وقت وزارۃ العدل ہی سے متعلق تھے اور ڈاکٹر بکر ابوزید رحمہ اللہ اس کے وکیل عام تھے۔
مولانا محمود حسن دیوبندی (-۱۹۲۰ء)کی کتاب میں ایک آیت کی تحریف سے متعلق مضمون کا ترجمہ ڈاکٹر بکر نے فضیلۃ الدکتور وصی اللہ عباس حفظہ اللہ سے کروایا(یقینا اس وقت وہ شیخ عزیر سے واقف نہیں رہے ہوں گے) اور اسے ’تحریف النصوص‘میں شامل کر دیا، اس پرمولانا محمد تقی عثمانی نے احتجاج کیا، تو ڈاکٹر بکر نے مولانا عثمانی کے احتجاجی مکتوب کے ساتھ خاکسار کا تبصرہ بھی اپنے مجموعہ ’الردود‘ (ص۲۴۴-۲۴۵) میں شائع کر دیا۔
۱۹۸۷ء کے بعد فقہ اکیڈمی جدّہ (مجمع الفقہ الإسلامی)کے اجلاس منعقدہ کویت میں صدر کی حیثیت سے تشریف لائے اور بڑی محبت سے نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے بغیر کسی سے دریافت کیے ہوئے اپنے ڈرائیور کے ساتھ ہوٹل سے نکل کر تقریبًا ۳۵؍کیلومیٹر کا سفر کرکے خاکسار کی مسجد ڈھونڈتے رہے۔ اور ’مدینۃ الجہراء‘ کی ’مسجد الجمعیۃ‘ میں سپر مارکیٹ کے قریب نماز پڑھ کر ہوٹل واپس چلے گئے، پھر بعد نماز عصر کویت کے معروف محقق، خاکسار کے رفیقِ درس شیخ بدر عبد اللہ البدر (محقق الموسوعۃ الفہیۃ الکویتیّۃ) کے ساتھ دوبارہ آئے ، اور محقق کویت شیخ محمد ناصر العجمی کے گھر پر اپنی تمام سرکاری مشغولیت کے باوجود قدرے طویل مجلس کی، یہ روبرو پہلی ملاقات تھی، ایک مرتبہ حج کے موقع پر شیخ عزیر رحمہ اللہ مجھے ان کی آفس ملاقات کے لیے بھی لے گئے، لیکن وہ موجود نہ تھے۔ بہر حال علمی تعلق ان سے آخری دم تک باقی رہا۔
’مجمع الفقہ الإسلامی‘کے اس اجلاس میں ہمارے کچھ احباب ورفقاء شریک ہوئے، انھوں نے اس کے افتتاحی اجلاس کا ایک واقعہ بیان کیا جس میں امیرالکویت شیخ جابر الاحمدرحمہ اللہ بھی شریک تھے ان کے بغل میں ہی شیخ کی کرسی تھی، جب کویت کا قومی ترانہ شروع ہوا تو پوری مجلس بشمول امیر کویت کھڑی ہو گئی، یہ لمحہ شیخ جیسے موحد عالم کے لیے بہت پریشان کن تھا، دس پندرہ سیکنڈ کے بعد اپنے ہاتھ ملتے ہوئے ملول خاطر ہوکر وہ بھی کھڑے ہو گئے جسے لوگوں نے محسوس کیا اور ہوش مند طبقے نے شیخ کی بحالت مجبوری اس عمل کو کافی سراہا، رحمہ اللہ۔
کویت پر عراقی قبضے کے بعد ۱۹۹۰ء میں خاکسار مرکز ابو الکلام آزاد سے وابستہ ہو گیا اور اس کے تصنیفی، تحقیقی ادارۃ ’مجمع البحوث العلمیۃ الإسلامیۃ‘ سے اس کی کتاب ’دعوۃ شیخ الإسلام ابن تیمیہ وأثرہا فی الحرکات الإسلامیۃ المعاصرۃ‘ کے پہلے ایڈیشن کی طباعت کا منصوبہ بنا ، تو صدر مرکز (مولانا عبد الحمید رحمانی رحمہ اللہ) جو اس وقت سعودی عرب کے دورے پر تھے انھوں نے ڈاکٹر بکر بن عبداللہ ابو زید رحمہ اللہ سے اس پر مقدمے کی فرمائش کی، انھوں نے اپنی مشغولیت اور اس طرح کے غیر ضروری کاموں سے بے زاری کے باوجود اس پر نہایت عمدہ مقدّمہ لکھا اور کافی حوصلہ افزائی کی، جس سے ایک طرف کتاب کی اہمیت میں اضافہ ہوا تو دوسری طرف خاکسار کا تعارف بھی علمی حلقوں میں بہتر انداز میں ہوا۔
جب کتاب ’دعوۃ شیخ الإسلام‘شائع ہوئی توانھوں نے محقق کویت شیخ محمد ناصر العجمی کے ذریعہ یہ پیغام بھیجا کہ ’دعوۃ شیخ الإسلام‘ کے اس باب (جس میں شیخ الاسلام پر اعتراضات وجوابات اور ان کا دفاع مذکور ہے) کو الگ سے شائع کروں، چنانچہ مدتوں بعد ان کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے کچھ حذف واضافہ کے ساتھ اسے اِسی سال بعنوان ’معارف شیخ الإسلام ابن تیمیۃ:معالم الانطلاقۃ الکبری للإصلاح والتجدید‘ شائع کر دیا گیا۔
’دعوۃ شیخ الإسلام‘ کے مقدمے کے آخر میں فضیلۃ الدکتور رحمہ اللہ نے اپنا عہدہ بقلم خود ’وکیل وزارۃ العدل و رئیس مجمع الفقہ الإسلامی بجدّۃ‘ لکھا اس پر تاریخ (۲۲/۲/۱۴۱۲ھ)ثبت ہے۔ (جو مطابق ۱۹۹۱ء ہے)
ڈاکٹر بکر بن عبداللہ أبو زید کا علمی منصوبہ اور فاضلِ گرامی کی اس سے وابستگی:
ڈاکٹرصاحب چونکہ وسیع المطالعہ محقق ومدقّق عالم اور منفرد انشا پرداز تھے، ان کا ایک اہم علمی منصوبہ یہ تھا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ (-۷۲۸ ھ)، ان کے عظیم المرتبت شاگرد امام ابن القیم (-۷۵۱ھ)، ذہبی العصر علامہ عبد الرحمن بن یحییٰ المعلمی الیمانی (-۱۳۸۶ھ) اور علامہ محمد الأمین الشنقیطی صاحب ’أضواء البیان‘ (-۱۳۹۳ھ) کے قلمی اور مطبوعہ دونوں قسم کی کتب و رسائل کو تحقیق وتدقیق کے ساتھ شائع کریں۔ سعودی عرب کے معروف ادارہ ’مؤسسۃ الراجحی‘ نے شیخ بکر رحمہ اللہ کی ایک معمولی سی تحریر کی بنیا د پر اس مشروع کی کفالت کی ذمہ داری لی۔
شیخ عزیر شمس کی تحقیقی حصہ داری:
یہ منصوبہ چونکہ بہت بڑا اور باوقار تھا، اس کے لیے با شعور محققین کی ایک ٹیم کی ضرورت تھی، ۱۹۹۹ء میں ہمارے رفیق گرامی عزیر شمس صاحب اس ٹیم میں شامل ہوئے، اور میرے علم کے مطابق اس منصوبے کا پہلا ثمرہ عزیر شمس اورعلی بن محمد العمران کے اعداد وترتیب سے بعنوان ’الجامع لسیرۃ شیخ الإسلام ابن تیمیۃ خلال سبعۃ قرون‘ ڈاکٹر بکر بن عبداللہ أبو زید رحمہ اللہ کے مقدّمے کے ساتھ ’دار عالم الفوائد مکۃ المکرمۃ‘ سے ۱۴۲۰ھ= ۱۹۹۹ء میں پہلی بار شائع ہوا (اور اب تیسرے ایڈیشن پر ’راجعہ أجمل الإصلاحی‘ بھی لکھا ہوا ہے)۔ اس کے بعد پلان سے متعلق کتابوں کی اشاعت کا سلسلہ ڈاکٹر بکر کے منہج کے مطابق ’وفق المنہج المعتمد من الشیخ بکر بن عبداللہ أبو زید‘ کے شعار کے ساتھ شروع ہو گیا جو ڈاکٹر بکر رحمہ اللہ کی وفات (-۱۴۲۹ھ)کے بعد بھی جاری رہا اور دسمبر ۲۰۱۹ء میں اختتام پذیر ہوا۔
اس منصوبے سے متعلق تحقیقات کچھ عزیر شمس رحمہ اللہ کی بلا شرکت غیرے ہیں، کچھ دوسرے محققین کے اشتراک سے ہیں، اسی طرح بعض تصنیفات کا معاملہ بھی ہے۔
ایک نظر میں علمی کاموں کی مختصر روداد ملاحظہ فرمائیں:
کتاب ’مقالات فضیلۃ الشیخ محمد عزیر شمس حفظہ اللہ‘(مطبوعہ دار العلم ممبئی ۲۰۲۰ء) کے صفحات (۲۹-۳۲) پر ان کی مستقل اور مشترک عربی اور چند اردو (۳۶) کتب ورسائل اور تحقیقات کی فہرست سن طباعت کے ساتھ موجود ہے۔
– تصنیفات کی تعداد چھ (۶)ہے، جن میں چار ان کی اپنی مستقل ہیں جن میں اردو کی ان کی دونوں کتابیں: ’مولانا شمس الحق عظیم آبادی حیات وخدمات‘ او ر’مجموعۂ مقالات‘بھی شامل ہیں اور دو کتابیں دوسروں کے اشتراک کے ساتھ ہیں۔
-انیس(۱۹)عدد تحقیقات ان کی بلا شرکت غیرے ہیں۔
-دس(۱۰)عدد تحقیقات مشترک ہیں۔
-ایک(۱)عدد تعریب (عربی میں ترجمہ)ہے۔
اس طرح کل تعداد (۳۶) ہوئی، اس دوران دیگر تحقیقات بھی ضرور شائع ہو ئی ہوں گی لیکن راقم کی اس تحریر کی بنیاد ’مقالات‘میں شائع شدہ فہرست ہے۔
ٹیم ورک کے اختتام (دسمبر ۲۰۱۹ء)کے بعد کی مدت میں فاضل گرامی نے جو علمی وتحقیقی کام انجام دیے اور جن کی اشاعت ابھی تک نہ ہو سکی، دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ محبّ علم ناشرین کو ان کی اشاعت کی توفیق بخشے!
فاضل گرامی کا غیر مطبوعہ علمی ترکہ اور اس کی حفاظت:
اپنے محسن ادارہ کے صدر کے نام شیخ عزیر رحمہ اللہ (۱۴/۹/۱۴۴۳ھ)اپنی تحریر کردہ ایک رپورٹ (جو وفات سے تقریبا چھ ما ہ قبل کی ہے)میں رقم طراز ہیں کہ مندرجہ ذیل کتب ورسائل بھائی سراج منیر کے ذریعے کمپیوٹرائزڈ کرائے جا چکے ہیں:
٭ مجموعۃ رسائل المحدث محمد حیاۃ السندی (جو ایک ضخیم جلد میں ۱۳ رسالوں پر مشتمل ہے)
٭ مجموعۃ رسائل الشاہ ولی اللہ الدھلوی (ایک جلد، جو ۲۴ رسالوں پر مشتمل ہے)
٭ مجموعۃ رسائل المحدّث شمس الحق العظیم آبادی (ایک جلد، جو ۱۴ رسالوں پر مشتمل ہے)
٭ مجموعۃ رسائل الشیخ حسین بن محسن الأنصاری (۴ جلدیں)
٭ مجموعۃ فتاوی ورسائل الشیخ نذیر حسین الدہلوی (ایک جلد)
٭ معیار الحق للسید نذیر حسین الدہلوی (عربی ترجمہ وتحقیق)
ان کے علاوہ دیگر کتب رسائل اور ’روائع التراث‘ نام کا مجموعہ وغیرہ۔
رفیق گرامی مذکورہ بالا رسائل کے بارے میں رقم طراز ہیں:
’’بھائی سراج منیر ان رسائل کو ان کے مخطوطات یا قدیم طبعات سے کمپیوٹرائزڈ کرتے اور میں ان سے لے کر ان کی تحقیق کرتا تھا جن کا منہج تحقیق درج ذیل ہے:
(۱)اصل کتاب سے مصفوف کا مقابلہ اور تصحیح۔
(۲)نقص کی تکمیل اور اخطاء کی تصحیح کے لیے دوسری مخطوطات کی تلاش۔
(۳)مصفوف مواد کا دوسرے مخطوطات سے مقابلہ۔
(۴)پھر نصوص کی تحقیق وتعلیق۔
(۵)پھر کتاب یا مجموعہ پر مقدّمہ۔
’’میں شیخ بکر بن عبداللہ أبو زید رحمہ اللہ کے منہج کے مطابق ان کے پروگرام کی تکمیل میں مشغول تھا جو دسمبر ۲۰۱۹ء میں اختتام پذیر ہو گیا، اب جنوری ۲۰۲۰ء سے مذکورہ بالا کتب ورسائل کی تحقیق میں مشغول ہوں۔‘‘
کچھ دیگر کتابوں کے تذکرے کے بعد تحریر فرماتے ہیں:
’’معیار الحق،سید نذیر حسین ، رسائل السندی اور رسائل الشاہ ولی اللہ کے بہت سے اجزاء سے فارغ ہو چکا ہوں اور دو مہینے کے اندر انھیں ناشر کے حوالے کر دوں گا۔‘‘
’’نومبر ۲۰۲۰ء سے اب تک رسائل وفتاوی السید نذیر حسین (ایک جلد)اور رسائل الشیخ حسین بن محسن الأنصاری (۴ مجلدات)پر کام چل رہا ہے، اس سال کے اخیر تک انھیں مکمل کر دوں گا، پھر بقیہ کتب اور مجموعات کی ان شاء اللہ تکمیل کروں گا۔‘‘
وفات سے ایک ہفتہ قبل (۱۲/۳/۱۴۴۴ھ) کی تحریر:
محسن صدر ادارہ کے نام اس خط میں رقم طراز ہیں:
’’بعض کتب ومجامیع کی اشاعت ہو گئی ہے اور بعض کو ناشر کے حوالے کر چکا ہوں، اور امید ہے کہ آئندہ تین مہینوں کے اندر معیار الحق، رسائل السندی، رسائل الدھلوی اور رسائل العظیم آبادی کی اشاعت ہوجائے گی…۔‘‘
معیار الحق:
فاضلِ گرامی عزیر شمس رحمہ اللہ نے تقریبًا پینتیس(۳۵)سال قبل ’معیار الحق‘ کی تعریب وتعلیق کا کام شروع کیا ہوگا۔ اس ترجمے سے خاکسار کا بھی یک گونہ تعلّق ہے۔
اس کی تفصیل یہ ہے:’’میں نے مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ (گجرانوالہ) کے رسالہ ’جماعت اسلامی کا نظریۂ حدیث‘ کا ترجمہ ’موقف الجماعۃ الإسلامیۃ من الحدیث النبوی‘ کے نام سے کیا، اردو ایڈیشن پر مولانا محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ کی تقریظ تھی، برادرِ گرامی شیخ عارف جاوید محمدی حفظہ اللہ نے مولانا بھوجیانی کی تقریظ کی فوٹو کاپی منگوائی توا س پر مولانا بھوجیانی رحمہ اللہ نے اپنے قلم سے لکھا: ’’کاش کوئی ’معیار الحق‘ کا عربی میں ترجمہ کر دیتا۔‘‘
میں نے اس حکم کی تعمیل کا عزم کیا تو عزیر شمس رحمہ اللہ نے کہا کہ اسے تم چھوڑ دو میں کر دوں گا، ان کے بقول یہ ترجمہ سالہا سال پہلے مکمل ہو چکا تھا، لیکن ایک یا چند حوالوں کی کمی کے سبب اس میں تاخیر ہو رہی تھی۔
اس مسئلے پر کئی بار نرم وگرم گفتگو ہوئی ایک صاحب نے بتایا کہ ابھی وہ حوالہ باقی ہی ہے۔ (جس کا تعلق لندن لائبریری سے ہے)، لیکن الحمداللہ اب ان کے آخری خط سے معلوم ہوا کہ وہ پریس کو جا چکی ہے، متعلق حضرات نظر رکھیں کیوں کہ وہ ایک قیمتی سرمایہ ہے۔
تراجم اہلِ حدیث:
اس موضوع پرکتاب کی تصنیف وتدوین کی تیاری جامعہ سلفیہ میں طالب علمی کے زمانے سے ہی کر رہے تھے۔
یہاں اس کا ذکر بھی مناسب ہوتا ہے کہ جامعہ سلفیہ کی لائبریری میں کام کرتے ہوئے میری دلچسپی کا موضوع اسلامی تحریکات اور جمعیات وجماعات تھا، اس کے پیش نظر میں نے مولانا محمد ابو القاسم سیف بنارسی رحمہ اللہ کے ذاتی مکتبہ سے آئی ’اخبار اہل حدیث امرتسر‘ کی مکمل فائلوں کی طائرانہ طور پر ورق گردانی کی، ابتدائی سالوں کی فائلوں کے علاوہ اور ۱۵/اگست ۱۹۴۷ء سے قبل کے چند شماروں کے علاوہ دوسرے تمام شمارے تقریبًا موجود ہیں۔ مولانا امرتسری رحمہ اللہ نے بطور خاص جو تحریریں دار العلوم دیوبند، ندوۃ العلماء، جمعیۃ علمائے ہند، خلافت تحریک اور نجی طور پر مولانا امرتسر نے خود جو اصلاحی، اقتصادی، تجارتی اور سماجی کمیٹیاں مختلف اوقات میں تشکیل کی تھیں، ان سب کے اہم نوٹ لیتا رہا۔ اسی لیے جب مولانا محمد داود راز رحمہ اللہ نے ہم چار آدمیوں (رفیع احمد، عزیر شمس، بدر الزماں اور خاکسار) سے مضامین لکھنے کے لیے کہا تو میں نے اپنا مضمون ’مولانا امرتسری اور تحریک ندوۃ العلماء‘ کے عنوان سے لکھا جو طالب علمی کے زمانے میں ’محدث‘کے دو شماروں میں شائع ہوا۔
فاضلِ گرامی شیخ عزیر شمس کی دلچسپی کا موضوع اس وقت بطور خاص ’تراجم اہل حدیث‘تھا یہ تقریبًا پچاس سال پہلے کی بات ہے، بہت سالوں سے اس کتاب کی تیاری کا ذکر کرتے اور کہتے کہ کچھ معلومات کی ضرورت ہے جن کی تکمیل ہندوستان ہی میں ہو سکتی ہے۔ کئی بار اس کی طباعت میں تاخیر پر گفتگو ہوئی، میں نے خود پیش کش کی تھی کہ لائیے کتاب کی کمپوزنگ کروا کر آپ کو دیتے ہیں پھر آپ مزید کام کرتے رہیے گا۔
برادر گرامی شیخ عارف جاوید محمدی حفظہ اللہ کے اصرار پر انھیں اس شرط پر دینے کے لیے راضی تھے کہ سلفیان برصغیر کی تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے جناب شیخ تنزیل صدیقی کی نگرانی میں شائع ہو۔
بہر حال کتابوں کی نئی اور پرانی دونوں فہرستوں میں اپنی اس کتاب کا انھوں نے کوئی تذکرہ نہیں کیا ہے، جو باعثِ تشویش ہے۔
شیخ عارف صاحب حفظہ اللہ کا آخری بیان ہے کہ انھوں نے ان سے یہ بتایا تھا کہ یہ کتاب ان کے فلیٹ (دہلی)میں موجود ہے۔
اسی طرح رفیق گرامی مولانا رفیع احمد عاقل (آسٹریلیا) کے حوالے سے معلوم ہوا کہ انھوں نے مولانا عبدالحلیم شررؔ سے متعلق جو مواد جمع کیا تھا اسے انھوں نے شجاع الدین (کراچی)کو دے دیا تھا۔
اقرباء ومتعلقین سے گزارش:
شیخ محمد عزیر شمس رحمہ اللہ کی فہرست میں بیسیوں کتابوں کا ذکر ہے، جو لوگ ان کی کتابوں کے ناشر وغیرہ سے واقفیت رکھتے ہیں، انھیں چاہیے کہ نشرو اشاعت سے متعلق امور کی متابعت وپیروی کریں تاکہ ان کے علمی ترکے کا ایک ایک صفحہ محفوظ ہو جائے۔
بطور خاص ’معیار الحق‘اور ’تراجم اہل حدیث‘، کی حفاظت کے ساتھ ان کے ایم اے اور پی ایچ ڈی کے دونوں رسالوں کی طباعت کے سلسلے میں متعلقین کو اپنا کردار نبھانا چاہیے تاکہ بطور خاص طلبہ ان سے استفادہ کر سکیں۔
اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور ان کی علمی خدمات کو ان کے لیے سرمایۂ آخرت بنائے۔
کچھ متفرقات حدیث دوستاں:
عقائد وفقہیات:
٭ فقہی مسائل میں کسی بھی شخص کے لیے گفتگو کی کافی گنجائش ہو سکتی ہے، جیسا کہ فقہی کتابوں کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے، فقہ کے نام پر ان میں کتنی غیر فقہی چیزوں کاتذکرہ ہو گیا ہے، لیکن آخر میں دوسرے کو بھی دلائل کی روشنی میں ترجیح کا ضروری حق حاصل ہوتا ہے۔
٭ یہ گنجائش عقائد میں بے حد محدود ہوتی ہے، ورنہ پھر عقائدی گمراہیوں کا دروازہ ایسا کھل جائے گا جسے بند کرنا دشوار ہوگا، مختلف گمراہ فرقوں کا وجود اسی آزادی کا نتیجہ ہے۔
٭ علی سبیل المثال:عقیدۂ وحدۃ الوجود اور حلول واتحاد عقیدۂ توحید باری تعالیٰ کے سراسر منافی، نہایت فاسد اور مشرکانہ عقیدہ ہے۔ جس کے دعاۃ ومبلغین کے متعلق ان کے ملحدانہ ومشرکانہ اقوال کی روشنی میں نرم گوشہ یا حسن ظن وخوش اعتقادی کی کوئی شرعی گنجائش تقریبًا باقی نہیں رہ جاتی ہے۔
جہاں ایک فریق اس کی مکمل گمراہی کا قائل ہے، وہیں دوسرا فریق اس کا مؤید ومدّاح ہے۔
مجدد ألف ثانی شیخ احمد سرھندی (-۱۰۳۴ھ) جیسے اصلاح پسند ما تریدی صوفی نے عقیدہ وحدۃ الوجود کی خطرناکی کو کچھ کم کرنے کے لیےاس کے مقابلے میں عقیدۂ وحدۃ الشہود کا تصوّر پیش کیا، جسے مولانا علی میاں ندوی رحمہ اللہ (-۱۹۹۹ء) نے مجدد الف ثانی کے اصلاحی کارناموں میں شمار کیا ہے، حالانکہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے وحدۃ الشہود کے بارے میں اپنی رائے کا برملا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:
من جعلہ نہایۃ السالکین فہو ضالّ ضلالًا مبینًا(مجموع الفتاوی:۳/۱۱۹)
یاد رہے کہ ابن تیمیہ جیسے مردِ مجاہد نے توسل واستغاثہ بغیرا للہ اور ابن عربی کے گمراہ کن عقیدے کے خلاف جب نہایت جرأت مندی سے آواز اٹھائی، تو مصر میں تقریبا دو ہفتے (۳/۱۰/۷۰۷ھ-۱۸/۱۰/۷۰۷ھ) تک گرفتار رہے، سخت ذہنی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا، مفتیانِ وقت نے شیخ الاسلام کے سامنے ان پر ’فرد جرم‘عائد کرتے ہوئے تین اختیارات (آپشن)رکھے:
(۱)یا دمشق لوٹ جائیں۔ (۲)یا اسکندریہ میں رہنا ہے تو شرطوں کے ساتھ رہنا ہوگا۔ (۳)یا قید وبند کی سزا ہوگی، اس مردِ مجاہد نے آخری سزا کو ترجیح دی، لیکن ان کے ہمدرد رفقاء نے یہ مشورہ دیا کہ وہ دمشق جانے کی شرط قبول کرلیں پھر وہ (۱۸/۱۰/۷۰۷ھ)کو قافلے کے ساتھ دمشق کے لیے روانہ ہو گئے۔
(ملاحظہ ہو:مقدمۃ الشیخ بکر أبو زید علی الجامع لسیرۃشیخ الإسلام ابن تیمیۃ خلال سبعۃ قرون) اعداد وترتیب: محمد عزیر شمس وعلی محمد العمران:ص [ن])
بر صغیر میں عقیدہ وحدۃ الوجود کی وبا بہت پرانی تھی، ہمارے علماء عاملین میں میاں سید نذیر حسین محدّث دہلوی رحمہ اللہ (۱۲۲۰-۱۳۲۰ھ) ابن عربی سے صرف حسن ظن رکھتے تھے، کبھی بھی انھوں نے نہ اس کی کوئی تبلیغ کی اور نہ ہی ان کے کسی شاگرد نے ان کی اس مسئلے میں کبھی کوئی تائید کی، بلکہ اس کے برعکس میاں صاحب کے عظیم شاگرد علامہ شمس الحق عظیم آبادی (صاحب عون المعبود) اور مولانا محمد بشیر الدین قنوجی (استاذ نواب صدیق حسن خاں)نے ان سے اس موضوع پر بحث ومباحثہ کیا۔
یہی فرق ہے سلفی منہج اور دیگر مناہج میں، کہ ان کے یہاں کسی بزرگ سے کوئی غلطی سرزد ہو جائے تو اس پر نکیر نہیں کرتے بلکہ اکثر اس کی تائید میں رطب اللسان رہتے ہیں۔ ہمارے یہاں:الحق لا یعرف بالرجال، بل الرجال یعرفون بالحق۔
فاضلِ گرامی سے اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے برادرِ عزیر شیخ ثناء اللہ صادق تیمی وفقہ اللہ نے ادب واحترام کے ساتھ ان سے تعارض کرکے اپنی ذمہ داری نبھائی۔
مولانا مسعود عالم ندوی رحمہ اللہ (-۱۹۵۴ء)نے اپنی کتاب ’تاریخ الدعوۃ الإسلامیۃ‘ میں شاہ ولی اللہ (-۱۱۷۶ھ) کی صوفیات کے مدّ نظر برملا کہا:
نحن نعرف ولی اللہ المحدّث، ولا نعلم ولیّ اللہ الصوفی
کسی عام عالم سے اس قسم کی رائے سرزد ہو جائے تو قابلِ التفات نہیں، لیکن کسی مستند عالم دین، فاضل محقق اور اس طرح کے مسائل کے ماہر سے اگر کوئی کمزور قول صادر ہو جائے اور وہ قول مختلف ذرائع ابلاغ کے ذریعہ مشتہر بھی ہو جائے تو توضیح امر کے لیے ہی سہی، بحث ونظر پر کوئی پابندی نہیں لگائی جا سکتی، لیکن اس کی بنیاد پر کسی کو مطعون کرنا یا پوری شخصیت کو شکوک وشبہات کے دائرے میں لے آنا بالکل مناسب نہیں۔
اس بارے میں کئی جہتوں سے استفسار آیا، پہلی فرصت میں میں نے شیخ ثناء اللہ تیمی سے گفتگو کی کہ اس طرح کے معاملات کو نشر نہ کریں بسا اوقات اِنسان لائیو پروگرام میں ایسی گفتگو کر جاتا ہے کہ اگر اس سے ہی بعد میں پوچھا جائے تو کہے گا وہ بغیر تحقیق کے بات نکل گئی۔ جب کوئی اس قسم کی بات نشر ہو جاتی ہے تو یہ کہہ کر بھی معاملہ ٹالا نہیں جا سکتا کہ یہ متکلم کی اپنی رائے ہے، اس لیے اس میڈیائی دور میں گفتگو کے وقت بے حد احتیاط کی ضرورت ہے۔
٭ نظر ثانی اور مراجعت سے کتابوں میں علمی و طباعتی غلطیوں کے امکانات کم ہو جاتے ہیں، اسی طرح قدیم زمانے سے علمائے محققین کا یہ مسلک بھی رہا ہے کہ اپنے قدیم کتب و رسائل اور مسائل پر نظر ثانی کے بعد اس میں ترمیم و تنسیخ کرتے ہیں، پتہ لگتا ہے کہ علم و تحقیق کی دنیا میں خواہ وہ کتنا بڑا محقق و مدقق ہی کیوں نہ ہو اس کی ہر تحقیق آخری نہیں ہوتی ہے۔
مثال کے طور پر ہمارے فاضل گرامی کو ’عشق و عاشقی‘ پر ایک مقالہ یا رسالہ ملا، انھوں نے اپنی تحقیق و تدقیق سے یہ ثابت کیا کہ یہ رسالہ یا مقالہ امام ابن القیم رحمہ اللہ کا ہے، کتاب چھپ گئی، پھر تحقیق سے ثابت ہوا کہ یہ رسالہ ابن القیم کا نہیں ہے اور نہ ہو سکتا ہے، لہٰذا کتاب کے دوسرے ایڈیشن میں اسے حذف کر دیا گیا۔
لہٰذا ہمارے رفقاء بطور خاص ہمارے عزیز طلبہ کے سامنے یہ حقیقت روز رشن کی طرح عیاں ہونی چاہیے کہ نبی کریم ﷺ کے علاوہ کسی کی ہر بات کو ’قول زریں‘ بنا کر پیش کرنا خلاف دانش اور کم کوشی ہے۔
احباب کے درمیان بسا اوقات خصوصی مجالس میں کچھ ایسے مسائل پر گفتگو یا رائے زنی ہونے لگتی ہے جن کی سرِ عام اشاعت قابلِ اعتراض بھی ہو سکتی ہے، قابل مذمّت بھی ہو سکتی ہے، اور بعض ماحول میں قابل گرفت بھی ہو سکتی ہے، رائے زنی کرنے والا سامعین سے بھی زیادہ اس کی خطرناکی کا ادراک رکھتا ہے، کہ یہ رائے ماحول میں سراسر ناقابل قبول ہوگی، لہٰذا اگر کسی صاحب علم سے ایسے مسائل دانستہ یا نادانستہ طور پر سرزد بھی ہو گئے ہوں تو ان کو اب چھیڑ کر بحث ومباحثہ کا غیر ضروری دروازہ کھولنا ، نہ قرینِ عقل ہے اور نہ قرینِ مصلحت۔
٭ رفیق گرامی شیخ عزیر شمس رحمہ اللہ اپنے علم وہنر کے ساتھ ساتھ بڑی آزادی سے اپنی رائے پیش کرنے کا حوصلہ رکھتے تھے، بطور خاص اپنے رفقاء ومعتمدین کے درمیان یہ حوصلہ دو چند ہو جاتا تھا، پھر ان کی آواز بھی کسی لاؤڈ اسپیکر کی محتاج نہیں رہ جاتی تھی۔
اختلاف رائے انسانی فطرت کا خاصہ ہے، لیکن ایک دوسرے کو زیر کرنے کے لیے نہ ہو تو یہ صحت مند ماحول کی علامت ہے، میں نے اپنی طرف سے ہمیشہ اسے برتنے کی کوشش کی ہے۔
٭ سالوں قبل کی بات ہے شیخ عزیر رحمہ اللہ تقریبًا ڈھائی تین سال وطن نہیں آئے، ان کے دل میں کسی معاملے کو لے کر تشویش تھی معاملہ واقعی صحیح تھا، لیکن اس کا ان سے کوئی تعلق نہ تھا، اسی زمانے میں اپنی رہائش وغیرہ کے اثبات کے لیے لوگ ’آدھار کارڈ‘ وغیرہ بنوا رہے تھے، مجھے حقیقت حال کی خبر تھی، بہت ہمت دلائی پھر وہ آئے، الحمد للہ جو خدشات ان کے ذہن میں تھے وہ بھی دور ہو گئے۔
٭ فاضلِ گرامی سے دیرینہ تعلقات کے علاوہ وہ دلی میں میرے پڑوسی بھی ہیں، ان کے اور میرے اس وقت رہائشی فلیٹ کے درمیان تقریبا تین چار سو میٹر کا فاصلہ ہوگا، دونوں کے بیچ میں واقع مولانا عبدالحمید رحمانی رحمہ اللہ کے اداروں کی اہل حدیث جامع مسجد ابوبکر نے اس فاصلے کو اور کم کر دیا ہے۔
رفیقِ گرامی سے زیادہ نہیں کم ہی سہی لین دین کے مسائل بھی رہے ہیں، آخری ملاقات میں وہ عزیزم عبداللہ صلاح الدین سلمہ سے فرما رہے تھے کہ اپنے ابا کی آفس کی طرح محل وقوع کا پلاٹ میرے لیے بھی دیکھو، بعد میں پتہ چلا کہ انھوں نے وفات سے قبل جیت پور میں ایک اچھا پلاٹ خرید لیا ہے وہ معتمد علیہ شخص کی نگرانی میں ہے، اسی طرح ان کا پرانا پلاٹ بھی دوسرے علاقے میں محفوظ ہے۔
٭ شیخ عزیر رحمہ اللہ جب ڈاکٹر بکر بن عبد اللہ ابو زید رحمہ اللہ کے بنائے ہوئے علمی پروگرام میں شریک ہوئے تو وہ تنہا نہیں تھے بلکہ محققین کی ایک ٹیم تھی اور آج وہ محققین بھی اپنے اپنے ماحول میں علامہ محقق ومصنف مدقّق اور ’ماہر مخطوطات‘ سے کم نہیں گردانے جاتے ہیں۔ یوٹیوب وغیرہ پر آج ان میں سے بعض محققین کے نئے پرانے انٹرویو آرہے ہیں بطور خاص پروگرام کے رکنِ رکین ڈاکٹر علی العمران اپنے ایک انٹرویو میں پرانے کاموں کا تعارف کروا رہے ہیں، جن میں عزیر صاحب کا نام بھی نہیں لے رہے ہیں۔
دوسرا ایک عرب نوجوان عالم ابھی رات میں دیکھا کہ وہ ’دار عالم الفوائد‘ کی مطبوعات کا تعارف کر وا رہا ہے۔ ’أعلام الموقعین‘ اس کے ہاتھ میں ہے جس کی تحقیق میں شیخ عزیر بھی شریک ہیں،لیکن وہ ’العلامۃ أجمل‘ پرزور دے رہا ہے۔
میری اس سمع خراشی کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے مضمون نگاران مبالغہ آرائی نہ کرکے اپنے مضامین میں اعتدال پسندی کا ثبوت دیں، تاکہ بےجا حسّاسیت سے بچا جا سکے۔
مبالغہ آرائی نہ ہمارا منہج ہے اور نہ اس سے حقیقت میں کوئی تبدیلی ہو سکتی ہے، شیخ عزیر رحمہ اللہ کی بطور خاص شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے قلمی نسخوں پر گہری نظر تھی اس کا سب کو اعتراف ہے لیکن اس اعتراف کو اس طرح نہ پیش کیا جائے کہ ٹیم کے دوسرے لوگ اپنی حق تلفی محسوس کرنے لگیں اور ایک دوسری غیر ضروری بحث چھڑ جائے جو میری نظر میں رفیق گرامی کے وقار کے مناسب نہ ہوگا…۔
٭ فاضلِ گرامی کے یہاں یہ خصوصیت تھی کہ وہ موقع بہ موقع ایسی مجلسوں میں بھی بڑی بے تکلفی سے پہنچ جاتے تھے جہاں ہم جیسے کم کوشوں کے لیے عقائدی یا مسلکی اختلاف کے سبب کوئی جگہ نہیں ہوسکتی تھی۔
مجھے بھی اس کی نصیحت کرتے کہ آفس میں کیا بیٹھے رہتے ہو تم کو بھی سب کے یہاں جانا چاہیے، کچھ مبتدعانہ مجلسوں میں بھی لوگوں نے انھیں اپنا سمجھ کر بلا لیا تو وہ چلے گئے لیکن اس محفلِ میلاد کو اپنے حق میں استعمال کر لیا اور پھر شیخ الازہر کی آفس تک رسائی ہوئی ، تو یہ دل گردہ کی بات ہے، سب کے لیے یہ ممکن نہیں۔
٭ فاضلِ گرامی نے شیخ ثناء اللہ تیمی سے گفتگو میں کسی وقت یہ بات کہی ہے کہ عربوں نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ کو سمجھا ہی نہیں ہے اور نہ سمجھنا چاہتے ہیں۔
یہ تو ایک صحت مند گفتگو کا موضوع تھا اگر وہ اسے عربی میں اپنی تعلیقات وتحقیقات کے حوالے سے پیش کرتے تو شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے نو ادرات کے ماہر کی حیثیت سے ضرور اہل علم اس کی قدر کرتے اور اس پر توجہ دیتے یہ بڑا کام ہوتا لیکن ایسا نہیں ہوا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ صحیح العقیدہ عرب شیخ الاسلام ابن تیمیہ، امام ابن القیم اورمحمد بن عبدالوھاب رحمہم اللہ وغیرہ کے علمی و اصلاحی کارناموں کے سبب، ان کے بارے میں کوئی مختلف رائے سننے کے لیے زیادہ تیار نہیں رہتے ہیں، لیکن اگر دلائل کی روشنی میں کوئی بات حق ہے تو اس کی تائید سے بھی گریز نہیں کرتے۔ ’خبیر کتابات شیخ الإسلام‘ کے حوالے سے رفیقِ گرامی کی شہرت، معاملے کے افہام و تفہیم میں مزید ممدو معاون ثابت ہوتی۔
خاکسار نے حافظ ابن حجر العسقلانی (صاحب فتح الباری) کے رسالہ ’الزھر النضر فی نبأ الخضر‘ کی تحقیق وتعلیق کی تو اس مناسبت سے حیات خضر کے بارے میں ا بن تیمیہ رحمہ اللہ کا ایک فتوی ’مجموع الفتاوی‘ میں مذکور پایا، جو سراسر ان کی دوسری تحریروں کے خلاف ہے اور فتاوی کے مرتّب الشیخ القاسمی نے بھی حاشیہ میں لکھ دیا کہ ’ھکذا وجدت‘اس سے اس کے الحاقی ہونے کا شبہ بھی قوی تر ہو جاتا ہے۔
اس کے باوجود شیخ الاسلام کے فتوی پر تنقید بڑا مشکل کام تھا لیکن میں نے جرأت کرکے دلائل کی روشنی میں تنقید کی اور کتاب چھپ گئی، کئی علماء وفضلاء نے اس جرأت کو سراھا، مجھے یاد آرہا ہے کہ ڈاکٹر بکر ابو زید رحمہ اللہ نے بھی ہمت افزائی کی۔
٭ اس پر آشوب دور میں ملّت کے نوجوانوں کو نوع بہ نوع گمراہیوں سے بچانے کے لیے ثقہ علماء ومشایخ کے دروس ومواعظ نے اپنا مثبت کردار نبھایا ہے، عقائد وثوابت کے بارے میں علماء عاملین کی مسلسل کوششوں سے صحیح عقیدے کی نشر واشاعت اور مشرکانہ عادات وعوائد اور رسوم ورواج کی بیخ کنی ہوئی ہے اور ہوتی رہے گی، ان علمائے کرام اور ان کے واعظانہ پند ونصائح کا ہمیں احسان مند ہونا چاہیےہم طلابِ علم کے لیے ضروری ہے کہ اس حقیقت کو ہمیشہ ملحوظ ِخاطر رکھیں۔
٭ فاضلِ گرامی عزیر رحمہ اللہ اپنے پسندیدہ علماء کی خود زیارت کرتے اور اپنے احباب کو بھی ان کی زیارت کے لیے لے جاتے۔
یاد رہے انھی کے ساتھ شیخ ابو الاشبال شاغف رحمہ اللہ، شیخ عبد العلیم بستوی رحمہ اللہ سے مدّتوں بعد ان کے دولت خانوں پر آخری ملاقات ہوئی۔
– ایک حج کے موقع پر ڈاکٹر بکر بن عبداللہ ابو زید رحمہ اللہ کی آفس میں بھی ملاقات کے لیے لے گئے لیکن وہ موجود نہ تھے۔
– وہ اپنے ایک محبّ خاص قاضی صاحب (نام یاد نہیں) کی مجلس میں بھی لے گئےجو شیخ بکر ابو زید کے بےحد مدّاح تھے، پر تکلّف دعوت ہوئی انھوں نے اپنی دو کتابیں تحفے میں دیں، اور شیخ عزیر رحمہ اللہ کے بارے میں مجھے مخاطب کرکے فرمایا: إنہ ذُبح من غیر سکّین۔
میں نے جواب میں کہا: إن شاء اللہ ھو یتدارک الأمر۔ شیخ عزیر رحمہ اللہ مسکراتے رہے، میں نے سمجھا کہ کچھ لوگ شیخ عزیر رحمہ اللہ کا استغلال کرتے ہیں۔
حج کے زمانے میں برِّصغیر کے علماء کی ایک بڑی مجلس تھی جس میں ہم لوگ بھی شریک ہوئے اور فضیلۃ الشیخ الدکتور وصی اللہ عباس حفظہ اللہ کی صدارت رہی، اس میں ’فقہ أہل الحدیث‘ کی ترتیب وتدوین کی بات آئی اس میں خاکسار کو بھی خاص ذمہ داری سونپ دی گئی، ایسی جلد بازی میں منعقد مجلس کے خاکے میں رنگ بھرنا کیسے ممکن تھا۔
اللہ جزائے خیر دے ڈاکٹر محمد لقمان سلفی رحمہ اللہ کو، کہ انھوں نے کم از کم انفرادی طور پر ’فقہ اہل حدیث‘ کے موضوع پر تین جلدوں میں کام کر دیا جو میری نظر میں قیمتی سرمایہ ہے۔
– اسی قسم کی ایک مجلس میں شیخ عبد المجید مدنی (داعی، ریاض)نے رفیقِ گرامی کی بلند آوازی کے باوجود جماعت وجمعیت سے متعلق بہت مدلل گفتگو کی، حج کے میرے ایک دوسرے ساتھی جو ان سے واقف نہیں تھے، بہت غلط اثر لیا، پھر میں نے ان کو بتایا کہ وہ میرے دیرینہ یار ہیں، کوئی بات نہیں۔
– ایک دفعہ کی بات ہے کہ فاضلِ گرامی سے سخت گفتگو ہوئی، بیرون ملک بعض ذمہ داروں کے سامنے جماعت و جمعیت کی بات چھیڑ دی، پھر اس کے جواب میں مجھے کچھ ایسی حقیقتوں کا انکشاف کرنا پڑا، جسے عربوں کے سامنے پیش کرنا میں نے کبھی بھی مناسب نہیں سمجھا تھا۔ شام کو برادر گرامی شیخ عقیل اختر مکی وفقہ اللہ کی رہائش گاہ (ہوٹل) پر تلخی کم کرنے کے لیے ایک مجلس ہوئی جس میں برادرِ عزیز شیخ محمد مصطفیٰ مدنی (کویت)بھی شریک تھے۔ اس کے بعد انھوں نے اپنا موقف بدلا یا نہیں یہ میرا موضوع نہیں ہے، لیکن میرےموقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، تفصیلات ان دونوں حضرات سے دریافت کیے جا سکتے ہیں۔
میرا موقف یہ رہا ہے کہ اپنے اندرونی مسائل کو باہر طشت از بام نہ کیا جائے، لیکن تمام ذمہ داران کو حقائق سے واقفیت تھی، ایک بار ’ذمہ دار اعلیٰ‘ نے اس سے متعلق اخراجات کی پیش کش کی تو میں نے ٹال دیا، اس وقت اتفاقاً آفس میں یہی شیخ محمد مصطفیٰ مدنی بھی موجود تھے (جناب امجد اعظمی ان کے ساتھ تھے)مصطفیٰ صاحب نے خاموشی سے بہ اصرار کہا کہ آپ لکھ دیجیے میں اسے حاصل کر لوں گا، لیکن میں نے بالکل مناسب نہ سمجھا، ٹھیک ہے یہ حضرات ذہنی طور پر ساتھ تھے لیکن میں نے ہمیشہ اپنی طرف سے انھیں بالکل الگ رکھنے کی کوشش کی۔(یہ واقعہ کسی نے خاکسار سے متعلق مضمون میں لکھا بھی ہے)
٭ یاد آرہا ہے جامعہ سلفیہ کے ابتدائی سالوں میں ہم لوگوں نے آپس کے اتفاق سے اپنی اپنی خود نوشت(سوانح)لکھی تھی اپنے رفقاء کا معلوم نہیں، لیکن ڈھونڈھنے کے بعد بھی اپنا والا مضمون میں نہیں پاسکا۔
– اسی طرح جامعہ سلفیہ بنارس کے پڑوس میں واقع بریلوی مکتب فکر کا مدرسہ فاروقیہ تھا، اس کے طلبہ سے تحریری مناظرہ ہوا جس کی تالیف میں بعض سینئر ساتھیوں کے علاوہ رفقائے گرامی رفیع احمد، عزیر شمس رحمہ اللہ اور خاکسار شریک تھے، اپنے قابل احترام سینئر مولانا محمد ابو القاسم فاروقی حفظہ اللہ کا قائدانہ کردار رہا، استاذ گرامی مولانا محمد ادریس آزاد رحمانی رحمہ اللہ بلند پایہ فقیہ، ادیب، شاعر اور نقّاد تھے ان کی سرپرستی حاصل تھی، یاد آرہا ہے کہ ہم لوگوں کی طرف سے فریق ثانی کو جو آخری عریضہ بھیجا گیا، اس کی طرف سے اس کا کوئی جواب نہ آیا۔
مولانا فاروقی نے بتایا کہ اس مناظرے کے مسوّدات ان کے پاس موجود ہیں، اسی طرح رفیع صاحب نے یاد دلایا کہ بعض دیگر موضوعات پر بھی ہم لوگوں نے مل کر پروگرام بنایا تھا لیکن وہ پورا نہ ہو سکا۔
٭ جامعہ اسلامیہ سے فراغت کے بعد میں نے اپنے طور پر ایک پروگرام بنایا کہ بعض دیگر جماعتوں کی طرح ہمارے پاس عام لوگوں کے لیے لٹریچر نہیں ہیں، لہٰذا تقریبًا پچاس اہم مسائل پر مختصر رسالے ترتیب دیے جائیں اور برّ صغیر کے ثقہ مصنفین ومؤلفین سے ان کے تخصّص کے اعتبار سے رسالے لکھوائے جائیں۔
فاضل گرامی شیخ عزیر سے تذکرہ ہوا، کہا بالکل ٹھیک ہے، انھوں نے انھی ایام میں اس پروگرام کا تذکرہ محسن جماعت مولانا مختار احمد ندوی (سابق امیر جمعیۃ اہل حدیث ہند) سے کیا، مولانا رحمہ اللہ نے فرمایا کہ تم لوگ اسے چھوڑ دو، میں آسانی سے یہ کام کروا دوں گا، اور یہ کام بالکل آسانی سے ان کے ذریعہ ہو بھی سکتا تھا لیکن کسی وجہ سے نہ ہو سکا جس کا اب تک افسوس ہے، مشکل ہے کہ جو پروگرام کینسل ہو جاتا ہے اس کے لیے دوبارہ ہمت جٹانی کارے دارد۔
اسی طرح کویت میں کسی وقت فاضل گرامی کی حاضری کے موقع پر ’برصغیر میں اہل حدیث کی خدمات‘ کے عنوان سے ایک خاکہ بنایا گیا تھا، وہ خاکہ میرے پاس بھی موجود ہے اور اس مجلس میں حاضر باذوق کویتی احباب کے پاس بھی ہے، ابھی چندماہ قبل کویت میں تاریخ و سوانح سے دلچسپی رکھنے والے ایک نوجوان کے گھر ’رحمۃ للعالمین‘ (مصنفۂ قاضی محمد سلیمان سلمان منصور پوری) کے سلسلے میں ایک تعارفی درس تھا، وہ درس ختم ہونے کے بعد اپنی لائبریری میں گیااور یاد دہانی کے لیے وہ ہم لوگوں کا بنایا تاریخ برصغیر کا پروگرام سامنے لا کر رکھ دیا۔ اللہ تعالیٰ تکمیل کی توفیق ارزانی فرمائے۔
٭ فاضلِ گرامی شیخ عزیر نے کئی تحریکات وجماعات کے بارے میں بھی گفتگو کی ہے، ابتدائی معلومات کے لیے تو وہ مفید ہے لیکن تجزیات سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، اس وقت اس کے بیان کی گنجائش نہیں۔
اسی طرح کسی وقت انھوں نے دعوت کے موضوع سے متعلق کتابوں کی فہرست پیش کی تھی جن میں بعض ایسی کتابیں ہیں جن میں سلفیت کے خلاف مواد موجود ہیں، اور بعض کے مؤلفین ایسے ہیں جن کا سلفی تحریک سے اختلاف ہے، اس فہرست میں ایک کتاب سلفیوں کے درمیان باغی گردانے جانے والے ایک مصنف کی بھی ہے، لیکن فاضلِ گرامی نے اس کتاب کے ساتھ مصنف کا نام نہیں لکھا جسے لوگوں نے کافی محسوس کیا۔
فاضلِ گرامی نے جماعتِ اسلامی پر گفتگو کرتے ہوئے تجزیے میں ایک عمدہ اور اہم بات یہ کہی کہ کوئی بھی تحریک جس میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا بھرپور احترام ملحوظ نہ ہو وہ تحریک کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتی ، اور حقیقت میں وہ اسلامی بھی نہیں ہو سکتی۔
٭ فاضلِ گرامی کے رفقاء ومتعلقین کے علاوہ کم ہی لوگوں کو معلوم ہوگا کہ وہ بہت خوش الحان تھے اور خاص احباب کی مجلس میں اگر ان سے مطالبہ کر دیا جاتا تو بڑی فراخ دلی سےنغمے بکھیرتے تھے۔
وہ فن عروض کے ماہر تھے، لیکن میری دانست میں انھوں نے عربی میں شاعری نہیں کی، اردو میں یاد آرہا ہے کہ جامعہ سلفیہ میں مناسبات پر منعقد ہونے والی شعری مجالس میں مزاحیہ اشعار کہے ان کے نشانے پر ان کے ساتھی مولانا عبد القدوس (مالیگاؤں) ہوا کرتے تھے، جو مدینہ یونیورسٹی میں ہم لوگوں کے ہم پیالہ وہم نوالہ بھی رہے۔
کویت پر عراقی قبضے کے بعد میں ’مرکز ابو الکلام ‘ دہلی میں تھا، اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے دفاع میں سرّمری اور عقیلی کے دو طویل قصیدوں کی تحقیق کرکے شائع کرنے والا تھا، شیخ عزیر سے دونوں قصیدوں کے عروض کی تعیین کروائی اور مقدّمے میں ان کا شکریہ ادا کیا۔
٭جب کسی کی کوئی اچھی تحریر ہوتی تو اس پر طرفین سے حوصلہ افزائی کی جاتی جب ’نقض قواعد فی الحدیث‘ (مصنفۂ علامہ بدیع الدین الراشدی)پر خاکسار نے طویل مقدّمہ لکھا تو فرمایا گیا کہ تمھارا مقدّمہ اچھا ہے۔
٭ سعودی عرب میں اہل حدیث کے خلاف ریشہ دوانیوں کا ذکر تفصیل سے ایک خط میں کیا اور بتایا کہ مخالفین نے بعض دیگر مؤلفین کے علاوہ تمھاری کتاب ’زوابع‘ کو بھی اپنی دلیل میں پیش کیا ہے۔
میرا شعری مجموعہ ’مسدس شاہراہِ دعوت‘ جو اب اضافے کے بعد سترہ سو سے زائد اشعار پر مشتمل ہے، ایک ہونہار طالب علم عبدالباری شفیق سلفی (سابق ایڈیٹر مجلہ النور، ممبئی) نے اس کی بنیاد پر ممبئی یونیورسٹی سے بعنوان ’مصلح نوشہروی:حیات اور ان کی شاعری کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ‘ ایم فل کی ڈگری بھی لے لی اور وہ اردو قومی کونسل کی طرف سے شائع بھی ہوگئی۔ یہ شاعری اب ایک مستقل مجموعہ کی شکل اختیار کر گئی ہے ’الوداع‘ کے نام سے اپنے خانوادہ کے مرحومین کا منظوم مجموعہ بھی شائع ہے۔
اس کتاب پر مختلف احباب ومتعارفین کی طرف سے تقریبًا پچیس جرائد ومجلات میں تبصرے شائع ہوئے، اس کا مطلب یہ نہ سمجھیں کہ شاعری بہت اہم تھی بلکہ احباب کو خوشی اس بات پر تھی کہ میں شاعر بھی ہوں، اس پر ایک حقیقت پسندانہ اور عالمانہ تبصرہ عزیز گرامی شیخ ثناء اللہ صداق تیمی نے کیا اس تحریر سے معلوم ہو اکہ اس طالب علم کے یہاں مرعوبیت نہیں ہے، میں اس وقت ان سے بالکل واقف نہیں تھا۔ مکہ مکرمہ جانے سے قبل انھوں نے دوبارہ اضافہ شدہ مجموعہ مجھ سے لیا اور میری شاعری پر ’علم وآگہی کاآبشار‘ کے عنوان سے مضمون لکھا جو ان کی مکہ مکرمہ روانگی کے ایک دو دن بعد ان کے بھائی کے ذریعے آفس کو ملا۔
فاضلِ گرامی عزیر شمس سے شیخ ارشد سراج الدین مکّی وفقہ اللہ (جو دہلی میں واقع ان کے فلیٹ کے نگراں ہیں)نے کہا کہ آپ صلاح الدین صاحب کی شاعری پر تبصرہ کر دیجیے، تو انھوں نے کہا کہ دوست ہے، اس کو تکلیف ہوگی۔
ان کا یہ تبصرہ واقعی حد درجہ حقیقت پسندانہ ہے کیونکہ پہلا ایڈیشن تقریبًا پینتیس سال ترک شاعری کے بعد کا نمونہ ہے، خود اب اسے کسی کو نہیں دیتا۔
وہ تو بھٹی صاحب رحمہ اللہ کی مہربانی تھی کہ انھوں نے میری فراہم کی ہوئی معلومات کی بنیاد پر ’دبستان حدیث‘ میں لکھا کہ ترک شاعری کوئی تقوی وپرہیز گاری نہیں، مدینہ میں عہد نبوی میں بھی صحابہ شاعری کرتے تھے اور نہ ہی مدینہ یونیورسٹی میں داخلہ کی شرائط میں ترک شاعری شامل ہے، بلکہ ایک عالم کے لیے یہ امتیازی وصف ہے، پھر میں نے شاعری شروع کی اور اس پر انھی سے مقدّمہ لکھوایا، پھر میں نے وقتا فوقتًا مکتب کے اساتذہ سے لے کر جامعہ سلفیہ کے ذمہ داران اور اپنے اساتذۂ کرام پر شاعری کی، مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی، مولانا امرتسری، میاں سید نذیر حسین ، شاہ اسماعیل اور شاہ ولی اللہ دہلوی پر بھی زور آزمائی کی، اپنے تمام رفقائے مرحومین پر قصیدے لکھے، خود فاضل گرامی شیخ عزیر رحمہ اللہ پر بھی قصیدہ لکھا اور ان کے والدِگرامی شیخنا شمس الحق سلفی رحمہ اللہ پربھی لکھا ۔
٭ شیخ عزیر رحمہ اللہ کی تحریروں میں اپنے اساتذہ کرام کی خدمات کا بھرپور اعتراف ملتا ہے چند ایک اساتذہ کے بارے میں ان کی رائے اچھی نہ تھی، بلکہ اپنے والدِ گرامی (ہمارے شیخ الحدیث مولانا شمس الحق سلفی رحمہ اللہ) کی طرف سے مجھے ایک استاذ کی تقرری کے بعدیہ ناصحانہ پیغام دیا کہ صلاح الدین سے کہو کہ ان سے تعلّقات نہ رکھیں گے۔
لیکن فاضلِ گرامی نے ان کے بارے میں ان کی وفات کے بعد بہت عمدہ تحریر لکھی اور ان کی صلاحیتوں کو مختلف پہلوؤں سے اجاگر کیا جس سے مجھے خوشی ہوئی، میں نے ان پر عربی میں مقالہ لکھا جو اندرون و بیرون ملک کئی جرائد و مجلات میں شائع ہوا۔
استاذِ گرامی ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری رحمہ اللہ کا ہم تمام طلبہ پر عربی زبان کی تعلیم وتمرین کے لیے بے حد احسان ہے ہماری کلاس میں وہ صرف ایک دن ’دروس البلاغہ‘ کی گھنٹی میں آئے ، جس کے مدرّس استاذ گرامی شیخ عبدالرحمن محمدشفیع لیثی حفظہ اللہ جامعہ سلفیہ سے استعفیٰ دے کر طب پڑھنے کے لیے علی گڑھ چلے گئے تھے۔ (مولانا لیثی صاحب جن کو شیخ عزیر کی فہرست میں کہیں ’ڈوکمی‘ اور کہیں ’ٹونکی‘ لکھا گیا ہے جو صحیح نہیں، اسی طرح ’مقالات‘میں مولانا رفیق اقبال سلفی حفظہ اللہ کے مقالے پر ان کا ایک تنقیدی مقالہ ہے، اس میں مولانا سلفی کے بجائے رفیق احمد رئیس سلفی کا نام درج ہو گیا ہے، وہ بھی صحیح نہیں ہے)
شاید عزیر رحمہ اللہ نے ان کا نام اساتذہ کی فہرست میں اسی لیے نہیں رکھا کہ گھنٹی لگنے کے بعد انھوں نے کلاس میں آکر نہیں پڑھایا حالانکہ وہ تمام اہم اساتذۂ کرام کا تذکرہ کرتے ہوئے (جن میں ڈاکٹر صاحب کا نام بھی ہے)رقم طراز ہیں:
’’یہ اساتذہ مختلف علوم وفنون کے ماہر اور جامعہ کے لیے عزت وشہرت کا باعث تھے اور جن سے طلبہ درس کے علاوہ دوسرے اوقات میں بھی استفادہ کرتے تھے اور علم کے علاوہ اخلاق وآداب بھی سیکھتے تھے… اور ڈاکٹر صاحب کےگزر جانے سے عربی ادب وصحافت کا جنازہ نکل گیا۔‘‘
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ متعدد اوقات میں ڈاکٹر ازہری رحمہ اللہ ہم لوگوں کی گزارش پر اسی جیسے کلاس روم میں درس کے علاوہ اوقات میں عربی بول چال کی تمرین ومشق کرواتے تھے۔
مزید برآں رفیقِ گرامی کی پہلی تحقیق ’رفع الالتباس‘ (مصنفۂ عظیم آبادی) اور ’عظیم آبادی حیات وخدمات‘(اردو و عربی ایڈیشن وغیرہ کی طباعت)ڈاکٹر ازہری کی عنایتوں کا نتیجہ ہے، جس کا اعتراف خود عزیر رحمہ اللہ کو ہے۔
٭ ایک مرتبہ مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ نے جامعہ سلفیہ کی زیارت کی، طلبہ کی طرف سے سپاس نامہ پیش کرنے کا فیصلہ ہوا۔ نہ جانے کس مناسبت سے ہم لوگ (عزیر شمس یقینی تھے اور کون کون ساتھ تھے یاد نہیں)ناظم اعلیٰ رحمہ اللہ کی کوٹھی پر گئے (شاید ناظم اعلیٰ صاحب بھی اسے دیکھنا چاہتے تھے)اور وہیں عربی میں سپاس نامہ تیار کیا گیا۔ اسے پڑھنے کی ذمہ داری میری تھی، یہ پروگرام پرانی بلڈنگ کے اوپری حصے پر جو پہلے لائبریر ی ہال تھا، اس میں منعقد ہوا، اس میں مولانا رحمہ اللہ سے درخواست کی گئی تھی کہ ہم طلبہ کو عربی زبان میں نصیحت فرمائیں، جیسا کہ آپ دارالعلوم ندوۃ العلماء میں کرتے ہیں۔
مولانا ندوی رحمہ اللہ نے عربی میں خطاب کیا اور فرمایا کہ اس طرح کی آزمائشوں میں کئی بار پڑا ہوں اور ان سے نکل گیا ہوں، پھر انھوں نے اردو کی طرح عربی زبان کے لہجوں پر گفتگو کی جو تقریبا ’مختارات‘ کے مقدمے کا خلاصہ تھا۔
ان کا قیام حاجی صدیق رحمہ اللہ کی کوٹھی کے سامنے طیب شاہ مسجد کے وضوخانہ کے اوپر والے کمرے میں تھا، صبح میں تاثرات لکھوانے کے لیے رجسٹر لے کر ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو مولانا ندوی رحمہ اللہ اور ان کے رفیق سفرمولانا سعیدالرحمن اعظمی حفظہ اللہ باہر چارپائی پر بیٹھے ہوئے تھے، پتہ لگ رہا تھا کہ موسم کے اعتبار سے رات باہر ہی گزاری ہے۔ مولانا نے اپنے تاثرات کا عربی میں املا کروایا، مولانا سعیدالرحمن اعظمی حفظہ اللہ نے اسے عربی خوش خط میں لکھا، جس کا پہلا جملہ حمدو صلاۃ کے بعد والا اب تک یاد ہے:
’’إن زیارۃ الجامعۃ السلفیۃ کانت تراود نفسی حینًا لآخر…‘‘
میں بذات خود مولانا کی عربی تحریروں سے طالب علمی کے زمانے میں بے حد متاثر تھا کہ ہندوستانی قلم کار کی عربی زبان میں کتابیں باہر پڑھی پڑھائی جاتی ہیں، یہ شرف کی بات ہے۔
اسی تاثر کے ساتھ موقع ملنے پر جب میں نے ان کی اردو کتابوں کا مطالعہ کیا تو صدمہ ہوا اور یہی چیز سبب بنی کہ میں نے اپنی کتاب ’الأستاذ ابوالحسن علی الندوی:الوجہ الآخر من کتاباتہ‘ کی تالیف کی جو (۷۴۰) صفحات پر مشتمل ہے۔
علماء و طلباء سے گزارش:
مبالغہ آرائی اس شخص کے بارے میں (جس کا کام ہی لینڈ مارک کی طرح اپنے وجود کا لوگوں سے اعتراف کروا رہا ہو) زیبا نہیں۔ بسا اوقات دو مخالف فریقوں کے درمیان اپنے اپنے پیشواؤں کے بارے میں مبالغہ آرائی خود انھی کے لیے باعث تضحیک ثابت ہوتی ہے۔ دو واقعات اس سلسلے میں ملاحظہ فرمائیں:
٭ اہل علم سے یہ بات پوشیدہ نہیں کہ قاضی تقی الدین السبکی (-۲۵۶ھ)اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ (-۷۲۸ھ) کے درمیان اختلاف عداوت کی حد تک تھا۔ تاج الدین بن التقی السبکی (-۷۷۱ھ) نے شیخ الاسلام کی تنقیص میں ان کے اہم تلامذہ و محبین کو بھی ہدف طعن و تشنیع بناتے ہوئے لکھا:
’’وَاعْلَم أَن هَذِه الرّفْقَة -الْمزي والذهبي والبرزالي وَكَثِيرًا مَا أتباعهم- أضرّ بهم أَبُو الْعَبّاس ابْن تَيْمِية إِضْرَارًا بَينا، وَحَملهمْ على عظائم الْأُمُور أمرا لَيْسَ هينا وجرهم إِلَى مَا كَانَ التباعد عَنهُ أولى بهم، وأوقفهم فِي دكادك من نَار المرجو من الله أَن يتجاوزها لَهُم ولأصحابهم.‘‘
(دعوۃ شیخ الإسلام ابن تیمیۃ: ۲/۵۱۵، طبقات الشافعیۃ: ۶/۲۵۴)
’’یعنی ابوالعباس ابن تیمیہ نے مزی، ذہبی اور برزالی اور ان کے اصحاب اتباع کو کھلم کھلا نقصان پہنچایا ہے اور ایسے عظائم امور میں سے ایک ایسے امر کی انھیں ترغیب دی ہے جو آسان نہیں اور انھیں وہاں کھینچ لائے ہیں جہاں سے دور رہنا ان کے لیے بہتر تھا۔ انھیں آگ کے ڈھیر میں لا کر کھڑا کر دیا ہے۔‘‘
پھر اپنے والد گرامی تقی الدین السبکی کے بارے میں لکھا:
’’اعْلَم أَن بَابا مباحثه بَحر لَا سَاحل لَهُ بِحَيْثُ سَمِعت بعض الْفُضَلَاء يَقُول أَنا أعتقد أَن كل بحث يَقع الْيَوْم على وَجه الأَرْض فَهُوَ لَهُ أَو مستمد من كَلَامه وتقريراته التِي طبقت طبق الأَرْض.‘‘ (طبقات الشافعیۃ: ۶/۱۹۹)
یعنی: ’’ان کے علوم و مباحث کا باب لامتناہی سمندر ہے، بعض فضلاء کو کہتے ہوئے میں نے سنا ہے: میرا اعتقاد ہے کہ آج روئے زمین پر جو بحث بھی موجود ہے وہ انھی کا ہے، یا اس سے اور ان کی ان تقریروں سے مستفاد ہے جس نے دنیا کو بھر دیا ہے۔‘‘
پھر جب تاج الدین السبکی نے یہ محسوس کر لیا کہ یہ مبالغہ آرائی لوگوں کو ہضم نہ ہوگی تو فرمایا:
’’فَهَذِهِ نبذة مما شاهدته من حَاله وعرفته من مَكَارِم أخلاقه وَأَنا أعرف أَن الناظرين فِي هَذِه الترجَمَة على قسمَيْنِ قسم عرف الشيخ كمعرفتي وخالطه كمخالطتي فَهُوَ يحسبني قصرت فِي حَقه وَقسم مُقَابِله فَهُوَ يحسبني بالغت فِيهِ وَالله الْمُسْتَعَان!‘‘ (طبقات الشافعیۃ: ۶/۱۷۹)
یعنی ’’مجھے معلوم ہے کہ (والد گرامی) کے اس ترجمہ کے بارے میں دو رائیں ہیں۔ ایک تو ان لوگوں کی رائے ہے جو شیخ کو میری طرح جانتے ہیں اور میری طرح سے ان کے ساتھ رہے ہیں تو وہ اس ترجمے سے یہ سمجھیں گے کہ میں نے ان کے حق کی ادائیگی میں تقصیر اور کمی سے کام لیا ہے۔ اور دوسرے وہ لوگ ہیں جو میرے بارےمیں گمان کریں گے کہ میں نے مبالغہ آرائی سے کام لیا ہے، واللہ المستعان!‘‘
پھر جن علمائے کرام کی تاج السبکی نے تنقیص کی ہے ان کی اپنی کتاب (طبقات: ۶/۲۵۰-۲۵۲) میں کافی تعریف بھی کی ہے۔
امام سخاوی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’الإعلان بالتوبیخ‘(ص۱۰۱، تحقیق روزنتھال)میں تاج الدین السبکی کے بارے میں عزالدین الکنانی کا قول نقل کیا ہے:
’’ھو رجل قلیل الأدب، عدیم الانصاف، جاہل بأہل السنۃ ورتبھم یدلّک علما ذلک کلامہ.‘‘ (تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں خاکسار کی تالیف ’دعوۃ شیخ الإسلام ابن تیمیہ‘:۲/۵۱۶-۵۱۶، ۶۳۰-۶۳۱ مع الحواشی)
٭ علمائے کرام اور طلاب علم سے یہ بات مخفی نہیں کہ علامہ محدث شیخ محمد ناصرالدین الالبانی رحمہ اللہ نے اکثر اپنی کتابوں اور تحقیقات وغیرہ کے مقدّموں میں شیخ محمد زاہد الکوثری کے مبتدعانہ خیالات اور گم راہ کن عقائد کے بارے میں برملا گفتگو کی ہے اور انھیں ’حامل لواء التجہم فی العصر الحاضر‘ کا خطاب دیا ہے۔
چونکہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے علم حدیث کی بے پناہ خدمت کی ہے جس سے کوئی بھی موافق و مخالف انکار نہیں کر سکتا، بطورِ خاص مکتبہ ’ظاہریہ‘(دمشق) دنیا کی اہم لائبریری کے علاوہ بہت سے مقامات سے مخطوطات سے استفادہ کیا ہے جس کا اندازہ ان کی کتابوں میں حوالوں کے ذریعہ بخوبی کیا جا سکتا ہے۔
اب شیخ البانی رحمہ اللہ کے مقابلے میں کوثری کے قریب ترین شاگرد شیخ عبدالفتاح ابوغدہ کے ترجمے میں لکھا گیا:
“العالم الفذ، والعامل المجاهد، والمربي الناصح الرشيد، علامة البلاد غير مدافع، ورجلها الموثوق بدينه وعلمه وسيرته، علامة الشام، جمع إلى علمه الفذ الغزير التقوى والخشية من الله في السر والعلن، فهو وقاف عند حدود الله لا يتعداها، مبتعد عن الشبهات والمكروهات، ما عرف عنه قط أنه أمر بمعروف إلا وطبقه على نفسه، ومن يعول، ولا نهى عن منكر إلا وقد اجتنبه هو ومن يعول، لديه غرام نادر في معرفة التراث الإسلامي مخطوطه ومطبوعه فما ذكر أمامه مخطوط أو مطبوع إلا بسط لك خصائص الكتاب ومجمل محتواه، وأين طبع وكم طبعة له إن كان مطبوعا، ومكان وجوده وتاريخ نسخه إن كان مخطوطا.”
قلت:ومن الطرائف أن أحد الظرفاء الأذكياء لما سمع هذا الوصف الأخير، قال: هذا هو الله تبارك وتعالى! يشير إلى ما فيه من الغلو والإطراء بالحفظ الذي لا يبلغه البشر!(مقدمۃ شرح العقیدۃ الطحاویۃ للألبانی، ص۵۳، تعلیقا)
’’مخطوط و مطبوع (اسلامی تراث) کے بارے میں ان کا شوق و ذوق عشق کی حد تک ہے، ان کے سامنے اگر کسی مطبوع یا مخطوط کا ذکر چھڑ جائے تو اس کتاب کی خصوصیت اور اس کا اجمالی مضمون بیان کر دیتے ہیں، یہ بھی بیان کر دیتے ہیں کہ کب شائع ہوئی اور کتنی مرتبہ شائع ہوئی، وہ کہاں پائی جاتی ہے، اگر مخطوط ہے تو اس کےنسخ کی تاریخ کیا ہے۔ ‘‘
دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک ظریف وذہین آدمی نے جب یہ آخری وصف سنا تو کہا:’’هذا هو الله تبارك وتعالى!‘‘حفظ کے بارے میں حد درجہ مبالغہ آرائی کا اشارہ کر رہا تھا جو انسان کے دسترس سے باہر ہے۔
یہ دو واقعات ہمارے علماء وطلبہ کے لیے مبالغہ آرائی کے معاملے میں درس عبرت ہیں۔
گزارش احوالِ واقعی:
گذشتہ گذارشات کے وجوہ واسباب کو یہاں بیان کر دینا ضروری سمجھتا ہوں، تاکہ کوئی غلط فہمی نہ ہو۔
نصف صدی سے زائد مدّت کی اخوت ورفاقت کے سبب دور قریب کے سینئر، جونیر اور دیگر متعارفین و غیر متعارفین کی طرف سے فاضلِ گرامی کے بارے میں کچھ ایسی باتیں اب سامنے آرہی ہیں اور کچھ آتی بھی رہتی تھیں،ان سب کو ذہن میں رکھ کر میں نے اپنے طور پر فاضلِ گرامی رحمہ اللہ کا ریکارڈ صاف کرنے کی کامیاب یا نا کام کوشش کی ہے کیونکہ ذرائع ابلاغ کے اس تیز ترین اور بد ترین دور میں کسی معاملے سے چشم پوشی کرکے معاملہ کا حل نہیں نکالا جا سکتا، اس دور میں کسی امر کی نشرو اشاعت ہو جانے کے بعد اس پر کوئی پابندی (خواہ اخلاقی ہی کیوں نہ ہو)عائد نہیں کی جا سکتی۔ یہ بات میں نے اس لیے عرض کر دی تاکہ غلط فہمی نہ ہو۔
ہمارے موجودین علمائے کرام:
اپنے علمائے کرام ایک ایک کرکے رخصت ہو رہے ہیں، اس دنیا میں آنے کی ایک تاریخی ترتیب تو ہے لیکن رخصت ہونے کی کوئی ترتیب نہیں کسی کی بھی اور کبھی بھی باری آسکتی ہے۔
لہٰذا ہم اپنے بزرگ علمائے کرام اور سینیر اساتذۂ کرام سے بھرپور استفادہ کریں بیرون ملک بزرگ اساتذۂ کرام ڈاکٹر وصی اللہ عباس، شیخ عبد القدوس نذیر اور شیخ اختر جمال، ڈاکٹر عبد الباری فتح اللہ، ڈاکٹر عبدالرحمن الفریوائی اور برِّ صغیر (ہند وپاک)کے ہمارے دیگر قابلِ احترام وذی شان علمائے کرام حفظہم اللہ بسا غنیمت ہیں۔
فاضلِ گرامی شیخ محمد عزیر شمس رحمہ اللہ کی اچانک وفات نے تو جھنجھوڑ کر رکھ ہی دیا ہے، اب تو احباب ومتعارفین وغیرہ اپنی صحت وعافیت بھی بے حد توجہ سے دریافت کرنے لگے ہیں کیونکہ جانتے ہیں کہ سب طبعی عمر کو پہنچ چکے ہیں: (أعمار أمتی ما بین ستین و سبعین وقلّ من یجوز ذلک)
خاکسار نے بھی اپنی آفس کو کہا ہے کہ پر انے ناقص کاموں کی فائلیں نکالیں، جو کافی تعداد میں ہیں اور ترجیحی طور پر ان کی تکمیل کی کوشش کی جائے، اللہ تعالی صحت و عافیت اور ہمت وتوفیق سے نوازے۔
اللہ عزّوجل سے دعا ہے کہ تمام جونیئر، سینئر علمائے کرام اور احباب ومتعارفین کو صحت وعافیت کے ساتھ اپنی اطاعت میں عمرِطویل فرمائے اور مرحومین کو جنت الفردوس سے نوازے!
مقالہ نگاران سے گزارش:
٭ فاضلِ گرامی مولانا محمد عزیر شمس رحمہ اللہ (۱۹۵۷-۲۰۲۲ھ)بچپن سے ہی علم کے آغوش میں پلے بڑھے، ذہانت وفطانت کی فراوانی تھی، مطالعے کا شوق تھا، اندرون وبیرون ملک کی مختلف لائبریریوں سے اپنے موضوع ومقصود کی معلومات حاصل کیں، حدیث ادب اور تاریخ وغیرہ علوم وفنون میں دست رس کے ساتھ مخطوطات کی ذخیرہ اندوزی، بطورِخاص شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے قلمی نوادِرات تک رسائی حاصل کی، پھر اپنے موضوعِ خاص سے ہی متعلّق علمی منصوبہ کی تکمیل کے لیے آمادہ ادارہ سے منسلک ہونے کا سنہرا موقع فراہم ہوا، ان اوصاف سے متصف ہونے کے بعد انھیں ویسے ہی ہونا تھا جیسے وہ تھے۔
ان اوصاف کے باوجود اگر وہ اپنے فن میں لائق ذکر اور قابلِ ستائش مہارت حاصل نہ کرتے تو میں ان کا رفیقِ درس ہونے کی حیثیت سے ان کے علمی پس منظر وپیش منظر کے تناظر میں انھیں ناقص سمجھتا۔
٭ آج انھیں توصیفی اور تعریفی کلمات سے زیادہ دعاؤوں کی ضرورت ہے، ہمارے مقالہ نگاران حقائق کی روشنی میں ان کے مطبوع اور غیر مطبوع علمی ترکے کا تعارف کروائیں اور بطورِ خاص اردو تحریروں کی حفاظت وطباعت کے لیے معتمد علیہ ناشرین کو ہمت دلائیں۔
٭ ان کے طریقۂ تحقیق وتدقیق پر ان کے تحریر کردہ عربی کتابوں کے مقدّمات کی روشنی میں ایک اہم اور وقیع مقالہ لکھا جا سکتا ہے، جسے مکہ مکرمہ میں ہی رہنے والا کوئی باذوق عالم اچھا لکھ سکتا ہے۔
٭ مشکل یہ ہے کہ اردو میں صرف دو کتابیں ’علامہ شمس الحق عظیم آبادی: حیات وخدمات‘ اور ’’مجموعہ مقالات‘‘ شائع ہیں، اس لیے مصادر ومراجع کی روشنی میں علمی مقالوں کے لیے مجال زیادہ کشادہ نہیں، کیونکہ کسی موضوع پر تحقیقی مقالے کے لیے ضروری ہے کہ اس موضوع سے متعلّق مواد فراہم ہو۔
اسی طرح تحقیقات کے علاوہ عربی میں بھی صرف ان کی مستقل ایک کتاب ’حیاۃ العلامۃ شمس الحق العظیم آبادی‘ہے۔ دوسری تالیفات بھی ہیں جو مشترک ہیں اور وہ مخطوطات وغیرہ کی فہرست کے بارے میں بالکل تخصّصی انداز کی ہیں۔
٭ اردو میں کتابوں پر لکھے ہوئے مقدّمات تو ’مقالات‘ میں شاملِ اشاعت ہیں، دوسروں کی عربی کتابوں پر ’مقدّمات‘ بھی یکجا کیے جائیں، اسی طرح ان کے دروس علمی حلقے اور مختلف اداروں میں ان کے خطابات بھی قابلِ اشاعت ہیں۔
٭ ایک موضوع ان کے علمی اسفار کا ہے، جسے انھوں نے تقریبًا خود ہی مرتب کروایا ہے وہ بھی یہاں موجود نہیں، ان شاء اللہ اس کی اشاعت جلد ہونے کی امید ہے۔
٭ ان کتابوں کے بعد صرف تاثراتی مقالات کا میدان سامنے رہ جاتا ہے (جنھیں فاضلِ گرامی خودبھی ناپسند کرتےتھے) جو ضروری تو ہیں، لیکن ان جیسی قدآور خالص علمی محقّق ومدقّق شخصیت کے زیادہ شایانِ شان نہیں، لہٰذا تمام مقالات تاثراتی نہ ہوں تو بہتر ہوگا۔
خاکسار کی اس تحریر کا مقصد یہ ہے کہ جو کچھ لکھا جائے فاضلِ گرامی کے شایانِ شان ہو۔
اللہ تعالی ان کی جملہ خدمات کو شرف قبولیت سے نوازے اور انھیں ان کے لیے ذخیرۂ آخرت بنائے۔
اللہم اغفرلہ، وارحمہ وعافہ، واعف عنہ، وأکرم نزلہ، ووسع مدخلہ!
شاہین باغ ۔نئی دہلی
۲۲/۴/۱۴۴۴ھ
۱۷/۱۱/۲۰۲۲ء
غمگین
صلاح الدین مقبول احمد عفا اللہ عنہ
آپ کے تبصرے