ایک کنکر سے سمندر کا ردم ٹوٹ گیا

عبدالکریم شاد شعروسخن

وہ کشاکش تھی کہ ہر تارِ قسم ٹوٹ گیا

چند لمحوں میں تعلق کا بھرم ٹوٹ گیا


عشق مانوس نہ تھا سنگ صفت دنیا سے

ایک ٹھوکر ہی میں شیشے کا صنم ٹوٹ گیا


کوئی مجنوں ہو بیاباں ہے مقدر اس کا

فیصلہ لکھ کے محبت کا قلم ٹوٹ گیا


قلبِ صد پارہ کی حالت ہے کھلونے جیسی

وہ کھلونا جو سرِ دستِ کرم ٹوٹ گیا


ہار منظور نہ تھی موت گوارا کر لی

اس طرح ٹوٹا کہ ہر زورِ ستم ٹوٹ گیا


اس کی آواز نے آشوب اٹھایا دل میں

ایک کنکر سے سمندر کا ردم ٹوٹ گیا


شاد! ہم راہِ محبت میں کہاں آ پہنچے

شیشہ کون و مکاں زیر قدم ٹوٹ گیا

آپ کے تبصرے

3000