ہم نے بچپن میں جھارکھنڈ کے جن علمائے کبار کے متعلق یہ سنا تھا کہ وہ بڑے عالم اور با صلاحیت وباکمال انسان ہیں، اور پھر اُن کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کر کے علوم ومعارف کی تحصیل کا زریں موقع میسر ہوا، اُن میں ایک نمایاں نام استاذِ مکرم مولانا مفتی محمد جرجیس سلفی رحمہ اللہ کا ہے۔
آپ کے والد کا نام عبدالحمید تھا، جن کا انتقال ۱۹۷۴ء میں ہوا۔ جہاں تک معلوم ہوسکا آپ کا نسب نامہ کچھ یوں ہے: مولانا مفتی محمد جرجیس سلفی بن عبدالحمید بن گردھاری میاں بن زندی میاں۔ آپ کی پیدائش ۱۹؍ نومبر ۱۹۴۸ء کو موضع پوکھریا، تھانہ نرائن پور، ضلع جامتاڑا (سابق ضلع دمکا)، جھارکھنڈ میں ہوئی۔ والد محترم اور اماں جان نے آپ کی مکمل تربیت کی اور جب پڑھنے کے لائق ہوئے تو گاؤں میں موجود ’’اردو پرائمری اسکول‘‘ میں داخلہ کرایا، ابتدا سے اردو کے درجہ سوم تک اسی اسکول میں مولوی عبداللطیف شمسی پوکھریاوی (فیض یافتہ مدرسہ شمس الہدیٰ، دلالپور) [متوفیٰ ۲۲؍ جون ۱۹۸۸ء] سے پڑھا، اور کسبِ علوم وفنون کے لیے باہر جانے کے لائق ہوئے۔ اُن دنوں مفتی صاحب کے گاؤں پوکھریا میں مولانا عبدالرحیم بیربھومی تلمیذ شیخ الکل علامہ سید نذیر حسین محدث دہلوی؍ رحمہما اللہ کا آنا جانا بڑی کثرت سے ہوا کرتا تھا، ممکن ہے اُن ہی کی رہنمائی میں پہلا تعلیمی سفر ہوا ہو۔ اس لیے کہ باہر کا پہلا تعلیمی سفر ۱۹۵۹ء میں ان ہی کے قائم کردہ ادارے کا کیا تھا۔ مفتی صاحب کے بقول ’’۱۹۵۹ء میں فدائے کتاب وسنت جناب الحاج مولانا عبدالرحیم انبھوائی بیربھومی (بنگال) کی خدمت میں ان کا ذاتی مدرسہ اسلامیہ، انبھوا پہنچا، اور اُن سے پہلی فارسی وآمد نامہ وغیرہ کے بعض اسباق پڑھے۔ اُن کی خدمت میں صرف دو ماہ رہنے کا شرف حاصل ہوا‘‘۔ اس کے بعد مدرسہ شمس الہدیٰ، دلالپور، صاحب گنج (جھارکھنڈ) میں ۱۹۶۰ء میں داخلہ لیا، اس زمانے میں اس ادارہ کی تعلیم وتربیت کا بڑا چرچا تھا، اور یہ ادارہ جنگ آزادی اور تحریکِ شہیدین کا مرکز بھی رہ چکا ہے۔ مفتی صاحب نے یہاں فارسی کے دو درجات (اول ودوم) اور جماعت ادنیٰ وعربی اول یعنی چار جماعتیں پڑھیں۔ ان چار سالہ زندگی میں وہاں انھیں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ مفتی صاحب نے باضابطہ اس کا اعتراف کیا ہے کہ ’’اس چار سالہ زندگی میں ابتدائی تعلیم وتربیت کا جو رنگ معصومانہ ذہن ودماغ میں چڑھا، اب تک وہ رنگ پھیکا نہیں پڑا۔ چیدہ چیدہ علماء وفضلاء مسندِ درس پر جلوہ افروز تھے، ان سے استفادہ کا خوب خوب موقع ملا۔ ذہنی تربیت جو الحاج مولانا عبدالحنان صاحب دلالپوری شیخ الحدیث مدرسہ شمس الہدیٰ، دلالپور اور مولانا احمد اللہ رحمانی سے پائی وہ کبھی فراموش نہیں کر سکتا‘‘۔
مدرسہ شمس الہدیٰ میں زیادہ دنوں تک نہیں رہ سکے، اس کی وجہ یہ تھی کہ وہاں کی آب وہوا آپ کو راس نہ آئی اور طبیعت مسلسل ناساز رہا کرتی تھی، مجبوراً اس ادارہ کو چھوڑنا پڑا۔ اس کے بعد بغدادِ ہند مئو کا سفر کیا، اور جامعہ اسلامیہ، فیض عام میں ۱۹۶۵ء میں عربی کی دوسری جماعت میں داخلہ لیا، اور صرف ایک سال تعلیم حاصل کرنے کے بعد جامعہ سلفیہ (مرکزی دارالعلوم)، بنارس چلے آئے۔ مفتی صاحب کے بقول ’’تعلیم کے لیے جماعت کے مشہور ترین ادارہ مدرسہ فیض عام، مئو ، ضلع اعظم گڑھ ۱۹۶۵ء میں پہنچا، اور عربی ثانی میں داخلہ لیا، یہاں صرف ایک سال کچھ مہینے گزارنے کا موقع ملا، لیکن یہاں کے منتخب ویگانہ روزگار، کہنہ مشق، پختہ کار اساتذہ کرام سے جو فیض حاصل ہوا، اس کی لذت وچاشنی تا زندگی ان شاء اللہ ضرور باقی رہے گی، اس مادر علمی کو کبھی بھلا نہیں سکتا، چیدہ چیدہ ذہین وفطین طلبہ ہمارے ہم سبق تھے، حافظ محمد سلیمان میرٹھی، حافظ محمد یونس ارشد بلرامپوری، مولانا محمد حنیف چمپارنی، مولانا محمد منظر چمپارنی، مولانا محمود عالم چمپارنی وغیرہم کی ایک بڑی جماعت تھی، ان کی رفاقت سے بڑا اچھا خاصا فائدہ ہوا۔ یہیں میں نے رفیق محترم حافظ محمد یونس ارشد بلرامپوری کی ترغیب وتحریک سے خوشخطی سیکھی، نیز تجوید پر خصوصی توجہ ان ہی کی فرمائش پر ہوئی۔ یہاں ایک سال گزار کر جونہی دوسرے سال میں قدم رکھا کہ جماعتی حلقوں میں مرکزی دارالعلوم، بنارس کے تعلیمی افتتاحی اجلاس کا چرچا خوب خوب ہونے لگا۔ اس تاریخی اجلاس میں فیض عام ہی سے رفقاء کے ساتھ شرکت کا موقع ملا۔ عالی جناب شیبۃالحمد کا افتتاحی درس جب سنا تو علمی شوق میں اور اضافہ ہوا۔ جماعتی حلقوں میں مرکزی دارالعلوم کی تاسیس سے جو جوش وخروش اور سرگرمی دیکھی جا رہی تھی، اس کا اندازہ مشکل تھا، اور جونہی مرکز میں طالبانِ علوم دینیہ کے داخلے کی خبر ہندوستانی جماعتی مدارس میں پہنچی، طلبہ میں داخلے کا شوق موجزن ہوا، جن مدارس میں طلبہ زیر تعلیم تھے، ان کو درمیانی سال ہی میں چھوڑ کر مرکز میں داخلے کا عزم کر لیا، اور شہر بنارس کی طرف طالبان علوم دینیہ کا کارواں رواں دواں تھا۔ جامعہ فیض عام مئو سے جو طلبہ کا قافلہ چلا، خوش قسمتی سے اس میں میرے قریب ترین ہم سبق حافظ محمدیونس ارشد بلرامپوری بھی تھے، ان کا شدید اصرار تھا کہ اس قافلے میں، میں بھی شامل ہوجاؤں، چنانچہ یہ قافلہ آٹھ بجے شب مئو اسٹیشن سے روانہ ہوا، جس میں، میں بھی تھا، اُدھر فیض عام، مئو کے ناظم اعلیٰ جناب مولانا محمد احمد صاحب کی سخت اور کڑی نگرانی کے باوجود چیدہ چیدہ اور ذہین وفطین طلبہ کا فیض عام سے نکل جانا، اُن پر بے حد گراں گزرا، ان کے جذبہ شفقت کو سخت ٹھیس پہنچی، اس لیے انھوں نے اپنے ان طلبہ کو واپس بلانے کے لیے بنارس کا فوراً سفر کیا، یہاں تو مرکز میں معمولی جانچ کے بعد جملہ طلبہ کا داخلہ منظور ہو گیا تھا، اس کے باوجود انھوں نے عالی جناب مولانا عبدالوحید عبدالحق سلفی ناظم مرکزی دارالعلوم کے سامنے فیض عام، مئو کے آئے ہوئے طلبہ کو بلایا اور مرکز کے ناظم سے فرمایا کہ میرا خیال ہے کہ ان طلبہ کا داخلہ رد کر دیا جائے، اس لیے کہ یہ سب بلا اجازت یہاں آئے ہیں، اس وقت ناظمِ مرکز میں جو متانت وسنجیدگی اور مسکراہٹ تھی، اس کو ہم لوگ کبھی بھلا نہیں سکتے، اور وہ منظر اب بھی آنکھوں کے سامنے ہے، ان کی نگاہوں میں اپنے بزرگوں کی جو قدر تھی، اس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا، جو اب دیتے ہیں تو صرف اتنا کہ ’’آپ کا جو بھی مشورہ ہوگا وہ بسر وچشم قبول ہے‘‘، اُدھر مولانا محمد احمد ناظم فیض عام کی طلبہ کے ساتھ جو ہمدردی، مودت ومحبت تھی،اس کو کون نہیں جانتا، طلبہ میں علمی رجحان اور اسلامی اسپرٹ کے ساتھ ساتھ تربیت کا کتنا نیک جذبہ اور کتنا مخلصانہ بیان ومشورہ ہوتا تھا، اس سے فیض عام کا ہر طالب علم بخوبی واقف ہے، ان کی دور بیں نگاہ اور گہرائی وگیرائی کی داد کون نہیں دے گا، منطق کا آخری چراغ جو جل رہا تھا، وہ بجھ گیا، اب اس منطق کا ثنا خواں کون ہوگا، ناظم فیض عام جواب دیتے ہیں، طلبہ کی ہمدردی اُن پر غالب آ جاتی ہے، فرماتے ہیں کہ میں اس بات کو سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ یہ طلبہ پھر ہمارے مدرسے میں نہیں جائیں گے، اس لیے کہ یہ وہاں سے بھاگ کر آئے ہیں، اگر یہاں کا داخلہ منسوخ کر دیا جاتا ہے، تو یہ سارے طلبہ فیض عام نہ جا کر کوئی تو مدرسہ ریاض العلوم دہلی میں داخلہ لے کر اسی سال فارغ ہو جائے گا، اور کوئی گھر میں جا کر بیٹھ جائے گا، اور کوئی کہیں، کوئی کہیں۔ اس لیے میں ناظم اعلیٰ مرکزی دارالعلوم سے عرض کروں گا کہ جب یہ طلبہ یہاں آ گئے ہیں اور ان کو تعلیم کا شوق وذوق ہے، تو اُن کو رکھ لیا جائے، تا کہ تعلیمی نقصان نہ ہو، بس اسی پر مجلس برخواست ہوگئی۔
الغرض جامعہ سلفیہ میں ہم لوگوں کی تعلیم شروع ہوگئی، ہم لوگ ’’عالمیت‘‘ کے سالِ اول میں تھے، جامعہ سے کتب درسیہ مل گئیں، اور انتہائی شوق وذوق سے تعلیمی سلسلہ شروع ہوگیا، نیا جوش، نیا جذبہ، نئی سرگرمی اور پختہ عزم وجزم کے ساتھ تعلیم جاری ہوگئی۔
مرکز میں ٹھوس وپختہ تعلیم کے لیے ملک کے جماعتی حلقوں سے چن چن کر ایسے ایسے کہنہ مشق، تجربہ کار، جامع المعقول والمنقول اساتذہ کرام لائے گئے، جن کی تجربہ کاری، کہنہ مشقی، علم دانی کا ڈنکا ملک میں بج رہا تھا، اور علمی حلقوں میں جن کی کافی شہرت تھی۔ اُدھر جو طلبہ مختلف مدارس سے آئے ہوئے تھے، ان کی اکثریت ذہین وفطین تو تھی ہی، اس لیے اساتذہ وطلبہ میں ایسا تال میل ہوا کہ ماحول بے حد علمی وفکری ہوگیا تھا، اسی علمی وفکری ماحول میں میری تعلیم وتربیت ہوئی اور مکمل چھ سال کا عرصہ یہاں گزر گیا، اس عرصے میں تعلیم وتربیت کے اتنے دریچے کھلے کہ ہر دریچہ سے جھانک کر دیکھنے میں لعل وگوہر نظر آتے تھے، کچھ گوہر حاصل ہوئے اور کچھ حاصل نہ ہو سکے‘‘۔
جامعہ سلفیہ (مرکزی دارالعلوم) بنارس ہی سے آپ نے فراغت پائی، عالمیت وفضیلت کی ڈگری حاصل کی اور درس وتدریس، دعوت وارشاد اور افتاء وتحقیق کی سند پائی۔ عالمیت کی سند ماہ شعبان ۱۳۸۹ھ مطابق اکتوبر ۱۹۶۹ء میں حاصل کی، ان دنوں جامعہ سلفیہ کا نام ’’الجامعۃ المرکزیۃ‘‘ تھا، اسی لیے آپ کی سند عالمیت میں جامعہ کا نام یہی درج ہے، البتہ جس وقت آپ نے فضیلت مکمل کی، اور اس کی سند حاصل کی تو جامعہ کا نام جامعہ سلفیہ (مرکزی دارالعلوم) سے تبدیل ہوچکا تھا، آپ کی فضیلت کی سند میں جامعہ کا بدلا ہوا نام ہے، فضیلت کی سند آپ نے شعبان ۱۳۹۱ھ میں حاصل کی، سند میں رئیس الجامعہ کی جگہ پر شیخ الحدیث علامہ عبیداللہ رحمانی مبارکپوری اور ناظم جامعہ کی جگہ پر مولانا عبدالوحید عبدالحق سلفی کے دستخط ہیں۔
آپ کی فراغت کے زمانے میں اس علاقے کے فضلائے مدارس میں یونیورسٹیوں میں جاکر مزید تعلیم حاصل کرنے کا کوئی رجحان نہیں پایا جاتا تھا، اور یہی وجہ ہے کہ اس طرح کی تعلیم کے حصول کی چاہت کا آپ کے متعلق کوئی ذکر نہیں ملتا، ہاں البتہ جامعہ اسلامیہ، مدینہ منورہ میں داخلہ پانے کی چاہت عام مدارس وجامعات کے اندر بالعموم اور جامعہ سلفیہ کے فارغین کے اندر بالخصوص بہت زیادہ پائی جاتی تھی، مگر مقدر نہ ہو تو انسان کی چاہت کی تکمیل نہیں ہوپاتی ہے۔ آپ نے جس سال فضیلت مکمل کی تھی، ساتھیوں کی کل تعداد پانچ تھی، اور درجہ میں آپ کو دوسری پوزیشن حاصل تھی، اس لیے سو فی صد پُر امید تھے کہ ان کا داخلہ جامعہ اسلامیہ، مدینہ منورہ میں ضرور ہوگا، مگر ایسا نہیں ہوسکا۔ مفتی صاحب بتاتے ہیں ’’مرکز سے فراغت کے بعد جب امتحان میں اچھی پوزیشن حاصل ہوئی، تو جب جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں مرکز کے طلبہ کا داخلہ شروع ہوا، ہر سال چار فارغین کا داخلہ منظور ہونے لگا تو دل ہی دل میں یہ ارمان جاگ اٹھا کہ ان شاء اللہ ضرور میرا داخلہ ہوگا۔ اس لیے کہ جماعت میں میری دوسری پوزیشن ہے، اور ہمارے ہم سبق ساتھی صرف پانچ ہیں، یہ تمنا وآرزو دل ہی دل میں رہ گئی ۔
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
جب جامعہ اسلامیہ میں داخلے کا کوٹا بیس ہوگیا تو ناظم اعلیٰ نے ہمارے کاغذات منظوری کے لیے بھیج دیے لیکن اسی سال انقطاعِ دراسہ کی قید وشرط لگ گئی، جس کی بنا پر درخواست نامنظور ہوگئی، بہر حال پھر بارہا ذاتی طور پر مدرسہ اصلاح المسلمین، پٹنہ سے عرب کے مختلف جامعات میں درخواستیں بھیجی گئیں، لیکن یہ چیز اللہ تعالیٰ کو منظور نہیں تھی‘‘۔
بعد میں ۱۹۸۵ء میں جامعۃ الملک سعود، ریاض سے تدریب المعلمین کا چار ماہ کا کورس کیا تھا۔ مفتی صاحب کے بقول ’’میں نے اپنے ایک بے حد مخلص ومہربان ساتھی کے مشورے سے تدریب المعلمین کے لیے جامعۃ الملک سعود، ریاض، سعودی عرب درخواست بھیج دی، الحمد للہ یہ درخواست منظور ہوگئی، رخت سفر باندھا، ۸؍ اگست ۱۹۸۵ء کو بیرونی ملک کے سفر کی ضروری ولازمی کارروائی حل کرنے کے لیے دہلی روانگی ہوگئی، اس نیک اور مقدس سفر سے جو خوشی ومسرت حاصل ہو رہی تھی، اس خوشی میں مزید اضافہ اس لیے ہو جارہا تھا کہ زیارتِ حرمین شریفین حاصل ہوگی۔ اس سے بڑھ کر اور خوش قسمتی کیا ہوسکتی تھی، چنانچہ ۲۰؍ اگست ۱۹۸۵ء کو جامعۃ الملک سعود، ریاض براہ کراچی پہنچا، یہاں داخلے کی کارروائیاں ہوئیں۔ ٹیست امتحان لیا گیا۔ ہندوستان کے صوبہ بہار کے ہم لوگ صرف دو طالب تھے۔ باقی سب افریقی وفلپینی تھے۔ یہاں کا طرز تعلیم جدا، ماحول انوکھا پایا، اور زبانیں بھی بھانت بھانت کی پائیں۔ دینی علوم وعصری علوم وفنون کے شعبہ جات اس طرح بٹے ہوئے دیکھنے کو ملے کہ معلوم ہوتا تھا کہ ہر شعبہ بذات خود مستقل ہندوستانی ایک بڑا مدرسہ ہے، اساتذہ کرام ہندوستانی اساتذہ کی طرح نہیں دیکھے گئے۔ وہاں ہر فن کا مستقل ایک استاذ دیکھا گیا، صرف ونحو، ادب وتاریخ، دینیات وغیرہ کے الگ الگ اساتذہ تھے، اور ہر استاذ اپنے فن کا ماہر، اپنے فن کا منجھا ہوا اور اپنے فن کا دقاق تھا۔ جدید علوم وفنون کا بحر ذخار کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا۔ تدریبی کورس صرف چار مہینے کا تھا۔ جوفلسطینی وسوڈانی اساتذہ تھے، ان کی زبان میں بڑی روانی وتیزی پائی جاتی تھی، ہندوستانی تعلیم کے بالکل مختلف، موضوع سب سے پہلے بلیک بورڈ پر لکھا جاتا تھا، اور پھر اس کی توضیح وتشریح، سوالات وجوابات کا سلسلہ رہتا تھا، طلبہ کو جب تک منتخب موضوع میں تشفی نہیں ہوجاتی تھی، کلاس روم سے باہر جانے کی اجازت نہیں ملتی۔ اور دوسری چیز جو یہاں دیکھنے کو ملی وہ یہ کہ طلبہ واساتذہ ٹائم کے بے حد پابند پائے گئے۔ جونہی درس کی گھنٹی لگتی تھی، اساتذہ وطلبہ درس گاہ میں حاضر ہو جاتے‘‘۔
میدانِ تدریس میں:
آپ کی سب سے عظیم خدمت تدریس وتعلیم ہے، اور اس بات کو شاگردوں سے بہتر کون بتا سکتا ہے؟۔ عبارت فہمی اور محنت ولگن سے طلبہ کو علمی تشنگی بجھانے کی جو چیز ہم نے آپ کے اندر دیکھی، وہ بہتوں میں بہت کم پائی گئی۔ ہم لوگوں نے آپ سے جامعہ محمدیہ، ڈابھاکیند (جامتاڑا، جھارکھنڈ) میں کئی جماعتوں میں کئی کتابیں پڑھی تھیں، جیسے آئینہ فارسی، کریما (کے کچھ اسباق)، القراءۃ الرشیدۃ (جلد اول)، ازہار العرب اور معلم الانشاء (جلد اول)۔
مادر علمی جامعہ سلفیہ (مرکزی دارالعلوم)، بنارس میں ۲۸۔ ۲۹؍ نومبر ۲۰۱۸ء کی تاریخوں میں منعقد ہونے والے دوسرے دو روزہ عظیم الشان ’’اجتماع ابنائے قدیم‘‘ میں مجھے ابنائے جامعہ سلفیہ، جھارکھنڈ کی تدریسی خدمات پر مقالہ پیش کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ میں نے ایک مبسوط مقالہ تیار کرکے پیش کیا تھا، جو ماہنامہ ’’محدث‘‘ کے خصوصی شمارہ (جولائی ۔ دسمبر ۲۰۱۹ء) میں شائع ہوا ہے۔ اس میں میں نے استاذ محترم مفتی صاحب کی تدریسی خدمات کا ان الفاظ میں تعارف کرایا ہے:
’’جھارکھنڈ کے دوسرے بڑے سلفی مدرس بن کر جنھوں نے عالمِ تدریس میں لوہا منوایا، توانائی والی پوری زندگی عملِ تدریس کو استحکام دیا، اور جھارکھنڈ جیسے علمی اعتبار سے پسماندہ اسٹیٹ میں تعلیم وتدریس کے چراغ کو جلائے رکھا، وہ ہیں مولانا مفتی محمد جرجیس سلفی، جنھوں نے جامعہ سلفیہ سے فراغت کے بعد ارضِ بہار کی مشہور دانش گاہ ’’مدرسہ اصلاح المسلمین‘‘، پٹنہ کو مقر عمل بنایا، اور بحیثیت ایک سینئر مدرس کامیاب تدریسی خدمات سرانجام دیں، اور پھر نوے کی دہائی میں جھارکھنڈ کی علمی پسماندگی کو دور کرنے کے لیے جھارکھنڈ کے علاقہ چھوٹا ناگپور وسنتھال پرگنہ کے مرکزی ادارہ ’’جامعہ محمدیہ‘‘، ڈابھاکیند کے تدریسی عملہ میں شامل ہوگئے، اور جب تک صحت نے ساتھ دیا، تب تک اس ادارہ کے سب سے بڑے استاذ کی حیثیت سے تدریسی فریضہ انجام دیا۔ آپ نے جامعہ محمدیہ میں جامع ترمذی، مشکاۃ المصابیح، اور بلوغ المرام وغیرہ کتب احادیث کی منہجِ محدثین کے مطابق کامیاب تدریس فرمائی‘‘۔
آپ نے پوری تدریسی زندگی صرف تین اداروں سے منسلک رہ کر گزار دی، اس سے صبر وضبط اور اخلاص وللہیت کا پتہ چلتا ہے، ورنہ بہت سے لوگ چھ مہینے سال بھر سے زیادہ کسی ادارہ سے منسلک رہ نہیں پاتے۔ آپ کے بقول ’’میں نے فراغت کے بعد ماہ رمضان المبارک ۱۳۹۱ھ مطابق ۱۹۷۱ء میں بمقام مسجد نور علی لین، کلکتہ مکمل ایک ماہ امامت وخطابت کے فریضے کو انجام دیا۔ پھر والدین کے شدید اصرار پر گاؤں ہی کے قدیم ترین مدرسہ جامع العلوم پوکھریا میں درس وتدریس کا سلسلہ شروع کیا۔ اس کی تاسیس جناب الحاج مولانا عبدالرحیم انبھوائی بیربھومی (بنگال) نے ۱۹۱۲ء میں فرمائی تھی، موصوف نے جب دیکھا کہ علاقے میں کافی جہالت ہے اور مسلمانوں میں دینی جذبہ مفقود ہے، تو انھوں نے تجدید واصلاح کا کام علاقے میں گشت لگا لگا کر کیا، اس گاؤں میں ذاتی خرچ سے ایک پھونس کی مسجد ایک کچا کنواں اور ایک دینی مدرسہ کی بنیاد رکھی، اب تک وہ کنواں اور مدرسہ قائم ہیں۔ بہر حال اسی مدرسے میں، میں نے ۱۹۷۲ء سے تدریس وتبلیغ شروع کی، اور یہ تدریسی سلسلہ تقریبا دس سال تک جاری رہا۔ پھر اگست ۱۹۸۰ء میں صوبہ بہار اور راجدھانی پٹنہ کا سب سے قدیم ترین اور تحریک مجاہدین علمائے صادق پور کی آخری یادگار وامانت مدرسہ اصلاح المسلمین، پتھر کی مسجد، پٹنہ میں درس وتدریس کے لیے بلاوا آ گیا۔ طبیعت مائل تھی، ماحول سازگار تھا۔ اس لیے اس دعوت پر لبیک کہا۔ حسنِ اتفاق سے اس ادارے کو دو ایسے مخلص وغمگسارِ جماعت مل گئے تھے کہ دونوں کی قیادت وسرپرستی میں مدرسہ اصلاح المسلمین نے نئی کروٹ لی تھی، تدریسی واصلاحی کام کچھ بہتر ضرور ہوا تھا، اس ادارے میں تدریسی وتبلیغی کام مکمل آٹھ سال تک جاری رہا۔ مختلف علوم وفنون کی تعلیم وتدریس کے مواقع آئے۔ آخری دو سال (۱۹۸۷ء و۱۹۸۸ء) میں الحمد للہ صحیح بخاری وصحیح مسلم کا درس دینے کا موقع بھی آیا‘‘۔
آپ مادرِ علمی جامعہ محمدیہ، ڈابھاکیند میں ۱۹۸۸ء میں بحیثیتِ مدرس تشریف لائے، حالانکہ جامعہ کے قیام (۱۹۷۷) کے فوراً بعد ہی آپ بلائے گئے، مگر اس وقت آپ نے بعض مجبوریوں کی بنیاد پر جامعہ سے وابستہ ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ جامعہ میں ۱۹۸۸ء سے ۲۰۱۳ء تک بحیثیتِ سینئر استاذ اپنی خدمات پیش کیں۔ جامعہ کے دورِ عروج کے ہر دل عزیز ناظم، استاذِ گرامی حضرت مولانا شفاء اللہ فیضی رحمہ اللہ کی وفات کے بعد ۱۹۹۷ء سے ۲۰۰۶ء تک جامعہ کے با وقار منصبِ نظامت پر فائز رہے۔ جامعہ کو چھوڑنے کے بعد آپ کو کئی جگہ مدعو کیا گیا، مگر آپ نے کسی کی دعوت قبول نہیں کی، ۲۰۱۹ء میں ہم نے جامعہ امام ابن باز الاسلامیہ میں تدریس وافتاء کے فریضے کو انجام دینے کے لیے گزارش کی، تو آپ نے معذرت کرلی اور کہا کہ مولانا عبدالعلیم مدنی کو بلا لیجیے۔ آپ کی یہ عادت تھی کہ ہر موقع پر آپ اپنے اوپر اپنے ہی گاؤں کے مولانا عبدالعلیم مدنی کو ترجیح دیتے تھے۔
دعوتی سرگرمیاں:
آپ کے بقول ’’ابتدا ہی سے تبلیغ وتذکیر کا شوق پایا جاتا تھا، اس لیے فراغت کے بعد جہاں کہیں اس کے لیے مناسب وموزوں مقام دیکھا، دینی واصلاحی باتیں رکھیں، اور مختلف انداز میں مسئلے کی وضاحت وتوضیح کی گئی، جہاں بھی رہا، اور جس ماحول میں بھی پہنچنے کا اتفاق ہوا، وہاں کے لوگوں میں دینی اسپرٹ اور دینی جذبہ پیدا کرنے کا خیال دامن گیر رہا، اللہ کے فضل وکرم سے اس کا اچھا خاصا فائدہ بھی ہوا۔ وہ مسلم حضرات جن کے دلوں میں مدتوں سے اہل حدیث عقائد کے سلسلے میں کدورت ومنافرت تھی، بہت حد تک وہ کدورت دور ہوگئی، اور مسلک اہل حدیث کے بالکل قریب ہوگئے، مقلدین حضرات نے تقلید کو ایک غلط چیز سمجھی، اپنے قریبی رشتہ داروں میں سے ایک فرد میں ایسی ذہنیت پیدا ہوئی کہ عقیدہ سلف سے نفرت ہوگئی، اور عقیدہ مقلدین سے کافی انسیت ہو گئی، جب اس کے سامنے بار بار قرآن وحدیث کے دلائل پیش کیے گئے، اور فیصلہ اسی پر رکھا گیا تو اس نے حنفیت سے توبہ کرلی۔
علاقائی اور غیر علاقائی مساجد میں بارہا خطبہ جمعہ میں عقیدہ سلف کو کھول کر بیان کیا، سامعین نے بڑی توجہ سے ان باتوں کو سنا، اور مسلک حقہ کو اپنایا، شہر پٹنہ کی کوئی ایسی جماعتی مسجد نہیں ہے، جہاں میرا خطبہ جمعہ اور امامت نہ ہوئی ہو‘‘۔
جب آپ جامعہ محمدیہ میں رہنے لگے تو علاقے کی بستیوں میں چلے جاتے تھے اور جمعہ کے خطبے دیتے تھے، اور کبھی کبھار اجلاسوں میں بھی شرکت کرتے تھے اور تقریریں کرتے تھے۔ آپ نے گزشتہ دس سالوں سے یعنی جامعہ محمدیہ سے مستعفی ہونے کے بعد سے ہی اپنے گاؤں پوکھریا کی پہاڑی والی مسجد میں بلا ناغہ (بارش کا موسم ہو یا ٹھنڈی کا) نماز فجر کی امامت کرائی، اور دروسِ قرآن وحدیث پیش کرنے کا اہتمام فرمایا۔ آپ کو علاقے میں منعقد ہونے والے چھوٹے بڑے جلسوں میں بحیثیتِ صدر مدعو کیا جاتا تھا، آپ شرکت کرتے تھے اور صدارتی خطاب کے علاوہ کبھی کبھی تحریری خطبہ استقبالیہ بھی پیش کرتے تھے۔ آپ کی صدارت میں منعقد ہونے والے کئی پروگراموں کی نظامت میں نے کرائی ہے۔
سماجی ورفاہی خدمات:
مفتی صاحب کے بقول: مجھ سے سماجی ورفاہی خدمات بھی انجام پائی ہیں۔علاقے میں جو بھی دینی تحریک اصلاح معاشرہ کے سلسلے میں اٹھی، میں نے اس کا بھرپور ساتھ دیا اور اب تک طبیعت اس کی طرف مائل ہے۔
ضلع جامتاڑا میں نرائن پور ایک بلاک وتھانہ کے ساتھ ایک مشہور ومعروف بازار ہے۔ ہر جمعے کو یہاں زبردست ہاٹ لگتا ہے، جس میں علاقے کی چہار جانب سے کافی تعداد میں مسلمان آتے ہیں اور ضروریاتِ زندگی کی چیزیں یہیں خریدتے ہیں۔ نیز ایک عرصہ دراز سے مسلمان جمعے کی نماز ایک چٹیل میدان میں ادا کرتے آ رہے تھے۔ بارہا مسلمانوں کا خیال ہوا کہ یہاں نرائن پور بازار کے آس پاس ایک جامع مسجد تعمیر کی جائے، تا کہ اطمینان وسکون سے نماز کی ادائیگی ہوسکے، لیکن جب زمین کا مسئلہ سامنے آیا، تو کہیں مناسب زمین مل نہ سکی، جس کھلے میدان میں نماز جمعہ ہو رہی تھی، وہ زمین غیر مسلم کی تھی۔ آخر اللہ تعالیٰ نے ایک مسلمان کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ مسجد کے لیے زمین دینی چاہیے، اس نیک بندے نے کچھ قیمت لے کر زمین مسجد کے نام پر وقف کر دی، زمین کے وقف کے پانچ سال قبل ۱۹۷۵ء میں جامع مسجد نرائن پور کی مجلس منتظمہ کی پہلی تشکیل جدید ہوئی، احباب وبزرگوں نے ہمیں صدارت کا عہدہ سپرد کر دیا۔ انکار کی کوئی گنجائش نہ رہی، آخر جامع مسجد کی بنیاد رکھ دی گئی، میں نے تعمیری سلسلے میں کدوکاوش شروع کی، خادم الحرمین الشریفین خالد بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی خدمت میں با ضابطہ تعمیری سلسلے میں مالی تعاون کی درخواست پیش کی، اللہ تعالیٰ کا بے حد شکر واحسان ہے کہ ان کے دل میں مسجد کے نام پر رقت طاری ہوگئی، اور ایک لاکھ، نو ہزار، سات سو چالیس روپے منظور فرما کر بشکل چیک بھیج دیے، جونہی موصول ہوئی، خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ حقیر سے ایک دینی خدمت لے لی، نماز شکرانہ ادا کی، اس خطیر رقم سے عظیم الشان وسیع وعریض جامع مسجد نرائن پور کی چھت ڈھلائی ہوئی، یہ یکمشت رقم نہ ہونے کی صورت میں کافی مشکلات کا سامنا تھا، لیکن تائید باری تعالیٰ سے مشکلات کا حل نکل آیا۔
دوسری دینی خدمت کا بھی اللہ تعالیٰ نے زریں موقع عنایت فرمایا، آبائی گاؤں موضع پوکھریا میں عرصہ دراز سے ایک کھپڑیل کی خام مسجد بنی ہوئی تھی، مسجد بہت ہی پرانی تھی، بوسیدہ وخستہ ہو چکی تھی، میں نے گاؤں والوں کی ایک میٹنگ بلائی اور اس مخدوش مسجد کی تعمیر نو کے سلسلے میں مشورے لیے گئے۔ جملہ حاضرین نے اس ضرورت کو شدت سے محسوس کیا اور مجھے سکریٹری منتخب کر دیا۔ میں نے اللہ کا نام لے کر بسم اللہ کر دی، چندے کیے گئے۔ انتہائی جوش وجذبہ کے ساتھ جملہ حضرات نے اس میں حصہ لیا، لیکن گاؤں والوں کی مفلسی وغربت کی وجہ سے کام رکتا ہوا نظر آیا، میں نے مختلف اطراف وجوانب میں چندے اکٹھا کرنا شروع کیا، لیکن اس کے باوجود جب کافی پریشانی بڑھ گئی تو مسجد اہل حدیث پوکھریا کا لیٹرپیڈ طبع کرا کے ایک درخواست جناب مولانا مختار احمد ندوی سکریٹری ادارہ اصلاح المساجد، بمبئی کی خدمت میں بھیج دی، پہلی، دوسری، تیسری درخواست پر بھی کوئی شنوائی نہیں ہوئی، بار بار تعمیری سلسلے میں گزارش جاری رہی، بالآخر تین سال کے بعد ۱۹۷۸ء میں درخواست منظور ہوئی۔ جزوی تعاون کے لیے انھوں نے پانچ ہزار روپے کی منظوری دے دی اور چیک بھیج دیا۔ مسجد کی دیوار مکمل ہو چکی تھی، چھت کی ڈھلائی کا جو اہم مسئلہ تھا، اس سے حل ہوگیا، جونہی یہ رقم موصول ہوئی، اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کیا‘‘۔
اس مسجد کے خستہ حال ہوجانے اور آبادی کے بڑھ جانے کے بعد اسے توڑ کر وسیع وعریض شاندار مسجد مولانا عبدالستار سلفی کی مدد اور ڈاکٹر عبدالباری فتح اللہ مدنی کے تعاون سے بنوائی۔ جامعہ محمدیہ کی نظامت کے زمانے میں دیگر بستیوں میں بھی مسجدیں بنوانے کا اہتمام کیا۔ موضع لچھوڈیہہ اور موضع کھرجوری کی مسجدیں آپ ہی کی کوششوں سے بنی ہیں۔
آپ نے دیگر رفاہی خدمات بھی انجام دیں۔ آپ کے بقول ’’علاقہ مدھوپور، گریڈیہہ، جامتاڑا اور دھنباد کے لیے ایک خالص سلفی العقیدہ، ٹھوس، علمی ودینی ادارے کی ضرورت مدتوں سے محسوس کی جا رہی تھی، یہ احساس جہاں اکابرینِ جماعت، احباب واخوان کے دلوں میں جاگا تھا، وہیں میرے دل میں بھی اس کا خاص خیال پیدا ہوا تھا، چنانچہ ۱۸؍اکتوبر ۱۹۷۷ء میں موضع سمرگڈھا کے حاتم جماعت جناب الحاج عبدالعزیز صاحب کے دولت کدے میں جو عظیم الشان جنرل میٹنگ ہونے والی تھی، اس کے سلسلے میں جو پہلی کدوکاوش ہوئی، اور اس کا جو خاکہ تیار کیا گیا، اس میں خاکسار کا بھی حصہ رہا ہے، آخر اسی تاریخی میٹنگ میں علاقے کے مرکزی جماعتی ادارے کی تاسیس کی منظوری لے لی گئی، اور اس ادارے کے قیام کا فیصلہ موضع ڈابھاکیند میں کرلیا گیا، اور جامعہ محمدیہ اس ادارے کا نام رکھ دیا گیا۔ نئے عزم وحوصلے کے ساتھ تعلیم وتبلیغ شروع ہو گئی‘‘۔
قلمی کاوشیں:
اللہ تعالیٰ نے آپ کو تدریسی صلاحیت کے ساتھ ساتھ قلمی صلاحیت ولیاقت بھی عطا کی تھی، عملی زندگی کے اولین ایام میں شاید مجال ومیدان نہ ملنے کی وجہ سے لکھنے کے کام نہیں کیے۔ البتہ بعد کے دنوں میں بعض مقالات لکھے اور بعض عربی کتابوں کے اردو میں ترجمے کیے۔ ’’خوف الٰہی کے آنسو‘‘ (عربی سے ترجمہ) مکتبہ نعیمیہ، مئو سے شائع ہوئی ہے۔ اسی طرح ابن رجب حنبلی کی کتاب ’’میت کے تین ساتھی‘‘ کا ترجمہ کیا، جو غیر مطبوع ہے۔ نیز آپ نے نہایت اہم کتاب ’’منہج أہل السنۃ والجماعتۃ في الدعوۃ الی اللہ‘‘ کا اردو ترجمہ کیا، یہ بھی کتاب زیور طبع سے آراستہ نہیں ہوسکی ہے۔
آپ نے اپنے دعوتی پروگراموں کی روداد کسی ڈائری میں لکھنے کا اہتمام کیا تھا، جو ہمیں نہیں مل سکی، البتہ آپ کی ایک ڈائری ’’یومیہ‘‘ کے نام سے تھی، اور سفرِ عمرہ میں ساتھ تھی، اس کا علم ہمیں ہوا، اس میں آپ نے علاقہ اور علاقے کے باہر کی دعوتی وعلمی شخصیات اور علاقے کے عام مرد وزن اور اپنے گاؤں پوکھریا کے مرد وزن کی تاریخِ وفات رقم فرمائی ہے۔ شروعات اپنے والدِ محترم جناب عبدالحمید کی وفات سے کیا ہے، اور سب سے آخر میں اپنے سمدھی جناب نعیم الحق (برآباد) [متوفیٰ ۱۶؍ رمضان المبارک ۱۴۴۴ھ] کی تاریخِ وفات لکھی ہے، اور اس کے بعد تو ۲۵؍ رمضان المبارک ۱۴۴۴ھ کو آپ ہی کا انتقال ہوگیا۔ ہمارے ہم درس (جامعہ محمدیہ، ڈابھاکیند میں) مولانا شفاء اللہ ریاضی مکی (جن کے پاس یہ ڈائری موجود ہے) نے اس میں آخری تاریخِ وفات آپ ہی کی درج کر کے ایک طرح سے اس ڈائری کو بند کر دیا ہے۔
آپ نے بعض مقالات بھی لکھے تھے، دعوت کے موضوع پر آپ نے ایک وقیع مقالہ لکھا تھا، جسے میں نے سہ ماہی مجلہ ’’صدائے حق‘‘ میں شائع کیا تھا۔
فتویٰ نویسی:
آپ علاقے میں مفتی صاحب سے مشہور تھے، فتویٰ نویسی کا آغاز کب کیا تھا؟، اس کا علم نہیں، البتہ جامعہ محمدیہ، ڈابھاکیند میں تشریف لانے کے دن سے ہی آپ مفتی صاحب کہہ کر پکارے جاتے تھے، اور پھر جامعہ میں وارد ہونے والے سوالات کے آپ ہی لکھ کر جواب دیتے تھے۔ آپ فتووں کے ریکارڈ بھی رکھنے کا اہتمام کرتے تھے، اور ممکن ہے وہ رجسٹر جامعہ محمدیہ، ڈابھاکیند میں موجود ہو۔
کتابت:
کتابت کے کاف سے بھی ہم طلبہ جامعہ محمدیہ، ڈابھاکیند واقف نہیں تھے، جب آپ جامعہ میں تشریف لائے، تو خارجی وقت میں طلبہ کو کتابت سکھلانے لگے، آپ سے بہت سے طلبہ نے کتابت سیکھ لی۔ زمانہ کتابت کا ہی تھا، اشتہارات اور کتابیں کاتب کی کتابت سے چھپتی تھیں۔ کمپیوٹر پر اشتہارات کے لکھے جانے سے قبل جامعہ کے رمضان المبارک، بقرعید اور جلسوں کے موقع سے شائع ہونے والے تمام اشتہارات مفتی صاحب کی ہی کتابت سے چھپتے تھے۔ جامعہ سے شائع ایک اشتہاری کتابچہ ’’یہ بھی ایک انداز ہے‘‘ (تیار کردہ: مولانا محمد خالد فیضی رحمہ اللہ) آپ ہی کی کتابت سے شائع ہوا تھا۔
جلد سازی:
جامعہ محمدیہ، ڈابھاکیند میں اچھی خاصی کتابیں اور جرائد ومجلات تھے۔ اب سب ہیں، یا کچھ گردشِ ایام کی نذر ہوگئیں، حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ مفتی صاحب جب جامعہ آئے، تو آپ نے لائبریری کے مجلات اور جرائد کی جلد سازی کرنے کے ساتھ ساتھ ساری غیر مجلد کتابوں کی بڑی خوب صورتی اور دل چسپی کے ساتھ جلد سازی کر دی اور ترقیم بھی کی۔ اس کے لیے ہم لوگ دیکھتے تھے کہ کلاس جونہی ختم ہوتی تھی، آپ بلا تاخیر جلد سازی کے کام میں لگ جاتے تھے۔
وفات وتدفین:
ہمیں خبر تھی کہ مفتی صاحب اس سال ماہِ رمضان المبارک میں عمرہ کرنے کے لیے جانے والے ہیں، آپ اس سے پہلے بھی کئی بار سعودی عرب ماہِ رمضان المبارک میں جاچکے تھے، مگر اس بار کا جانے سے پہلے کا انداز کچھ الگ تھا۔ شعبان کی آخری تاریخوں میں منعقد ہونے والے تمام چھوٹے بڑے مدارس وجامعات کے سالانہ پروگراموں میں اور علاقے میں منعقد ہونے والے تمام جلسوں میں شرکت کی۔ لوگوں کو بتایا کہ میں سعودی عرب کے سفر پر روانہ ہونے والا ہوں۔ تمام رشتہ داروں سے ملاقات کی۔ اپنے معاصرین اور متعلقین سے مل کر معافی تلافی کرائی۔ شعبان کے اخیر میں روانہ ہوگئے۔ آپ کے ساتھ مولانا عبدالستار سلفی بھی تھے۔ مکہ میں شروع رمضان سے ۲۴؍ رمضان المبارک تک ہمارے ہم درس مولانا شفاء اللہ ریاضی مکی کی رہائش گاہ پر قیام فرمایا۔ آپ کا ارادہ تھا کہ مدینہ طیبہ جایا جائے، اور پھر وہاں سے واپسی پر دوبارہ عمرہ کیا جائے۔ اس لیے مولانا عبدالستار سلفی کے ساتھ ۲۴؍ رمضان المبارک سنیچر کو سحری کرنے کے بعد مدینہ طیبہ کے لیے بذریعہ بس روانہ ہوئے۔ مسجد نبوی میں عشاء کی نماز پڑھی، پھر تراویح کی نماز ادا کی، اور اس کے بعد مولانا عبدالستار سلفی کے ساتھ قباء کے لیے روانہ ہو گئے، وہاں شیخ احمد عبدالحمید العباسی سے ملاقات کرنا تھی، قباء پہنچنے کے بعد شیخ سے ملنے کے لیے پہلے مولانا عبدالستار سلفی اندر گئے، اور مفتی صاحب باہر رکے رہے، اور مولانا کے نکلنے کا انتظار کرنے لگے، اور جب مولانا باہر آئے، تو مفتی صاحب اندر گئے، ابھی ڈیڑھ دو منٹ کا بھی وقت نہیں گزرا ہوگا کہ شیخ عباسی سے گفتگو کرتے ہوئے ہارٹ اٹیک ہوا، اور آپ لڑھک گئے، فوراً مولانا عبدالستار سلفی کو اندر بلایا گیا، آپ اندر گئے اور مفتی صاحب کے سینے پر ہاتھ پھیرنے لگے، ادھر عباسی صاحب نے باہر نکل کر ڈاکٹر کو فون کرنا شروع کر دیا۔ ابھی مولانا عبدالستار سلفی اور مفتی صاحب اندر ہی تھے کہ دوسری بار اٹیک ہوا، اور بقول مولانا عبدالستار سلفی اسی وقت ان کا انتقال ہوگیا۔ پھر بھی اطمینان کے لیے ’’مستشفیٰ الحیاۃ الوطنیۃ‘‘ مدینہ منورہ میں داخل کیے گئے، جہاں ڈاکٹروں نے پونے بارہ بجے رات واضح کر دیا کہ ان کا انتقال ہوگیا۔ وہ رات سعودی عرب کے کلینڈر کے مطابق ۲۵؍ رمضان المبارک ۱۴۴۴ھ مطابق ۱۶؍ اپریل ۲۰۲۳ء کی رات تھی۔ پھر ضروری کارروائیاں کرانے میں مولانا عبدالستار سلفی لگ گئے، اور بڑی محنت کرنا پڑی، پھر برادرم شیخ فیصل مکی (بھدوہی) اور ڈاکٹر عبدالمعید مدنی کی کاوشوں کے بعد ۲۷؍ رمضان المبارک ۱۴۴۴ھ مطابق ۱۸؍ اپریل ۲۰۲۳ء کو بعد نماز فجر مسجد نبوی میں نماز جنازہ ادا کی گئی، نماز جنازہ امام حرم مدنی (امامِ مسجد نبوی) فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبدالباری بن عواض الثبیتی؍ حفظہ اللہ نے پڑھائی اور بقیع نامی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔
اولاد واحفاد:
مفتی صاحب نے ۱۹۷۲ء میں اپنے اولین استاذ ومربی مولانا عبداللطیف شمسی؍ رحمہ اللہ کی صاحب زادی محترمہ نفیسہ خاتون سے شادی کی (اہلیہ بقید حیات ہیں)، جن کے بطن سے تین لڑکے (حافظ عبدالحنان سلفی، حافظ عبدالمنان سلفی [انتقال کر گئے]، اور حافظ محمد ریحان سلفی) اور دو لڑکیاں (حلیمہ خاتون زوجہ مولانا محمد جمال فیضی، نمنیاں اور سلیمہ خاتون) پیدا ہوئیں۔ الحمد للہ سارے لڑکے اور لڑکیاں اصحابِ اولاد ہیں۔
آپ کے انتقال پر مشہور شاعر وادیب سالک بستوی نے منظوم کلام میں اپنے تاثرات پیش کیے ہیں، ان کا کلام درج ذیل ہے:
’’جرجیس‘‘ چل بسے ہیں، یہ کلفت کا ہے سماں
شاداب سا چمن کا ہے منظر دھواں دھواں
سلفی ’’پوکھریا‘‘ کے تھے جو وہ مثل سائباں
گم ہوگئے ہیں آہ وہ، ڈھونڈھیں کہاں کہاں
ان کے بغیر بزم جہاں سوگوار ہے
ہر شخص غم زدہ ہے بہت اشکبار ہے
سنجیدہ تھے، سخی تھے، بڑے خوش مزاج تھے
علمائے جھارکھنڈ کے وہ ایک تاج تھے
فرقت سے ان کے چور ہیں سب غم سے ہیں نڈھال
رنج والم سے فرد بشر کا برا ہے حال
عالم تھے دین دار تو تقویٰ میں بے مثال
جود وسخا میں خلق میں انسان با کمال
بقیع میں سو رہے ہیں وہ سلفی جو شان سے
انعام پا چکے ہیں وہ رب جہاں سے
اخلاق فاضلہ کے سکندر نہیں رہے
وہ زینت مساجد ومنبر نہیں رہے
رب العلا ہے تجھ سے یہ سالک کی بس دعا
جرجیس کو تو جنت الفردوس کر عطا
اللہ تعالیٰ استاذ محترم کی بخشش فرمائے،حسنات اور نیکیوں کو قبول کرے اور جنت الفردوس کا مکیں بنائے ، آمین!!
تحریر اور مختصر ہو سکتی تھی، کافی کچھ بے ترتیبی نظر آئی، مواد ٹھیک ہے شیخ مگر دھیان سے ایک بار اور ترتیب دینے ۔۔ سلیس روانگی پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔۔۔ پڑھنے والا اکتا جائے گا