ہلال عید

اب اور کس قیامت کا انتظار کرتے ہو؟

جلال الدین محمدی

کہتے ہیں کہ رمضان صبر و ضبط نفس کی تربیت دیتا ہےـ لیکن ایک ماہ کی مسلسل تربیت کا اختتام اگر نقطہ نظر میں دلائل کی بنیاد پر اختلاف رائے رکھنے والوں کے ساتھ ہجومی تشدد کی شکل میں سامنے آئے تو پھر رمضان اور مسلمان دونوں میں سے کس پر سوالیہ نشان لگایا جائے؟ تاریخ نے ہمیشہ یہ ثابت کیا ہے کہ اکثریت حق کا معیار نہیں ہے- بلکہ سچائی دلیلوں کی روشنی میں تسلیم کی جاتی ہے جو اس اصول کو ماننے کے دعویدار ہیں وہ بھی اور جو لاٹھی کے زور پر بات منوانے کی خواہش رکھتے ہیں؛ خلاف مزاج فیصلہ آنے پر دونوں ہی ایک کشتی کے سوار بن جاتے ہیں ۔
رانچی، الور اور اب ممبئی میں اکثریت اور اقلیت کی بنیاد پر؛ رام کا نعرہ لگانے والے اور اللہ اکبر کی صدا بلند کرنے والوں کی ذہنیت میں کیا فرق ہے؟ وہ اپنی معاشرتی برتری کی بنا پر رام اور گائے کے لیے اللہ اکبر کہنے والوں کا وجود برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور یہاں کتاب و سنت کی برتری کے دعوی کے ساتھ اسلام کے نظام شہادت کو اتحاد کی چھری سے حلال کرکے خواہشات کا کفن پہنا کر انانیت اور ذاتی دشمنی کے انبار تلے دفن کر عید کی خوشیاں منانے والے بھی اسی بھیڑ کا حصہ بن گئے جنھیں ہلال عید کا اعلان کرنے والے اور ان کی تائید کرنے والے قطعی طور پر برداشت نہیں ہو پارہے تھے- قانونی مجبوریوں نے اگر ہاتھ نا باندھے ہوتے تو پھر اس عید گلے ملنے کے بجائے انھیں ناپنے کا عمل بھی وقوع پزیر ہوسکتا تھا، مذہبی پاگلوں کی بھیڑ جو طاقت اور اکثریت کی بنا پر پورے معاشرے سے اجباری طور پر؛ رام کے نعرے یا اپنی خواہشات کو عدم دلیل کے باوجود عین شریعت قرار دے کر اس کا جبری نفاذ چاہتی ہے۔
ایسا محسوس ہورہا تھا کہ گویا اس بار جمعیت کی جانب سے ہلال عید کا نہیں افراد جماعت کے ارتداد اور کفر کا اعلان کر دیا گیا ہے..
کہا جاتا ہے کہ مساجد کی آباد کاری اللہ، قیامت پر ایمان اور اللہ سے ڈرنے والوں سے ہی ممکن ہے یہ کیسا رمضانی تقوی تھا؟ جس نے اعلان ہلال عید کی وجہ سے جتھوں کی صورت میں مساجد کی گھیرا بندی، امیر جماعت کے ساتھ طوفان بدتمیزی، جے سی بی کے ذریعے سے اعلان کردہ مساجد کی زمین بوسی کی خواہش پر ابھار رہا تھا- مغلظات تو اس طرح استعمال کیے جارہے تھے گویا کہ رمضان بھر کی عبادتوں کا ثمرہ اور سیئات کا کفارہ واجبہ ہیں۔ جتنا زیادہ غیر مہذب رویے کا اظہار کیا جائے گا جنت الفردوس کا حصول اسی قدر آسان بنا دیا جائے گاـ کیونکہ منکرین ہلال عید کے نزدیک تو یہ آخری عشرے کی طاق رات تھی کہتے ہیں کہ اس رات عبادتوں کا ثواب کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے سو ہر شخص اپنے ایمان کے بقدر رحمت والی اس رات کے فیض سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہونے کی اپنی سی شرعی کوشش میں لگا ہوا تھا ۔
کہتے ہیں کہ رمضان میں شیطان قید ہوتا ہے اگر یہ رمضان کی رات تھی تو شیطانیت کیسے شباب پر تھی؟
خود ساختہ اتحاد امت کے قائلین کے مطابق جمعیت نے رات ڈھائی بجے ہلال عید کا اعلان کرکے اپنی اور جماعت کی رسوائی کا سامان کرلیا تھا اس لیے جبر اور انتشار کی بنا پر جب عید کی صبح جمعیت کی جانب سے نماز عید کو موخر کرنے کا اعلان کیا گیا تو منکرین ہلال عید کے رویوں سے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ یہ صرف نماز عید کی منسوخی کا اعلان نہیں ہے بلکہ؛
اب ہمارے اس اجباری مطالبے کی تکمیل کے نتیجے میں کفر کدے ہندوستان میں بتوں کی عبادت سے اجتماعی طور پر کنارہ کشی کا اعلان کردیا گیا ہےـ
ہر گھر نے اللہ کی توحید اور کبریائی کو قبول کرنے کا اعلان کردیا ہےـ
اتحاد امت کی خاطر تمام مسالک کے لوگوں نے اپنی عید گاہوں اور مساجد میں خواتین پر عائد شرعی بندشوں کو غلط تسلیم کرلیا ہے۔
ملک میں طلاق ثلاثہ اور حلالہ کی حرمت کا اعلان کردیا گیا ہے۔
اس عید امت اس طرح اجتماعیت کا مظاہرہ پیش کرے گی کہ اب کوئی ہندوستان میں مسلمانوں کے درمیان بھولے سے بھی اختلاف و انتشار کی مثال نہیں دے پائے گا ۔
کہتے ہیں کہ کوئی دن ہے قیامت کا جس میں بندوں کے صرف عملوں کا ہی نہیں بلکہ لفظوں کا بھی احتساب ہوگا ۔ جس دن خوف و دہشت اور ندامت کے اظہار سے جھکی نگاہیں عرق آلود جبینیں ہوں گی، شدت احتساب کی وجہ سے یار دوستوں سے ہی نہیں بلکہ سگی اولاد اور والدین کے درمیان ایک دوسرے سے چھپ جانے کی آرزو بھی بتلائی جاتی ہے کیونکہ کہا جاتا ہے کہ اس دن اللہ کابے لاگ اور عدل پر مبنی فیصلہ ہوگا ۔لیکن راحت والی بات ہے کہ یہ سب صرف ان کے لیے ہوگا جنھیں اس دن پر ایمان رکھنے والے کافر کہتے ہیں ۔ کیونکہ اگر انھیں خود بھی اس دن کے احتساب کا اتنا ہی خوف ہوتا تو مرکز کے اولی الامر کی دہائی دینے والے جمعرات کا روزہ توڑنے کے بجائے دوسروں کو اس دن روزے کی تلقین کرتے نظر آتے اور شرعی شہادتوں کی آمد کے بعد یکم شوال کو روزہ رکھنے کے بجائے اپنے پہلے روزے کی قضا کا اعلان کرا دیتے جب اعمال و الفاظ کا استعمال قیامت کے خوف سے بے نیاز کردے تو پھر قیامت محض کتابی و سمعی ایمان کا نام رہ جاتاہے ۔
یہ لوگ کس چیز کے بارے میں سوال کررہے ہیں ۔اس بڑی خبر کے متعلق ۔ جس کے بارے میں یہ اختلاف کررہے ہیں۔ یقینا یہ ابھی جان لیں گے۔(سورہ نبا)
کہا جاتا ہے کہ انسانی عمل اس کے ایمان اور عقیدہ کا عکاس ہوتا ہے ۔ رات تین بجے تک اس بھیڑ کے بیچ بیٹھ کر یہی سوچ رہا تھا کہ اگر قیامت کا وقوع ہے تو کس کے لیے؟

آپ کے تبصرے

3000