مولانا کاکا سعید احمد عمری ؒ:درد مند مصلح ،عظیم مربی

محمد راشد مومن عمری ہنچالی تاریخ و سیرت

کاکا خاندان

عمرآباد(تمل ناڈو) کا کاکا خاندان پورے علاقہ میں اپنی منفرد شناخت رکھتا ہے۔ اللہ نے انھیں مال ودولت سے نوازا تو اس کے صحیح استعمال کےلیے معروف علمی خانوادہ غزنوی خاندان کے علماء کے مشورہ سے کاکا عمر رحمہ اللہ نے دینی ادارہ جامعہ دارالسلام عمرآباد کی1924 میں بنیاد رکھی۔ خاندان کے مردوں کی طرح خواتین نے بھی اپنی وراثت سے حاصل شدہ زمین کو ادارہ کی فلاح وبہبودی کے لیے وقف کیا۔ علماءسےمشاورت،دین کی خدمت کا جذبہ وحوصلہ ، دلچسپی و لگن اور کڑی محنت رنگ لائی۔ عرب وعجم کے محدث حافظ محمد گوندلوی جیسے عظیم علماء نے یہاں تدریسی خدمات انجام دیں اور دیکھتے ہی دیکھتے علماء وطلبہ کی کھیپ نکلنے لگی جنھوں نے دعوتی، اصلاحی اور علمی میدانوں میں نمایاں خدمات انجام دیں۔ اس طرح سارا ہندوستان اس کی خدمات سے مستفید ہونے لگا۔

کاکا عمر ثانی اور کاکا سعید احمد عمری رحمہمااللہ کا سنہری دور

کاکا عمر ثانی اور کاکا سعید احمد عمری یہ دونوں کاکا اسماعیل رحمہ اللہ کے فرزند اور بانی جامعہ کاکا عمر(اول)کے پوتے تھے۔1958 میں اپنےوالد کی وفات کے بعد جامعہ کی ذمہ داری ان دو بھائیوں نے سنبھالی اور بڑی لگن اور محنت سے اس چمن کی آبیاری کی۔ دور دراز ممالک کے سفر کیے اور جامعہ کی ترقی میں کوئی کور کسر نہیں چھوڑی لیکن جامعہ دارالسلام عمرآباد کے پچاس سالہ جشن طلائی کا انعقاد دونوں بھائیوں کا عظیم اور غیر معمولی کارنامہ تھا۔ بر صغیر کے علاوہ خلیجی ممالک اور عرب دنیا کی علمی اور سیاسی شخصیات کو عمرآباد جیسے گاؤں میں جمع کرنا اور ان کی ہر مطلوبہ سہولت فراہم کرنا جوئے شیر لانے کے برابر تھا لیکن اللہ رب العزت کی مدد سے یہ کام ممکن ہوا اور خیر کا باعث بنا۔

جامعہ کی خدمات کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوگیا کئی ایک شعبوں کا اضافہ ہوا اور جامعہ مکمل یونیورسٹی کی شکل اختیار کرگیا۔

1989 میں بڑے بھائی کاکا عمر رحمہ اللہ کے انتقال کے بعد جامعہ کی مکمل ذمہ داری کاکا سعید احمد عمری رحمہ اللہ نے سنبھالی اور کاکا انیس احمد عمری حفظہ اللہ آپ کے دست وبازو بنے رہے۔

فارغین جامعہ کے ساتھ ہمدردی

کاکا سعید احمد عمری رحمہ اللہ جہاں خود دین کی خدمت کا درد رکھتے تھے وہیں اپنے فارغین میں بھی اسے دیکھنا چاہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان اور دنیا بھر میں ابنائے قدیم کی قریب ستر شاخیں ترتیب دی گئیں۔ کسی دور دراز مقام میں بھی جب کسی شاخ کا اجلاس ہوتا آپ جامعہ کے اساتذہ کے ہمراہ وہاں پہنچتے اور بڑا درد مندانہ خطاب کرتے۔ اپنی اصلاح، خود کو جہنم سے بچانے کی فکر، غیر مسلموں میں دعوت، فرائض کے ساتھ نوافل اور تہجد کی پابندی، اپنی ذات سے کسی کو تکلیف نہ دینا جیسی باتیں آپ کے خطاب کی اہم سرخیاں ہوتیں۔ ابنائے قدیم شاخ بیجاپور کے اجلاس میں تشریف لائے تو آپ نے ہمارے مدرسہ عمرة بنت عبد الرحمن الانصاریۃ للبنات ہنچال کا دورہ کیا، ادارہ کی ترقی کے لیے مفید مشورے دیے۔ جب کبھی قطر تشریف لاتے برابر ابنائے قدیم شاخ قطر کا اجلاس بلاتے، شاخ کے نشاطات کو بغور سنتے اور مزید حرکت وعمل کے لیے بہتر مشورے دیتے۔

ادارہ تحقیقات جامعہ دارالسلام سے علمی کام

جامعہ کے تحقیقاتی ادارہ سے کچھ علمی کام ہو اس کی بڑی خواہش بھی تھی اور اس کے لیے کوشاں بھی رہتے تھے۔

جامعہ دارالسلام کے لائق فرزند دکتور ضیاء الرحمن الاعظمی عمری مدنی(سابق صدر شعبہ کلیۃ الحديث الجامعۃ الإسلاميۃ بالمدينۃ المنورة )کی مایہ ناز کتاب ’الجامع الكامل في الحديث الصحيح الشامل‘سے آداب واخلاق سے متعلق صحیح احادیث کا مجموعہ ’الأدب العالي‘کے نام سے الگ طبع کروایا بلکہ اس کا اردو ترجمہ بھی کروایا۔

گزشتہ چند سالوں میں قریب چالیس سے زائد علمی کتابیں طبع کروائیں جن میں جامعہ دارالسلام کے بزرگ اساتذہ کرام کے سوانحی خاکےاور دعوتی واصلاحی موضوعات پر مشتمل متعدد کتابیں طبع ہوئیں اور منظر عام پر آئیں۔

علاوہ ازیں گزشتہ کئی سالوں سے ماہنامہ راہ اعتدال کے کئی خصوصی نمبرات جس میں ملک کے مختلف علماء کرام مضامین ارسال کرتے ہیں بلا ناغہ شائع ہورہے ہیں۔

ان خصوصی شماروں کے مضامین کا آپ بہ نفس نفیس کئی مرتبہ مطالعہ کرتے اور اس میں بہتری کے لیے مولانا محمد رفیع کلوری عمری کے تعاون سے ہر ممکن کوشش کرتے۔

ایک مرتبہ قطر کے دورہ پر تشریف لائے تھے میں ملاقات کے لیے رمادا ہوٹل پہنچا تو فرمایا مولانا سید جلال الدین عمری کی کتاب ’اسلام میں خدمت خلق کا تصور‘کے انگریزی اور تمل زبان میں ترجمے ہوئے اور کتاب بہت مقبول ہوئی ہے میں چاہتا ہوں کہ آپ اس کا عربی ترجمہ کریں۔ الحمد للہ اللہ کی مدد پھر بڑوں کی رہنمائی سے یہ عربی ترجمہ مکمل ہوا اور ’الرؤيۃ الإسلاميۃ للخدمۃ الإنسانيۃ‘ کے نام سے 2014 میں دار وحي القلم دمشق سے طبع ہوا جب آپ کی خدمت میں پیش کیا تو فرمایا آپ برابر ان ترجمہ کے کاموں کو جاری رکھیں ورنہ صلاحیتیں ماند پڑجائیں گی پھر کچھ کرنا بھی چاہیں تو نہیں کر پائیں گے۔

ملی ورفاہی خدمات

آپ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے نائب صدر تھے اور پوری دلچسپی سے اس کے اجتماعات میں شرکت کرتے۔ ہندوستانی مسلمانوں کو درپیش مسائل اور ان کے حل کے لیے غیر مسلموں میں دعوتی کام انجام دینے پر خصوصی توجہ دلاتے۔

ہندوستان بھر میں سو سے زائد چھوٹی بڑی مسجدیں اپنی نگرانی میں تعمیر کروائیں پھر ان کی کارکردگی کی خبر گیری کے لیے متعدد سفر بھی کرتے۔

عمرآباد میں ایک عالی شان ہسپتال تعمیر کروایا جس سے انسانیت کی خدمت کا عظیم کام جاری ہے۔ اطراف واکناف کے ہندو مسلم تمام لوگ واجبی خرچ میں علاج کرواتے ہیں بلکہ اس میں میسر خصوصی آپریشن کی خدمات سے بھی مستفید ہورہے ہیں۔

وفات اور تدفین

3 ذوالقعدہ 1445ھ بمطابق 11 مئی بروز سنیچر دوپہر قريب تین بجے عمرآباد کے ہسپتال میں آپ کی وفات ہوئی۔ آپ کی پیدائش 1936 کی ہے اس اعتبار سے وفات کے وقت آپ کی عمر 88 سال تھی۔

اگلے روز اتوار کی صبح گیارہ بجے جامعہ دارالسلام عمرآباد کی مسجد سلطان میں سینکڑوں افراد نے آپ کی نماز جنازہ ادا کی اور خصوصی قبرستان میں سپرد خاک کیے گئے۔

تدفین کے بعد جامعہ کے مرکزی ہال ميں ایک تعزیتی اجلاس منعقد کیا گیا جس میں مولانا عبد العظیم عمری مدنی حفظہ اللہ(نائب ناظم جامعہ )نے آپ کی وفات کو ملت اسلامیہ کا ایک عظیم خسارہ بتلایا۔ آپ کے علاوہ دیگر اساتذہ کرام نے بھی آپ کی زندگی کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈالی۔

اوصاف حمیدہ

مولانا ہمیشہ باجماعت نماز کے پابند تھے تہجد گزار تھے اور باوضو رہا کرتے تھے۔ اپنی تعریف سننا پسند نہیں کرتے تھے۔

وقت کی پابندی

آپ وقت کے بڑے پابند تھے کسی کام کے لیے مقررہ وقت سے تاخیر آپ کے لیے ناقابل برداشت تھی۔ کسی بھی پروگرام کو بروقت شروع کرنے کے عادی تھے۔ ایک مرتبہ ڈاکٹر ذاکر نائیک حفظہ اللہ جامعہ میں مدعو تھے انھی کے استقبال میں یہ پروگرام ترتیب دیا گیا تھا۔ آپ کے پروگرام کے لیے جو وقت طے تھا اس مقررہ وقت پر ڈاکٹر صاحب جلسہ گاہ نہ پہنچ سکے لیکن آپ نے وقت پر پروگرام شروع کردیا۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی تاخیر پر معذرت کی اور جامعہ میں وقت کی پابندی پر تعریف کی۔

وقت کے بڑے قدر دان تھے لمحہ بھر وقت ضائع کرنے سے گریز کرتے تھے۔1427 ھ مطابق 2006 میں آپ حج میں تھے۔ حسن اتفاق کہ مجھے بھی اس سال حج کی سعادت نصیب ہوئی تھی۔ مجھے آپ کی آمد کا علم ہوا تو منی کے میدان میں خیمہ کا پتا لگا کر آپ سے ملاقات کےلیے پہنچ گیا۔ ان دنوں ایک دینی مسابقہ میں قطر کے الشرق نیوز پیپر کی جانب سے مجھے کار انعام میں ملی تھی آپ نے مجھے دیکھ کر پہچانا اور کہا آپ وہی ہیں جنھیں کار انعام ملی ہے؟ اثبات میں جواب دیا تو بہت خوش ہوئے دعائیں دیں عصر کے بعد چائے کا وقت تھا اس کی تلاش میں خیمہ سے باہر نکلے دیکھا کہ چائے خریدنے کے لیے کافی لمبی قطار ہے میں نے مولانا سے عرض کیا کہ میں چائے لے آتا ہوں آپ نے کہا :’ایک چائے کے لیے اتنا وقت کیوں ضائع کریں گے‘ چلیں کوئی اور چیز پی لیں گے۔

تواضع وانکساری

آپ عام زندگی میں سادگی پسند تھے لیکن آپ کی شخصیت بڑی با رعب تھی۔ غذا لباس رہن سہن میں سادگی غالب تھی۔ سن 2001 کی بات ہے میں اپنے چھوٹے بھائی عبد المصور عمری کو جمعہ کے دن آمبور سے مدراس کی ٹرین پر سوار کرانے کے لیے صبح ساڑھے چار بجے آمبور اسٹیشن پہنچا دیکھا تو معتمد عمومی بھی اسی پیسنجر ٹرین کے انتظار میں ہیں۔ ابھی علیک سلیک سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ ٹرین آگئی میں نے عرض کیا آپ یہیں انتظار فرمائیں میں آپ کے لیے سیٹ ڈھونڈ کر آتا ہوں اندر جاکر دیکھا تو استاذ محترم مولانا شیخ انیس الرحمن اعظمی عمری مدنی اسی ٹرین میں سوار ہیں اور آپ کے بغل میں ایک سیٹ خالی ہے۔ میں نے بتایا کہ معتمد عمومی بھی اسٹیشن پر ہیں اور مدراس جارہے ہیں فرمایا جائیں مولانا کو لے آئیں اس طرح آپ بنا ریزرویشن کے ہی 180 کلو میٹر کا سفر طے کرنے کے لیے روانہ ہوگئے۔

دعا ہے کہ اللہ تعالی جامعہ دارالسلام کو آپ کا نعم البدل عطا فرمائے، مرحوم کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔آمین

آپ کے تبصرے

3000